سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وا ہو رہا ہے میکدہ راز دوستو
ہے میکشی خاص کا آغاز دوستو
خاموشیاں ہوئی ہیں سخن ساز دوستو
ساغر میں گونجتی ہے اک آواز دوستو
کثرت تو دیکھنا مرے کیفِ قلیل کی
آواز آ رہی ہے پرِ جبریل کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آواز آ رہی ہے کہ اس میکدے میں آ
یہ میکدہ ہے زندگی کامیاب کا
اس میکدے میں جامِ ولا ہے بھرا ہوا
اس کے سبوؤ و ساغر و صہبا ہیں پُر ضیا
تابانی حیات بھی ہے اور سرُور بھی
آنکھیں جھپک رہی ہے یہاں برقِ طور بھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
روشن ہیں میکدے میں عجب نور کے چراغ
پرتو سے جن کے مہربداماں ہر اک ایاغ
جن کی ضیائے خاص سے روشن ہوئے دماغ
اک اک گل چراغ کھلائے ہزار باغ
اس طرح کیف و نور ہیں باہم ملے ہوئے
ہیں ساغروں میں آج کنول سے کھلے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ضَوریز ہے جو بادہ تو روشن ہر اک سبو
اک چاندنی سی بزم میں پھیلی ہے چار سُو
ہر ایک جام مہر منور سے دوبدو
ہر قطرہ کر رہا ہے ستاروں سے گفتگو
قلب و عقب میں نُور یمین و یسار میں
یا برقِ طور ہے مئے روشن کی دھار میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیسی صدائے قلقلِ مینا ہے شعلہ ریز
محفل میں اور روشنی ہونے لگی ہے تیز
ہے کس سیاہ قلب کو اس جام سے گُریز
عرفاں نواز، انجمن آراء سرُورخیز
ایک اک بیاضِ دل کا ورق دیکھنے لگے
جس کو ملے وہ چودہ طبق دیکھنے لگے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر ایک کو یہ مئے نہیں ملتی حیات میں
اس مئے کا کوئی مول نہیں کائنات میں
اس مئے سے نور پھیلتا ہے شش جہات میں
تمیز اس سے ہوتی ہےذات و صفات میں
سب کچھ ہے اس کے کیف و اثر کے حدود میں
روشن ہے یہ چراغ غیاب و شہود میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاعر پئے تو شعلہ بیانی کرے سلام
زاہد پئے تو مسئلہ دانی کرے سلام
ذرّہ پئے تو عرشِ مکانی کرے سلام
پی لے اگر ضعیف جوانی کرے سلام
سینے میں ایک موجِ نمو دوڑنے لگے
مُردہ رگوں میں تازہ لہو دوڑنے لگے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ساقی کریم، خادم میخانہ با ادب
ایسی جہاں میں اور کوئی انجمن ہے کب
حسبِ مزاج و حسبِ مدارج پیئنگے سب
جن کو خلوص ہو اُنہیں ملتی ہے بے طلب
گردش میں جام بھی نہیں آتا ہے دوستو
ساقی براہِ راست پلاتا ہے دوستو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس میکدے میں رند بھی ہیں پارسا بھی ہیں
سرشار بادشاہ بھی ہیں اور گدا بھی ہیں
ارباب اعتبار بھی اہلِ صفا بھی ہیں
اہلِ سُخن بھی اور سُخن آشنا بھی ہیں
روشن ہر اک دماغ ہے کیف و سرُور سے
پیمانہ غسل کرتا ہے خود موجِ نور سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
امواجِ کیف و نور ہیں باہم مل جُلی
ہے روشنی سرُور میں کیسی نپی تُلی
کیفیت لطیف و منور دُھلی دُھلی
یہ سب نشانیاں ہیں کسی کی کُھلی کُھلی
کس نے شعورِ کیف دماغوں کو دے دیا
مئے کو سرور، نور چراغوں کو دے دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہیں کس کی روشنی سے مہ و مہر ضوفشاں
پرتو ہیں کس کے حُسنِ درخشاں کی بجلیاں
ذرّوں میں کس کی جوت سرِ فرش ہے عیاں
کس کی تجلیوں سے منور ہے کہکشاں
یہ روشنی فضاؤں میں تحلیل کس کی ہے
روشن ہے جس سے عرش وہ قندیل کس کی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دن فیضِ نورِ خاص سے تاباں و پُر ضیا
شب کے لیے ستاروں سے ٹانکی ہوئی ردا
ہے شام رنگ و نور و شفق کی حسیں قبا
حُسنِ طلوعِ صبح کی واللہ وہ ادا
جس طرح ماہ توڑ کے نکلے سحاب کو
جیسے کوئی حسین الٹ دے نقاب کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ذرّوں کی محفلیں ہوں کہ تاروں کی انجمن
پہنچی ہے ہر مقام پہ اس نور کی کرن
ہر پھول میں ہے حُسنِ تجلّی کا بانکپن
ہر رنگ میں ہے نور ضیا بخش و ضو فگن
عاجز نواز بھی ہے یہ والا شکوہ بھی
دامانِ کوہ میں بھی ہے بالائے کوہ بھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کتنا کتابِ دہر کے اوراق میں ہے نور
لوحِ افق پہ نور ہے آفاق میں ہے نور
آہن کے قلب میں دلِ چمقاق میں ہے نور
ایوانِ کائنات کے ہر طاق میں ہے نور
تحت الثریٰ میں اوجِ ثریا پہ نور ہے
فرشِ زمیں پہ عالمِ بالا پہ نور ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
موجِ رواں میں نور، شریکِ حباب نور
دریا کی تہہ میں نور، پسِ آفتاب نور
مٹّی میں نور، باعثِ جوشِ سحاب نور
پیشِ حجاب نور، ورائے حجاب نور
ہیں نور سے تمام عناصر بنے ہوئے
چاروں طرف ہیں نور کے پردے تنے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر پھول، شاخِ گُل پہ دکھاتا ہے اپنی ضو
موجِ بہار میں بھی اسی نور کی ہے رَو
اک نور ہے دکھاتا ہے جو اپنے رنگ سو
فوارے سے بھی اٹھتی ہے شمع طرب کی لو
سمٹے ہوئے اجالے ہیں سب غرق و شرق کے
ذرّے کے دل میں لاکھ ذخیرے ہیں برق کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر ایک خشک و تر پہ حکومت اسی کی ہے
موجِ ہوائے گُل میں لطافت اسی کی ہے
یہ کھیتیاں اسی کی زراعت اسی کی ہے
واللہ زندگی میں حرارت اسی کی ہے
وہ نور جس کا جسم نہ کوئی لباس ہے
دراصل عالمین کا اصل الاساس ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر شے میں کائنات کی ہے نور کا ظہور
اس نور کے سبب سے ہے ہر ذرّہ برقِ طور
اس کے فیوض کے لیے یکساں قریب و دُور
دیکھیں نہ کم سواد تو آنکھوں کا ہے قصور
اس کے ظہور کا بھی عجب رنگ ڈھنگ ہے
جگنو میں روشنی ہے تو پھولوں میں رنگ ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس کے اثر سے سطحِ سمندر میں جزر و مد
اس کے کرم سے رُوح سے آباد ہے جسد
اس کے عطا و بذل و کرم کی نہیں ہے حد
ادراک اس میں دنگ تو حیران ہے خرد
قابو میں آ سکے نہ کسی مکر و کید سے
آزاد ہے یہ مغرب و مشرق کی قید سے
 
Top