سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نکہت فشاں بہار بداماں شمیم بیز
ضُوبار، جلوہ پاش، ضیا بخش، نُور خیز
جلوہ طراز، آئینہ ساماں، شعاع ریز
جتنے حجاب اس پہ پڑیں روشنی ہو تیز
پردوں میں رہ کے شمع کی ضو اور بڑھتی ہے
فانوس میں چراغ کی لو اور بڑھتی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس نور کے فیوض سے دنیا ہے بہرہ ور
اُس نور کے مظاہر رنگیں ہیں خشک و تر
اُس نور پے کسی کی نہ ٹھہری کوئی نظر
وہ نور کیا ہے، کون ہے، کیسا ہے، کیا خبر
کالی گھٹا میں برق تپاں کی چمک ہے وہ
ہاں مشعلِ زمین و چراغِ فلک ہے وہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کرسی و عرش اس کی تجلی سے محتشم
لوح و قلم میں دفترِ انوار مرتسم
تخلیقِ کائنات کی ضوپاشیاں بہم
لمعاتِ نور، تا بہ ابد، ہوں نہ کبھی کم
ظلمات میں بھی دیکھ کے پہچان جائیے
کیا سلسلہ ہے نور کا قربان جائیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ نُور، نُورِ ذاتِ خداوندِ کردگار
یہ نُور، نورِ غیب، تجلّئ آشکار
یہ نُور، نُورِ مرضئ معبودِ ذی وقار
یہ نُور، نُورِ حسنِ صفاتِ کلامِ یار
یوں آئی یہ تجلّی بے حد قیاس میں
اُترا، محمد عربی کے لباس میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ظُلمت کے اقتدار میں ہلچل ہوئی بپا
پھیلی حریمِ تیرہ سبی میں نئی ضیا
خیرہ ہوئی نگاہِ زمانہ وہ نُور تھا
تاریکیاں جہاں کی پکاریں کہ مرحبا
انگڑائی لے کے روشنی بیدار ہو گئی
گود آمنہ کی مطلعِ انوار ہو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہاشم کے خاندان میں روشن ہوا چراغ
شیبہ کا دل خوشی سے ہوا کھل کے باغ باغ
ہر غم سے کائنات کو حاصل ہوا فراغ
پُر نُور قلب ہو گئے روشن ہوئے دماغ
بدرالدجیٰ نے دن کیا ظُلمت کی رات کو
حاصل ہوا عظیم اُجالا حیات کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صدقِ مقال و خُلق عظیم اُس کی روشنی
جود و سخا و لطف عمیم اس کی روشنی
انفاسِ طاہرہ کی شمیم اس کی روشنی
خلد و جنان و باغِ نعیم اس کی روشنی
اِس روشنی سے زیست کا سامان آ گیا
انسانیت کی سطح پہ انسان آ گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ روشنی، وہ نُور، وہ طلعت، وہ ضو، وہ آن
وہ تابشیں، وہ رنگ، وہ جلوے، وہ آن بان
درِّ یتیم و لعل درخشاں عرب کی شان
صادق، امین، حامئ حق، فخرِ انس و جان
بخشیں ضیائیں جس نے جہانِ عظیم کو
جو نُور طور پر نظر آیا کلیم کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مصباحِ بزمِ وحدت و شمعِ جمالِ رب
عرفانِ حق کا مہرِ منوّر، شہِ عرب
تاریکیوں میں کثرتِ انوار کا سبب
محفل طراز قدس سرمسندِادَب
تنویرِ وحی جلوہ نما بات بات میں
پیہم تجلیاں تھیں محمد کی ذات میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کی دُور اُس نے شرک و جہالت کی تیرگی
باقی رکھی نہ ظلم و شقاوت کی تیرگی
رُخصت ہوئی ہر ایک طبیعت کی تیرگی
کافور ہو گئی شبِ وحشت کی تیرگی
ہم رنگ، صبحِ خُلد سے تیرہ شبی ہوئی
اس چاندنی نے کھیت کیا روشنی ہوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھیلی خلوص و مہر و اخُوّت کی اک ضیا
پچھلی عداوتوں کا اندھیرا سمٹ گیا
انسانیت میں فرقِ مدارج نہیں رہا
سب فیض تھا جنابِ رسالتماب کا
سائے کُچل گئے حَسَد و افتراق کے
گوشوں میں جا چھپے تھے اندھیرے نفاق کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس نور کی جو ظُلمتِ باطل سے تھی جدال
وہ وہ ستم سہے ہیں کہ تھرّا اُٹھے خیال
ایذا دہی، مقاطعہ، تحریصِ گنج و مال
یہ سب موانعات تھے اور نُورِ ذوالجلال
ضوبار و ضوفشاں پئے بر ناد پیر تھا
مصباحِ کائنات و سراجِ منیر تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چھٹنے لگیں سیاہیاں جہل و غرور کی
پاس آ گئی سمٹ کے جو منزل تھی دُور کی
تسکیں ہوئی ہر ایک دلِ ناصبور کی
تھی شش جہت میں روشنی وحدت کے نُور کی
تاریکیوں کا نام نہ اب دُور دُور تھا
اُس نُور کا جو سایہ تھا وہ خود بھی نُور تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس نے سکھائے مہر و وفا، خلق و آشتی
اُس نے بتائے بندوں کو اسرارِ سرمدی
اُس کی ہر اک شعاع میں اکِ درسِ زندگی
اُس نے ہر ایک قدر بدل دی حیات کی
زندانِ رنگ و نسل کو برباد کر دیا
اُس نے ہر ایک غلام کو آزاد کر دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تفویض تھا ازل سے اُسے منصبِ جلیل
والی ہوا یتیموں کا بیواؤں کا کفیل
انسانیت کو راہ پہ لایا بہر سبیل
وہ روشنی وہ نور کی اک مستقل دلیل
انساں کو پیروی میں اُسی کی نجات ہے
ہر لفظ اُس کا مشعلِ راہِ حیات ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ جادہ حیات کا رہبر مہِ منیر
مظلوم کا رفیق، غریبوں کا دستگیر
گردوں حشم، بلند مراتب فلک سریر
روشن خیال، پاک طبیعت، وفا ضمیر
تسکیں ہر ایک قلبِ پریشان کے لیے
مینار روشنی کا ہر انسان کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس کی جبینِ پاک پہ تھا رحمتوں کا تاج
دنیا میں ہر زمانے کو ہے اس کی احتیاج
درماں ہر اک مرض کا ہر اک درد کا علاج
اُس نور کی ضیائیں جو کل تھیں وہی ہیں آج
حسنِ فروغِ محفلِ ایماں اُسی سے ہے
ہر بزمِ زندگی میں چراغاں اُسی سے ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس کے کرم سے کِھل گئی ہر قلب کی قلی
ہر ایک آئینے کو کیا اُس نے منجلی
انفاس سے اُسی کے وفا کی ہوا چلی
اُس کی ضیا، حسین، حسن، فاطمہ، علی
واللہ نورِ دیدہ ادراک ہو گئے
سب ایک ہو کے پنجتنِ پاک ہو گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کارِ علی، حریمِ نبوت کی دیکھ بھال
دستِ خدا کی تیغ تو دستِ نبی کی ڈھال
ہمسر ہو کوئی ان کا زمانے میں کیا مجال
خیبرشکن، زعیمِ عرب، فاتحِ جدال
ہاتھوں نے ان کے مانگ بھری تھی بتول کی
اِس آئنیے میں چھوٹ تھی نورِ رسول کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نورِ محمدی سے ہے قلب علی میں تاب
خورشید ہیں رسولِ خدا، یہ ہیں ماہتاب
اِن کے کمال و فضل کا ممکن نہیں حساب
اِن کا نسب ہے نور، لقب ان کا بو تراب
اِن کی ضیا سے خاک کے طبقے دمک گئے
مٹی کو مس کیا تو ستارے چمک گئے
 
Top