محمد فضولی بغدادی کے چند تُرکی اشعار

حسان خان

لائبریرین
«محمد فُضولی بغدادی» کی ایک تُرکی رُباعی:

کیم‌دۆر که غموڭ‌دا ناله و زار ایتمه‌ز
دردین ساڭا ناله ایله اِظهار ایتمه‌ز
فریادېنا هیچ کیمسه‌نۆڭ یئتمه‌زسین
فریاد که فریاد ساڭا کار ایتمه‌ز
(محمد فضولی بغدادی)


[اے یار! ایسا] کون ہے کہ جو تمہارے غم میں نالہ و زاری نہیں کرتا؟ [اور] اپنے درد کو نالے کے ساتھ تم پر ظاہر نہیں کرتا؟۔۔۔ [لیکن] تم کسی بھی شخص کی فریاد پر نہیں پہنچتے۔۔۔۔ فریاد! کہ تم پر فریاد اثر نہیں کرتی!۔۔۔

Kimdür ki gamuñda nâle vü zâr itmez
Derdin saña nâle ile izhâr itmez
Feryadına hîç kimsenüñ yetmezsin
Feryâd ki feryâd saña kâr itmez
 

حسان خان

لائبریرین
میرے محبوب‌ترین تُرکی شاعر و ادیب «محمد فُضولی بغدادی» کی تُرکی مثنوی «لیلیٰ و مجنون» کے نثری دیباچے سے ایک اقتباس اُردو ترجمے کے ساتھ دیکھیے، جس میں وہ توقُّع و اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کاش اُن کی وہ مثنوی داستانِ «لیلیٰ» کی مانند عالَم‌گیر اور محبّتِ «مجنون» کی مانند جاودانی ہو جائے! اِس چیز کی جانب بھی آپ کی توجُّہ کا مطلوب ہوں کہ اُن کی تُرکی نثر کس قدر زیادہ مخلوط از فارسی و عربی تھی۔

".... و اگر بو فقیرِ مُستَهام فُضولیِ بی‌سرانجام غایتِ قِلّتِ بِضاعت و نهایتِ نَقصِ اَمتِعهٔ فصاحت ایله اِستدعایِ اِندراجِ سِلکِ اربابِ حقایق و تمنّایِ اِنخِراطِ سلسلهٔ اصحابِ دقایق ایدۆب خزانهٔ حُسنِ لیلی تسخیری و خرابهٔ عشقِ مجنون تعمیری‌نه عازم اۏلور. ترصُّد اۏل‌دور که، اۏل طرزِ خامه و نقشِ نامه احسنِ وجْه ایله مُیَسّر اۏلوب حکایتِ لیلی کیمی عالَم‌گیر و محبتِ مجنون کیمی بقاپذیر اۏلا..."

سادہ‌شُدہ اُردو ترجمہ: "۔۔۔۔ اور اگر یہ سرگشتہ فقیر اور پست و زبُون «فُضولی» [اپنے عِلم کے] سرمائے کی آخری درجے کی قِلّت اور [اپنی] فصاحت کی متاع کے انتہائی نَقص کے ساتھ اربابِ حقیقت کی صف میں داخل ہونے کی درخواست کرتے ہوئے اور اصحابِ نِکاتِ لطیفہ کے سِلسِلے میں وارِد ہونے کی تمنّا کرتے ہوئے حُسنِ «لیلیٰ» کے خزانے کی تسخیر اور عشقِ «مجنون» کے خرابے کی تعمیر کی جانب عازِم ہو رہا ہے، تو توقُّع یہ ہے کہ [اُس کی] وہ طرزِ قلم اور نقشِ تحریر خُوب‌ترین شکل میں مُیَسّر ہو کر حِکایتِ «لیلیٰ» کی مانند عالَم‌گیر اور محبّتِ «مجنو‌ن» کی مانند بقاپذیر ہو جائے گی۔۔۔۔"
 

حسان خان

لائبریرین
«دِیارِ رُوم» (اناطولیہ) میں اکثر اِنسانوں کی پوست کا رنگ سفید ہوتا ہے، اِس لیے شعر و ادبیات میں رنگِ سفید کے ساتھ «رُوم» کی نِسبت رہی ہے۔ از طرفِ دیگر، فارسی میں «شام» وقتِ غُروب کو کہتے ہیں، اور غُروب کے وقت شب آ کر آسمان کو سیاہ کر دیتی ہے، اور چونکہ «بِلادِ شام» کا نام فارسی کے اُس لفظ کے ساتھ یکسانی رکھتا ہے، لہٰذا شاعری میں کئی بار «شام» کا تذکرہ سِیاہ‌رنگی چیزوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔۔۔۔ «بحرَین» کا لفظی معنی «دو بحر» ہے، لہٰذا اگر شاعری میں کوئی شاعر اپنی دو چشم‌ہائے گِریاں کو «بحرَین» کہے تو عجب نہیں ہے، کیونکہ شاعروں کا اِدعّا رہا ہے کہ وہ اِتنا روتے ہیں کہ اُن کی چشم اِک بحر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اب ذرا دیکھیے کہ «محمد فُضولی بغدادی» نے «آیاس پاشا» کی مدح میں لکھے ایک تُرکی قصیدے کے مطلع میں اپنے محبوب کے سفید چہرے اور سیاہ خطِ مُو کی یاد میں، اور اپنی چشم کے شِدّتِ گریہ کے اِظہار میں کیسا مضمون باندھا ہے:


چهره و خطّۆڭ خیالی چشمۆمی قېلمېش مقام
آچماغا بحرَینی جمع اۏلمېش سِپاهِ رُوم و شام
(محمد فضولی بغدادی)


تمہارے چہرے و خط کے خیال نے میری چشم کو مسکن بنا لیا ہے۔۔۔۔ [گویا] «بحرَین» کو فتح کرنے کے لیے «رُوم» و «شام» کی سِپاہ جمع و یکجا ہو گئی ہے۔۔۔


Çihre vü ḫaṭṭuñ ḫayâli çeşmümi ḳılmış maḳâm
Açmaġa Baḥreyni cem' olmış sipâh-ı Rûm u Şam
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
گئچدی مَی‌خانه‌ده‌ن ایل مستِ مَیِ عشقوڭ اۏلوپ
نه ملَک‌سه‌ن که خراب ایتدۆڭ ائوین شیطانوڭ
(محمد فضولی بغدادی)


[اے معشوق!] مردُم نے تمہارے عِشق کی شراب سے مست ہو کر مَیخانے کو تَرک و خَیرباد کر دیا۔۔۔ تم کیسے [خُوب] فرشتے ہو، کہ تم نے شَیطان کے گھر کو خراب و ویران کر دیا!۔۔۔

Geçdi mey-ḫâneden il mest-i mey-i 'ışkuñ olup
Ne meleksen ki ḫarâb itdüñ evin şeytânuñ
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
ایک حدیثِ نبَوی کا منظوم ترجمہ:

پهلوان اۏل دئگیل که هر ساعت
یېخا بیر پهلوانې قُوّت ایله‌ن
اۏل‌دورور پهلوان که وقتِ غضَب
نفْسینه حُکم ائده اِهانت ایله‌ن

(محمد فضولی بغدادی)

وہ شخص پہلوان نہیں ہے کہ جو ہر ساعت کسی پہلوان کو قُوّت کے ساتھ [زمین پر] گِرا ڈالے۔۔۔ پہلوان وہ ہے جو خشْم و غضَب کے وقت اپنے نفْس پر تحقیر کے ساتھ حُکم‌رانی کرے۔۔۔

Pəhlivan ol degil ki, hər saət
Yıxa bir pəhlivanı qüvvət ilən.
Oldurur pəhlivan ki, vəqti-qəzəb
Nəfsinə hökm edə ihanət ilən.
 

حسان خان

لائبریرین
دیدی‌لر بی‌خبَرلر باغِ جنّت کویوڭا به‌ڭزه‌ر
خبر ویردی ماڭا آن‌دان گه‌له‌ن آدم یالان‌دور بو
(محمد فضولی بغدادی)


بےخبَروں نے کہا [تھا] کہ باغِ جنّت تمہارے کُوچے سے مُشابہت رکھتا ہے۔۔۔ وہاں سے آئے «آدم» نے مجھ کو اِطِّلاع دی کہ یہ [قَول] دروغ ہے۔۔۔ (یعنی واقِعاً تمہارا کُوچہ تو باغِ جنّت سے بھی خُوب‌تر ہے۔)

Didiler bî-ḫaberler bâġ-ı cennet kûyuña beñzer
Ḫaber virdi maña andan gelen Âdem yalandur bu
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
میرے پسندیدہ‌ترین تُرکی شاعر «محمد فُضولی بغدادی» نے اپنے تُرکی رِسالے «اربَعِین» میں «عبدالرحمٰن جامی» کو "اُستادِ گِرامی" کہہ کر یاد کیا ہے۔ در اصل، «جامی» نے چالیس احادیثِ نبَوی مُنتَخَب کر کے اور اُن کا منظوم فارسی ترجُمہ کر کے «اربعین» نامی مشہور رِسالہ تألیف کیا تھا، جِس کو زُود ہی «امیر علی‌شیر نوایی» نے تُرکیِ شَرقی میں اور «محمد فضولی بغدادی» نے تُرکیِ غَربی میں ترجمہ کر دیا تھا۔ «فُضولی» نے اپنے «اربعین» کے منثور دیباچے میں «جامی» کا ذِکر اِس طرح کیا ہے:

"...امّا بعد بو قېرق حدیثِ مُعتَبَردۆر بلکه قېرق دانه گَوهردۆر که اُستادِ گِرامی مولانا عبدالرحمٰنِ جامی علیه الرّحمه انتخاب ایدۆپ فارسی مُتَرجَم ایتمیش..."

"۔۔۔امّا بعد، یہ چالیس احادیثِ مُحترَم ہیں، بلکہ گَوہر کے چالیس دانے ہیں کہ جن کو اُستادِ گِرامی مَولانا عبدالرحمٰن جامی علیہ الرّحمہ نے اِنتِخاب کر کے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔۔۔"

حقّا کہ «جامی» اِس چیز کے سزاوار تھے کہ اُن کو «فُضولی» جیسا اُستادِ سُخن اُستاد کہہ کر پُکارے!۔۔۔ سلام بر «جامی» و «فُضولی»!
 

حسان خان

لائبریرین
هر کُدُورت‌دن منی پاک ایتدی سَیلِ خونِ دل
شُکْر لِله آتشِ عشقوڭ منی یاندوردې پاک
(محمد فضولی بغدادی)


سَیلابِ خُونِ دل نے مجھ کو ہر کُدُورَت سے پاک کر دیا۔۔۔ شُکرِ خُدا کہ تمہارے عشق کی آتش نے مجھ کو تماماً و کُلّاً جلا ڈالا۔۔۔

× فارسی میں لفظِ «پاک» تماماً و بہ کُلّی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، اور مُندَرِجۂ بالا تُرکی بَیت کے مصرعِ ثانی میں «پاک» اُسی معنی میں برُوئے کار لایا گیا ہے۔ لیکن اُس لفظ سے اِحتِمالاً اِس چیز کی جانب بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ سَیلابِ خُونِ دل کی مانند آتشِ عشق نے بھی شاعر کو از سر تا پا جلا کر پاک کر دیا ہے۔

Her küdûretden meni pâk itdi seyl-i ḫûn-ı dil
Şükr li'llâh âteş-i 'ışḳuñ meni yandurdı pâk
 

حسان خان

لائبریرین
غَیر نقشېن محو قېلمېش‌دور فُضولی سینه‌دن
ما لَهُ فِی الدَّهْرِ مَطْلُوبٌ وَمَقْصُودٌ سِوَاك
(محمد فضولی بغدادی)


«فُضولی» نے [اپنے] سینے سے غَیر کے نقش کو محو و زائل کر دیا ہے۔۔۔ دہر میں اُس کا تمہارے بجُز کوئی مطلوب و مقصود نہیں ہے۔۔۔

Ġayr naḳşın maḥv ḳılmışdur Fużûlî sîneden
Mâ lehu fi'd-dehri maṭlûbun ve maḳṣûdun sivâk
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
قانسې گُل‌زار ایچره بیر گُل آچېلور حُسنۆڭ گیبی

(محمد فضولی بغدادی)

[آخِر] کِس گُلزار کے اندر تمہارے حُسن جیسا کوئی گُل کِھلتا ہے؟

Ḳansı gülzâr içre bir gül açılur ḥüsnüñ gibi

(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
فُضولی اختلاطِ مردُمِ عالَم‌دن اِکراهوم
پری‌وَش‌لر خیالین مونِسِ جان ایتدۆگۆم‌دن‌دۆر
(محمد فضولی بغدادی)


اے «فُضولی»! میں جو مردُمِ عالَم کے ساتھ اِختِلاط و ہم‌نشینی کو ناپسند رکھتا ہوں تو اُس کا سبب یہ ہے کہ میں نے پری‌وَشوں (یعنی پری جیسے زیباؤں) کے خیال کو مُونِسِ جاں کر لیا ہے۔۔۔

Fuẓûlî iḫtilâṭ-i merdüm-i 'âlemden ikrâhum
Perî-veşler ḫayâlin mûnis-i cân itdügümdendür
(Fuzûlî)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میں اُزبَکی‌خوانی کی مَشق کرنے کے لیے «فُضولیِ بغدادی» پر لِکھا ایک اُزبَکی مقالہ پڑھ رہا تھا۔ اُس مقالے میں مجھ کو چند چیزیں پسند آئیں، جِن کو مَیں اُردو میں ترجمہ کر کے فیس‌بُک پر دوستوں کی خِدمت میں اِرسال کروں گا۔

مُندَرجۂ ذیل اِقتِباسِ اوّل اِس لِحاظ سے مجھ کو جالبِ توجُّہ لگا کہ میں اپنے دوستوں کو اپنے محبوب‌ترین تُرکی شاعر «فُضولی» سے شِناسا کرتے وقت عموماً یہ قِیاس پیش کرتا آیا ہوں کہ مغربی تُرکی بولنے والی اقوام (تُرکانِ ایران و آذربائجان و عِراق و سُوریا و تُرکیہ و بلقان) میں «محمد فُضولی بغدادی» کی وہی منزِلَت و شُہرت رہی ہے جو فارسی‌گو دُنیا میں «حافظ شیرازی» کی رہی ہے، اور مقالے کا نویسندہ بھی مجھ کو یہی چیز کہتے نظر آیا:

"«فُضولی» غزل کی صِنف کو کمالات تک پہنچانے والے عظیم فن‌کار ہیں۔ «نوائی» کے بعد اِس صِنف میں بیش‌ترین، زیباترین، نفیس‌ترین اور خوش‌آہنگ‌ترین غزلیں کہنے والے شاعر «فُضولی» ہیں۔ «فُضولی» تُرکی زبانوں میں تکلُّم کرنے والی تمام اقوام کے مُشتَرَک شرَف، اور اُن کے مُشتَرَک «حافظ شیرازی» ہیں۔"

=========

اُزبَکی متن:
"فُضولی غزل ژه‌نری‌نی کمالات‌گه اېتکه‌زگه‌ن بویوک صنعت‌کاردیر. نوایی‌دن سۉنگ بو ژه‌نرده اېنگ کۉپ، اېنگ گۉزه‌ل، اېنگ نفیس و اېنگ آهنگ‌دار غزل‌لر یه‌ره‌تگه‌ن شاعر فضولی‌دیر. فضولی - تورکی تیل‌لرده سۉزله‌شووچی به‌رچه خلق‌لرنینگ مشترک شرفی، اولر‌نینگ مشترک حافظ شیرازی‌سی‌دیر."

 

حسان خان

لائبریرین
"جِس طرح موسیقی کی صداؤں کے نتیجے میں ہمارے دِل کے اندر طُغیان مارتی رُوحی حالت کو لفظوں کے ساتھ بیان کرنا مُمکِن نہیں ہے، اُسی طرح «فُضولی» کی غزلوں کی عطاکردہ رُوحانی حلاوت کو بھی لفظوں کے ساتھ بیان نہیں کیا جا سکتا۔"
(ایک اُزبَکی مقالے سے ترجمہ‌شُدہ)


=========

اُزبَکی متن:
"موسیقی صدالری آستی‌ده قلبیمیزده طغیان اورگه‌ن روحی حالت‌نی سۉز بیله‌ن افاده اېتیب بۉلمه‌گه‌ن‌دېک، فضولی غزل‌لری بخش اېته‌دیگه‌ن معنوی حلاوت‌نی هم سۉز بیله‌ن افاده قیلیب بۉلمه‌یدی."

 

حسان خان

لائبریرین
«محمد فُضولی بغدادی» نے کلاسیکی مغربی تُرکی میں لِکھا ہے، جبکہ ماوراءالنّہر و افغانستان و مشرقی تُرکِستان کے اُزبَکوں اور اویغوروں کی کلاسیکی ادبی زبان مشرقی تُرکی/چَغَتائی تُرکی ہے، لیکن زبانچے کا یہ تفاوت اُن دِیاروں میں «فُضولی» کی شاعری کے رواج اور اُن کی شُہرت و محبوبیت کے پھیلنے میں ذرا مانِع نہیں ہوا، بلکہ مغربی تُرکی‌گو دیاروں کی طرح مشرقی تُرکی‌گو دِیاروں میں بھی فُضولی ایک بُزُرگ‌ترین و محبوب‌ترین و معروف‌ترین شاعر مانے جاتے رہے ہیں، اور خواص و عوام اُن کی غزلوں کو اِشتِیاق سے پڑھتے اور اُن کی شاعری کو محبوب رکھتے آئے ہیں۔ اور جس طرح «فُضولی» نے آذربائجان و تُرکیہ وغیرہ کے ادبیات کی پیش‌رفت میں اہم کِردار ادا کیا ہے، اُسی طرح اُزبَکوں کے ادبیات اور اُس کے تکامُل و تطَوُّر پر بھی بِسیار اہم اثر ڈالا ہے۔ مَیں «فُضولی» پر لِکھا جو اُزبَکی مقالہ پڑھ رہا تھا، اُس میں سے ایک اِقتِباس دیکھیے:

"«فُضولی» کی تخلیقات نے تُرک اقوام کے ادبیات کی ترقّی و پیش‌رفت میں نہایت بُزُرگ اثر ڈالا ہے۔ مثلاً، اُزبَک شاعری میں کِسی ایسے شاعر کو پانا دُشوار ہے کہ جو اُن سے مُلہَم نہ ہوا ہو۔ اُن کا نام عظیم «نوائی» کے نام کے ہم‌راہ ہمیشہ پہلو بہ پہلو آیا ہے۔ حقیقتاً، «فُضولی» کا دیوان صدیوں سے «نوائی» کے دیوان کے ہم‌راہ ایک ہی ساتھ مکتبوں اور مدرَسوں میں پڑھایا جاتا آیا ہے۔ مردُم کے درمیان «فُضولی‌خوانی» کے حلقے برپا ہوا کرتے تھے۔ ہمارے شُعَراء نے اُن کی غزلوں پر صدہا ہزارہا مُخَمَّسیں لِکھی ہیں۔ ہمارے خطّاطوں نے اُن کی کتابوں کو بار بار نقل کیا ہے۔"

=========

اُزبَکی متن:

"فضولی ایجادی تورکی خلق‌لر ادبیاتی ترقیاتی‌گه غایت که‌تته تأثیر کۉرسه‌تگه‌ن. مثلاً، اۉزبېک شعریتی‌ده اون‌دن الهام آلمه‌گه‌ن بیرار شاعرنی تاپیش قییین. اونینگ نامی بویوک نوایی نامی بیله‌ن همیشه یانمه-یان کېلگه‌ن. حقیقتاً هم، فضولی دېوانی عصرلر آشه نوایی‌نی‌کی بیله‌ن بیر قطارده مکتب-مدرسه‌لرده اۉقیتیب کېلینگه‌ن. اېل آره‌سی‌ده «فضولی‌خوان‌لیک» دوره‌لری بۉلگه‌ن. شاعرلریمیز اونینگ غزل‌لری‌گه یوزله‌ب، مینگله‌ب مخمس‌لر باغله‌گه‌ن‌لر. خطاط‌لریمیز اونینگ کتاب‌لرینی قه‌یته-قه‌یته کۉچیرگه‌ن‌لر."
 

حسان خان

لائبریرین
بیلمیشه‌م بولمان وِصالۆك لیک بو اُمّید ایله
گاه گاه اؤز خاطرِ ناشادومې شاد ائیله‌ره‌م
(محمد فضولی بغدادی)


مَیں جان گیا ہوں کہ مَیں تمہارا وِصال نہیں پاؤں گا، لیکن مَیں اِس اُمید کے ذریعے سے گاہے گاہے اپنے ناشاد قلب و ذہن کو شاد کرتا ہوں۔۔۔

Bilmişem bulman viṣâlüñ lîk bu ümmîd ile
Gâh gâh öz ḫâṭır-ı nâ-şâdumı şâd eylerem
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
ہماری فارسی-تُرکی شعری روایت میں غزلوں کے معشوق کو اکثر نامُسَلمان دِکھایا گیا ہے، اور چونکہ مشرقِ وُسطیٰ کے فارسی و تُرکی شاعروں کا اِرتِباط مسیحی اقلیتوں اور ہم‌سایوں سے ہوا کرتا تھا، اِس لیے اُن کا یارِ نامُسَلمان عُموماً مسیحی ہوتا ہے۔ «محمد فُضولی بغدادی» نے بھی ایک تُرکی بیت میں اپنے جوان‌سال محبوبِ مسیحی کا ذِکر کیا ہے، اور یہ اِدِّعا کیا ہے کہ ہنوز «حضرتِ مریَم» کے بطن سے «حضرتِ عیسیٰ» دُنیا میں آئے بھی نہ تھے کہ وہ مسیحی دِل‌دار اُن کے پردۂ چشم اور اُن کے خانۂ دِل کو مَسکَن بنا چُکا تھا، یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اُس یار کے لیے اُن کا عِشق «حضرتِ عیسیٰ» کے تولُّد سے بھی قدیمی‌تر ہے۔

پردهٔ چشمۆم مقام ایتمیش‌دی بیر ترسابچه
اۏلمادېن مهدِ مسیحا دامنِ مریم هنۆز
(محمد فضولی بغدادی)


ہنوز دامنِ مریَم مسیحا کا گہوارہ [بھی] نہ بنا تھا کہ اُس سے قبل ایک طِفلِ مسیحی میرے پردۂ چشم کو [اپنا] مقام و مَسکَن بنا چُکا تھا۔ (یعنی میرے پرد‌ۂ چشم میں مُقیم ہو چُکا تھا۔)

Perde-i çeşmüm maḳâm itmişdi bir tersâ-beçe
Olmadın mehd-i mesîḥâ dâmen-i Meryem henüz
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ «محمد فُضولی بغدادی» نے اپنی شُہرۂ آفاق تُرکی مثنوی «لیلیٰ و مجنون» کے اِبتدائی حِصّے میں ایک قصیدہ خُدا کی حمد میں کہا تھا۔۔۔ اُس قصیدے سے ایک بَیت دیکھیے:

نشئهٔ عشقوڭ‌لادور مجنون سُرودې سوزناک
پرتَوِ حُسنۆڭ‌له‌دۆر لَیلی جمالی نازَنین
(محمد فضولی بغدادی)


«مجنون» کا نغمہ تمہارے عِشق کے نشئے کے ذریعے سے سوزناک ہے۔۔۔۔ «لَیلیٰ» کا جمال تمہارے حُسن کے پرتَو کے ذریعے سے نازَنین ہے۔۔۔

Neş'e-i aşkuñladur Mecnûn sürûdı sûznâk
Pertev-i hüsnüñledür Leylî cemâli nâzenîn
(
Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد فُضولی بغدادی» (سلام بر او باد!) کی تُرکی مثنوی «لیلیٰ و مجنون» کی ایک خاص چیز یہ ہے کہ اُس مثنوی میں داستان کے درمیان چند جگہوں پر «لیلیٰ» یا «مجنون» کی زبان سے غزلیں بھی ادا کی گئی ہیں، جِن میں اُن دو کِرداروں نے اپنے عِشق اور اپنے درد و الَم کو بیان کیا ہے۔۔۔۔ ویسی ہی ایک غزل کی ایک بَیت میں «مجنون» زمانے کا شِکوَہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

مه‌وَشۆم‌دن دوست‌لار دَوران جُدا ایسته‌ر منی
دُشمَنۆم‌دۆر هیچ بیلمه‌ن نئتمیشه‌م دَوران ایله
(محمد فضولی بغدادی)


اے دوستو! زمانہ مجھ کو میرے ماہ‌وَش (ماہ جیسے معشوق) سے جُدا [رکھنا] چاہتا ہے۔۔۔ وہ میرا دُشمن ہے، [حالانکہ] میں ذرا بھی نہیں جانتا کہ میں نے زمانے کے ساتھ کیا [بد] کِیا ہے۔۔۔ :(

Meh-veşümden dûstlar devrân cüdâ ister meni
Düşmenümdür hîç bilmen n’etmişem devrân ile
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
شرَفِ مُلکِ بغداد حضرتِ «محمد فُضولی بغدادی» نے اپنی مَثنَوی «لیلىٰ و مجنون» کے ابتدائی حِصّے کا ایک باب مثنوی کے سببِ تألیف کے بارے میں لِکھا ہے۔ اُس باب میں اُنہوں نے داستانِ «لیلیٰ و مجنون» کو تُرکی مثنوی کی شکل میں منظوم کرنے کا یہ مُحَرِّک بتایا ہے کہ: عُثمانی رُوم/اناطولیہ کے چند شُعَراء، کہ جو سُلطان سُلَیمان قانونی کے سفرِ عِراق میں اُن کے ہم‌راہ بغداد آئے تھے، ایک بزمِ نشاط میں «فُضولی» کے نُدَماء تھے۔ جب وہاں «فُضولی» سے در اَثنائے گُفت‌وگُو یہ لاف سرزد ہوئی کہ وہ بھی رُومی شُعَراء کی طرح حُسنِ گُفتار اور سُخن‌پروَری پر ذرا قادِر ہیں تو اُن شاعروں نے آزمائش کے طور پر «فُضولی» سے اِس چیز کی خواہِش ظاہر کی تھی کہ وہ «لیلیٰ و مجنون» کی داستان کو تُرکی زبان میں منظوم کریں، کیونکہ فارسی میں وہ داستان کئی بار لِکھی جا چکی ہے، لیکن تا حال تُرکی میں وہ افسانہ رِشتۂ تحریر میں نہیں آیا ہے۔۔۔ اُس باب میں سے چند ابیات دیکھیے:

اۏلمېش‌دې رفیق و هم‌زبانوم
آیینهٔ طوطیِ روانوم
بیر نیچه ظریفِ خِطّهٔ روم
رومی که دئدۆک قضِیّه معلوم
یعنی که قامو دقایق اهلی
هر مسئله‌ده حقایق اهلی
هم عِلم فنین‌ده نُکته‌دان‌لار
هم سؤز روِشین‌ده دُر‌فِشان‌لار
کیم ائیله‌ر ایدی دقایقِ راز
شَیخی‌دن و احمدی‌دن آغاز
کیم سؤیله‌ر ایدی اؤڲۆپ کلامې
اوصافِ جلیلی و نِظامی
بیلمیش‌له‌ر ایدی که حُسنِ گُفتار
قدرۆم قدَرینجه من‌ده هم وار
چون وار ایدی مست‌لیک‌ده لافوم
کیم آنلانا صِدقوم و خِلافوم
من خسته‌نی ائتدی‌له‌ر نِشانه
بیر رنگ ایله تیرِ اِمتحانه
لُطف ایله دئدی‌له‌ر ای سُخن‌سنج
فاش ائیله جهانا بیر نِهان گنج
لَیلی مجنون عجم‌ده چۏخ‌دور
اتراک‌ده اۏل فسانه یۏخ‌دور
تقریره گه‌تۆر بو داستانې
قېل تازه بو اه‌سکی بوستانې
(محمد فضولی بغدادی)


[اُس بزم میں] خِطّۂ رُوم کے چند خوش‌سُخن اشخاص میرے رفیق و ہم‌زبان، اور میری طُوطیِ رُوح کے آئینے ہوئے تھے۔۔۔ [جب] ہم نے «رُومی» کہہ دیا تو قضِیّہ معلوم ہے [اور مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں ہے]۔۔۔ (یعنی اب آئندہ ابیات میں جو رُومیوں کی سِتائش ہونے جا رہی ہے، اُس سے سب بخوبی واقِف ہیں، اور «رُومی» کی صِفتِ نِسبی سُنتے ہی وہ تمام اَوصافِ نیکو مردُم کے ذہن میں آ جاتے ہیں)۔۔۔ یعنی وہ [اشخاص] تمام لطیف نِکات سے باخبر اور ہر مسئلے میں حقائق کے عالِم تھے۔۔۔ وہ فنِّ عِلم میں بھی نُکتہ‌داں تھے، اور روِشِ سُخن میں بھی دُرفِشاں تھے۔۔۔ [اُن میں سے] کوئی شخص «شَیخی» اور «احمدی» [کی شاعری] کے دقائق بیان کرنا آغاز کر رہا تھا، اور کوئی شخص «جلیلی» اور «نِظامی» کے اوصاف کی سِتائش کرتے ہوئے کلام کہہ رہا تھا۔۔۔ [معلوم ہوتا تھا کہ] وہ جان گئے تھے کہ مجھ میں بھی میری قُوّت و قابلیت کے بقَدر حُسنِ گُفتار موجود ہے۔۔۔ چونکہ مجھ سے مستی میں [اِس چیز کی] لاف (ڈینگ) سرزَد ہو گئی تھی، اِس لیے اُن [رُومیوں] نے مجھ خستہ کو کِسی طریقے سے تِیرِ اِمتِحان کا نشانہ بنایا، تاکہ میری راستی اور دُروغ ظاہر ہو جائے۔۔۔ اُنہوں نے نرمی و لطافت کے ساتھ [مجھ سے] کہا: "اے صرّافِ سُخَن! دُنیا پر ایک گنجِ نِہاں فاش کر دو!۔۔۔ «لیلیٰ و مجنون» عجَم میں بِسیار ہیں۔۔ [لیکن] تُرکوں میں وہ افسانہ موجود نہیں ہے۔۔۔ اِس داستان کو تقریر میں لاؤ۔۔۔ [اور] اِس کُہنہ بوستان کو تازہ کر دو!"

× «شَیخی»، «احمدی»، «جلیلی» اور «نِظامی» چند شُعَراء کے نام ہیں۔

Olmışdı refîk u hem-zebânum
Ayîne-i tûti-i revânum
Bir niçe zarîf-i hıtta-i Rûm
Rûmî ki dedük kaziyye ma‘lûm
Ya‘nî ki kamu dekâyık ehli
Her mes’elede hakâyık ehli
Hem ilm feninde nükte-dânlar
Hem söz revişinde dür-feşânlar
Kim eyler idi dekâyık-i râz
Şeyhîden ü Ahmedîden âğâz
Kim söyler idi öğüp kelâmı
Evsâf-ı Celîlî vü Nizâmî
Bilmişler idi ki hüsn-i güftâr
Kadrüm kaderince mende hem var
Çün var idi mestlikde lâfum
Kim anlana sıdkum ü hilâfum
Men hasteni etdiler nişâne
Bir reng ile tîr-i imtihâna
Lutf ile dediler ey sühan-senc
Fâş eyle cihâna bir nihân genc
Leylî Mecnûn Acemde çohdur
Etrâkde ol fesâne yohdur
Takrîre getür bu dâstânı
Kıl tâze bu eski bûstânı
(Fuzûlî)
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے ایک مُراسلے میں بتایا تھا کہ مشرقِ وُسطیٰ کی فارسی و تُرکی غزلوں میں محبوب عُموماً نامُسَلمان، اور اکثر مسیحی، ہوتا تھا، کیونکہ مشرقِ وُسطیٰ کی اِسلامی سرزمینوں میں تعداد کے لِحاظ سے بُزُرگ‌ترین دینی اقلیت مسیحیوں کی تھی، اور مشرقِ وُسطائی مُسلمان اقوام کے نامُسَلمان ہم‌سائے ارمَنیوں، آشُوریوں، گُرجِیوں، یونانیوں وغیرہ جیسے مسیحی مردُمان تھے۔۔۔ بہ علاوہ، میں نے اُس مُراسلے میں یہ بتایا تھا کہ حضرتِ «محمد فُضولی بغدادی» (رح) نے بھی ایک تُرکی بَیت میں اپنے جوان‌سالہ محبوبِ مسیحی کا ذِکر کیا تھا اور بعد ازاں وہ تُرکی بَیت اُردو ترجمے کے ساتھ اِرسال کی تھی۔

«فُضولی» نے ایک دیگر تُرکی بَیت میں بھی اُس کم‌سال مسیحی ‌دِل‌بر کا ذِکر کیا ہے، لیکن اُس بَیت میں «فُضولی» ناشادی کے ساتھ یہ اِطِّلاع دے رہے ہیں کہ اُن کا مسیحی محبوب اپنے دینِ مسیحیت کو تَرک کر کے حالا (اب) مُسلمان ہو گیا ہے، جو ایک خُوب خبر نہیں ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ غزلوں کا معشوق نامُسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ جفاکار و سِتم‌گر بھی ہوتا ہے، لہٰذا جب تک وہ معشوق مسیحی تھا، اُس کی جفاگری و ظالِمی کا طعنہ اُس کے کُفر اور مسیحیوں کو دیا جاتا تھا، لیکن اب در حالے کہ وہ مُسلمان ہو گیا ہے، اُس کے ظُلموں کے لیے ملامت اِسلام اور مُسَلمانوں کو کِی جائے گی، جو بہ لِحاظِ یک مُسَلمان «فُضولی» کے لیے ناپسندیدہ چیز ہے، اور لہٰذا وہ اُس معشوقِ مسیحی کے مُسَلمان ہو جانے پر غم‌گین ہیں۔

دردۆم اۏل‌دور کیم مُسلمان اۏلمېش اۏل ترسابچه
کُفره اۏلان ظُلم‌لر طعنې بوگۆن اِسلامادور
(محمد فضولی بغدادی)


مجھے درد و غم یہ ہے (اِس چیز کا ہے) کہ: [مجھے معلوم ہوا ہے کہ] وہ طِفلِ مسیحی مُسلمان ہو گیا ہے۔۔۔ [لہٰذا اُس کے] ظُلموں کے لیے جو ملامت [تا حال] کُفر کو [کی جاتی] تھی، وہ اِمروز اِسلام کو [کی جاتی] ہے۔۔۔

Derdüm oldur kim müselmân olmış ol tersâ-beçe
Küfre olan ẓulmler ṭa'nı bugün islâmadur
(Fuzûlî)
 
Top