محفل چائے خانہ

سیما علی

لائبریرین
محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“۔ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں 'الگنی' بولتے ہیں۔ پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے 'دھنگنا' کہتے ہیں۔گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ 'اگاڑی' 'پچھاڑی' کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ 'لگام' کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی 'راس' کہلاتی ہے۔ اس لئے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کیلئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے 'یک راس گھوڑے کی قیمت' اور ہاتھی کیلئے 'یک زنجیر ہاتھی' استعمال ہوتا تھا۔ گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لئے سائیسں پھراتا ہے اور جسے 'کاوا پھرانا' بولتے ہیں۔ اُس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے 'باگ ڈور' کہتے ہیں۔ پھر مرحوم نے کہا بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو 'ناتھ' بولتے ہیں (اسی لئے ایسے بیل کو 'نتھا ہوا بیل' بولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام میں آتا ہے)۔ اونٹ کی ناک میں 'نکیل' ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے 'برت' یا 'برتھ' بولتے ہیں۔
(نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس
چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے 'بان' اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو 'ادوائن' کہتے ہیں۔پھانسی کیلئے استعمال ہونے والی رسی 'پھندہ' کہلاتی ہے۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
انگریزی سے متاثر ایک انگریزی دان نے جب اردو ادب کے ماھر کو اردو زبان کے تنگ دامن ہونے کا طعنہ دیا تو اردو ادیب نے جو کہ انگریزی بھی جانتے تھے کچھ یوں جواب دیا:
"اُردُو کا دامَن تنگ کہنے والوں پر ہنسی آتی ہے ۔ حالانکہ ذرا دھیان دیں تو بُہُت سی مِثالیں ایسی مِل جائیں گی جو ایسی بات کہنے والوں کی نفی کرتی ہیں ۔ مثلاً :
1 - رِشتوں کیلِئے انگریزی میں Uncle اور Aunt بہ طورِ " اَمرَت دھارا " اِستعمال ہوتے ہیں ۔ جبکہ اُردُو میں باپ کے اُس بھائی کو جو عُمر میں باپ سے بڑا ہو ، " تایا " ، اور جو عُمر میں باپ سے چھوٹا ہو ، وُہ " چچا " ، ماں کا بھائی " مامُوں " ، ماں کا بہنوئی " خالُو " ، باپ کا بہنوئی " پُھوپھا " ۔ اِسی طرح تایا کی اہلیہ " تائی " چچا کی اہلیہ " چچی " ، مامُوں کی اہلیہ " مُمانی" باپ کی بہن " پُھوپھی " ، ماں کی بہن " خالہ ۔
2 - پِھر Sister کیلِئے
" بہن " ، " ہمشیرہ " ، " بہنا " ، " باجی " ، " آپا " ، " آپی " ، " بجیا " ، " بَجّو " ، " گُڈُّو " ، گُڈّی " ، " گُڑیا " وغیرہ مُستعمِل ہیں۔
3 - اور Brother کیلِئے اُردُو میں :
بھائی ، بَھیّا ، بھائی جان ، بَرادَر ، لالہ جیسے الفاظ ہیں ۔
4 - انگریزی لفظ Daughter کیلِئے ،
" بیٹی " ، " بِٹِیا " ، " بِٹّو " ، " گُڑیا " ، " لاڈو " ، " بِٹِیا رانی " ، " صاحبزادی " ، " دُختَر " وغیرہ ہیں۔
5 - انگریزی لفظ Son کے اُردُو مُتَرادِفات :
" بیٹا " ، " برخُوردار " ، " پُوت " ، " لمڈا " ، " لَؤنڈا " ، " صاحبزادہ " ، نُور چَشمی " ، " پِسر " ، " فَرزَند " نُورِ نَظَر " ، چَشم و چَراغِ ۔ ۔ ۔ ۔ مَوجُود ہیں ۔
6 - اِسکے عِلاوہ Brother in law اور Sister in law سے کئی جگہ کام چلایا جاتا ہے۔ جیسے Brother in law کو بہنوئی ، ہم زُلف ، برادَرِ نِسبَتی ، سالا کا مُتَرادِف مانا جاتا ہے ، اور Sister in law کو سالی ، خواہرِ نِسبَتی ، بھابی " ، کیلِئے اِستعمال کرتے ہیں۔
7 - انگریزی الفاظ Smile اور Laughter کے اُردُو مُتَرادِف دیکھیں تو ، " مُسکانا ، مُسکُرانا ، تَبَسُّم فرمانا ، ہنسنا ، کِھلکِھلانا ، اور قہقَہے لگانا کے علاوہ چہرے پر دَھَنَک رنگ بِکَھرنا ، ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جانا ، کھسیانی ہنسی ہنسنا ، جیسے رنگا رنگ اِظہارِئے ملتے ہیں جن میں سے ہر لفظ کا اَلَگ ہی ذائقہ ہے۔
8 - پِھر ہاتھی کا بَچّہ " ہَتھنوٹا / پاٹھا " ، شیر کا بَچّہ ، " شِبلی " ( شِبلی عربیُ الاصل ہے ) ، انگریزی میں دونوں کیلِئے ایک ہی لفظ cub سے کام چلایا جاتا ہے ۔ پِھر بکری کا بَچّہ " " میمنا " اور ہِرَن کا بَچّہ " ہِرنوٹا " کیلِئے انگریزی میں ایک ہی لفظ kid ہے ۔ عُقاب کا بَچّہ " قاز " ، تذکیر و تانیث دیکھیں : " بِلّا " ، " بِلّی " ، " بکرا " ، " بکری " ، " گدھا " ، " گدھی " ، " ہاتھی " ، " ہتھنی " ، " ناگ " ، " ناگن " سانپ " ، " سنپولِا " جِنکے لِئے انگریزی میں ۔ ۔ ۔ ۔
9 - " حُور " ، " غیرَت " ، پہلی اولاد " پہلوٹی " ، یا آخری اولاد " کُھرچَن " ، " گُھٹّی " ، " دھمال " ، کیلِئے انگریزی کی پوٹلی میں الفاظ ہیں ہی نہیں ۔ بھلا غیرَت یا حُور کا کوئی کیا ترجُمہ کرے گا اور کیا کھا کر کرے گا ؟
10 - کِسی کے ساتھ تَعَلُّق کے مُختَلِف مدارِج ہیں اور ہر ایک کیلِئے اُردُو میں الفاظ موجُود ہیں۔ مثلاً : " واجبی شناسائی " ، " جانکاری " ، " واقِفِیَّت " ، " اُنس " ، " لوبھ " ، " لگاؤ " ، " پیار " ، " پریم " ، " پرِیت " ، " پِیت " ، " مَحَبَّت " ، " عِشق " ، مُؤدَّت " ، " فنا فی المحبُوب " ، " قَدر " ، " عقیدَت " " احترام کا رِشتہ " وغیرہ وغیرہ ۔ جِنکے مُتبادِل میں انگریزی میں Love ، affection , fondness ، acquaintance ہی ہیں ۔
11 - انگریزی لفظ eye کیلِئے
" آنکھ " ، " چشم " دیدہ " ، " نین " ، " نَیَن " ، " نَیَنوا " اَنکھیَن " ، " اَنکھیَن " ۔ " اَنکھڑی " ، " اَنکھڑِیوں " ، " اَنکھڑِیاں "
12 - انگریزی لفظ lover کیلِئے ،
" محبُوب " ، " ماھی " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " پی " ، " پِیا " ، " سانوَل " ، ڈھولا " ، ڈھولَن " ، " ڈھولنا " ، " سانوَرِیا " ، " سانورے " ، سَنوَرِیا " ، " ساجَن " ، " ساجنا " ، " سجنا " ، " مِتَّر " ، " رانجھن " ، " مَجنُوں " ، " عاشِق " ، " سودائی " ، " دیوانہ " ، " بالَم " ، " بَلَم " ، " بَلَما " وغیرہ ۔
13 - انگریزی الفاظ father , dad , daddy کیلِئے اُردُو ،
" والِد " ، " والِدِ مُحتَرَم " ، " والِدِ بُزُرگوار " ، " اَبّا جان " ، اَبّا جی " ، " اَبّا " ، " بابا " بابا جان " ، بابا جانی " ، " اَبُّو " جیسے الفاظ سے مالا مال ہے ۔
14 - انگریزی الفاظ friend اور confidant کیلِئے ،
" دوست " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " سجن " ، " جِگَر " ، "جِگری یار " ، " یار " ، " یار جانی " ، " رازدار " ، " یارِ غار " ، " بَڈُّو " جیسے رنگا رنگ الفاظ موجُود ہیں۔
15 - ایک دِلچَسپ بات یہ کہ موٹر سائیکل پر دو سوار بیٹھے ہوں تو اِسے عوامی زبان میں ڈَبَل سواری کہا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اِسے pillion riding کہتے ہیں ۔ لیکِن فارسی میں گھوڑے پر بیٹھنے والے دو سواروں میں سے اگلے کو ، " قافِیہ " ، اور پیچھے بیٹھنے والے کو ، " رَدیف " کہا جاتا ہے ۔ اور یہ دو الفاظ اُردُو کے ذخیرۂِ الفاظ میں شامِل ہیں اَگَرچہ آج کل کے حضرات اُردُو سے کم واقِفِیَّت کی بِنا پر کم جانتے ہیں ۔ اور اِتنی فَصاحَت انگریزی میں نہیں۔
16 - اِسکے عِلاوہ انگریزی الفاظ girl , lace , damsel ، virgin کے اُردُو مُتَرادِفات دیکھیں :
" لڑکی " ، " دوشیزہ " ، " ناکتخدا " ، " باکرہ " ، " چھوکری " ، " چھوری " ، " لونڈِیا " ،آنسہ " پُھل جَھڑی "و غیرہ ہیں ۔
17 - اَنگریزی لَفظ Door کے لِیے ، دَر ، دَروازہ ، دَروَجّہ ، دَوار ، دَریچہ ، پَھاٹَک ، دَوارے
18- اَنگریزی اَلفاظ Family / House کے لِیے ،
گَھرانہ ، کُنبہ ، خاندان ، ٹَبَّر ، پَروار ، پریوار ، اہلِ خانہ ۔
19 - انگریزی الفاظ garden / Orchard کے لِیے ،
باغ ، باغیچہ ، بَگِیا ، گُلشَن ، گُلزار ، گُلِستان ، گُلِستاں ، چَمَن ، چَمَنِستاں ، چَمَنِستان ، مُرغزار ، لالہ زار
20 - اَنگریزی لَفظ Tears کے لِیے ؛ آنسو ، اشک ، نیر ، آبِ چشم ، ٹسوے ، موتی
21 - اَنگریزی لَفظ key کے لِیے ؛ چابی ، کَلید ، کُنجی
22 - اَنگریزی لَفظ Lock کے لِیے ؛ تالہ اَور قُفل
23 - اَنگریزی اَلفاظ Cot اَور Bed کے لِیے ؛ چارپائی ، کھاٹ ، کَھٹِیا ، کَھٹولہ ، پَلَنگ ، مَسہری ، مَنجا ، مَنجی ، ہَماچہ ، ماچہ ، مَچ وَغَیرہ
24 - خُسر ، سُسَر ، کے لِیے Father in law یَعنی کوئی مُناسِب اَور مُختَصَر لَفظ ہی نَہیں۔ اَنگریزی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ساس ، خُوش دامَن کے لِیے بھی Mother in law .
25 - اَنگریزی کے اَلفاظ Moon اَور Full Moon کے لِیے اُردُو میں ، " چاند " ، " چَندا " ، " قَمَر " ، " ہِلال " ، " بَدَر " چَندا مامُوں " جَیسے اَلفاظ مَوجُود ہَیں ۔
26 - اَنگریزی اَلفاظ door , gate , entrance کے لِیے اُردُو میں :
" دَر " ، "دَروازہ " ، " دَروَجّا " ، " دَوار " ، " کِواڑ "
منقول
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
استادوں سے استادی 😁

👏👏👏👏👏👏👏👏👏👏👏👏
کہتے ہیں کہ لکھنو میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور انکی اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات ، استعارات، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھےانہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:۔
"حضورِ والا،! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر، پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے ۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے آپ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں ۔ چند ثانیے قبل میری چشمِ نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاہدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہو کرچند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آپ کی دستارِ فضیلت پر براجمان ہو گیا ۔ اگر اس فتنہ و شر کی بر وقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضورِ والا کی جانِ والا شان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔"
اور اتنی دیر تک استاد محترم کی دستارانکے بالوں سمیت جل کر بھسم ہوچکی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین

فہد اشرف

محفلین
جی کلیات غالب فارسی میں کچھ قطعات تواریخ وفات کے شامل ہیں لیکن مرثیہ کے عنوان سے مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔
شکریہ وارث بھائی ۔ تاریخ وفات اور نوحے تو موجود ہیں لیکن وہ مرثیے کے مروجہ فارم یعنی مسدس کی شکل میں نہیں ہیں تو کیا وہ پھر بھی مرثیے میں شمار ہوں گے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ وارث بھائی ۔ تاریخ وفات اور نوحے تو موجود ہیں لیکن وہ مرثیے کے مروجہ فارم یعنی مسدس کی شکل میں نہیں ہیں تو کیا وہ پھر بھی مرثیے میں شمار ہوں گے؟
آپ کا سوال دلچسپ ہے۔ میرے خیال میں مرثیہ ہیت یا فارم کی بجائے موضوع کے اعتبار سے مرثیہ کہلاتا ہے یعنی مرثیہ مسدس کے علاوہ کسی اور فارم میں بھی ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر غالب ہی کے اردو دیوان میں ایک غزل رثائی غزل کے نام سے مشہور ہے جو ان کے لے پالک بیٹے عارف کا مرثیہ ہے:

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

باقی یہ بات کہ قطعات وفات اور نوحے جو غالب کے فارسی دیوان میں ہیں تو وہ قطعات تاریخ اور نوحے ہی کہلوائے جائیں گے کیونکہ وہ اسی عنوان سے ہیں۔ مراثی کے لیے میرے خیال میں شاعر خود عنوان دیتا یا اعلان کرتا ہے کہ مرثیہ ہے چاہے وہ کسی بھی فارم میں ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
اُردو اور فارسی میں جو مشترکہ الفاظ ہیں اُن کے استعمال میں فرق ہے جیسے فارسی میں فرزند" اولاد اور بچے، بچی کو کہتے ہیں جبکہ اردو میں صرف بیٹے کو فرزند کہتے ہیں۔ روز فارسی میں دن کو کہتے ہیں جبکہ اردو میں روز کے ساتھ بہت سے لاحقے جوڑ کر مختلف معنی بنتے ہیں۔ جیسے روز قیامت، روز محشر، روز آخرت۔
فارسی میں پسر کا مطلب بیٹا ہوتا ہے مگر اردو میں یہ لڑکے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اکثر افراد خامخواہ کی بحث شروع کر دیتے ہیں ہر زبان کا اصول دوسری زبان سے مختلف ہوتا ہے۔ الفاظ کے معنی اور استعمال وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے جیسے آج سے دو صدیاں پہلے لفظ" فساد " کا مطلب بغاوت تھا ایسے ہی ہزاروں الفاظ ہیں جن کا مطلب اب غلط لیا جاتا ہے۔ یہ الگ علم ہے جو نئی نسل کو پرانے شعراء کی شاعری سمجھانے کے لیے سکھایا جاتا ہے۔ قدیم شعراء کی شاعری کی فرہنگ پڑھنے سے آپ لوگ جان سکتے ہیں۔ قدیم پہلوی کے الفاظ ہمیں سمجھ نہیں آتے مگر جو بزرگ حیات ہیں وہ جانتے ہیں۔ پرانی فارسی میں مصدر کی علامت " ن " نہیں ہوتی تھی بلکہ د، ت ہوتا تھا جیسے گفتن میں تن، کردن میں دن، یعنی " د، ت " مصدر کی علامت ہوتی تھی۔ زبانوں میں یہ تغیر وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اب تو زبانیں سمٹ رہی ہیں زبانوں کو سائنسی اصولوں پر پڑھایا جاتا ہے جس سے زبانیں سیکھنا دن بہ دن آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے آنے کے بعد مستقبل قریب میں استاد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ انسان گھر بیٹھے مشین سے سیکھے گا کیونکہ مشین میں ہر زبان کا مکمل ڈیٹا گرامری صورت میں موجود ہو گا۔ غلطیوں کا بھی اندیشہ نہیں ہو گا۔ اب گوگل نے زبانوں کے لیے مصنوعی ذہانت رکھنے والی ایپلیکیشنز پر مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تربیت کا کام شروع ہو چکا ہے۔ کافی ممالک میں بچے بھاری بستے سکول لے کر نہیں جانتے صرف ایک ٹیبلٹ یا آئی پیڈ لے کر جاتے ہیں جس میں ان کی ساری کتابیں ہوتیں ہیں۔ آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
چائے خانہ وارث میاں کا ورثہ ہے اور آباد رکھیے اس چاہ خانے کو ۔۔۔
ایک پیالی کڑک چائے بغیر شکر کے ۔۔۔
سارے چائے پلانے والے کہاں غائب ہیں سچ سر میں بڑا درد ہے !!!کوئی کڑک چائے پلانے نہیں !!!!! والا آج آغا خان ہسپتال ہمارے پانچ گھنٹے کھا گیا ۔ہم پیسے خرچ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا وقت کھا جائیں 😢۔۔۔
لفظ "سہی" اور "صحیح" میں فرق:

صحیح اور سہی دو مختلف الفاظ ہیں جن کے معنی بھی مختلف ہیں۔
جناب صحیح کا مطلب درست ہوتا ہے یعنی صحیح کا متضاد غلط ہے۔
سوال کا جواب صحیح ہے۔
آپ کی تنقید صحیح ہے
مزدور کا معاوضہ طلب کرنا صحیح ہے
اب آجائیے سہی کی طرف
یہ کسی بات پر زور دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
جیسے کہ
ناز ہم سارے اٹھا لیں گے تم آؤ تو سہی
تم کو ہم دل میں بٹھا لیں گے تم آؤ تو سہی

اصل لفظ "صحیح” ہی ہے ، اسے بدل کر ایک لفظ "سہی” بھی بنالیا گیا ، دونوں قریب المعنی ہیں ، مگر محل استعمال میں فرق ہے۔
جہاں صرف کسی چیز کی درستی بیان کرنی ہو وہاں "صحیح” استعمال کرتے ہیں۔
جہاں بات میں زور دینا ہو ، یا تقابل ہو یا گزارے کو بیان کرنا ہو تو ایسے مواقع پر "سہی” کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔
مثلا:
یہ بات صحیح نہیں ہے۔
یہ صحیح نہیں ہے۔
اب صحیح سمجھ میں آیا۔
صحیح البخاری
ان میں سے کسی بھی جگہ "سہی” لانا صحیح نہیں۔
اب یہ مثالیں دیکھیے:
ایسا ہے تو یوں ہی سہی
تم آؤ تو سہی
ابھی نہیں ، پھر سہی
ان جگہوں پر "سہی” آئے گا۔۔۔۔//

اب تو ڈھونڈ دیجیے کوئی اچھا چائے بنانے والا۔۔۔یا والی کیونکہ خود بنانے کا دل بالکل نہیں چاہ رہا
وارثمیاں
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
آداب !!!!محفلِ ادب کے چائے خانہ میں وارث میاں کیسے ہیں!!!اتنے مصروف ہوگئے کہ سالگرہ کی تقریب میں بھی غیر حاضر !!!!آپکے لئے ہم چائے خود بنا لائے ہیں ۔اُمید ہے پسند آئے گی 🙏🏻
احمد حاطب صدیقی (ابو نثر)
کا ایک مضمون آپکی نذر ؀
سوائے سنگ دلی اور کچھ ہنر بھی ہے؟
بڑی منہ چڑھی غلطی ہے جو عوام ہی کی نہیں خواص کی زبانوں پر بھی چڑھی جا رہی ہے۔ ہم دانتوں تلے اُنگلیاں دابے حیرت سے دیکھ رہے ہیں، سُن رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ بڑے بڑے علما فضلا بھی اب ’علاوہ‘ اور ’سِوا‘میں فرق نہیں کرپاتے۔ روزمرہ بول چال اور سیاسی تقریروں کے علاوہ، علمی خطبات اور محققانہ تحریروں میں بھی استثنا کے لیے سوائے علاوہ کے انھیں کوئی لفظ نظر ہی نہیں آتا۔ بعض سکہ بند اہلِ زبان بھی اس غلطی کو بار بار دُہراتے دیکھے گئے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ’سِوا‘ کے معنوں میں ’علاوہ‘ لکھنے کے حق میں دلائل بھی دیے جانے لگے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ دلائل کو تقویت پہنچانے کے لیے اکابر کی تحریروں سے مثالیں بھی دستیاب ہیں۔
بہت سی دوسری غلطیوں کی طرح شاید یہ غلطی بھی گوارا کرلی جاتی۔ ’غلط العام‘ کہہ کر ’فصیح البیان‘ قرار دے ڈالی جاتی۔ مگر چوں کہ اس غلطی کے اثرات ہمارے بنیادی عقیدے اور کلمۂ توحید کے ترجمے پر بھی پڑتے ہیں، چناں چہ لازم ہے کہ اس باب میں سختی سے احتیاط کی جائے اور اصلاح کی خاطر، جہاں تک بات پہنچائی جا سکے، پہنچا دی جائے۔
ہماری طرح خود آپ نے بھی سنا اور دیکھا ہوگا، نیز پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین نے اپنی کتاب ’’لسانی زاویے‘‘ کے ایک مضمون ’’علاوہ کی ذو معنویت اور اِبہام و اِہمال‘‘میں تحریر بھی کیا ہے کہ ’’ایک اُردو ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں، ایک معروف عالم اور مبلغ نے ایک نومسلم کو کلمۂ طیبہ اور اس کا ترجمہ پڑھایا، ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (ص:۵۴)
مضمون کے متعلقہ حاشیے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
"پیس Peace ٹی وی چینل پر ۴؍جون۲۰۱۹ء کو نشر ہونے والے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک غیر مسلم کو کلمۂ طیبہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ساتھ اس کلمے کا ترجمہ بھی پڑھایا۔ ترجمے میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ’سوا‘ کی جگہ ’علاوہ‘ ادا کیا۔‘‘ (ص:۶۱)
گو کہ ڈاکٹر ذاکر نائک خود بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ انھیں اُردو پر عبور نہیں، لیکن عربی تو وہ بھی جانتے ہیں۔ ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ دونوں عربی الفاظ ہیں۔ خیر، ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام تو محض بطور مثال آگیا۔ اچھے اچھے اردو دان علما ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ میں اب فرق روا نہیں رکھتے۔
’علاوہ‘ کے لغوی معنی ہیں ’’وہ چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ دی جائے‘‘۔ عربی لغت ’علاوہ‘ کا مطلب ’’مَا زَادَ عَلَیہ‘‘ بتاتی ہے۔ یعنی ’جو اس پر زیادہ ہو‘۔ جیسے کہا جائے کہ ’مزدوری کے علاوہ کھانا بھی دیا جائے گا‘۔ گویا ’علاوہ‘ کہہ کر رقم اور کھانا دونوں چیزیں مزدوروں کی اُجرت میں شامل کردی گئیں۔ پس علاوہ کا مفہوم شمولیت اور شرکت ہے۔ مثلاً ’احمد کے علاوہ حامد اور محمود وہاں موجود تھے‘۔ یہ تین افراد کا ذکر ہوا۔ علاوہ کی جگہ اردو میں ’سمیت‘ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگرکہا جائے کہ ’احمد کے علاوہ حامد، محمود، حماد اور حمید غیر حاضر ہیں‘ تو مطلب یہ ہوا کہ احمد سمیت سب غیر حاضر ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کتب و رسائل کے متعلق یہ فقرہ نظر آتا تھا ’قیمت ۱۰؍ روپے، علاوہ محصول ڈاک‘۔ بظاہر لفظ ’علاوہ‘ یہاں دو چیزوں کو الگ الگ کرتا نظر آرہا ہے، لیکن دراصل یہاں بھی شمولیت ہی ظاہر ہورہی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ خریدار کی جان صرف ۱۰؍روپے ادا کرکے چھوٹ نہیں جائے گی۔ دس روپے کے علاوہ ڈاک کے اخراجات بھی دینے ہوں گے۔گویا ’علاوہ‘ لکھ کر اگلے پچھلے سب کو شامل کرلیا۔ پس اگر کسی محفل میں آپ یہ دعویٰ فرمائیں کہ ’’یہاں میرے علاوہ سب جاہل ہیں‘‘ تو علاوہ اور سوا کے فرق کا علم رکھنے والے آپ سے فوراً اتفاق کرلیں گے۔ کیوں کہ یہاں ’میرے علاوہ‘ کا مطلب ہوگا ’مجھ سمیت‘۔
حرفِ استثنا ’سوا‘ ہے۔ یہ شرکت و شمولیت کے لیے نہیں، علیحدگی، اخراج اور نفی کے لیے آتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باقی تو کوئی معبود نہیں ہے، مگر اللہ معبود ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘، تو ’علاوہ‘ لگا دینے سے مفہوم یہ ہوگیا کہ اللہ بھی معبود نہیں، کوئی دوسرا بھی معبود نہیں۔ چھٹی ہوئی۔ یعنی اللہ سمیت کوئی بھی معبود نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کہا جائے کہ ’’کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے‘‘۔ اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ کلونجی میں موت سمیت ہر بیماری سے شفا ہے۔ جب کہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ ’موت کے سوا‘ ہر بیماری سے شفا ہے۔ یعنی موت کا کوئی علاج نہیں۔ ’موت‘ مستثنیٰ ہے، باقی ہر بیماری کا علاج ہے۔
’سِوا‘ کے مفہوم میں عربی کی طرح اردو میں بھی ’ماسوا‘، ’بجز‘، ’اِلّا‘ اور’غیر‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ رحمٰن کیانی سرورِ کائناتؐ کے حضور آپؐ کی اُمتِ موجود کے حالاتِ زبوں پیش کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:
ماسو اللہ زمانے میں، شہِ ہر دو سرا!
یہ کسی کے بھی نہیں، کوئی نہیں ہے ان کا
’بجز‘ کا استعمال فیضؔ کے اس مشہور مصرع میں دیکھیے ’’ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت‘‘ ۔یعنی اس دل میں ہر طرح کا داغ ہے سوائے ندامت کے داغ کے۔ مراد یہ کہ ندامت کا داغ نہیں ہے۔ اب ’اِلّا‘ کی مثال بھی لے لیجیے۔ میرؔ صاحب فرماتے ہیں:
آج ہمارے گھر آیا، تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
اِلّا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
مطلب یہ کہ اپنا کمینہ پن دکھانے کے سوا شاعر کے گھر میں کچھ بھی نہیں۔ پیزا اور کولڈ ڈرنک بھی نہیں۔
ہماری عام بول چال میں بھی ’اِلّا‘ کا یہ استعمال بہت عام ہے۔ مثلاً:
’’میں تو اب اُس کو گھر میں گھسنے بھی نہیں دوں گا، اِلّا یہ کہ وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہو، اور اپنی بہن سے معافی مانگے‘‘۔
’سوا‘ کے معنوں میں لفظ ’غیر‘ کا استعمال کرتے ہوئے مرزا غالبؔ خوشی خوشی اعلان کرتے ہیں:
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حُسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
’غیر‘ کے بعد ’از‘ لگا کر بولنے کا رواج اب عام بول چال میں کم ہوگیا ہے۔ عام بول چال میں ’غیر‘ سے پہلے ’ب‘ لگا کر ’سوا‘ کے معنی لے لیے جاتے ہیں، مثلاً ’’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے‘‘۔ یعنی اندر آنے کی ممانعت ہے، بجز اس کے، سوائے اس کے یا اِلّا یہ کہ آپ اندر آنے کی اجازت لے لیں۔ جنابِ میرؔ جب حسینوں کو جلی کٹی سنانے پر اُتر آئے تو ہاتھ نچا نچا کر فرمایا:
سوائے سنگ دلی اور کچھ ہنر بھی ہے؟
بتاں! دلوں میں تمھارے خدا کا ڈر بھی ہے؟
گویا بُتاں کے ہر ہنر کی نفی کی گئی، مگر سنگ دلی کا ہنر تسلیم کرلیا گیا۔آج کا شاعر ہوتا تو ’سوائے‘ کی جگہ ’علاوہ‘ کو پکڑ کر باندھ دیتا اور خوش ہوتا کہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ صاحبو! ’سوا‘حرفِ استثنا ہے اور ’علاوہ‘ حرفِ شمولیت‘ جو ‘Moreover’کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اقبالؔ نے بالِ جبریل کی ایک غزل میں ’سوا‘ کو ردیف کا حصہ بنایا ہے۔ پوری غزل پڑھ لیجیے، سوا کا مفہوم واضح ہوجائے گا۔ مطلع عرض ہے:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
اُردو بہتر کریں✍️
ضرورت نہیں ہے!
۱۔کان میں سرگوشی… جب سرگوشی کہا گیا تو ’’کان میں‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۲۔انڈے کی طرح بیضوی… جب بیضوی کہا جائے تو ’’انڈے کی طرح‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۳۔پھولوں کا گلدستہ…جب گلدستہ کہا جائے تو ’’پھولوں کا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۴۔آب زم زم کا پانی…جب آبِ زم زم کہا جائے تو ’’پانی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۵۔شب قدر کی رات…جب’’شب قدر‘‘ کہا جائے تو ’’رات‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۶۔'حجراسود کا پتھر…جب’’حجراسود‘‘ یا سنگ مرمر کہا جائے تو ’’پتھر‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۷۔ نوشتہ دیوار پر لکھا ہے…جب’’نَوِشْتَہ‘‘ کہا جائے تو ’’لکھا ہے‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔(نوشتہ کا درست تلفظ بروزن فرشتہ ہے)
۸۔ہونٹوں پر زیرلب مسکراہٹ… جب ’’زیرلب‘‘ کہا جائے تو ’’ہونٹوں پر‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۹۔گندے پانی کا جوہڑ…جب ’’جوہڑ‘‘ کہہ دیا تو ’’گندے پانی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۰۔پانی کا تالاب…تالاب میں خود آب موجود ہے۔ ’’پانی کا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۱۔صبح تا شام تک، دس تا بارہ سال تک!…جب ’’تا‘‘ کہا جائے تو ’’تک‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۲۔بہترین نعم البدل…جب ’’نعم البدل‘‘ کہہ دیا تو ’’بہترین‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۳۔نمک پاشی چھڑکنا…جب ’’نمک پاشی‘‘ کہہ دیا تو مزید نمک ’’چھڑکنے‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔
۱۴۔زیادہ بہترین…جب بہتر یا بہترین کہا جائے تو ’’زیادہ‘‘ یا’’بہت‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۵۔فی الحال ابھی میں نہیں آسکوں گا!…جب ’’فی الحال‘‘ کہہ دیا تو ’’ابھی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۶۔ناجائز تجاوزات…جب’’تجاوزات‘‘ کہہ دیا تو ’’ناجائز‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۷۔ایصال ثواب پہنچانا…جب ’’ایصال‘‘ کہہ دیا تو ’’پہنچانا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۸۔قابلِ گردن زَدنی…صرف ’’گردن زَدنی‘ ‘ کہنا کافی ہے، قابل کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۱۹۔ابھر کر سامنے آئے ہیں…جب ’’ابھر‘‘ ہی گئے ہیں تو ’’سامنے آنے‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔
۲۰۔تا ہنوز…جب ’’ہنوز‘‘ کہا جائے تو ’’تا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۲۱۔آنکھیں نمدیدہ ہوگئیں!…جب ’’نم دیدہ‘‘ کہا جائے تو ’’آنکھیں‘‘ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۲۲۔روز افزوں بڑھنا…جب ’’افزوں‘‘ کہا جائے تو ’’بڑھنا‘‘ کہنے کی کچھ ضرورت نہیں۔
۲۳۔نئی جدت…جب ’’جدت‘‘ کہا جائے تو ’’نئی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۲۲۔سوچی سمجھی سازش…جب ’’سازش‘‘ کہا جائے تو ’’سوچی سمجھی‘‘ کہنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
محفلِ ادب کے چائے خانے میں خوش آمدید جناب :)
آداب عرض ہے وارث میاں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(وفات: 26 دسمبر 1994ء)
آج صبح صبح پروین شاکر یاد آگیں

پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو پاتی ہے۔۔
شاعرہ پروین شاکر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے صوبہ بہار میں ہیرپا سرائی دربھنگہ کے نزدیک محلہ چندن پٹی تھا۔ ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے، اس نسبت سے پروین شاکر اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔۔
بیالیس برس کی عمر پائی جس میں ستائیس برس تک شاعری کی جبکہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔
شعروشاعری کا شوق پروین کو شروع سے ہی تھا۔ وہ جب کالج میں پڑھتی تھیں، تب سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا۔
خوب صورت لفظوں کا استعمال پروین شاکر کے کلام کا وصف رہا ہے۔ ان کی شاعری میں چند مخصوص الفاظ چاند، خوشبو، پھول ، رات، شہر، موسم اور خواب وغیرہ استعمال ہوئے۔۔۔
پروین شاکر کو زندگی سے پیار تھا۔ وہ زندگی کو سلیقے سے جینا چاہتی تھی مگر اس کے خواب چُور چُور ہو گئے۔ چنانچہ وہ اپنے خواب بکھرنے پر یوں کہتی ہیں : ؂
——
جس طرح خواب میرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کر بکھرے کوئی
اب تک کی تمام شاعرات میں سب سے بڑی شاعرہ پروین شاکر ہیں۔ اس لیے کہ کم عمری میں اتنی شہرت شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔
منقول ۔
ادارۂ فروغِ قومی زبان
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
آداب عرض ہے وارث میاں ۔۔۔۔
( وفات: 26 دسمبر
آج صبح صبح پروین شاکر یاد آگیں

پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو پاتی ہے۔۔
شاعرہ پروین شاکر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے صوبہ بہار میں ہیرپا سرائی دربھنگہ کے نزدیک محلہ چندن پٹی تھا۔ ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے، اس نسبت سے پروین شاکر اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔۔
بیالیس برس کی عمر پائی جس میں ستائیس برس تک شاعری کی جبکہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔
شعروشاعری کا شوق پروین کو شروع سے ہی تھا۔ وہ جب کالج میں پڑھتی تھیں، تب سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا۔
خوب صورت لفظوں کا استعمال پروین شاکر کے کلام کا وصف رہا ہے۔ ان کی شاعری میں چند مخصوص الفاظ چاند، خوشبو، پھول ، رات، شہر، موسم اور خواب وغیرہ استعمال ہوئے۔۔۔
پروین شاکر کو زندگی سے پیار تھا۔ وہ زندگی کو سلیقے سے جینا چاہتی تھی مگر اس کے خواب چُور چُور ہو گئے۔ چنانچہ وہ اپنے خواب بکھرنے پر یوں کہتی ہیں : ؂
——
جس طرح خواب میرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کر بکھرے کوئی
اب تک کی تمام شاعرات میں سب سے بڑی شاعرہ پروین شاکر ہیں۔ اس لیے کہ کم عمری میں اتنی شہرت شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔
منقول ۔
ادارۂ فروغِ قومی زبان
آپی !
پہلی سطر میں آداب کے بعد ایک وقفہ دیکر پھر پروین شاکر کی وفات سے بات شروع کریں ۔ ورنہ محمد وارث بھائی کے بارے میں جو تاثر اچانک پیدا ہوا۔ اس کو سوچ کر ہی دل حلق میں آگیا تھا۔ :thinking:
 

سیما علی

لائبریرین
آپی !
پہلی سطر میں آداب کے بعد ایک وقفہ دیکر پھر پروین شاکر کی وفات سے بات شروع کریں ۔ ورنہ محمد وارث بھائی کے بارے میں جو تاثر اچانک پیدا ہوا۔ اس کو سوچ کر ہی دل حلق میں آگیا تھا۔ :thinking:
آپی !
پہلی سطر میں آداب کے بعد ایک وقفہ دیکر پھر پروین شاکر کی وفات سے بات شروع کریں ۔ ورنہ محمد وارث بھائی کے بارے میں جو تاثر اچانک پیدا ہوا۔ اس کو سوچ کر ہی دل حلق میں آگیا تھا۔ :thinking:
فوری تدوین کردی ظفری شہزادے۔
سلامت رہیں ،شاد و آباد رہیں ،پروردگار ہمیشہ اپنی امان میں رکھے آمین ،وارث میاں کو اور اُن سے وابستہ لوگوں کو۔
 
Top