محفلین کے انٹرویو

آپ انتظار نہ کیجئے۔ شروع کر دیجئے :)
یہاں جس بحث کا آغاز ہوا ہے اس کے ضمن میں بس یہی عرض کروں گا کہ علامہ محمد اقبال نے زندگی کے امور اور زندگی کے ارتقا وغیرہ کے حوالے سے جو مباحث ہیں ان کے مکینکل ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اشیا و افعال کا مطالعہ کرنے کے لیے انھیں اجزا میں تقسیم کرتے ہیں لیکن ساری تقسیم کا کل ہمیشہ مختلف ہوتا ہے ۔ زندگی کسی مکینکل سسٹم کی پیداوار نہیں ورنہ اس سے کئی قسم کے مسائل جنم لیں گے مثلاً یہ کہ زندگی عقل کو ارتقاء کی پیداوار گردانا جائے گا (جو کہ حیاتیات والے لوگوں کے مطابق درست بھی ہے )
اس حوالے سے دوسری نہایت اہم بحث یہ ہے کہ زندگی کے عام طور پر تین مدارج ہیں جن کے تحت ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان میں فزکس، بائیولوجی اور سائیکالوجی ہے۔ اب اگر انسان کی ہی بات کی جائے تو اس میں یہ تینوں عوامل مسلسل رواں دواں نظر آتے ہیں ان میں الگ سے کچھ بھی نہیں لیکن انھی تینوں کے تحت جب ہم زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں الگ الگ زندگی کو دیکھنا پڑتا ہے ، ظاہر ہے اس صورت میں نتیجہ کبھی بھی درست نہیں نکلے گا، مثلاً مجھے بھوک لگتی ہے، مجھے سردی محسوس ہوتی ہے، میرے دل و دماغ میں سوالات جنم لیتے ہیں، میں محبت تلاشتا ہوں اور رحم و کرم سے قہر و غضب ایسی بہت سی کیفیات سے گزرتا ہوں ۔ یہ سب آپس میں مربوط ہیں ، ان میں الگ سے فزکس، بائیو یا نفسیات شامل نہیں، ان کا ربط اس قدر شدید ہے کہ ارتباط و انسلاک ہی ہے۔ الگ الگ ان عوامل کا مطالعہ کریں تو یہ تینوں علوم جو جدید علوم کے تاج ہیں، ان میں آپس میں جو بعد ہے وہ زندگی سے متعلق کوئی ایک درست نتیجہ مرتب نہیں کرنے دے گا۔ اسی ضمن میں انھوں نے معروف بائیولوجسٹ پروفیسر ہالڈین، ولڈن کار اور دیگر کئی کے حوالے پیش کیے ہیں۔ ہمارا ہر عضویہ نہ تو محض مکینکس ہے اور نہ ہی یہ مکینکس محض الگ الگ سے بائیو، فزکس اور نفسیات میں بٹی ہوئی ہے۔اور آسان کر لیں تو فزکس انسانی جسم میں محض حرکت اور انرجی کے بارے میں بتا سکتی ہے ، بائیو ہمارے آرگنز کی ساخت اور ان کے مسائل و حل کے بارے میں اور نفسیات ہمارے ارادی و غیر ارادی افعال کے بارے میں وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ان تینوں علوم کی بنیاد ہی زندگی کی مکینکس کو ثابت کرنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ مفروضوں تک ہی محدود ہے ۔
 

سین خے

محفلین
سین خے آپ سے انٹرویو کی اجازت مطلوب ہے۔

انٹرویو پینل کے لئے بھی رضاکاروں کی ضرورت ہے۔

عثمان

ضرور! میں آزاد امیدوار ہوں۔ اپنے سوالات لے کر آوٴں گا۔ پینل پارٹی سے میری نہیں بنتی۔

بڑی مہربانی بھائیو کہ اس قابل سمجھا لیکن دو ہفتے سے صحت کے کافی مسائل چل رہے ہیں اس لئے یہاں آنا جانا بھی آجکل کم ہی ہے :) ایک مراسلہ پوسٹ کرنے سے پہلے سو بار سوچتی ہوں کہ کرنا چاہئے یا نہیں کیونکہ ما شاء اللہ سے ایک مراسلہ پوسٹ کرنے کے بعد بات چیت جو شروع ہوتی ہے تو پھر ایک سے زائد مراسلے کرتے ہی جان چھوٹتی ہے :rolleyes:

اب انٹرویو کے لئے تو آنا ہی آنا پڑے گا تو اس لئے فی الحال میری طرف سے معذرت ہے :)

ویسے آپ لوگ محمد وارث بھائی کو کیوں نہیں فورس کرتے انٹرویو کے لئے۔ میں تو پہلے دن سے انتظار میں ہوں کہ ان کا نٹرویو کب ہوگا :)
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم خرم یاسین
محترم عبد القیوم چودھری
محترم محمد احمد
محترمہ ہادیہ
محترمہ لاریب مرزا
محترمہ La Alma
محترم اے خان
محترم عبد اللہ محمد
محترم خلیل الرحمن

آپ محترم صاحبان سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے
 
آخری تدوین:
محترم خرم یاسین
محترم عبد القیوم چودھری
محترم محمد احمد
محترمہ ہادیہ
محترمہ لاریب مرزا
محترمہ La Alma
محترم اے خان
محترم عبد اللہ
محترم خلیل الرحمن

آپ محترم صاحبان سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے
عبداللہ محمد بھائی کا نام مکمل لکھئیے تاکہ بچنے نہ پائیں!
 
مر
محترم خرم یاسین
محترم عبد القیوم چودھری
محترم محمد احمد
محترمہ ہادیہ
محترمہ لاریب مرزا
محترمہ La Alma
محترم اے خان
محترم عبد اللہ محمد
محترم خلیل الرحمن

آپ محترم صاحبان سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے
مریم بہنا اور عدنان بھائی بھی خواہشمند تھے میں نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی ہے۔ آپ ان سے رابطہ فرمالیں تاکہ ایک ہی پینل میں شریک رہیں۔
 
مر

مریم بہنا اور عدنان بھائی بھی خواہشمند تھے میں نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی ہے۔ آپ ان سے رابطہ فرمالیں تاکہ ایک ہی پینل میں شریک رہیں۔
خرم بھیا سعدیہ نے پوری انٹرویو ٹیم کی جانب سے ہی یہ مراسلہ لکھا ہے اور آپ آج تیار رہئیے ان شاء اللہ شام کو آپ کا انٹرویو شروع ہوگا. :)
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی کا انٹرویو لیا جائے، اس سے پہلے کہ پھر چھٹی پر چلے جائیں۔ :)
محترم بھائی میں تو ان میں سے ہوں جنہیں عرف عام میں گلاں دا گالڑ کہا جاتا ہے ۔
انٹرویو دینے کے لیئے تو ہمیشہ تیار رہتا ہوں ۔ کہ لفاظی کا اچھا موقع ملتا ہے ۔ واہ واہ ہوتی ہے ۔ کچھ کچھ ٹھگی لگ جاتی ہے ۔ نیٹ کی پابندی نے دور رکھا محفل سے ۔ اب جگہ بدل گئی ہے تو ان شاء اللہ موجود رہوں گا ۔ وقت ملا تو انٹرویو بھی دے لوں گا ۔ ابھی تو علم پا رہا ہوں ۔ مریم بٹیا عرفان سعید بھائی آواز دوست بھائی نے کیا خوب سادہ لفظوں میں گویا علم کے موتی لٹائے ہیں ۔ سدا سجی رہے اردو محفل آمین
بہت دعائیں
 

محمد وارث

لائبریرین
ضروری تو میٹرک اور اس سے اوپر والی کلاسز کے طلبا کے لیے قرار دوں گی تاہم پرائمری ایجوکیشن حاصل کر کے اس کے بعد بچے کو کوئی ہنر سکھانا یا اگر اس کے پاس کوئی ٹیلنٹ ہو تو اس کے حساب سے اسے کوئی معاشی کام لینا میرے نزدیک مستحسن ہے. تاہم ہمارے معاشرے کے لوگ اسے ظلم یا معاشرے کی روایات کے خلاف قرار دیں گے. بہر حال میں بہت سٹرانگلی ایگری کرتی ہوں اپنی اس تجویز سے اور بہت مشاہدے و تجربے کے بعد. :)
پرسنل ہونے کے لیے پیشگی معذرت لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ پاکستان کی وزیرِ تعلیم نہیں! :)

آپ تو تعلیم کے راستے سے پاکستان کو چائلڈ لیبر کی طرف لے کر جانے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ پرائمری کے بچے یعنی دس سے بارہ سال کے بچے سے کام کروانا چاہے وہ ٹیلنٹ اور ہنر کے نام پر ہی کیوں نہ ہو ظلم ہے!

آپ کا تجربہ اور مشاہدہ بھی اس سلسلے میں خام ہے۔ آج سے تین دہائیاں پہلے (یعنی آپ کی پیدائش سے بھی پہلے) سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا کام شروع ہوا تھا جو 1997ء میں اٹلانٹا ایگریمنٹ کے تحت قانونی ہو گیا اور اس میں فیفا، آئی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس شامل تھے۔ لوگوں کے لیے یہ بہت منافع بخش کام تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں میں فٹبال سینے پر لگا دیتے تھے جو کافی مہارت اور محنت طلب کام ہے اور ماں باپ اس سے پیسے کماتے تھے۔ آئی ایل او نے اس سلسلے میں فیکڑیوں کو بزورِ بازو بچوں سے کام لینے سے روکا، بچوں کے لیے ماڈل اسکول بنائے اور وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو کچھ رقم دینے کا بھی بندوبست کیا تا کہ لالچی اور ظالم ماں باپ کے منہ بھی بند ہوں۔ الحمد للہ سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کی عفریت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اب اگر کہیں ہے بھی تو گناہ کے طور پر چھپ چھپا کر۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ فیفا اور آئی ایل او نے اس کو رول ماڈل بنا دیا اور جالندھر، انڈیا کی فٹبال انڈسٹری کے مالکان اس کے مطالعے کے لیے سیالکوٹ آتے رہے۔

سیالکوٹ کی سرجیکل انڈسٹری میں ابھی بھی چائلڈ لیبر موجود ہے، چھوٹے چھوٹے بیچارے بچے، قینچیاں چاقو رگڑ رگڑ کر ہاتھ منہ کالے کیے ہوتے ہیں اور والدین کو یہ سیاہی نوٹوں کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جگہ جگہ ہمیں "ہنر" سیکھنے کے نام پر بچے "چھوٹوں" کے روپ میں کام کرتے نظر آتے ہیں، خدا ہر کسی کے بچے کو اس ظلم سے محفوظ رکھے!
 
پرسنل ہونے کے لیے پیشگی معذرت لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ پاکستان کی وزیرِ تعلیم نہیں! :)

آپ تو تعلیم کے راستے سے پاکستان کو چائلڈ لیبر کی طرف لے کر جانے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ پرائمری کے بچے یعنی دس سے بارہ سال کے بچے سے کام کروانا چاہے وہ ٹیلنٹ اور ہنر کے نام پر ہی کیوں نہ ہو ظلم ہے!

آپ کا تجربہ اور مشاہدہ بھی اس سلسلے میں خام ہے۔ آج سے تین دہائیاں پہلے (یعنی آپ کی پیدائش سے بھی پہلے) سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا کام شروع ہوا تھا جو 1997ء میں اٹلانٹا ایگریمنٹ کے تحت قانونی ہو گیا اور اس میں فیفا، آئی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس شامل تھے۔ لوگوں کے لیے یہ بہت منافع بخش کام تھا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں میں فٹبال سینے پر لگا دیتے تھے جو کافی مہارت اور محنت طلب کام ہے اور ماں باپ اس سے پیسے کماتے تھے۔ آئی ایل او نے اس سلسلے میں فیکڑیوں کو بزورِ بازو بچوں سے کام لینے سے روکا، بچوں کے لیے ماڈل اسکول بنائے اور وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو کچھ رقم دینے کا بھی بندوبست کیا تا کہ لالچی اور ظالم ماں باپ کے منہ بھی بند ہوں۔ الحمد للہ سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کی عفریت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اب اگر کہیں ہے بھی تو گناہ کے طور پر چھپ چھپا کر۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ فیفا اور آئی ایل او نے اس کو رول ماڈل بنا دیا اور جالندھر، انڈیا کی فٹبال انڈسٹری کے مالکان اس کے مطالعے کے لیے سیالکوٹ آتے رہے۔

سیالکوٹ کی سرجیکل انڈسٹری میں ابھی بھی چائلڈ لیبر موجود ہے، چھوٹے چھوٹے بیچارے بچے، قینچیاں چاقو رگڑ رگڑ کر ہاتھ منہ کالے کیے ہوتے ہیں اور والدین کو یہ سیاہی نوٹوں کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جگہ جگہ ہمیں "ہنر" سیکھنے کے نام پر بچے "چھوٹوں" کے روپ میں کام کرتے نظر آتے ہیں، خدا ہر کسی کے بچے کو اس ظلم سے محفوظ رکھے!
چائلڈ لیبر شاید ایک مختلف چیز ہے اور بچوں کے لیے ایسے مشغلے جو میری نظر میں ہیں اور چیز. میرا خیال ہے میں نے ایک یا دو گھنٹے کے کام کی بات کی تھی اور اس کی وجہ بھی محض یہ ہے کہ جن مڈل حصے کے بچوں کو میں جانتی ہوں ان کی تیزیاں آسمان کو چھوتی ہیں. ان تیزیوں کی کوئی سمت ہونی چاہئیے. (کام پر لگانا چاہئیے ان ٹَینوں کو) جس عمر میں روزے کی عادت ڈالے جانے کا کہا جا سکتا ہے اس عمر میں ایک گھنٹہ کوئی مشقت کے بغیر والا کام یا بہرحال جو بھی کام ہو اس کی عادت ڈالی جانی چاہئیے. میرے نزدیک ملک میں ویہلے لوگوں اور ہڈحرامی کا عنصر اس لیے زیادہ ہے کیونکہ اس بات پر فخر کیا جاتا ہے کہ ہماری نسلیں بیٹھ کر کھاتی ہیں اور ایک ایک بندہ آٹھ آٹھ کو کھلاتا ہے عمومی طور پر. میں نے ضروری صرف میٹرک کے بچوں کے لیے کہا تھا. میرا مشاہدہ یقینا خام ہے مگر کسی اور نے میری زندگی بھی تو نہیں گزاری. :)
 
Top