طارق شاہ
محفلین
غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا کوئی راستہ اُدھر بھی نہ تھا
گُلوں کو بھیجتے کس طرح نامۂ تعظیم
بجز ہَوائے خزاں کوئی نامہ بر بھی نہ تھا
زبان، سنگ کو ملتی تو بات تھی یارو!
صنم تراشنا ایسا بڑا ہنر بھی نہ تھا
لحاظِ خاطرِ گل بھی جنُوں کو تھا، اور پھر !
بیانِ سختیِ زنجِیر مختصر بھی نہ تھا
شبِ سیہ کو اُنِھیں کی ہے اب لگن محشرؔ
عجب چراغ تھے جن کو ہَوا کا ڈر بھی نہ تھا
محشرؔ بدایونی