محبوب خزاں اکیلی بستیاں بسانے والا اپنے عصر کا منفرد و بے مثل شاعر --- تبصرہ

مغزل

محفلین
محبوب خزاں اکیلی بستیاں بسانے والا اپنے عصر کا منفرد و بے مثل شاعر
محبوب خزاں رات کو گھر کیوں نہیں جاتے!

محبوب خزاں کااصل نام محمد محبوب صدیقی ہے۔موضع چندا دائر، ضلع بلیہ اترپر دیش،برصغیر میں محمد یوسف نامی ایک معزز ہستی کے گھرانے میں آپ یکم جولائی 1930 ءکو پیداہوئے تھے۔ان کی عمر بارہ برس تھی جب ان کے والد محمد یوسف صدیقی کا انتقال 1924ءمیں ہوگیا۔ان کے برادربزرگ محمد ایوب صدیقی نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی محبوب صاحب نے الہ آباد یونی ورسٹی سے 1948ءمیں گریجویشن کیا اور اس کے بعد پاکستان آگئے یہاں آکے انہوں نے سول سپیریر سروسز کا امتحان پاس کیا۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے 1957ءتک خدمات سرانجام دیں ۔1957ءمیں آپ ڈھاکا مشرقی پاکستان بھیج دیے گئے جہاں ڈپٹی اے جی پی آر کے عہدے پر فائز کیے گئے ۔1960ءمیں ڈھاکا سے واپس کراچی آگئے اور کچھ دنوں بعد آپ کو تہران کے سفارتی مشن پاکستان میں تعینات کیا گیا۔معروف شاعر نون،میم راشد،تہران میں یونیسکو کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے محبوب صاحب سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیںایران میں اجنبی راشد کی کتاب پر دونوں میں تبادلہ ِ خیال بھی ہوتا رہا۔ ایک برس بعد محبوب خزاںواپس کراچی آئے اور 1990ءمیں جب اے جی پی آر سے ریٹائر ہوئے تو یہاں محب عارفی، قمر جمیل،احمد ہمدانی وغیرہ کے ساتھ شعروادب کی محفلوں میں جاتے رہے۔1996۱ءمیں محبوب خزاں کو آخری بار ساقی فاروقی کی لندن سے کراچی آمد پر فاطمہ حسن کے ہاں گلشن اقبال کی تقریب اور مشاعرے میں دیکھا گیا جہاں سے واپسی پر ناروے میں مقیم جمشید مسرور، عزم بہزاد اور سیدا نور جاویدہاشمی کو فاطمہ حسن اور ان کے انجنیئر شوہر شوکت زیدی گھروں کو پہنچانے نکلے تھے۔کسی مشاعرے میں ایک نوآموز شاعر نے کوئی فقرہ ایسا کہہ دیا جو ان کو برا لگا اس کے بعد سے کسی محفل میں یا پبلک مقامات پر ان کو نہیں دیکھا گیا۔2000ءمیں اسلام آباد چلے گئے جہاں سے ان کی شاعری کا مجموعہ” اکیلی بستیاں “ شائع ہوا ۔اسی نام سے قمر جمیل کی خواب نما اور محب عارفی کی گل آگہی بعد میں ” چھلنی کی پیاس ۔دو حصے کے ساتھ تین کتابیں “میں اکیلی بستیاں بھی شامل تھی جسے جون 1963ءمیں مکتبہِ آسی جوہرآباد کراچی سے شائع کیا گیا تھا ہمارے سامنے اس وقت یہی کتاب موجو د ہے جس میں سے ہم یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ ایک مختصر سا مجموعہ اپنے معیار و انتخاب و انفرادیت میں ہزاروں صفحات کی کلیات پر بھاری ہے۔مغربی علوم اور ادبیات عالم پر گہری نظر رکھنے والے محبوب خزاں کی شاعری میں جدیدیت کو مشرقی روایات اور کلاسیکی شاعری کے دوش بدوش واضح طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے سادہ بیانی، عام مروجہ الفاظ کو ایک مخصوص موسیقیت کے ساتھ ایسے برتا گیا ہے کہ جو نہ صرف دل پر راست اثر انداز ہوتا ہے بلکی بحروں کے انتخاب میں ان کے آہنگ کی ترتیب بھی متاثر کرتی ہے۔گفتگو کا بیساختہ پن، جذبات کی ایک جمالیاتی تہذیب محبوب خزان کی غزلوں کی انفرادیت میں بیش بہا اضافے کا باعث بنی۔۔جو باطنی جمال اس شاعری میں زیریں طور پر موجود ہے وہ پڑھنے، سننے والوں پر رفتہ رفتہ کھلتا چلا جاتا ہے۔گام بہ گام حیرت سے دوچار ہوتے ہم اس طلسم کدہِ شاعری میں داخل ہوتے ہیں اور برملا شاعر کو داد اور دعاؤں کا نذرانہ پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے محبوب خزاں کا نام مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ کی ایک کتاب میں پہلی بار پڑھا تھا۔ یہ تین شاعروں کا مشترکہ ایک مجموعہ کلام تھا جس میں ایک محبوب خزاں تھے، اب اس مجموعے کا نام یاد نہیں رہا اور نہ ان کے باقی دو ساتھیوں کے نام ہی یاد رہے۔ محمود ذرا پتہ کرو۔ کیا یہی قمر جمیل اور محب عارفی کے ساتھ تھا۔۔ تمہاری بات واضح نہیں ہوئی اس سلسلے میں۔
 

مغزل

محفلین
جی ہاں بابا جانی ’’ اکیلی بستیاں ‘‘ میں محب عارفی، قمر جمیل اور محبوب خزاں‌کا کلام شامل ہے کہ 1963 کی بات ہے ۔ بعد میں دوبارہ بھی اسے یکجا کیا گیا مگر میرے مطالعے میں نہیں۔
 
Top