محبت کے موضوع پر اشعار!

حجاب

محفلین
زندگی چاہئیے محبت میں
یہ گھڑی دو گھڑی کی بات نہیں
آپ سے کوئی بھی نہیں پہلے
آپ کے بعد کوئی ذات نہیں۔
 

پاکستانی

محفلین
محبت میں اُف کیا سے کیا ہو گئے ہم
خود اپنے سے جیسے جدا ہو گئے ہم

دمِ نزع بالیں پہ آنے کا حاصل
چلو اب ہٹو بھی ، خفا ہو گئے ہم

گراں ہے نزاکت پہ لفظِ تمنا
دھڑکتے دلوں کی صدا ہو گئے ہم

دمِ نزع بھی عشق رُسوا ہے توبہ
یہ لیجئے اب ان پہ فدا ہو گئے ہم

ارے جُرمِ اُلفت نے کیا کر دکھایا
خود اپنے کئے کی سزا ہو گئے ہم

اشاروں پہ چلنے لگے کسی اور کے
بڑے ہی نظر آشنا ہو گئے ہم

کہیں کیا بس اب آپ خود ہی سمجھ لیں
سراپا یہ لو التجا ہو گئے ہم

اثر ہے فُغاں میں نہ تاثیرِ غم میں
خود اپنے لئے بدعا ہو گئے ہم

بڑھی ہے غمِ ہجر سے اور چاہت
زمانہ یہ سمجھا جُدا ہو گئے ہم

وفاؤں کے بدلے جفا کرنے والے
ارے بے وفا باوفا ہو گئے ہم

نگاہِ محبت یہ کہتی ہے مخفی
سزا دیجئے پُر خطا ہو گئے ہم​
 

پاکستانی

محفلین
محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کے آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی جگمگاتی مسکراتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے
کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اترتی ہیں کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے کچھ اسطرح جگمگاتے ہیں
کے پہچانی نہیں جاتی دلِ بیتاب کی صورت
محبت کے شجر پر خواب کے پنچھی اترتےہیں تو شاخیں جاگ اٹھتی ہیں
تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
تو کب کی منتظر آنکھوں میں
شمعیںجاگ اٹھتی ہیں
محبت ان میں جلتی چراغ آب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت درد کی صورت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہیں
شبانِ ہجر میں روشن ستارہ بن کے رہتی ہیں
منڈیروں پر چراغوں کی لویں جب تھرتھراتی ہیں
نگر میں ناامیدی کی ہوائیں سنسناتی ہیں
گلی میں جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں ہوتا
دکھی دل کے لیے جب کوئی بھی دھوکا نہیں ہوتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوتنے لگتے ہیں شانے تو
یہ ان پہ ہاتھ رکھتی ہیں
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جا تی ہیں جب سارے قافلے دل کی بستی سے
فصا میں تیرتی ہیں یہ دیر تک
یہ گرد کی صورت
محبت درد کی صورت​
 

حجاب

محفلین
کوچہ و در کے سفر میں راحت نہیں رہی
اب اسکے شہر سے بھی عقیدت نہیں رہی
بس یونہی اس کے ذکر نے افسردہ کر دیا
یہ بھی نہیں کہ اس سے محبت نہیں رہی ۔
 

عمر سیف

محفلین
محبت مٹ نہیں سکتی مٹانے سے
یہ اپنی چھب دکھاتی ہے بہانے سے
بھڑکتی آگ تو پانی بجھا دے گا
دھواں چھپتا نہیں ہرگز چھپانے سے
( فاخرہ بتول )
 

حجاب

محفلین
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
ہاں !
جب کبھی پھولوں کو پیار کروں
چاند کا انتظار کروں
ہوا کے ساتھ چلوں
پانی سے بات کروں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
ہاں !
جب کبھی تنہا اداس بیٹھا ہوں
خیالوں کی اوڑھے ہوئے آس بیٹھا ہوں
تمہیں خبر تک نہ ہو
تمہاری ہر ایک بات جان بیٹھا ہوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
اپنی ہر عادت میں بدل ڈالوں
تمہارے لئے اپنی شہرت قتل کر ڈالوں
ہر شئے کو بُھلا دوں میں
جب تمہیں سامنے بٹھا لوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
ساحل کی دہلیز پر
ہوا کی ہر لکیر پر
کچھ لکھ کر مٹا دوں
تم سے خود کو چھپا دوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
کبھی ہنس کے بولوں
سبھی دکھ بھلا دوں
کبھی یونہی بیٹھے بیٹھے
خود کو سزا دوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
کبھی راہ میں ملو تو
ایک جھلک دیکھ کر
گردن جھکا دوں
نفی میں سر کو ہلا دوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
کبھی ہنستے ہنستے آنسو بہا دوں
کبھی روتے روتے تم کو دعا دوں
پھر اپنی باقی راتیں
سجدوں میں بِتا دوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
دنیا کی ہر نظر پہ میں چونکوں
پر تمہیں ہر پل بے فکر دیکھوں
تمہیں کرکے آباد سارے دُکھ میں جھیلوں
تمہارے لئے ہر مصیبت کو سہہ لوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
لو وقتِ نز ع آ ہی چلا ہے
لحد میں اُترنے کو کچھ سمے بچا ہے
اس لمحے تم کو میں کیا دوں
جب اپنی نیکیاں تم کو بخشوا دوں
تو جان لینا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کہوں کیسے ؟
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب حجاب۔

اک حرف تسلی کا اک لفظ محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو رویا بہت
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو رویا بہت
 

تیشہ

محفلین
ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا
اے محبت میں کبھی یکجا بھی تھا

مجھ میں اک موسم کبھی ایسا بھی تھا
ایسا موسم جس میں تو مہکا بھی تھا ۔
 
Top