محبت کے موضوع پر اشعار!

عمر سیف

محفلین
تمہارا نام میں لکھتا ہوں کاغذ پر
دیکھتا ہوں ، سوچتا ہوں
وہ کاغذ پھاڑ دیتا ہوں
پھر اُن کاغذ کے ٹُکڑوں کو
مُٹّھی میں بھینچتا ہوں
پھینک دیتا ہوں
وہیں پر بیٹھ کر لڑتا ہوں خود سے
وہی کاغذ اُٹھاتا ہوں
آنکھوں سے لگاتا ہوں
پھر اپنے پاس رکھے پانی کے پیالے میں
وہ کاغذ ڈال دیتا ہوں
میں تُم کو سوچتا ہوں
پھر اُس پانی کو
تعویذِ محبت جان کر پی لیتا ہوں
 

پاکستانی

محفلین
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں

سوچتا ہوں کے محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم

سوچتا ہوں کے محبّت ہے سرور و مستی
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کے محبّت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبّت سے ہے تابندہ حیات
اب یہ شمع بُجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کے محبّت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدّن میں مسرّت پر کڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کے محبّت ہے ایک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کے بشر اور محبّت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدّن میں ہے اک کارِ زموں

سوچتا ہوں کے محبّت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہءِ اُلفت ہوکر
اپنے سینوں میں کروں جذبہِ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں



ساحر لدھیانوی
 

عمر سیف

محفلین
نہ محبتوں کا حساب تھا ، نہ عداوتوں کا شمار تھا
کبھی ذات اُسکی عذاب تھی کبھی روح کا قرار تھا
تُو بھی دُور ہے میں بھی دُور ہوں کیوں الگ ہوئے راستے
میری چاہتوں کا گریز تھا ، یا تیری اَنا کا حصار تھا
 

پاکستانی

محفلین
يہ ممکن ہے ہمارے درمياں کوئی
غلط فہمی بھي نہ رہتی
جو اپنے دل ميں چھوٹی سی
خلش ہے ختم ہو جاتی
بتا ديتا کہ مجھ کو آج بھی اس کي ضرورت ہے
جو اس جيون کا حاصل ہے تو بس اس کی محبت ہے
بتا ديتا کہ لوگوں کي سبھی باتيں فسانے ہيں
سبھی قصے پرانے ہيں
ميں کہہ ديتا ذرا سي بات پر يوں روٹھنا اچھا نہيں ہوتا
محبت کرنے والوں ميں
غلط فہمی تو ہو سکتی ہے پر جھگڑا نہيں ہوتا
ميں ہر اک بات کہہ ديتا
خلش بھي دور ہو جاتی
ميں اس کا ہاتھ پکڑے يوں ہی اس کا ہم قدم رہتا
وہ آگے ہاتھ تو کرتا
وہ مجھ سے بات تو کرتا
 

پاکستانی

محفلین
سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اُس نے دیکھا نہیں دُنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا
 

پاکستانی

محفلین
میں نے ایک دن ایسے ہی اُس سے کہا
دیکھو ! ۔۔۔
محبت اور دوستی میں فرق ہوتا ہے
یہ جو محبت ہوتی ہے نا ۔۔۔
اس کی حدیں ہوتیں ہیں
کبھی مل جاتی ہے
کبھی ملتی بھی نہیں
اس کا سلسلہ کسی بھی منزل پر آکر ختم ہوسکتا ہے
مگر ۔۔۔۔
دوستی کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ رہتا ہے
زمانے کے نشب و فراز سے گذرتےہوئے
کھبی نرم ، کبھی گرم ، کبھی سرد تو کبھی
برسات کے موسم کی طرح
تمام رشتوں پر برستا ہوا
ہر حال میں قائم ہی رہتا ہے
میری بات سُن کر اُس نے میری جانب
بھیگی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور کہا
مجھے یوں راستے میں نہیں کھونا ۔۔۔ا
مجھے تُم سے جدا نہیں ہونا
مجھے تمہاری دوستی ہی عزیز ہے
 

سارہ خان

محفلین
ہم نے پڑھے ہیں اتنے محبت کے فسانے
لگتا ہے ہر کتاب کی ہے جان محبت

پانی پہ بہی‘ ریت پہ تڑپی‘ چنی گئی
بنتی گئی ہے دکھ کا بھی عنوان محبت۔۔
 

نوید ملک

محفلین
ہم اہلِ محبت پالیں گے اپنے ہی سہارے منزل کو
یارانِ سیاست نے ہر سو پھیلائے ہیں رنگیں جال تو کیا
 

سارہ خان

محفلین
یقین رکھتا نہیں ہوں میں کسی کچے تعلق پر
جو دھاگہ ٹوٹنے والا ھو اس کو توڑ دیتا ھوں
محبت ہو یا نفرت ہو بھرا رہتا ھوں شدت سے
جدھر سے آئے یہ دریا اُدھر ھی موڑ دیتا ھوں
 

عمر سیف

محفلین
کبھی ویران رستوں پر
کوئی انجان سی دستک
اگر تم کو سنائی دے
صدا کی شکل میں آکر کہے
محبت نام ہے میرا
پلٹ کر دیکھنا مت تم
کہ اس کارِ محبت میں
اذیت ہی اذیت ہے
 

عمر سیف

محفلین
سر جھکائو گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اُسے وہ بے وفا ہو جائے گا
روٹھ جانا تو محبت کی علامت ہے مگر
کیا خبر تھی ہم سے وہ اتنا خفا ہو جائے گا
 
Top