"مجید لاہوری" کے "نمکدان" سے کچھ نمک

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب - والد صاحب بتاتے ہیں کہ ہمارے گھر میں بھی نمکدان باقاعدگی سے آتا تھا - لیکن شائد میرے بچپن سے پہلے کی بات ہے کیونکہ مجھے یاد نہیں -

بہت شکریہ مسٹر گرزلی آپ نے اچھا واقعہ پوسٹ کیا - مجید لاہوری واقعی کافی بھاری تن و توش کے انسان تھے اور شاعر کم اور پہلوان زیادہ نظر آتے تھے -
 

فرخ منظور

لائبریرین
ملتی ہے نظر اوّل اٹھتے ہیں حجاب آخر
ہوتا ہے محبت میں یوں خانہ خراب آخر

کیا اس کے تصور میں حوروں کی جوانی ہے؟
واعظ نے لگایا کیوں داڑھی میں خضاب آخر

آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
طاؤس و رباب اوّل ، طاؤس و رباب آخر

اِک خط جو کبھی میں نے بیرنگ انہیں بھیجا
بیرنگ ہی آیا ہے اس خط کا جواب آخر

زاہد کو سکھا دیجئے آداب یہ مجلس کے
پیتے ہیں شراب اوّل، کھاتے ہیں کباب آخر

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں، مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
کیا اس سے بھی بڑھ کر ہے، دوزخ کا عذاب آخر

تو شوق سے بھر جیبیں لیکن نہ بھُلا اس کو
دینا نہ پڑے تجھ کو رشوت کا حساب آخر

اک میں ہی تو محفل میں تھا اُن کا تمنّائی
مجھ پر ہے مجید ان کا کیوں آج عتاب آخر
 

فرخ منظور

لائبریرین
نئی الجھن میں الجھایا گیا ہوں
میں بنگلہ دے کے بنگلایا گیا ہوں

ہر اِک موقع پہ ٹرخایا گیا ہوں
حسیں وعدوں سے بہلایا گیا ہوں

کبھی بنگلوں میں بلوایا گیا ہوں
کبھی فٹ پاتھ پر پایا گیا ہوں

اِدھر کرسی پہ بٹھلایا گیا ہوں
اُدھر محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

وہ گلیاں اب بھی شاداب و جواں ہیں
جہاں میں بارہا آیا گیا ہوں

بناتے تھے مجھے کب لوگ “ممبر“
میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

مجید اہلِ جہاں کب جانتے تھے
بڑی مشکل سے جنوایا گیا ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم کیا کہیں کہ دیکھا کیا کیا تری گلی میں
موٹر تری گلی میں، رکشا تری گلی میں

جس طرح آسماں سے اِک پیرا شوٹ اترے
ایسا بھی ایک منظر دیکھا تری گلی میں

ڈاں ڈاں ڈڈاں ڈاں ڈاں ڈاں، ڈاں ڈاں ڈڈاں ڈاں ڈاں
یوں گا رہا تھا کوئی لونڈا تری گلی میں

افسر بنے ہوئے ہیں، لیڈر بنے ہوئے ہیں
جو کھیلتے تھے “گلّی - ڈنڈا“ تری گلی میں

تو نے تو کر لیا ہے دو بلڈنگوں پہ قبضہ
ہم کو نہ مِل سکی اِک کُٹیا تری گلی میں

کُشتوں کے آج پُشتے ہر سُو لگے ہوئے ہیں
فٹ پاتھ کا ہے نقشہ گویا تری گلی میں

بس یہ مجید ہے وہ، آوارگی میں اِک دن
چالان ہو گیا تھا جس کا تری گلی میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ترا علاج ڈنر کے سوا کچھ اور نہیں
حیات “کیک و بٹر“ کے سوا کچھ اور نہیں

بہت مفید رہے گی ہوا “کلفٹن“ کی
یہ روگ “دردِ جگر“ کے سوا کچھ اور نہیں

“قرار دادِ مقاصد“ کی دور منزل ہے
جہان سیر و سفر کے سوا کچھ اور نہیں

بشر وہی ہے کہ جس میں ہو شر کی آمیزش
یہ “مشتِ خاک“ بشر کے سوا کچھ اور نہیں

ہے “طوقِ زرّیں“ جو در “گردنِ خرِ عیسٰی“
ہنوز “خَر“ ہے یہ خَر کے سوا کچھ اور نہیں

نہیں ہے جس کی کوئی قدر اب زمانے میں
وہ چیز علم و ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

ہیں باریاب “بڑے لوگ“ تیری محفل میں
مجید “زید و بکر“ کے سِوا کچھ اور نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
کبھی کرسی سے اٹھوایا گیا ہوں
کبھی کرسی پہ بٹھلایا گیا ہوں

کہیں بنگلے میں بنگلایا گیا ہوں
کبھی فٹ پاتھ پر پایا گیا ہوں

ترا “بیرہ“ بھی مجھ کو جانتا ہے
تری کوٹھی پہ میں آیا گیا ہوں

وزارت کو تھی خود میری ضرورت
میں “ٹنڈو جام“ سے لایا گیا ہوں

الجھنا غیر سے تھا سخت مشکل
میں اپنوں ہی سے لڑوایا گیا ہوں

میں سمجھا تھا کہ زلفوں میں پھنسا ہوں
مگر مونچھوں میں الجھایا گیا ہوں

مجید ان سے نہیں ہوتا تصادم
کلفٹن پر بہت آیا گیا ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ دوا دیتے ہیں کوئی نہ دعا دیتے ہیں
اپنے بیمار کو بس پان کھلا دیتے ہیں

دل سی شے لے کے پلا دیتے ہیں لیمن کا گلاس
سخت حیرت ہے کہ کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں

لُوٹتے رہتے ہیں جنّت کی بہاروں کے مزے
ہم کو بس خلد کی تصویر دکھا دیتے ہیں

یہ تو سچ ہے کہ انہیں حُسن خدا دیتا ہے
چاہنے والے مگر ناز سکھا دیتے ہیں

“پے کمیشن“ جسے کہتے ہیں “پیا کمسِن“ ہے
مرنے والے اسے جینے کی دعا دیتے ہیں

میں سمجھتا ہوں ابھی تک ہیں مرے دل کے قریب
دُور سے جو رُخِ پرنور دکھا دیتے ہیں

حالِ دل کہتا ہوں اُن سے تو وہ کہتے ہیں مجید
آپ جب آتے ہیں اشعار سنا دیتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہلاکت خیزیوں کی مہمانی ہے جہاں میں ہوں
نہ ابّا ہے، نہ باوا ہے نہ نانی ہے، جہاں میں ہوں

بس اِک شے موت ہے جو خیر سے ملتی ہے بے راشن
وگرنہ ساری چیزوں کی گرانی ہے، جہاں میں ہوں

جہاں میں ہوں وہاں ہے ناریل کا تیل خالص گھی
ہے دودھ اِک سیر اور دو سیر پانی ہے جہاں میں ہوں

یہ آنے کے پکوڑے، گڑ کا شربت، تیل کا حلوہ
یہ ساماں حاصلِ دنیائے فانی ہے جہاں میں ہوں

ابھی تک پگڑیوں میں ہے شکوہِ تاجِ سلطانی
ابھی تک رشوتوں کی چکرمانی ہے جہاں میں ہوں

ابھی ہیں چور بازاری کی سینہ زوریاں باقی
غریبوں مفلسوں کا خون پانی ہے جہاں میں ہوں
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے جناب۔۔۔ بہت شکریہ پیش کرنے کیلئے،۔

ایک شعر میں بھی پیش کردوں :

ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میر ہوئے
سندھ میں سب پناہ گیر ہوئے
مجید لاہوری
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم جو فٹ پاتھ پہ دوکان لئے بیٹھے ہیں
آپ کی دید کا ارمان لئے بیٹھے ہیں

مِل بھی ہے، کار بھی ہے بنگلہ و جاگیر بھی ہے
وہ سبھی عیش کے سامان لئے بیٹھے ہیں

ہم تہی دست و سیہ بخت اسی میں خوش ہیں
کہ فقط دولتِ ایمان لئے بیٹھے ہیں

سچ تو ہے، ہم تو جفا کے بھی سزاوار نہیں
“پے کمیشن“ ترا احسان لئے بیٹھے ہیں

وہ تو مصروفِ نمائش ہیں گلستاں بکنار
اور ہم چاکِ گریبان لئے بیٹھے ہیں

کبھی قرآں کی تلاوت سے شغف تھا ہم کو
اِن دنوں “داغ“ کا دیوان لئے بیٹھے ہیں

میں اِدھر پڑھتا ہوں رکشا میں “نمکدانד مجید
اور اُدھر کار میں وہ “ڈانד لئے بیٹھے ہیں

× نمکدان = ماہنامہ نمکدان جس کے ایڈیٹر مجید لاہوری خود تھے
× ڈان = مشہور انگریزی روزنامہ اخبار
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں
وہ کبھّے ہتھ سے میرے کول گذرے کار کے وچ میں

اکیلے تو نہیں ملتے جدوں بھی اب وہ ملتے ہیں
کبھی چھ سات کے وچ میں کبھی دوچار کے وچ میں

میں بولا، بادشاہو! میری اِک چھوٹی سی گَل سُن لو
وہ بولے، چھڈو جی! کیا گل سنیں بازار کے وچ میں

لبوں کے وِچ لئے پھرتا ہے تُو گُل قند او ظالم
مِلا گل قند تھوڑی شربتِ دیدار کے وچ میں

کبھی مینوں بھی لے چل ظالماں تُو وچ کلفٹن کے
کدوں تک میں رہوں گا “گولی مار“ کے وچ میں

سویرے اُٹھ کے منگھے پیر کے وچ ایہہ دعا مانگی
خدا مجھ کو بھی پہنچا دے تِرے دربار کے وچ میں

وہ میری “ہیر“ ہے اور میں ہوں “رانجھے خاں“ مجید اُس کا
ہمارا ذکر ہے ہر کوچہ و بازار کے وچ میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
وفاؤں کے بدلے جفا کر ریائے
میں کیا کر ریاؤں تو کیا کر ریائے

میں جو کر ریاؤں بھلا کر ریاؤں
تو جو کر ریائے برا کر ریائے

ابے توڑتا کیوں تُو وِس کے دل کو
جو دل اپنا تجھ پر فدا کر ریائے

سنبھل کر قدم وِس کے کوچے میں رکھیو
سنا ہے وہ فتنے بپا کر ریائے

عُدو سے بھی وعدے مجھے بھی دلاسے
میں حِریان ہوں تُو یہ کیا کر ریائے

کیا ہے عطا دردِ دل جس نے مجھ کو
وہی دردِ دل کی دوا کر ریائے

مجید آج بھی شاد و آباد ہوں میں
کرم مجھ پہ میرا خدا کر ریائے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سندھ میں سب پناہ گیر ہوئے

دل کی بربادیوں میں کیا شک ہے
جب رقیب آپ کے مشیر ہوئے

ہم نے “بی اے“ کیا کلرک بنے
جو مڈل پاس تھے وزیر ہوئے

جن پہ تیری نگاہِ لطف ہوئی
دیکھتے دیکھتے سفیر ہوئے

ہم تو مسجد میں پڑھ رہے تھے نماز
شیخ جوتا اٹھا کے تیر ہوئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
مرمریں شانے پہ کالے گیسوؤں کو ڈال کر

مرمریں شانے پہ کالے گیسوؤں کو ڈال کر
درد مندوں کے دلوں کو شوق سے پامال کر

اِک نگاہِ ناز کافی ہے تباہی کے لئے
تُو خدا کو مان “ایٹم بم“ نہ استعمال کر

بھول جا ماضی کی آنکھیں بند کرکے حال سے
کہہ کے زندہ باد مستقبل کا استقبال کر

اے کہ تجھ سے ہیں کلفٹن کی فضائیں جلوہ ریز
ہم غریبوں کو ذرا فٹ پاتھ پر خوشحال کر

دیکھنا ہے “لگژری“ کے “بیچ“ وہ کب تک رہیں
جنّت فردا کے افسانوں پہ ہم کو ٹال کر

ہند “جاتی“ کو تو پاکستان مسلم کو ملا
“خالصہ جی“ اب تُو بیٹھا ست سری اکال کر

ہاں نہیں اس کے سوا کچھ شاعری میری مجید
پیش کرتا ہوں حقائق شاعری میں ڈھال کر
 

سارہ خان

محفلین
زبردست سخنور ۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں سب غزلیں ۔۔ آپ نے تو لگتا ہت پوری کتاب ہی لکھ دی ہے ۔۔ اس کو تو لائبریری میں ہونا چاہیئے ۔۔ بہت اچھی شیئرنگ ہے ۔۔۔:)
 

محمدصابر

محفلین
چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہئے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہئے

از کلفٹن تابہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تابہ گولی مار آٹا چاہئے

مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہوجائے گا
ہم غریبوں تو تو اے سرکار، آٹا چاہئے

ہم نے پاؤڈر کا تقاضا سن کے بیگم سے کہا
کیا کرو گی غازہء رخسار، آٹا چاہئے

غم تری خوراک ہے غم کی ضرورت ہے تجھے
مجھ کو لیکن اے دلِ نادار، آٹا چاہئے

بوسہء لب پر ہمیں ٹرخا دیا سرکار نے
بوسہ، عاشق کو نہیں درکار، آٹا چاہئے

فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
کہہ رہے ہیں رو کے سب غمخوار آٹا چاہئے

ان کے پاس ٹائم مشین بھی تھی کیا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
قضا سے کم نہ تھیں پہلے ستم آرائیاں اُن کی
قیامت ڈھا رہی ہیں اب سول سپلائیاں ان کی

وفا کی رشوتیں دے کر لیا پرمٹ محبت کا
ہوئی ہیں خیر سے ہم پر کرم فرمائیاں اُن کی

شبِ فرقت بقدرِ ذوق، غم کھانا بھی مشکل ہے
یہ راشن کارڈ ہیں یارب ، یا حشر آرائیاں ان کی

نہیں ہیں عشق کی رسوائیوں سے کم کسی صورت
ہوئی ہیں چور بازاروں میں جو رسوائیاں اُن کی

یقیں ہے مجھ کو، اک دن ان کی ککڑوں کوں بھی بولے گی
ہوا کیا بج رہی ہیں آج گر شہنائیاں اُن کی

انہیں معلوم ہو جائے گا بھاؤ دال آٹے کا
متاعِ حسن پر نازاں ہیں کیوں رعنائیاں ان کی

مرتب کیا فسانہ کر ہی ہیں اے مجید آخر
سخن آرائیاں میری، ستم آرائیاں اُن کی

(مجید لاہوری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ سوچتے تھے وزیر بن کر جہاں میں ہم بھی مزا کریں گے
مگر "پروڈا" یہ کہہ رہا تھا چھِنی وزارت تو کیا کریں گے؟

جنابِ واعظ کو حور جنت میں گر ملے گی تو کیا کریں گے
وہ ان کے حق میں دعا کرے گی یہ اس کے حق میں دعا کریں گے

بڑے مزے کی یہ ہے سیاست، یہ کہہ کے پھینکا ہے اس نے دانہ
یہ مرغ یونہی لڑا کئے ہیں، یہ مرغ یونہی لڑا کریں گے

ابھی تو نامِ خدا جوانی، کہ دل میں ہے آرزو بتوں کی
یہاں سے فرصت اگر ملے گی تو ہم بھی یادِ خدا کریں گے

فراقِ جاناں میں ہم نے خونِ جگر تو اب تک بہت پیا ہے
فراقِ جاناں میں اب ارادہ یہ ہے کہ "وہسکی" پیا کریں گے

ہے اس میں رسوائیوں کا خدشہ نہ اب "کلفٹن" میں آنا جانا
ہر ایک سنڈے کو اے مری جان! "ہاکس بے" پر ملا کریں گے

مجید اب سوچتا ہے کیا تُو کرا بھی لے زندگی کا بیمہ
روش روش پر قدم قدم پر یہ فتنے یونہی اُٹھا کریں گے
 
Top