"مجید لاہوری" کے "نمکدان" سے کچھ نمک

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی فراڈ ہے، فراڈ سے نبھائے جا
چل رہی ہے چار سو بیس تو چلائے جا

غم نہ کر الم نہ کر، فکرِ بیش و کم نہ کر
چندہ جس قدر بھی قوم دے رہی ہے، کھائے جا

لاکھ آندھیاں چلیں، لاکھ بجلیاں گریں
بے بسی کو یورشوں میں اپنی "بس" چلائے جا

اعتمار قوم کا تجھ پہ گر نہیں تو کیا؟
"نوکروں" پہ لیڈری کا رعب تو جمائے جا

ان کو تو دبائے جا تجھ سے جو غریب ہیں
اور بڑے جو تجھ سے ہیں ان کو "بٹر" لگائے جا

افسروں کے سامنے سر جھکا سلام کر
پارٹی ہو گر کوئی اس میں بِن بلائے جا

حادثاتِ زیست کا اے مجید! غم نہ کر
حادثاتِ زیست پر خوب مسکرائے جا
 

فرخ منظور

لائبریرین
مل گئے ہیں مجھ کو اب دو چار حامی لیگ میں
ہو گئی ہے دور جو پہلے تھی خامی لیگ میں

قاضیِ عیسیٰ تو ہمارا مفت میں بدنام ہے
آ گئے ہیں اور بھی نامی گرامی لیگ میں

میری شہرت کو لگیں گے اور بھی اب چار چاند
اس سے پہلے بھی تھی باقی نیک نامی لیگ میں

کس طرح تجھ سے ہو میری جان ملنے کی سبیل؟
میں ہوں مسلم لیگ میں اور تُو عوامی لیگ میں

معتقد تیرا ہوں میں بھی اے چچا "شمس الحسن"
میرے حامی بھی ہیں سارے تیرے حامی لیگ میں

"ٹیم ورک" اس میں کریں گے جمع ہو کر سب رقیب
غیر ممکن ہے کہ ہو بد انتظامی لیگ میں

خاص لوگوں کا ٹھکانہ کب رہے گا اے مجید
ہو گئے شامل اگر مجھ ایسے عامی لیگ میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
تہذیب یافتہ کتّا

ہے یہ تہذیب یافتہ کتّا!
دیکھ کر سوٹ دم ہلاتا ہے
اور جو کوئی فقیر آ جائے
دوڑ کر اس کو کاٹ کھاتا ہے
یہ ہے تہذیب یافتہ کتّا
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ میری مے کشی پر ان دنوں ہیں طعنہ زن ساقی
چرا کر بیچ دیتے ہیں جو مُردوں کا کفن ساقی

جنابِ شیخ کی داڑھی بھی جا الجھی ہے زلفوں میں
بہت پُر فن ہیں لندن کے بتانِ سیم تن ساقی

جوانی تو ہے دیوانی، مگر اس پر تعجب ہے
بزرگوں میں نہیں ہے وہ بزرگوں کا چلن ساقی

غضب ہے، آج یہ کھٹمل انہی کا خون پیتے ہیں
جنہوں نے خون سے سینچا تھا یہ سارا چمن ساقی

جہالت شوق سے چڑھ چڑھ کے بیٹھے مل کی چمنی پر
مگر فٹ پاتھ پر ٹھیلہ لگائیں علم و فن ساقی


مجید اب شعر تو کہتا ہے لیکن فائدہ کیا ہے
نہ وہ اہلِ سخن باقی نہ وہ بزمِ سخن ساقی

(مجید لاہوری)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
زر دے کے انجمن کی صدارت خرید لی
پگڑی جو دی تو شہرت و عزت خرید لی

دو اِک ڈنر دئیے تھے کہ پرمٹ بھی مل گیا
پرمٹ فروخت کر کے عمارت خرید لی

رشوت کے نوٹ پائے تو حج کا سفر کیا
آخر گناہ گار نے جنت خرید لی

اللہ رے یہ فضل و کرم "بلیک" کا کہ آج
دنیا کی ہم نے جو بھی تھی نعمت خرید لی

ایمان بچ گیا تھا فقط مارکیٹ کا
وہ دے کے کائنات کی لعنت خرید لی

سٹہ جو میں جو کمایا تھا اس کی زکوٰۃ دی
اب شاد باد ہیں کہ "شفاعت" خرید لی

صد شکر اب مجید نے بھی میوہ شاہ میں
دو گز زمین جو پئے تربت خرید لی

 

فرخ منظور

لائبریرین
پوچھو نہ بود و باش کلفٹن کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

وہ سرزمیں ہے ساری کراچی میں انتخاب
رہتے ہیں منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو مہاجرین نے آباد کر دیا
ہم لوگ رہنے والے ہیں اس "گولی مار" کے

"رمضان" سن رہے ہیں کہ ہے ماہِ جون میں
دن آ رہے ہیں خیر سے کھانسی، بخار کے

جو موسمی مریض ہیں جائیں گے ٹور پر
آئیں گے یہ مہینہ "مری" میں گذار کے

اک وہ بھی ہیں جو پیتے ہیں لندن میں بیڑیاں
ہم لوگ اے مجید ہیں رسیا سِگار کے

 

فرخ منظور

لائبریرین
کھا کے امریکہ کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
مولوی گل شیر بھولو پہلواں ہو جائے گا

غیر ٹھکرائیں گے اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

آپ دیکھیں گے مری آہوں کی کیا تاثیر ہے
آسماں جب میری بیڑی کا دھواں ہو جائے گا

ورنہ ہم پہلے ہی کھا کر لیٹ جاتے قبر میں
کیا خبر تھی زہر بھی اتنا گراں ہو جائے گا

خود عمل کرتا نہیں اوروں کو سمجھاتا ہے یہ
مولوی کا وعظ مرغے کی اذاں ہو جائے گا

ختم ہو جائے گی یہ پانی کی قلّت ایک دن
تیرے غم میں آنکھ سے چشمہ رواں ہو جائے گا

"روح افزا" پی کے "مسلم لیگ" کا مردہ مجید
صرف زندہ ہی نہیں بلکہ جواں ہو جائے گا

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
غم گساروں نے جو کیں غم خواریاں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئیں بیماریاں

آپ دامن سے ہوا دیتے تو ہیں
شعلہ بن جائیں نہ یہ چنگاریاں

جبر کا انجام ہوتا ہے برا
رنگ لائیں گی یہ تھانیداریاں

کیا عجب ہے اُن کی غیرت جاگ اٹھے
شوق سے کیجے غریب آزاریاں

یوں تصور میں وہ آئے جس طرح
آ گئیں گندم سے لد کر لاریاں

یہ ڈنر یہ لنچ یہ سیر اور شکار
لیڈری میں ہیں بہت دشواریاں

درحقیقت عشق نے ہی اے مجیدؔ
حسن کو بخشی ہیں نمبرداریاں

 

فرخ منظور

لائبریرین
ہو غیر کا قصور تو "ایکسپوز" کیجیے
اپنا ہو کامریڈ تو کچھ "پوز" کیجیے

جلسہ کہیں پہ بھی ہو "فرکشن" نہ چھوڑئیے
ہر جا پہ اپنا صدر ہی "پرپوز" کیجیے

خود عیش اڑائے جائیے ہوٹل میں بیٹھ کر
بھوکوں کا حال شعر میں "کمپوز" کیجیے

"مینڈیٹ" دیتے رہیے جماعت کے نام پر
کچھ بھی تو اپنے آپ پہ "امپوز" کیجیے

"تھیسس" نیا سمجھ میں نہ آئے تو کیا ہوا
ہو گا سبھی درست یہ "سپوز" کیجیے

رہیے معاملاتِ سیاسی میں بین بین
"کانگریس" کو خوش نہ "لیگ" کو "اپوز" کیجیے

جنتا کی جنگ پونچھ میں کشمیر میں بھی ہے
جھگڑے کو مفت میں یونہی "ڈسپوز" کیجیے

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
خان کا غزل

ریڈیو پہ جائے گا خوچہ یہ گانا گائے گا
چل چل چنبیلی باغ میں کشمش کھلائے گا

محفل میں میرا یار چہ آیا نہ آئے گا
آواز میرا یار کا محفل میں جائے گا

ہم جانتے تھے عشق میں یہ دن بھی آئے گا
غم ہم کو کھائے گا خوچہ ہم غم کو کھائے گا

فرقت میں اپنا آنکھ سے آنسو گرائے گا
دل میں چہ آگ لگتا ہے اُس کو بجھائے گا

فٹ پاتھ پر خو کس لئے جھگی بنائے گا
ہم اپنا دل کا بنگلہ میں تم کو بٹھائے گا

دلبر ہمارا ہم کو چہ ملنے کو آئے گا
پیسہ بھی اس کو دے گا چلم بھی پلائے گا

ہم کو مجید بولے گا خان! اِک غزل سناؤ
ہم اچھا والا اور غزل بھی سنائے گا

(مجید لاہوری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بیان اسلام کا
ذکر یوں تو ہر رہا ہے صبح و شام اسلام کا
ہم میں کتنے ہیں کہ جو کرتے ہیں کام اسلام کا
جوش میں جو لے رہے ہیں آج نام اسلام کا
کام کر دیں گے یہی اک دن تمام اسلام کا
عہدہ و منصب سے منزل دُور ہے اسلام کی
کرسیوں سےہے بہت آگے مقام اسلام کا
چور بازاری سے اِک لحظہ جنہیں فرصت نہیں
وہ کریں گے خیر سے قائم نظام اسلام کا؟
میں یہ کہتا ہوں ، الہٰی خیر ہو اسلام کی
چشمِ بد دور آپ جب لیتے ہیں نام اسلام کا
سر زمینِ پاک میں اسلام اب مظلوم ہے
تھا زمانے بھر پہ کل تک فیضِ عام اسلام کا
ہیں نگاہ و دل میں کتنے بتکدے پنہاں مجید
اور کہلاتا ہوں میں پھر بھی غلام اسلام کا
(مجید لاہوری)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمیں ریڈیو پر بھی گانا پڑے گا
تری بزم میں یوں بھی جانا پڑے گا

ترے غم کو یوں بھی چھپانا پڑے گا
ہر اک موڈ میں مسکرانا پڑے گا

کوئی شغل بے کاریوں کا نہیں ہے
کہیں تو ہمیں دل لگانا پڑے گا

چلو "ہاکس بے" میں بسیرا ہی کر لیں
نہ آنا پڑے گا نہ جانا پڑے گا

بہت ہی کٹھن ہے محبت کی منزل
کہ اس راہ میں "لاڑکانہ" پڑے گا

رقیبوں سے بڑھنے لگے ہیں مراسم
ہمیں تجھ کو اب بھول جانا پڑے گا

تجھے تو بہت آزمایا ہے ہم نے
انہیں بھی ذرا آزمانا پڑے گا

یہی ہے مجیدؔ اب بچاؤ کی صورت
حسینوں کو "مسکہ" لگانا پڑے گا

 

فرخ منظور

لائبریرین
حُسن اب کرتا ہے تھانیداریاں
عشق کر لے جیل کی تیاریاں

کھا کے افیوں کہہ رہی ہے "زندہ باد"
اللہ اللہ قوم کی بیداریاں

واہ امریکہ کی گندم واہ واہ!
بڑھ گئی ہیں پیٹ کی بیماریاں

مسکہ پالش نے جمایا ہے وہ رنگ
زہر کھا کر مر گئیں خود داریاں

اک طرف کاروں کا سیلِ بے پناہ
اک طرف پھیلی ہوئی بے کاریاں

مجھ کو جب ملنے لگی کرسی مجیدؔ
ہو گئیں حائل مری ناداریاں

 

فرخ منظور

لائبریرین
ہوٹلوں میں چھُپ کے پھر کھانے کا موسم آ گیا
سارا دن روزے کو بہلانے کا موسم آ گیا

پھر مری اور کوئٹے جانے کا موسم آ گیا
لیڈروں کے "ٹور" فرمانے کا موسم آ گیا

آ گیا پھر برف کا بھاؤ بڑھا دینے کا دَور
چور بازاری کو چمکانے کا موسم آ گیا

گھی بنے گا تیل سے، پانی سے بن جائے گا دودھ
صنعتوں کو اوج پر لانے کا موسم آ گیا

دن کو چالو لنچ بھی، سگریٹ بھی، لیکن شام کو
دعوتِ افطار میں جانے کا موسم آ گیا

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی فراڈ ہے، فراڈ سے نبھائے جا
چل رہی ہے چار سو بیس تو چلائے جا

غم نہ کر الم نہ کر، فکرِ بیش و کم نہ کر
چندہ جس قدر بھی قوم دے رہی ہے، کھائے جا

لاکھ آندھیاں چلیں، لاکھ بجلیاں گریں
بے بسی کو یورشوں میں اپنی "بس" چلائے جا

اعتماد قوم کا تجھ پہ گر نہیں تو کیا؟
"نوکروں" پہ لیڈری کا رعب تو جمائے جا

ان کو تو دبائے جا تجھ سے جو غریب ہیں
اور بڑے جو تجھ سے ہیں ان کو "بٹر " لگائے جا

افسروں کے سامنے سر جھکا سلام کر
پارٹی ہو گر کوئی اس میں بِن بلائے جا

حادثاتِ زیست کا اے مجید! غم نہ کر
حادثاتِ زیست پر خوب مسکرائے جا​
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگرچہ ہوں میں اِک مقامی مہاجر
مرے در پہ دیں گے سلامی مہاجر

نکالا گیا جلسۂ عام سے میں
ہے مجھ سے بڑا کون عوامی مہاجر

کروں گا میں سارے کلفٹن پہ قبضہ
بشرطیکہ ہوں میرے حامی مہاجر

الاٹوں پلاٹوں میں ہوں سب سے آگے
ہوں رفتار میں تیز گامی مہاجر

گئے چھوڑ کر "لیگ" ری پبلکن میں
بنے یہ بھی نامی گرامی مہاجر

ہر اک زلف میں یہ اٹکتا ہے جا کر
مرا دل بھی ہے اک دوامی مہاجر

بڑے شوق سے کر لے قبضوں پہ قبضے
ہے تو بھی مجید اِک مقامی مہاجر

 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
کہتا ہے کون درد کا درماں الاٹ کر
ہاں جس قدر بھی غم ہوں مری جاں الاٹ کر
"پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق"
"سامان صد ہزار نمک داں الاٹ کر"
 

فرخ منظور

لائبریرین
الوداع الوداع ماہِ رمضاں

رحمتوں سے تھا پُر تیرا داماں
فاقہ مستی سے ہم تھے پریشاں
تھا یہ گھپلوں کا کارِ نمایاں
مشکلیں ہو گئیں ساری آساں

ہم پہ تھا تیرا فضل اور احساں
الوداع الوداع ماہِ رمضاں

بلیک میں ہم نے پیسا کمایا
بھاؤ ہر شے کا ہم نے بڑھایا
دودھ میں خوب پانی ملایا
اور پھر تیل کو گھی بنایا

ہم پہ تھا تیرا فضل اور احساں
الوداع الوداع ماہِ رمضاں

ہم نے کوّے سے مرغی پکائی
روزہ خوروں کو دن بھر کھلائی
یوں ہتھیلی پہ سرسوں جمایا
جمع کی سال بھر کی کمائی

ہم پہ تھا تیرا فضل اور احساں
الوداع الوداع ماہِ رمضاں

چور بازار کا تھا جو پیسا
اس میں حصّہ نکالا خدا کا
اور سمجھے کہ رشوت کا گھپلا
ہم کو دیدے گا جنت کا ٹھیکا

ہم پہ تھا تیرا فضل اور احساں
الوداع الوداع ماہِ رمضاں

 

فرخ منظور

لائبریرین
عید کا دن

زہے قسمت ہلالِ عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
پہاڑوں سے وہ اترے قافلے روزہ گزاروں کے
گیا گرمی کا موسم، اور آئے دن بہاروں کے
اٹھا ہوٹل کا پردہ، سامنے پردہ نشیں آئے
جو چھپ کر کر رہے تھے احترامِ حکمِ دیں آئے
ہوئی انگور کی بیٹی سے ''مستی خان'' کی شادی
کھلے در مے کدوں کے اور ملی رندوں کو آزادی
نویدِ کامرانی لا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مسرت کے ترانے گا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مبارک ہو کہ پھر سے ہو گیا ''ڈانس'' اور ''ڈنر'' چالو
خلاص اہلِ نظر ہوں گے ہوا دردِ جگر چالو
نمازِ عید پڑھنے کے لیے سرکار آئے ہیں
اور ان کے ساتھ سارے طالبِ دیدار آئے ہیں
یہی دن اہلِ دل کے واسطے امید کا دن ہے
تمہاری دید کا دن ہے ہماری عید کا دن ہے​
 
Top