مجھے ایک سائنس چاہیے

آخری تدوین:
سافٹ ویئر کی ذمہ داری آج کل عظیم الدین بھائی کے پاس ہے. ہنگامی طور پر بنا دیتے ہیں.
ریسپانس ٹائم کلوز تو زیرو سیکنڈ ہے.
جذبہ آج کل عروج پر ہے.
جناب عاجز کا پورا نام محمد عظیم الدین ہے۔
اگر اشارہ میری طرف ہے تو (n)
رہی بات اخلاقیات کے سافٹ وئیر کی تو اللہ تعالی نے ہر انسان میں بلٹ ان رکھا ہے بس استعمال سیکھنے کے لیے ایکسپرٹ سے رابطہ کریں۔
 
رہی بات اخلاقیات کے سافٹ وئیر کی تو اللہ تعالی نے ہر انسان میں بلٹ ان رکھا ہے بس استعمال سیکھنے کے لیے ایکسپرٹ سے رابطہ کریں۔
ذات کی حد تک تو بات یہاں تک ٹھیک ہے. لیکن اٹھایا گیا سوال ان اخلاقی مسائل کے دنیا سے ختم ہونے کے حوالے سے ہے. اس پر بھی اپنے اپنے حلقۂ اثر تک کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے.
 

فرقان احمد

محفلین
وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئی‌وی‌آر کی طرح با‌اخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنی‌آدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برج‌العرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اے‌سی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرص‌و‌آز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
شاید یہ سب کچھ سائنس کی ڈومین میں ہے ہی نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو معلوم نہ ہو۔ ہاں، سائنس دانوں کو یہ سب 'پٹیاں' پڑھائی جا سکتی ہیں تاہم، وہ بھی تو خود کو عقلِ کُل تصور کرتے ہیں؛ سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کے امام جو ٹھہرے! مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ، مادیت اور اس کے ساتھ مسابقت نے مل کر، سائنس دانوں کی سٹی بھی گم کر دی ہے۔ ہر شے کی قیمت مقرر ہے۔ سائنس دانوں پر پیسہ لگائیے اور پھر چاہے ایٹم بم بنوائیے یا خطرناک بیماری کا علاج دریافت کروائیے۔ اگر ایک سائنس دان تیار نہیں ہو گا تو دوسرا آپ کی مدد کے لیے حاضر ہو گا۔ یوں مسابقت کے اس دور میں ایسی یونیورسل ٹائپ سائنس بی بی کہاں سے لائیے گا جو دردِ دل بھی رکھتی ہو؛ مجھے تو یہ سب ڈیمانڈز پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائنس بی بی تنگ آ کر اپنے گلے میں پھندا ہی نہ ڈال لے کہیں! ذرا دھیان سے، راحیل میاں! :)
 

با ادب

محفلین
ہم زمانہ ء طالب علمی میں جن کتابوں.کو بڑی تفصیل اور شد ومد سے پڑھتے تھے وہ تھیں sciences of quran. . . Hadith sciences. ان کتابوں کی تحقیق کی شدت اور گہرائی کا حسن ایک الگ چیز ہے لیکن ان سائنسز کو ٹیکنالوجی سے جوڑا کیسے گیا وہ بہترین ہے.
ہم آج کے انسان ہمیں اصل میں کیا چاہیئے بسا اوقات ہم اس کا بھی تعین نہیں کر پاتے.
لیکن راحیل صاحب انداز تحریر خوب ہے ..میرے خیال.میں ہمیں پتہ نہیں سائنس چاہیئے یا نہیں لیکن زندگیوں میں موجود سائنسی بے آرامی نہیں چاہیئے. رشتوں میں موجود سائنسی دوری نہیں چا ہیئے اور میڈیا پہ موجود سائینسی شور و غل بھی نہیں چاہیئے. رویوں میں موجود سائنسی بد تمیزی سے ہم پناہ مانگتے ہیں
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
سائنس سے نالاں ہیں اور پناہ بھی اسی کی آغوش میں لینا چاہ رہے ہیں؟
قصوروار صرف سائنس ہی کیوں ؟ اصل قصوروار تو وہ سماجی رویے ہیں جو ازل سے انسانیت کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں. وہ اقتصادی ، معاشرتی ، مذہبی اور نفسیاتی عوامل ہیں جو اس اخلاقی تنزلی اور زبوں حالی کے پیچھے کار فرما ہیں. اس مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے دور میں اربابِ اختیار کے نزدیک سائنس کی حیثیت ایک باندی سے بڑھ کر نہیں. جو بلا چوں چراں کیے ہر حکم کی بجا آوری میں سرِ تسلیم خم کیے رکھتی ہے . شکوہ تو سائنس کے نام نہاد خداؤں اور آقاؤں سے بنتا ہے. وہ اگر اپنا قبلہ درست کر لیں تو سائنس خود بخود راہِ راست پر آ جائے گی .
کچھ جگہوں پر سائنس کا موازنہ نادان ماں سے کرنا مناسب نہیں لگ رہا . ماں چاہے کتنی بھی نادان کیوں نہ ہو اپنے بچے کے ہاتھ میں موت کا سامان ہر گز نہیں دے گی . ہاں البتہ کئی جگہوں پر آپ بگڑے ہوئے بچے معلوم ہو رہے ہیں "انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند " کے مصداق سائنس سے وہ کچھ طلب کر رہے ہیں جو اس کے بس کا روگ نہیں .
تحریر کا جو اصل مدعا ہے اس سے متفق ہوں . آپ کی موجودہ حالات سے بیزاری کسی بھی حساس انسان کی بیزاری ہے. یہ مشکل سب کی سانجھی ہے اور اس سے نکلنے کی تدبیر بھی مل کر ہی کرنی ہو گی.
 

La Alma

لائبریرین
ایسا شاید ہو نہ پائے لیکن اگر کسی میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ صرف سائنس ہے۔ انسان کی ہستی ایک عناصر کے ظہورِ ترتیب سے زیادہ نہیں اور اس کی فطرت کو یقیناً بدلا جا سکتا ہے۔
آپ نے فطرت کی باگ ڈور بھی سائنس کے ہاتھ میں تھما دی . گویا انسان مسخر ہے اور قوتِ تسخیر سائنس کے پاس ہے . فطرت کو بدلنے کے لیے کسی سائنسی کرشمے کا طویل انتظار کیوں کریں، فطرت کو با آسانی سدھایا بھی جا سکتا ہے .
 
آپ نے فطرت کی باگ ڈور بھی سائنس کے ہاتھ میں تھما دی . گویا انسان مسخر ہے اور قوتِ تسخیر سائنس کے پاس ہے . فطرت کو بدلنے کے لیے کسی سائنسی کرشمے کا طویل انتظار کیوں کریں، فطرت کو با آسانی سدھایا بھی جا سکتا ہے .
انسانیت کی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں تو ایسا نہ ہو سکا۔ اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟
 

La Alma

لائبریرین
انسانیت کی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں تو ایسا نہ ہو سکا۔ اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟
انسانی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے . کتنے ہی عظیم انقلاب رونما ہوئے جنہوں نے سوچوں کا رخ یکسر موڑ دیا . فکر کو ایک نئی جہت عطا کی. ان میں سرِ فہرست تو الہامی تعلیمات ہیں . بہرحال یہ ایک لمبی اور تھکا دینے والی بحث ہے .
 

فرقان احمد

محفلین
فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ذریعے فطرت اور کائناتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اور سائنس دانوں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل رہی تاہم یہ لازم نہیں ہے کہ سائنس ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر دے۔ جن مسائل کی طرف راحیل بھیا نے اشارہ کیا ہے، ان کو زیادہ تر فلسفے اور مذہب کی ذیل میں ہی دیکھا پرکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات سائنس کی حدود سے باہر ہیں اور شاید ہونے بھی چاہئیں۔ :)
 
سائنس کیا بدل سکے گی فطرت کو؟!
اس کا جواب نفی میں دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
انسانی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے . کتنے ہی عظیم انقلاب رونما ہوئے جنہوں نے سوچوں کا رخ یکسر موڑ دیا . فکر کو ایک نئی جہت عطا کی. ان میں سرِ فہرست تو الہامی تعلیمات ہیں . بہرحال یہ ایک لمبی اور تھکا دینے والی بحث ہے .
کس انقلاب نے انسان کی حیوانیت چھینی؟
آج سائنس کی بدولت انسان کو اپنی بقا کے لیے حیوانیت کی شاید ضرورت نہیں مگر ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔
فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ذریعے فطرت اور کائناتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اور سائنس دانوں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل رہی تاہم یہ لازم نہیں ہے کہ سائنس ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر دے۔ جن مسائل کی طرف راحیل بھیا نے اشارہ کیا ہے، ان کو زیادہ تر فلسفے اور مذہب کی ذیل میں ہی دیکھا پرکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات سائنس کی حدود سے باہر ہیں اور شاید ہونے بھی چاہئیں۔ :)
Insanity Is Doing the Same Thing Over and Over Again and Expecting Different Results
 

با ادب

محفلین
بات فقط اتنی ہے کہ ہر وہ چیز جس سے دین کو نکال دو بے معنی ہے. دین یی اصل نظام ہے. علم.دین.ہے اور تمام فنون اسی کے زیر سایہ پروان چڑھیں تو توازن قائم.رہنے کا.امکان ہے ..وگرنہ کسی بھی شے کی زیادتی اور کمی اس صورت نقصان کا باعث ہے جب تک اسکی صحیح سمت کا تعین نہ ہو ..
 

فرقان احمد

محفلین
فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ذریعے فطرت اور کائناتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اور سائنس دانوں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل رہی تاہم یہ لازم نہیں ہے کہ سائنس ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر دے۔ جن مسائل کی طرف راحیل بھیا نے اشارہ کیا ہے، ان کو زیادہ تر فلسفے اور مذہب کی ذیل میں ہی دیکھا پرکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات سائنس کی حدود سے باہر ہیں اور شاید ہونے بھی چاہئیں۔ :)
Insanity Is Doing the Same Thing Over and Over Again and Expecting Different Results
پیارے بھائی! سائنس کا دائرہء کار مختلف ہے۔ آپ دیکھ لیجیے، راحیل بھیا نے جو مسائل ہمارے سامنے رکھے ہیں، کیا سائنس ان سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ سوال کسی فلسفی کے سامنے رکھے جانے چاہئیں ۔۔۔ اور جہاں تک اوپر درج کردہ قول کی بات ہے، وہ اپنی جگہ درست ہے تاہم فلسفہ کی کوئی ایک جہت نہ ہے اور سوچنے کے انداز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جیسے جیسے معاشرے میں تبدیلیاں آتی ہیں، سوچ کے انداز اور پیمانے بھی بدلتے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ انسان کو درپیش مسائل کا جواب تلاش کرنے کے لیے سائنس کو بھی فلسفے کا ہاتھ تھامنا پڑے گا۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ سائنس دان کا سٹیٹس کم ہے، بات یہ ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں جو سائنس کی حدود، ڈومین یا دائرہء کار سے باہر ہیں اور ان معاملات میں ہمیں سائنس کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور شاید مذہب سے بھی رجوع کرنا پڑ جائے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دنیا قائم ہے؛ انسان فلسفہ، مذہب اور سائنس سے بار بار رجوع کرے گا؛ عرض کر چکا، ان دنوں سائنس کا دور دورہ ہے تاہم، دیکھیے، کب تلک؟ حتمی سچائی کی تلاش کا سفر جاری ہے اور فی الوقت قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
 
کس انقلاب نے انسان کی حیوانیت چھینی؟
ریحان بھائی، اس کا تو جواب بڑا آسان ہے کہ ظہور اسلام نے۔ آقا ﷺ کی تعلیمات نے۔عرب کی تاریخ تو معلوم ہی ہے ہمیں۔ اسلام سے قبل کیا حالات تھے، کیا زندگیوں میں انقلاب برپا نہیں ہوا تھا؟ ہاں بعد میں ہم جیسے نالائقوں نے ان تعلیمات کو چھوڑ دیا اور پلٹ آئے اسی جہالت کی طرف جہاں سے آقاﷺ نکال کر گئے تھے (الا ماشاءاللہ)
ہم روز مرہ کی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے اس کے ساتھ آئے چھوٹے سے کتابچے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ استعمال اس کے حساب سے ہو۔ وارنٹی بھی تبھی کلیم ہوتی ہے جب کہ کتابچے میں لکھی گئی باتوں سے انحراف نہ کیا جائے۔ اگر کتابچے کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے مصنوعات کا استعمال کیا جائے تو نتائج غیر یقینی ہوتے ہیں۔ یہی حال انسانیت کا ہے، اجتماعی طور پر ضابطہ حیات بنانے والے نے دیا تھا، ساتھ کتابچہ (قرآن عظیم الشان) بھی دیا تھا، مگر نہ ضابطہ حیات کو سمجھے نہ ہدایات پر عمل کیا، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
انفرادی طور پر بھی دل کے سکون کی تلاش کا نسخہ بڑا آسان ہے
الا بذكر الله تطمئن القلوب
نیک نیتی سے آزما کر دیکھیے، کہی سنی بات نہیں کر رہا، تجربے کی بات بتا رہا ہوں۔ انتہائی مشکل میں بھی اگر اطمینان قلب چاہتے ہیں تو یہ ہی ایک واحد ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی مجھے اور ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین
 
اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے ایک سائنس چاہیے۔
وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئی‌وی‌آر کی طرح با‌اخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنی‌آدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برج‌العرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اے‌سی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرص‌و‌آز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
مجھے ایک سائنس چاہیے جو محض میرے آنسو پونچھنے میں نہ لگی رہے بلکہ مجھے ہنسنا سکھائے۔ مجھے ایک ٹیکنالوجی چاہیے جو نت نئے رہڑو بنا بنا کر نہ دے بلکہ مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا کرے۔ میں موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بے‌زار ہو گیا ہوں۔ بہت ہی بے‌زار!
تو کارِ‌زمیں را نکو ساختی
کہ با‌آسماں نیز پرداختی​

بہت خوبصورت طنزیہ ہے راحیل فاروق بھائی۔ سائنس کا نام لیکر مذاہب کو لتاڑا ہے۔ واقعی یہ کام تو مذاہبِ عالم کے تھے جنہوں نے انسانیت کا ٹھیکہ لیا تھا۔

کہاں گئے اللہ کے محبوب ترین بندے کو ماننے والے۔ کہاں گئے اللہ کے بیٹے کے نام لیوا۔ کہاں گیا اللہ کا پسندیدہ قبیلہ؟

مسلمانوں کا حال دیکھ کر تو خاص طور پر افسوس ہوتا ہے جنہوں نے صرف نماز روزے کو نیکی سمجھ لیا اور عمل کی جگہ عملیات کو دے دی۔ اپنے بھائی بندوں کو گدھے کا گوشت کھلانے والے کسی اور مذہب یا کسی اور ملک اے تعلق نہیں رکھتے۔

کیا سائنس نے کبھی اخلاقیات کا ٹھیکہ لیا، انسانیت کا ڈھول پیٹا؟

امید ہے ہم درست سمجھے ہیں؟
 
Top