محمد تابش صدیقی
محفلین
سافٹ ویئر کی ذمہ داری آج کل محمد عظیم الدین بھائی کے پاس ہے. ہنگامی طور پر بنا دیتے ہیں.تب تک تابش بھائی جیسے لوگ کوئی سافٹ ویئر ڈیزائن کر لیں گے![]()
ریسپانس ٹائم کلوز ٹو زیرو سیکنڈ ہے.
جذبہ آج کل عروج پر ہے.
آخری تدوین:
سافٹ ویئر کی ذمہ داری آج کل محمد عظیم الدین بھائی کے پاس ہے. ہنگامی طور پر بنا دیتے ہیں.تب تک تابش بھائی جیسے لوگ کوئی سافٹ ویئر ڈیزائن کر لیں گے![]()
جناب عاجز کا پورا نام محمد عظیم الدین ہے۔سافٹ ویئر کی ذمہ داری آج کل عظیم الدین بھائی کے پاس ہے. ہنگامی طور پر بنا دیتے ہیں.
ریسپانس ٹائم کلوز تو زیرو سیکنڈ ہے.
جذبہ آج کل عروج پر ہے.
ذات کی حد تک تو بات یہاں تک ٹھیک ہے. لیکن اٹھایا گیا سوال ان اخلاقی مسائل کے دنیا سے ختم ہونے کے حوالے سے ہے. اس پر بھی اپنے اپنے حلقۂ اثر تک کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے.رہی بات اخلاقیات کے سافٹ وئیر کی تو اللہ تعالی نے ہر انسان میں بلٹ ان رکھا ہے بس استعمال سیکھنے کے لیے ایکسپرٹ سے رابطہ کریں۔
شاید یہ سب کچھ سائنس کی ڈومین میں ہے ہی نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو معلوم نہ ہو۔ ہاں، سائنس دانوں کو یہ سب 'پٹیاں' پڑھائی جا سکتی ہیں تاہم، وہ بھی تو خود کو عقلِ کُل تصور کرتے ہیں؛ سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کے امام جو ٹھہرے! مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ، مادیت اور اس کے ساتھ مسابقت نے مل کر، سائنس دانوں کی سٹی بھی گم کر دی ہے۔ ہر شے کی قیمت مقرر ہے۔ سائنس دانوں پر پیسہ لگائیے اور پھر چاہے ایٹم بم بنوائیے یا خطرناک بیماری کا علاج دریافت کروائیے۔ اگر ایک سائنس دان تیار نہیں ہو گا تو دوسرا آپ کی مدد کے لیے حاضر ہو گا۔ یوں مسابقت کے اس دور میں ایسی یونیورسل ٹائپ سائنس بی بی کہاں سے لائیے گا جو دردِ دل بھی رکھتی ہو؛ مجھے تو یہ سب ڈیمانڈز پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائنس بی بی تنگ آ کر اپنے گلے میں پھندا ہی نہ ڈال لے کہیں! ذرا دھیان سے، راحیل میاں!وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئیویآر کی طرح بااخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنیآدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برجالعرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اےسی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرصوآز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
آپ نے فطرت کی باگ ڈور بھی سائنس کے ہاتھ میں تھما دی . گویا انسان مسخر ہے اور قوتِ تسخیر سائنس کے پاس ہے . فطرت کو بدلنے کے لیے کسی سائنسی کرشمے کا طویل انتظار کیوں کریں، فطرت کو با آسانی سدھایا بھی جا سکتا ہے .ایسا شاید ہو نہ پائے لیکن اگر کسی میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ صرف سائنس ہے۔ انسان کی ہستی ایک عناصر کے ظہورِ ترتیب سے زیادہ نہیں اور اس کی فطرت کو یقیناً بدلا جا سکتا ہے۔
انسانیت کی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں تو ایسا نہ ہو سکا۔ اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟آپ نے فطرت کی باگ ڈور بھی سائنس کے ہاتھ میں تھما دی . گویا انسان مسخر ہے اور قوتِ تسخیر سائنس کے پاس ہے . فطرت کو بدلنے کے لیے کسی سائنسی کرشمے کا طویل انتظار کیوں کریں، فطرت کو با آسانی سدھایا بھی جا سکتا ہے .
سائنس کیا بدل سکے گی فطرت کو؟!انسانیت کی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں تو ایسا نہ ہو سکا۔ اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟
انسانی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے . کتنے ہی عظیم انقلاب رونما ہوئے جنہوں نے سوچوں کا رخ یکسر موڑ دیا . فکر کو ایک نئی جہت عطا کی. ان میں سرِ فہرست تو الہامی تعلیمات ہیں . بہرحال یہ ایک لمبی اور تھکا دینے والی بحث ہے .انسانیت کی پچاس ہزار سالہ تاریخ میں تو ایسا نہ ہو سکا۔ اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟
اس کا جواب نفی میں دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔سائنس کیا بدل سکے گی فطرت کو؟!
کس انقلاب نے انسان کی حیوانیت چھینی؟انسانی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے . کتنے ہی عظیم انقلاب رونما ہوئے جنہوں نے سوچوں کا رخ یکسر موڑ دیا . فکر کو ایک نئی جہت عطا کی. ان میں سرِ فہرست تو الہامی تعلیمات ہیں . بہرحال یہ ایک لمبی اور تھکا دینے والی بحث ہے .
Insanity Is Doing the Same Thing Over and Over Again and Expecting Different Resultsفلسفہ، مذہب اور سائنس کے ذریعے فطرت اور کائناتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اور سائنس دانوں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل رہی تاہم یہ لازم نہیں ہے کہ سائنس ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر دے۔ جن مسائل کی طرف راحیل بھیا نے اشارہ کیا ہے، ان کو زیادہ تر فلسفے اور مذہب کی ذیل میں ہی دیکھا پرکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات سائنس کی حدود سے باہر ہیں اور شاید ہونے بھی چاہئیں۔![]()
فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ذریعے فطرت اور کائناتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اور سائنس دانوں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل رہی تاہم یہ لازم نہیں ہے کہ سائنس ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر دے۔ جن مسائل کی طرف راحیل بھیا نے اشارہ کیا ہے، ان کو زیادہ تر فلسفے اور مذہب کی ذیل میں ہی دیکھا پرکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات سائنس کی حدود سے باہر ہیں اور شاید ہونے بھی چاہئیں۔![]()
پیارے بھائی! سائنس کا دائرہء کار مختلف ہے۔ آپ دیکھ لیجیے، راحیل بھیا نے جو مسائل ہمارے سامنے رکھے ہیں، کیا سائنس ان سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ سوال کسی فلسفی کے سامنے رکھے جانے چاہئیں ۔۔۔ اور جہاں تک اوپر درج کردہ قول کی بات ہے، وہ اپنی جگہ درست ہے تاہم فلسفہ کی کوئی ایک جہت نہ ہے اور سوچنے کے انداز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جیسے جیسے معاشرے میں تبدیلیاں آتی ہیں، سوچ کے انداز اور پیمانے بھی بدلتے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ انسان کو درپیش مسائل کا جواب تلاش کرنے کے لیے سائنس کو بھی فلسفے کا ہاتھ تھامنا پڑے گا۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ سائنس دان کا سٹیٹس کم ہے، بات یہ ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں جو سائنس کی حدود، ڈومین یا دائرہء کار سے باہر ہیں اور ان معاملات میں ہمیں سائنس کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور شاید مذہب سے بھی رجوع کرنا پڑ جائے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دنیا قائم ہے؛ انسان فلسفہ، مذہب اور سائنس سے بار بار رجوع کرے گا؛ عرض کر چکا، ان دنوں سائنس کا دور دورہ ہے تاہم، دیکھیے، کب تلک؟ حتمی سچائی کی تلاش کا سفر جاری ہے اور فی الوقت قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔Insanity Is Doing the Same Thing Over and Over Again and Expecting Different Results
ریحان بھائی، اس کا تو جواب بڑا آسان ہے کہ ظہور اسلام نے۔ آقا ﷺ کی تعلیمات نے۔عرب کی تاریخ تو معلوم ہی ہے ہمیں۔ اسلام سے قبل کیا حالات تھے، کیا زندگیوں میں انقلاب برپا نہیں ہوا تھا؟ ہاں بعد میں ہم جیسے نالائقوں نے ان تعلیمات کو چھوڑ دیا اور پلٹ آئے اسی جہالت کی طرف جہاں سے آقاﷺ نکال کر گئے تھے (الا ماشاءاللہ)کس انقلاب نے انسان کی حیوانیت چھینی؟
نیک نیتی سے آزما کر دیکھیے، کہی سنی بات نہیں کر رہا، تجربے کی بات بتا رہا ہوں۔ انتہائی مشکل میں بھی اگر اطمینان قلب چاہتے ہیں تو یہ ہی ایک واحد ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی مجھے اور ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔ آمینالا بذكر الله تطمئن القلوب
اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے ایک سائنس چاہیے۔
وہ سائنس جو تحقیق کر کے ایسی ٹیکنالوجی لائے جو انسان کو آئیویآر کی طرح بااخلاق بنا دے۔ وہ سائنس جو ریل کی پٹڑی جیسا صبر سکھا دے۔ وہ سائنس جو محبت کا کوئی آلہ بنا کر پوری دنیا میں اسے سِم کی طرح بانٹ دے۔ وہ سائنس جو بنیآدم میں غصے کو جڑ سے اکھیڑ سکے۔ وہ سائنس جو کینے اور بغض کا علاج دریافت کرے۔ وہ سائنس جو انسان کی قدر تھری ڈی میں دکھائے۔ وہ سائنس جو خوف اور دہشت کو بم سے اڑا دے۔ وہ سائنس جو تنہائی کا مداوا ہو۔ وہ سائنس جو رشتوں کو لافانی بنا دے۔ وہ سائنس جو ظرف کو برجالعرب سے بھی بلند اٹھا دے۔وہ سائنس جو دل کی گرہیں کھول سکے۔ وہ سائنس جو غم کو رسولی کی طرح نکال پھینکے۔ وہ سائنس جو تحمل اور برداشت کی ٹھنڈک اےسی سے بھی سستی بیچے۔ وہ سائنس جو قربانی کے جذبے کو کارخانوں میں تھوک کے حساب سے پیدا کر کے گھر گھر پہنچا دے۔ وہ سائنس جو حرصوآز کو مار بھگانے والا سپرے ایجاد کرے۔ وہ سائنس جو احساس کے ستاروں پر کمند ڈالے۔ وہ سائنس جو ضمیر کی گہرائیوں میں دفن خزانے کھود لائے۔
مجھے ایک سائنس چاہیے جو محض میرے آنسو پونچھنے میں نہ لگی رہے بلکہ مجھے ہنسنا سکھائے۔ مجھے ایک ٹیکنالوجی چاہیے جو نت نئے رہڑو بنا بنا کر نہ دے بلکہ مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا کرے۔ میں موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بےزار ہو گیا ہوں۔ بہت ہی بےزار!
تو کارِزمیں را نکو ساختی
کہ باآسماں نیز پرداختی