مجھے ایک سائنس چاہیے

میرا خیال ہے کہ "دین اور دکان" والی تحریر کے بعد معاملے کو توازن دینے کے لیے آپ نے یہ لکھا ہے۔ :)
وہ تحریر دوبارہ مل نہیں سکی۔ خیریت سے اللہ کو پیاری تو نہیں ہو گئی؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً ہم صرف اپنی پسند کے الفاظ سننا چاہتے ہیں۔ :)
 

عثمان

محفلین
وہ تحریر دوبارہ مل نہیں سکی۔ خیریت سے اللہ کو پیاری تو نہیں ہو گئی؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً ہم صرف اپنی پسند کے الفاظ سننا چاہتے ہیں۔ :)
وہ تحریر غالباً اشاعت کے چند گھنٹوں بعد سے ہی پوشیدہ ہے۔ راحیل ہی کی تحریر ہے وہ بھی، وہی بہتر بتا سکیں گے۔ :)
 

زیک

مسافر
بہت خوبصورت طنزیہ ہے راحیل فاروق بھائی۔ سائنس کا نام لیکر مذاہب کو لتاڑا ہے۔ واقعی یہ کام تو مذاہبِ عالم کے تھے جنہوں نے انسانیت کا ٹھیکہ لیا تھا۔

کہاں گئے اللہ کے محبوب ترین بندے کو ماننے والے۔ کہاں گئے اللہ کے بیٹے کے نام لیوا۔ کہاں گیا اللہ کا پسندیدہ قبیلہ؟

مسلمانوں کا حال دیکھ کر تو خاص طور پر افسوس ہوتا ہے جنہوں نے صرف نماز روزے کو نیکی سمجھ لیا اور عمل کی جگہ عملیات کو دے دی۔ اپنے بھائی بندوں کو گدھے کا گوشت کھلانے والے کسی اور مذہب یا کسی اور ملک اے تعلق نہیں رکھتے۔

کیا سائنس نے کبھی اخلاقیات کا ٹھیکہ لیا، انسانیت کا ڈھول پیٹا؟

امید ہے ہم درست سمجھے ہیں؟
تحریر دو بار پڑھنے کے باوجود اس کا سادہ مطلب غیر واضح تھا لیکن یہ ریڈنگ اسے بہتر بنا دیتی ہے
 
تحریر دو بار پڑھنے کے باوجود اس کا سادہ مطلب غیر واضح تھا لیکن یہ ریڈنگ اسے بہتر بنا دیتی ہے
شکریہ زیک

دراصل ادب پاروں کا یہی انداز ہوتا ہے اور انہیں بین السطور ہی پڑھنا ہوتا ہے۔

زیرِ نظر مضمون ہی کو لے لیجے! صاحبِ مضمون نے موجودہ دور کے مصائب و آلام کا خوب تذکرہ کیا ، ساتھ ہی بقول شاعر

یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے

اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انتہائے سادگی سے سائنس کو اس کا ذمہ دار بھی ٹھہرادیا۔ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں صاحبِ مضمون سائنس لکھ رہا ہے وہاں ہمیں کچھ اور پڑھنا ہے، یعنی اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کے نام ، جو ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سائنس انسان کی بے چین فطرت کی مظہر ہے، وہ ہر راز سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کس نے اپنا ہوم ورک نہیں کی، ٹیبلٹس پر لکھے خدا کے براہِ راست احکام نے، "خدا کے بیٹے" نے اور اللہ کے محبوب ترین بندے نے یہ ذمہ داری کس پر ڈالی تھی ، ا یہ راز بھی سب پر عیاں ہے۔
 
آخری تدوین:
سائنس فطرت کا علم ہے اور یہ علم بڑھتا ہی رہے گا۔ حتی کہ ادراک مکمل ہوجاوئے۔
انسان جستجو کرتا ہی رہے گا
ہر وہ چیز جو غلط ہوسکتی ہے ہوتی ہی رہے گی
فطرت کا علم ہماری خواہش ہر منحصر نہیں
تزکیہ نفس اور سائنس کی ترقی ایک ساتھ نہیں چل۔سکتے نہ ہی اخلاقیات سائنس کی استاد بن سکتی ہے۔
یہ دنیا جنت نہیں بن سکتی۔ ترقی کی قیمت انسان ادا کرتا رہے گی۔ دنیا یوں ہی چلتی رہے گی۔۔یہ ازمائش گاہ ہے۔
 

ربیع م

محفلین
شکریہ زیک

دراصل ادب پاروں کا یہی انداز ہوتا ہے اور انہیں بین السطور ہی پڑھنا ہوتا ہے۔

زیرِ نظر مضمون ہی کو لے لیجے! صاحبِ مضمون نے موجودہ دور کے مصائب و آلام کا خوب تذکرہ کیا ، ساتھ ہی بقول شاعر

یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے

اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انتہائے سادگی سے سائنس کو اس کا ذمہ دار بھی ٹھہرادیا۔ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں صاحبِ مضمون سائنس لکھ رہا ہے وہاں ہمیں کچھ اور پڑھنا ہے، یعنی اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کے نام ، جو ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سائنس انسان کی بے چین فطرت کی مظہر ہے، وہ ہر راز سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کس نے اپنا ہوم ورک نہیں کی، ٹیبلٹس پر لکھے خدا کے براہِ راست احکام نے، "خدا کے بیٹے" نے اور اللہ کے محبوب ترین بندے نے یہ ذمہ داری کس پر ڈالی تھی ، ا یہ راز بھی سب پر عیاں ہے۔
ہم بھی کچھ کچھ ایسا ہی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے!
آپ نے وضاحت کر کے آسانی کر دی۔
 
سب احباب کا شکر‌گزار ہوں۔ مزا آیا یہ گفتگوئیں پڑھ کر۔ بہت کچھ ایسا پڑھنے کو ملا جس نے ذہن کے وہ دریچے کھولے جن کے وجود تک کا مجھے علم نہ تھا۔ اچھی بات یہ ہو گی کہ مکالمے کی یہ فضا قائم رہے۔ بعض نکتے اور شگوفے تو نہایت پسند آئے۔ حسابِ دوستاں در دل۔
احباب نے اس تحریر کو جن زاویوں سے دیکھا ہے مجھے اس پر خوشی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں اکثر میرا مدعا بالکل ٹھیک سمجھا گیا ہے۔ سوائے چند مقامات کے جہاں میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ شعرِ مرا بمدرسہ کہ برد!
جو شخص علیٰ‌الاعلان غلامی کو فطری سمجھتا ہو، فوجی آمریت کو جمہوریت پر فوقیت دیتا ہو، مرد کی عورت پر فضیلت کا قائل ہو، قرآن کو سچ‌مچ کی لوحِ‌محفوظ خیال کرتا ہو، اس کے ہاں سائنس ایک وسیلۂِ علم سے زیادہ مقدس کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔ مگر مجھے یاد آتا ہے کہ ولیم جیمز انسان کی یہ فطرت خوب کھول کر بیان کر گئے ہیں کہ وہ اعتقاد پر تقریباً مجبور ہے۔ مذہب پر نہیں تو سائنس پر سہی۔ خدا پر نہیں تو فطرت پر سہی۔ اب چونکہ سبھی کچھ نہ کچھ مانتے ہیں اور اس پر مجبور ہیں تو مجھے ان لوگوں سے ہم‌دردی ہے جو جنھوں نے سائنس کو مسیحا مان لیا ہے۔ یہ مضمون اسی چشم‌کشائی کے واسطے لکھا گیا تھا کہ بد‌قسمتی سے یہ مسیحا بیمار انسانیت کو گلدستے دے کر تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے بہلا تو سکتا ہے مگر چارہ‌گری کی حقیقی صلاحیت سے بالکل معذور ہے۔
میں روایتی مذہب پر بھی اسی فریب کا الزام عائد کرتا ہوں اور اس کے دعاویٰ کو حقیقت سے دور جانتا ہوں۔ اس لیے خلیل بھائی کی تعبیر سے اختلاف بھی کرنا مناسب نہیں جانتا۔ خدا کے نازل‌کردہ دین نے کبھی دنیا کو جنت بنانے کا وعدہ نہیں دیا۔ حتیٰ‌کہ خیر‌و‌شر کی کش‌مکش میں خیر کے کامل غلبے تک کی یقین‌دہانی نہیں کروائی۔ مگر سائنس کے مادہ‌پرست آدرش اور مذاہب کی مسخ‌شدہ شکلیں فی‌زمانہ انھی اہداف کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ لگے رہو، منا بھائی!
مجھے شروع دن سے سائنس کے پیمانے جمہوری قسم کے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ قابلِ‌ابلاغ (communicable) حقائق سے ایک قدم آگے نکلنے کو جرم خیال کرتی ہے۔ گویا معیار ایک ذہن نہیں بلکہ تمام ذہن ٹھہرتے ہیں۔ اس صورت میں عالمِ‌اصغر (microcosm) کے بہت سے مسائل کی ذمہ‌داری سے یہ دانستہ دست‌بردار ہو جاتی ہے۔ یہ ذمہ‌داری مذہب نے روزِ‌اول سے سنبھال رکھی ہے مگر زوال کے عہد میں خود مذہب بھی ظاہر‌پرستی کو اپنا کر کم‌و‌بیش جمہوری رویوں پر اتر آتا ہے اور انفرادی جواب‌دہی کے جو اصول خدا ہمیشہ سے بیان کرتا آیا ہے انھیں تیاگ کر اجتماعی سطح پر عوام کو ہانکنے لگتا ہے۔ اس المیے کو میں نے اکثر ان موضوعات پر لکھی گئی اپنی تحریروں میں بیان کرنا چاہا ہے مگر کبھی اہلِ‌مذہب سے جوتے کھائے ہیں اور کبھی سائنس کے متوالوں سے۔ بدقسمتی سے میں نے ہر‌دو گروہ کو ایک ہی جتنا کٹر پایا ہے۔ اس لیے تابشؔ بھائی کے تبصرے کی داد الگ سے واجب ہے:
ہر طرف سے مار ہی کھانی ہے؟
---
وہ تحریر دوبارہ مل نہیں سکی۔
راحیل ہی کی تحریر ہے وہ بھی، وہی بہتر بتا سکیں گے۔
انتظامیہ نے اسے اشاعت کے کچھ دیر بعد ہی حذف کر دیا تھا۔ اور میری رائے میں اچھا ہی کیا۔ اتنا بہر‌حال مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ جلد توہینِ‌مذہب اور توہینِ‌رسالتؐ وغیرہ کی طرح توہینِ‌علما پر بھی گردنیں ماری جائیں گی۔ گویا ہمارا یہ موقف خود‌بخود اور حرف‌بحرف درست ثابت ہو جائے گا کہ علمائے‌سو مذہب کی آڑ لے کر درحقیقت اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں!
---
میں اس گفتگو کا حصہ بننے والے تمام لوگوں کا ایک بار پھر شکر‌گزار ہوں جنھوں نے نہ صرف میرے دکھ کو سمجھ کر اس میں شریک ہونے کی کوشش کی بلکہ اپنے خیالات‌و‌آرا سے مجھ پر نئی راہیں بھی کھولیں۔ سلامت باشید!
 

صائمہ شاہ

محفلین
تحریر دو بار پڑھنے کے باوجود اس کا سادہ مطلب غیر واضح تھا لیکن یہ ریڈنگ اسے بہتر بنا دیتی ہے
تو کیا آپ کو خلیل صاحب کی تحریر پڑھے بغیر واقعی سمجھ نہیں آئی تھی ؟؟؟ یا پھر آپ بھی بین السطور ادب پارے پر کچھ اور کہہ رہے ہیں :sneaky:
 

امان زرگر

محفلین
قرآن کو سچ‌مچ کی لوحِ‌محفوظ خیال کرتا ہو


تسخیرِ کائنات کے قرآنی بیان کے حوالے سے ایک غیر مسلم فرانسیسی سکالر Maurice Bucaille نے اپنی کتاب The Bible, the Qur'an and Science کے صفحہ نمبر167 تا 169 پر The Qur'an and Modern Science کے باب میں "The Conquest of Space" کے زیر عنوان لکھا ہے :

The Conquest of Space

From this point of view, three verses of the Qur'an should command our full attention. One expresses, without any trace of ambiguity, what man should and will achieve in this field. In the other two, God refers for the sake of the unbelievers in Makka to the surprise they would have if they were able to raise themselves up to the Heavens; He alludes to a hypothesis which will not be realized for the latter.

There can be no doubt that this verse indicates the possibility men will one day achieve what we today call (perhaps rather improperly) "the conquest of space." One must note that the text of the Heavens, but also the Earth, i.e. the exploration of its depths.

1. The first of these verses is sura 55, verse 33 : "O assembly of jinns and men, if you can penetrate regions of the heavens and the earth, then penetrate them! You will not penetrate them save with a power."

2. The other two verses are taken from sura 15, verses 14-15. God is speaking of the unbelievers in Makka as the context of this passage in the sura shows : "Even if We opened unto them a gate to Heaven and they were to continue ascending therein, they would say : our sight is confused as in drunkenness. Nay, we are people bewitched."

The above expresses astonishment at a remarkable spectacle, different from anything man could imagine.

When talking of the conquest of space, therefore, we have two passages in the text of the Qur'an : one of them refers to what will one day become a reality thanks to the powers of intelligence and ingenuity God will give to man, and the other describes an event that the unbelievers in Makka will never witness, hence its character of a condition never to be realized. The event will however, be seen by others as intimated in the first verse quoted above.

It describes the human reactions to the unexpected spectacle that travellers in space will see : their confused sight as in drunkenness the feeling of being bewitched . . . . . .

This is exactly how astronauts have experienced this remarkable adventure since the first human spaceflight around the world in 1961. It is a completely new spectacle therefore, that presents itself to men in space and the photographs of this spectacle are well known to present-day man.

چنانچہ یہ دعویٰ بجا طور پر حق ہے کہ کائنات کے اندر جو کچھ ہو چکا یا ہونے والا ہے اس کا ذکر قرآن کے اندر موجود ہے۔

الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و رُوحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبۂ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے فرما دِی ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَO

(الصف، 61 : 9)

اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک (یعنی کفر و طاغوت کے علمبردار) اُس کی مخالفت کرتے رہیںo

گزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قران کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔

قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے :

رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةًO فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌO

(البينه، 98 : 2، 3)

وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیںo جن میں درُست اور مستحکم اَحکام (درج) ہیںo

کوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو قرآن سے خارج نہیں۔ باوُجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔

خود قرآن اِعلان کرتا ہے :

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO

(لقمان، 31 : 27)

اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا اِحاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہےo

قرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر نقل کرتے ہیں :

کالبدرِ من حيث التفت رأيته
کالشّمسِ في کبدِ السمآءِ و ضوئُها

يهدي إلي عينيک نورًا ثاقبًا
يغشي البلاد مشارقًا و مغاربًا

ترجمہ : ’’قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے‘‘۔
 
آخری تدوین:
Top