اقبال عظیم مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا - اقبال عظیم

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا

مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا

مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا


واہ۔۔۔۔ بہت شکریہ سخنور :)
نیرہ نور نے یہ غزل بہت خوب گائی ہے۔۔۔ میرا خیال ہے میرے پاس اس کی آڈیو ہوگی۔۔۔ مل گئی تو پوسٹ کرتی ہوں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا

[ame]http://www.divshare.com/download/4701242-097[/ame]
لیکن نیرہ نور نے مکمل غزل تو نہیں گائی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فرحت کیانی صاحبہ، وارث صاحب، شمشاد صاحب، محبوب صاحب، فاتح صاحب، ملائکہ صاحبہ!
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب کیا خوبصورت غزل ہے خاص طور پر مندرجہ ذیل شعر-

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

مرے ایک گوشہ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا

مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

سخنور صاحب بہت شکریہ، اور محترمہ فرحت کیانی آپ کا بھی بہت شکریہ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
آج اداسی کی کیفیت اورحسب حال ہے یہ غزل
پیش کرنے کاشکریہ

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
 
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے کبھی اپنے دل سے بھی پوچھئے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مرے ایک گوشہ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کو تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا


سلام دوستو۔ شاعر کا نام معلوم نہیں، اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ کسی دوست کو علم ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ ممنون ہوں گا۔ کوئی غلطی ہو، تو اس کے لئے بھی معافی چاہوں گا، اردو ادب میں اتنا طاق (تاک؟) نہیں ہوں۔
آپ کی محبت اور رہبری کا پیشگی بہت شکریہ۔
 

طارق شاہ

محفلین
نعمان میاں!
بہت اچھی غزل ہے آپ کے حسن ذوق و انتخاب پر بہت سی داد
یہ شاید پہلے بھی یہاں پوسٹ کی جا چکی ہے
تشکّر
بہت خوش رہیں
 
Top