مائے نی میں کنوں آکھاں

La Alma

لائبریرین
جہاں تک مجھے معلوم ہے اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے- مزید یہ کہ "قدیم انسانی زبان کے alphabets" والی بات غلط اس لئے بھی ہے کہ writing systems کی ایجاد تو انسان کی تاریخ میں حال ہی کی بات ہے-
از راہ وضاحت ؛بھلے حال ہی میں ایجاد ہوا هو۔ لیکن یہاں پر ذکر انسان کے ہاتھ کی لکھی تحریر کا نہیں ۔یہ معاملہ آفاقی نوعیت کا ہے۔ قرآن بھی تو لوح محفوظ سے اتارا گیا تھا ۔
اب صاحب لڑی کو تھوڑا آرام کا موقع دینا چاہیے ۔ ☺
 

La Alma

لائبریرین
جہاں تک مجھے معلوم ہے اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے- مزید یہ کہ "قدیم انسانی زبان کے alphabets" والی بات غلط اس لئے بھی ہے کہ writing systems کی ایجاد تو انسان کی تاریخ میں حال ہی کی بات ہے-
از راہ وضاحت ؛بھلے حال ہی میں ایجاد ہوا هو۔ لیکن یہاں پر ذکر انسان کے ہاتھ کی لکھی تحریر کا نہیں ۔یہ معاملہ آفاقی نوعیت کا ہے۔ قرآن بھی تو لوح محفوظ سے اتارا گیا تھا ۔
اب صاحب لڑی کو تھوڑا آرام کا موقع دینا چاہیے ۔ ☺
 

صائمہ شاہ

محفلین
بحث جس نہج پر چل رہی ہے مجھے اس میں پڑنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا
ہیں ؟؟؟
فائدہ نہیں ؟؟
اور کچھ نہیں تو دو چار سیلف میڈ علما سے مضحکہ خیز کی ریٹنگ ہی مل جائے گی سچ بولنے یا کریدنے پر :)
سوچیے
آپ کی آخرت سنور سکتی ہے ایسی خود کش ریٹنگ سے ۔
اپنا نہیں تو ان کا ہی خیال کریں جو ریٹنگ کے ڈنڈے سے اپنی اخلاقیات کی تبلیغ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ ان کی جنت میں انٹری کا واسطہ ہے آپ کو حوالہ دے دیجیے ۔
 
جہاں تک میں سمجھ پایا اس تھریڈ سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ماں کے جب بھی پھل لیجایا یا اسکا تذکرہ کیا جو موسم کے اعتبار سے ہو-
جیسا کہ عنوان میں کہا گیا ہے
مائے نی میں "کنوں" آکھاں
اگر یہی ادھر کنوںکی جگہ خربوزے یا آم کا تذکرہ ہوتا تو بحث اس نہج کو نہ پہنچتی - پس ثابت ہوا کہ پھل موسم کے مطابق اور گفتگو لڑی کے مطابق-
 
از راہ وضاحت ؛بھلے حال ہی میں ایجاد ہوا هو۔ لیکن یہاں پر ذکر انسان کے ہاتھ کی لکھی تحریر کا نہیں ۔یہ معاملہ آفاقی نوعیت کا ہے۔ قرآن بھی تو لوح محفوظ سے اتارا گیا تھا ۔
اب صاحب لڑی کو تھوڑا آرام کا موقع دینا چاہیے ۔ ☺
میری پیاری بہنا۔ آپ کے دلائل خالص علم پر مبنی ہیں ۔ علمی دلائل کے جوابات میں جب یورپی تہذیب سے آلودہ علم اور عقل سے پیدل لوگ علمی دلائل کے جواب میں سلیف میڈ ملاؤں اور جنت کی انٹریوں جیسی عامیانہ طعنہ زنی پر اتر آئیں تو گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانہ کیچڑ میں پتھر پھینکنے جیسا ہوتا ہے۔
 
اگر انسان کو خدا کا حقیقی عرفان کسی قدر نصیب ہو جائے تو وہ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں اتنا بے باک اور نڈر ہرگز نہیں ہو سکتا جتنا مجھ جیسا کوئی جاہل ہوتا ہے۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہی کیفیت آگے چل کر وہ بے زبانی پیدا کرتی ہے جس میں عارف کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے، کس سے کہے اور کیسے کہے؟
قبلہ مسئلہ یہ ہے کہ بیان کردے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آنا اور اس بیان پر سر ہی اترتے ہیں۔ ابن منصور حلاج کی مثال سامنے ہے۔۔۔۔۔۔ اس پر میاں محمد بخش صاحب کا تبصرہ ہی کافی ہے
؎ خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی۔۔۔۔۔
 
Top