مائے نی میں کنوں آکھاں

مولائے رومؒ نے اپنی مثنوی میں ایک بڑی معنیٰ خیز حکایت بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دہقان کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں شام پڑ گئی۔ ویرانہ تھا۔ اس نے اپنے بیل کو باندھا اور خود ایک نسبتاً محفوظ جگہ پر مچان بنا کر سو گیا۔ رات کو کسی وقت اس کی آنکھ کھلی تو اسے خیال آیا کہ علاقہ محفوظ نہیں۔ کہیں کوئی درندہ اس کے جانور کو پھاڑ نہ کھائے۔ وہ اترا اور گھپ اندھیرے میں ٹٹول کر اس جگہ پہنچا جہاں اس نے اپنے بیل کو باندھا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے تئیں بیل کے جسم پر ہاتھ پھیر کر تسلی کی۔ ادھر معاملہ یہ تھا کہ ایک شیر آ کر اس کے بیل کو ہلاک کر چکا تھا اور سیر ہونے کے بعد آرام کر رہا تھا۔ دہقان اس شیر کے بدن پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور شیر اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ اگر اس گنوار کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شیر کے بدن کو سہلا رہا ہے تو اس کا پتا پھٹ جائے اور دل خون ہو جائے۔
آگے چل کر مولوی رومیؒ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے۔ یعنی انسان صبح و شام اللہ اللہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر اسے علم ہو جائے کہ اللہ کیا ہے تو اس کا دل خون ہو جائے اور زہرہ آب ہو جائے۔
یہ تو خیر بہت بڑی مثال ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ انسان عام طور پر بھی جو کلام روزمرہ کے معمولات میں کرتا ہے، اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔ بلکہ یوں کہنا شاید مناسب ہو گا کہ انسان اسی چیز کی بابت عام طور پر زیادہ کلام کرتا ہے جس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔ ورنہ معمولی سے معمولی حقیقت کا وقوف بھی انسان کے نطق کو عاجز کر دینے کے لیے کافی ہے۔
برٹرینڈ رسل کا ایک قول معروف ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ
دنیا کے ساتھ مسئلہ یہی ہے کہ احمق اور سودائی اپنے تئیں نہایت پراعتماد اور پرتیقن ہوا کرتے ہیں جبکہ دانا متردد اور متذبذب رہ جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ داناؤں کی جھجک اور تردد ان کے بڑھے ہوئے علم اور بصیرت کے باعث ہی ہوتا ہے۔انسان کا علم جب محدود ہوتا ہے تو اس کمی کی تلافی کرنے کے لیے فطری طور پر اس کے اندر یقین اور اعتماد کا عنصر زیادہ ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کم علم لوگوں کا جینا محال ہو جائے۔ لیکن فطرت توازن قائم رکھنے کے لیے ایسے انسانوں کو یقین کی قوت ارزانی کر دیتی ہے۔ لہٰذا جاہل درست قدم اٹھائیں یا غلط، عالم کی نسبت عموماً زیادہ استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوں جوں علم میں ترقی ہوتی ہے توں توں مختلف و متبائن نکتہ ہائے نظر سے تعارف ہونے کے باعث کسی ایک خیال پر قائم ہونا دشوار ہونے لگتا ہے اور انسان کے دل میں بے یقینی راہ پانے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کے ہاں جس درجے کے اعلیٰ و ارفع خیالات نظر آتے ہیں، اس سطح کا کردار ان کے ہاں اکثر پیدا نہیں ہو پاتا۔ منزلیں ان کی روشن نگاہی کی زد میں ہوتی ہیں، مگر تذبذب، تامل اور بے یقینی انھیں گویا مفلوج کر کے راہ مار دیتے ہیں۔
ایک چوراہے پر دو شخص جھگڑ رہے تھے۔ کسی راہ گیر نے وجہ پوچھی تو ایک بولا کہ میں کہتا ہوں یہ تختہ نیلا ہے اور یہ شخص کہتا ہے کہ یہ سرخ ہے۔ راہ گیر بولا، "تم دونوں صحیح کہتے ہو۔ جس طرف پہلا شخص کھڑا ہے اس طرف سے یہ نیلا ہے۔ اور جس طرف سے دوسرا اسے دیکھتا ہے اس طرف اس کا رنگ سرخ ہے۔"
یہ حکایت بڑی سادہ سہی، لیکن ہم قیاس کر کے ایک نکتہ سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ دونوں جھگڑنے والوں میں سے کسی ایک کو یہ بات معلوم ہوتی کہ تختہ دونوں طرف سے دو مختلف رنگوں میں رنگا ہوا ہے تو بھی کیا وہ اسی شدت اور جذبے سے لڑ سکتا؟ میرا خیال ہے نہیں۔ امید ہے آپ بھی یہی سمجھتے ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں شخصِ موصوف کو اپنی صداقت کا یقین تو بے شک ہوتا مگر دوسرے کے بھی سچا ہونے کا احساس ضرور اس کے عزم اور جذبے میں دراڑیں ڈال دیتا۔ فریقِ مخالف کی بات کو کلیتاً اور صریحاً رد کرنے کے لیے جو لاعلمی اور جہالت درکار ہے وہ نہ ہو تو انسان ایسا ہی بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے۔ اپنی نظر میں بھی اور دوسروں کی نظر میں بھی!
صوفیا اور سریت پسند علما کا معاملہ بھی شاید یہی رہا ہے۔ رموزِ کائنات کی فہم ایک حد سے بڑھ جانے کے بعد انسان پر غالباً ایک ایسا وقت آتا ہے جب اس کا نطق اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جاتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں​
میں سلوک کا طالبِ علم نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ شاید یہی مقام منزلِ حیرت ہوتا ہو گا۔ حیرت ایک ایسی جذباتی کیفیت کا نام ہی تو ہے جو کسی ایسے انکشاف کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جو انسان کی عقل کو عاجز کر دے۔ اور انکشاف علم میں معنیٰ خیز اضافے کے سوا کچھ اور نہیں۔ رومیؒ کی بیان کردہ حکایت بھی ایسا ہی کچھ کہتی ہے۔ اگر انسان کو خدا کا حقیقی عرفان کسی قدر نصیب ہو جائے تو وہ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں اتنا بے باک اور نڈر ہرگز نہیں ہو سکتا جتنا مجھ جیسا کوئی جاہل ہوتا ہے۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہی کیفیت آگے چل کر وہ بے زبانی پیدا کرتی ہے جس میں عارف کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے، کس سے کہے اور کیسے کہے؟
مائے نی میں کنوں آکھاں​
علم کی زیادتی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ قوتِ عمل سے محروم کر دیتی ہے۔ صوفیا ہوں یا فلاسفہ، کسی شے کے متعدد پہلوؤں اور ان کے مضمرات سے واقف ہونے کی وجہ سے کسی ایک پہلو یا تناظر کو کھلی ترجیح نہیں دے سکتے۔ جبکہ کاروبارِ حیات کی بنیادی شرط یہی ہے کہ آپ کی ترجیحات متعین ہوں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ اور یہ بھی کہ کیا نہیں کرنا اور کیوں نہیں۔ مگر یہ سادہ سا فیصلہ علم والوں پر بے علموں کے تصور سے بھی زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہی گومگو دنیا کے معاملات میں ان بے چاروں کی ناکامی کی ضامن ہے۔

ماخڈ: دل دریا
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
اس تحریر کو میں دو تین ہفتے پہلے بھی آپ کے بلاگ پہ پڑھ چکا تھا۔ اور آج پھر پڑھنے کو ملی یہ تحریر ،
آگہی سے بھرپور باتیں ہیں اس میں مجھ ایسوں کے لئے ۔
انسان عام طور پر بھی جو کلام روزمرہ کے معمولات میں کرتا ہے، اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔ بلکہ یوں کہنا شاید مناسب ہو گا کہ انسان اسی چیز کی بابت عام طور پر زیادہ کلام کرتا ہے جس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔ ورنہ معمولی سے معمولی حقیقت کا وقوف بھی انسان کے نطق کو عاجز کر دینے کے لیے کافی ہے۔
علم کی زیادتی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ قوتِ عمل سے محروم کر دیتی ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
کافی عرصہ بعد کسی تحریر کو پڑھ کر جی بہت خوش ہوا بہت عمدہ لکھا سر آپ نے :)

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

:)
 
طرزِ تحریر شاندار۔۔۔۔۔! :in-love:
خیالات مجھ سے جُڑواں۔۔۔۔!:p

عنوان کا تحریر سے ربط ۔۔۔۔؟ عمومی تو ہے ہی۔۔۔۔ خصوصی کے بارے میں بتا دیجئیے۔ :talktohand:
 

نور وجدان

لائبریرین
اس کے برعکس جوں جوں علم میں ترقی ہوتی ہے توں توں مختلف و متبائن نکتہ ہائے نظر سے تعارف ہونے کے باعث کسی ایک خیال پر قائم ہونا دشوار ہونے لگتا ہے اور انسان کے دل میں بے یقینی راہ پانے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کے ہاں جس درجے کے اعلیٰ و ارفع خیالات نظر آتے ہیں، اس سطح کا کردار ان کے ہاں اکثر پیدا نہیں ہو پاتا۔ منزلیں ان کی روشن نگاہی کی زد میں ہوتی ہیں، مگر تذبذب، تامل اور بے یقینی انھیں گویا مفلوج کر کے راہ مار دیتے ہیں۔
میرے اپنے خیال جب انسان اللہ کی جانب یا علم کی جانب جانا شُروع کرتا ہے تو یہی وساوس یا بے یقینی کا عنصر اسے گھیرے رکھتا ہے ۔ جب وہ اس منزل کو عبور کرلیتا ہے تو حقیقتا ایک عارف ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم کی مثال میرے سامنے ہے کہ آپ نے تمام وساوس کو ختم کرتے یقین سے زیادہ بڑھتے یعنی عقل سے ایک مقام یا قدم بڑھتے آگ میں کود کر ثابت کردیا کہ انسان کی اصل دولت یقین ہے ۔ اس قسم کے لوگ کہاں پیدا ہوتے ہیں جن کا یقین معجزات اور کرامات میں بدل جاتا ہے جو یقین کے بل پر پانیوں پر چلتے ہیں یا انالحق کا نعرہ مارتے دار پر چڑھتے ہیں ۔

انسان کی باطنی کشمکش کو فاش کرتی ایک شاندار اور زبردست تحریر ہے گوکہ جو اختلافی بات ہے وہ میں نے بیان کردی ہے
 

لاریب مرزا

محفلین
دلچسپ مثالوں سے مزین ایک عمدہ تحریر!! لیکن ایک بات جو ہمارے مشاہدے میں ہے وہ بالکل الٹ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ داناؤں کی جھجک اور تردد ان کے بڑھے ہوئے علم اور بصیرت کے باعث ہی ہوتا ہے۔انسان کا علم جب محدود ہوتا ہے تو اس کمی کی تلافی کرنے کے لیے فطری طور پر اس کے اندر یقین اور اعتماد کا عنصر زیادہ ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کم علم لوگوں کا جینا محال ہو جائے۔ لیکن فطرت توازن قائم رکھنے کے لیے ایسے انسانوں کو یقین کی قوت ارزانی کر دیتی ہے۔ لہٰذا جاہل درست قدم اٹھائیں یا غلط، عالم کی نسبت عموماً زیادہ استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوں جوں علم میں ترقی ہوتی ہے توں توں مختلف و متبائن نکتہ ہائے نظر سے تعارف ہونے کے باعث کسی ایک خیال پر قائم ہونا دشوار ہونے لگتا ہے اور انسان کے دل میں بے یقینی راہ پانے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کے ہاں جس درجے کے اعلیٰ و ارفع خیالات نظر آتے ہیں، اس سطح کا کردار ان کے ہاں اکثر پیدا نہیں ہو پاتا۔ منزلیں ان کی روشن نگاہی کی زد میں ہوتی ہیں، مگر تذبذب، تامل اور بے یقینی انھیں گویا مفلوج کر کے راہ مار دیتے ہیں۔
ہم نے تو دیکھا ہے کہ جس کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے وہ زیادہ پُر اعتماد ہوتا ہے اس شخص کی نسبت جس کے پاس علم کم ہو۔ یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ویسے تو ہم دنیاوی علم کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ دینی علم پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔
اور تحریر کا اس کے عنوان سے ربط سمجھ نہیں آیا۔ :)
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
ایک چوراہے پر دو شخص جھگڑ رہے تھے۔ کسی راہ گیر نے وجہ پوچھی تو ایک بولا کہ میں کہتا ہوں یہ تختہ نیلا ہے اور یہ شخص کہتا ہے کہ یہ سرخ ہے۔ راہ گیر بولا، "تم دونوں صحیح کہتے ہو۔ جس طرف پہلا شخص کھڑا ہے اس طرف سے یہ نیلا ہے۔ اور جس طرف سے دوسرا اسے دیکھتا ہے اس طرف اس کا رنگ سرخ ہے۔"

علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
-- یاس یگانہ چنگیزی
 

نور وجدان

لائبریرین
اور پھر حکایتوں اور کہاوتوں سے جڑی سوچ ان حکایتوں اور کہاوتوں جیسی متھ ہی ہوتی ہے حقیقت نہیں ۔
یہاں حکایت کا مفہوم میرے خیال میں مضمون کے مفہوم سے قدرے مختلف دکھتا ہے کہ حکایت میں انسانی لاعلمی کو مضمون سے جوڑ دیا گیا ۔ دانا شخص خاموش رہنا پسند کرتا ہے مگر بے یقین نہیں ہوتا
 
عنوان کا تحریر سے ربط ۔۔۔۔؟ عمومی تو ہے ہی۔۔۔۔ خصوصی کے بارے میں بتا دیجئیے۔ :talktohand:
اور تحریر کا اس کے عنوان سے ربط سمجھ نہیں آیا۔ :)
مضمون میں گفتگو اور کلام کی بے بضاعتی زیرِ بحث آئی ہے۔ عنوان اس نسبت سے مجھے موزوں معلوم ہوا تھا۔ خیر، اب بدل دیا جائے گا!
ہم نے تو دیکھا ہے کہ جس کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے وہ زیادہ پُر اعتماد ہوتا ہے اس شخص کی نسبت جس کے پاس علم کم ہو۔ یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ویسے تو ہم دنیاوی علم کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ دینی علم پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔
آپ کی بات درست ہے مگر اس کا اطلاق علم میں ترقی کی ابتدائی صورتوں ہی پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ علم ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو انسان سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ آپ تو انگریزی کی استاد ہیں۔ ہیملٹ کا تذبذب تو آپ کو یاد ہو گا؟
To be or not to be-that is the question:
کیا آپ کہہ سکتی ہیں کہ انکشاف (anagnorosis) کے بعد جب ہیملٹ کے پاس 'زیادہ علم' موجود تھا، وہ زیادہ پراعتماد ہو گیا تھا؟
میں نہیں مانتی کہ علم کی زیادتی قوت عمل سے محروم کر دیتی ہے ہاں یہ آپ کو تنہا ضرور کر دیتی ہے ۔
ماننے نہ ماننے کی بحث نہیں۔ عام سی گفتگو ہے۔
یہ black and white کے مقابلے میں shades of grey دیکھنے کی وجہ سے ایک stereotype ہے۔
نفسیات سٹیریو ٹائپنگ کے علاوہ کرتی کیا ہے؟
اور پھر حکایتوں اور کہاوتوں سے جڑی سوچ ان حکایتوں اور کہاوتوں جیسی متھ ہی ہوتی ہے حقیقت نہیں ۔
یونانی دیومالا پڑھی آپ نے؟ شیکسپئر کو پڑھا آپ نے؟
فرائیڈ اور نطشے سے پوچھیے کہ صدیوں اور ہزاریوں پرانے ان قصوں پر تکیہ کیے بغیر جدید ذہن کی تفہیم کیوں ممکن نہ تھی؟ انسانی دماغ کی گرہوں کو ایڈیپس اور الیکٹرا کا نام لیے بغیر کھولنا کیوں ممکن نہ تھا؟ اگر بارِ خاطر نہ ہو تو میں کہوں کہ فرائیڈ نے جو کچھ منطقی طور پر بیان کیا اسے "حکایتوں اور کہاوتوں سے جڑی سوچ" اس سے ہزاروں سال پہلے ادب اور مذہب کے جذباتی استعاروں میں بیان کر چکی تھی۔
میں ایک آدھ جگہ اور بھی اس حیرت کا اظہار کر چکا ہوں کہ جیسے دیسی مسلمان حضرت محمدﷺ سے بھی بڑے مسلمان ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے دیسی سائنس دان اور فلسفی آئن سٹائن اور دریدا سے بھی بڑے دانش ور ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک سائنس کا مقصد جستجوئے حق سے زیادہ iconoclasm ہے۔ اور یہ کام وہ بڑے جوش سے کرتے ہیں۔ خالص سائنسی حق جوئی کی بجائے ان کی زیادہ تر بحثیں لوگوں کے خیالات، روایات اور عقائد وغیرہ پر کیچڑ اچھالنے پر مرکوز ہوتی ہیں۔ حالانکہ خالص سائنس تو عام طور پر اپنے ثمرات کے سماجی مضمرات پر نظر ڈالنی بھی گوارا نہیں کرتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سائنس جیسی بزرگ علم جوئی کے ساتھ ہمارے ایشیائی دانش وروں کا یہ سلوک، کہ اسے فقط اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے استعمال کیا جائے، قابلِ مذمت ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
ایک طرف آپ کہتے ہیں نفسیات سٹیریو ٹائپنگ کے علاوہ کیا کرتی ہے دوسری طرف آپ متھ اور حکایت کا دفاع فرائیڈ کے نظریات اور کام سے کرتے ہیں :)
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔۔۔
مجھے ادبی مکالمہ پسند ہے مگر تنقید کا جارحانہ دفاع نہیں :)
ویسے میں سیدھی بات سیدھے طریقے سے کرنے کی قائل ہوں اس لئے یہ حکایتوں کے ہیر پھیر میری شخصیت سے میل نہیں کھاتے آپ تحریر کے دفاع میں جذباتی ہو گئے مجھے نہیں پتہ تھا کہ صرف تعریف کرنی ہے :)
بہت عمدہ تحریر ہے بہت مدلل حکایات اور انتہائی دلکش انداز بیان ۔۔۔
یونانی دیو مالا اور شیکسپئیر کا نام آپ کے مراسلے سے جانا اس کے لئے بھی بہت شکریہ آپ کا ورنہ میں اس جنم میں ان کا ذکر سنے بغیر ہی گذر جاتی ۔
:) :) :)
 
ایک طرف آپ کہتے ہیں نفسیات سٹیریو ٹائپنگ کے علاوہ کیا کرتی ہے دوسری طرف آپ متھ اور حکایت کا دفاع فرائیڈ کے نظریات اور کام سے کرتے ہیں :)
اطلاعاً عرض ہے کہ فرائیڈ نے ایڈیپس اور الیکٹرا کمپلکسز کی صورت میں سٹیریو ٹائپنگ ہی کی ہے۔ اس معاملے میں 'دوسری طرف' کوئی نہیں۔
آپ کا یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ ایک طرف تو آپ کوے کو کالا کہتے ہیں اور 'دوسری طرف' سیاہ قرار دیتے ہیں!
مجھے ادبی مکالمہ پسند ہے مگر تنقید کا جارحانہ دفاع نہیں :)
یہ جارحانہ دفاع کیا بلا ہے؟
اگر میرے پچھلے مراسلے میں سے اس قباحت کا کوئی ثبوت اقتباس کی صورت میں فراہم کر سکیں تو میں شکر گزار ہوں گا۔
ویسے میں سیدھی بات سیدھے طریقے سے کرنے کی قائل ہوں اس لئے یہ حکایتوں کے ہیر پھیر میری شخصیت سے میل نہیں کھاتے
آپ کی شخصیت اور میلانات دنیا کے ہر شخص کی شخصیت اور میلانات کی طرح واجب الاحترام ہیں۔ مگر اس احترام کے پردے میں کوئی بھی اس قسم کے بیاناتِ حتمی (sweeping statements) کو قبول نہیں کرے گا:
اور پھر حکایتوں اور کہاوتوں سے جڑی سوچ ان حکایتوں اور کہاوتوں جیسی متھ ہی ہوتی ہے حقیقت نہیں ۔
اسے آپ ادبی مکالمہ سمجھتی ہیں؟
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔۔۔
آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں!​
آپ تحریر کے دفاع میں جذباتی ہو گئے مجھے نہیں پتہ تھا کہ صرف تعریف کرنی ہے :)
تعریف کا شوق بہت عرصے سے اور بہت زیادہ پورا ہو چکا میرا۔ جس شخص کے خیالات کو مغربی جامعات کے اساتذہ نقل کرتے ہوں وہ آپ سے تعریف حاصل کرنے کے لیے بددیانتی سے کام لے تو بے وقوف ہو گا۔
بہت عمدہ تحریر ہے بہت مدلل حکایات اور انتہائی دلکش انداز بیان ۔۔۔
یونانی دیو مالا اور شیکسپئیر کا نام آپ کے مراسلے سے جانا اس کے لئے بھی بہت شکریہ آپ کا ورنہ میں اس جنم میں ان کا ذکر سنے بغیر ہی گذر جاتی ۔
صائبؔ تبریزی کا ایک شعر آپ کی اس تحسین کی نذر:
صائبؔ دو چیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس​
 

صائمہ شاہ

محفلین
اطلاعاً عرض ہے کہ فرائیڈ نے ایڈیپس اور الیکٹرا کمپلکسز کی صورت میں سٹیریو ٹائپنگ ہی کی ہے۔ اس معاملے میں 'دوسری طرف' کوئی نہیں۔
آپ کا یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ ایک طرف تو آپ کوے کو کالا کہتے ہیں اور 'دوسری طرف' سیاہ قرار دیتے ہیں!

یہ جارحانہ دفاع کیا بلا ہے؟
اگر میرے پچھلے مراسلے میں سے اس قباحت کا کوئی ثبوت اقتباس کی صورت میں فراہم کر سکیں تو میں شکر گزار ہوں گا۔

آپ کی شخصیت اور میلانات دنیا کے ہر شخص کی شخصیت اور میلانات کی طرح واجب الاحترام ہیں۔ مگر اس احترام کے پردے میں کوئی بھی اس قسم کے بیاناتِ حتمی (sweeping statements) کو قبول نہیں کرے گا:

اسے آپ ادبی مکالمہ سمجھتی ہیں؟

آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں!​

تعریف کا شوق بہت عرصے سے اور بہت زیادہ پورا ہو چکا میرا۔ جس شخص کے خیالات کو مغربی جامعات کے اساتذہ نقل کرتے ہوں وہ آپ سے تعریف حاصل کرنے کے لیے بددیانتی سے کام لے تو بے وقوف ہو گا۔

صائبؔ تبریزی کا ایک شعر آپ کی اس تحسین کی نذر:
صائبؔ دو چیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس​
بہت شکریہ
خود کو عالم سمجھنا ہی علمیت کی سب سے بڑی پہچان ہے :)
مغرب کے جس بھی جامع میں آپ کو نقل کیا جاتا ہے وہ یقیناً آکسفورڈ اور کیمبرج سے کم نہ ہوں گی ۔ اہل علم سوال کو تضحیک کی نظر سے نہیں دیکھتے اور علم ہر کسی کو شعور نہیں بخشتا ۔
یہ جو آپ یونانی دیو مالا اور شیکسپئیر اور فرائیڈ۔ کے نظریات پر چڑھ کر دوسروں کو صائب کے اشعار سے نواز رہے ہیں وہ آپ کے بڑے پن اور علمیت کی واضح مثال ہے ۔
آپ یقیناً بہت بڑے عالم ہیں جو کسی وجہ سے گمنام رہ گئے مگر ایسے حکایتی یک طرفہ یک نظریاتی مضامین اپنے نقش پا بھی کسی ذہن پر چھوڑنے میں ناکام ہیں ۔
صائب کے جواب میں اتنا ہی کہوں گی
۔ بریں عقل و دانش بباید گریست ۔۔۔
مجھ سے بحث کی بجائے مضامین کو تعمیری سوچ دیجیے اور علمی بھی اس سے آپ کو اپنے
علم و عقل کی مثالیں نہیں دینی پڑیں گی مضمون سے ہی ثابت ہو جائے گا ۔
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ
خود کو عالم سمجھنا ہی علمیت کی سب سے بڑی پہچان ہے :)
مغرب کے جس بھی جامع میں آپ کو نقل کیا جاتا ہے وہ یقیناً آکسفورڈ اور کیمبرج سے کم نہ ہوں گی ۔ اہل علم سوال کو تضحیک کی نظر سے نہیں دیکھتے اور علم ہر کسی کو شعور نہیں بخشتا ۔
یہ جو آپ یونانی دیو مالا اور شیکسپئیر اور فرائیڈ۔ کے نظریات پر چڑھ کر دوسروں کو صائب کے اشعار سے نواز رہے ہیں وہ آپ کے بڑے پن اور علمیت کی واضح مثال ہے ۔
آپ یقیناً بہت بڑے عالم ہیں جو کسی وجہ سے گمنام رہ گئے مگر ایسے حکایتی یک طرفہ یک نظریاتی مضامین اپنے نقش پا بھی کسی ذہن پر چھوڑنے میں ناکام ہیں ۔
صائب کے جواب میں اتنا ہی کہوں گی
۔ بریں عقل و دانش بباید گریست ۔۔۔
مجھ سے بحث کی بجائے مضامین کو تعمیری سوچ دیجیے اور علمی بھی اس سے آپ کو اپنے
علم و عقل کی مثالیں نہیں دینی پڑیں گی مضمون سے ہی ثابت ہو جائے گا ۔
بجا۔
 
اچهی تحریر ہے۔
عنوان شاید مطابقت نہیں رکھتا۔
۔۔
(علم کی زیادتی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ قوتِ عمل سے محروم کر دیتی ہے)
اس جملے میں 'قوت عمل' سے پہلے لفظ 'فوری' اور عمل کے بعد 'اور رد عمل' کا اضافہ اسے کچھ بہتر معنی عطا کرتا ۔۔!!!
 
Top