لاہور کے چرچ میں 'عید میلاد' کا جشن، نماز بھی ادا کی گئی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شاکرالقادری

لائبریرین
جیسے آپ کے اس فعل کے لئے عمومی دلائل جن میں نوافل کی اہمیت بیان کی گئی ہو، سے آپ کا خاص بارہ ربیع الاول کو دو نفل ادا کرنے کا فعل ثابت نہیں ہوگا، ویسے ہی نعمت کی خوشی، جیسے عمومی دلائل سے عید میلاد کا خاص فعل ثابت نہیں ہو سکتا۔ ۔
میں کتنے خاص افعال کا ذکر کروں ۔۔۔ جن پر میاں فضیحت کا خود عمل ہے ۔۔ دوسروں کو نصیحت تو عادتا کی جاتی ہے
 

x boy

محفلین
یہ خبر غلط ہے مسلمانوں نے چرچ میں نماز ادا نہیں کی۔
اگر کوئی فوٹو شوٹو دکھائیں تو 1 سے 2 فیصد کہہ سکتے ہیں کہ کیا صحیح کیا غلط۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جی اس بات سے انکار کرنے والے اعلیٰ حضرت ہیں، اور انہوں نے بہت سخت لہجے میں اختلاف کیا ہے۔۔ ہے کوئی اس بات سے انکار کرنے والا؟


۔حضرت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی ۔سے کسی نے پوچھا کہ مسجد میں ہندوؤں سے منبر پر لیکچر دلوائے گئے اور کہا گیا کہ مسجد نبوی میں وفود کفار قیام کرتے تھے اور اپنے طریقہ سے عبادت بھی کرتے تھے اور کفار کا داخلہ مخصوص بمسجد حرام ایک خاص وقت کے واسطے منع تھا.. اس کے جواب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

یہ کہنا کہ وفود کفار مسجد نبوی میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے، محض جھوٹ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے جائز رکھنے کا اشعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر افترائے فجار، حاشا کہ اللہ کا رسول گو بار بار فرمائے کہ کسی مسجد، نہ کہ خاص مسجد مدینہ کریمہ میں، نہ کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بتوں یا مسیح کی عبادت کی جائے..، جانتے ہو کہ اس سے ان کا مقصود کیا ہے یہ کہ مسلمان تو اسی قدر پر ناراض ہوئے ہیں کہ مشرک کو مسجد میں مسلمانوں سے اونچا کھڑا کرکے ان کا واعظ بنایا وہ تو اس تہیہ میں ہیں کہ ہندوؤں کو حق دیں کہ مسجد میں بت نصب کر کے ان کی ڈنڈوت کریں، گھنٹے بجائیں، سنگھ پھونکیں، کیونکہ ان مفتریوں کے نزدیک خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں خود حضور کے سامنے کفار اپنے طریقہ کی عبادت کرتے تھے:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسجد کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی.. جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا، کسی کافر کی حاضری معاذاللہ بطور استیلا و استعلاء نہ تھی، بلکہ ذلیل و خوار ہو کر یا اسلام لانے کے لیے یا تبلیغ اسلام سننے کے واسطے.. کہاں یہ اور کہاں وہ جو بدخواہان اسلام نے کیا، کہ مشرک کو بدرجہ تعظیم مسجد میں لے گئے، اسے مسلمانوں سے اونچا کھڑا کیا، اسے مسلمانوں کا واعظ و ہادی بنایا، اس میں مسجد کی توہین ہوئی اور توہین مسجد حرام، مسلمانوں کی تذلیل ہوئی اور تذلیل مسلمین حرام، مشرک کی تعظیم ہوئی اور تعظیم مشرک حرام، بدخواہی مسلمین ہوئی بلکہ بدخواہی اسلام، پھر اسے اسی پر قیاس کرنا کیسی سخت ضلالت و گمراہی ہے، طرفہ یہ کہ زبانی کہتے جاتے ہیں کہ مشرک کا بطور استعلاء مسجد میں آنا ضرور حرام ہے اور نہیں دیکھتے کہ یہ آنا بطور استعلاء ہی تھا:

"فانھا لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور"
"پس بے شک آنکھیں اندھی نہیں اور لیکن دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں"

اس نا بینائی کی بنا پر یہ مسلمان کو دھوکا دینے والے یہاں حنفیہ و شافعیہ کا اختلافی مسئلہ کہ مسجد میں دخول کافر حرام ہے یا نہیں، محض دھوکا دینے کو پیش کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس مسئلہ میں تحقیق کیا ہے:

اولا: خود کتب معتمدہ حنفیہ سے ممانعت پیدا ہے...
ثانیا: خود محرر مذہب سیدنا امام محمد کے ارشاد سے منع ہویدا ہے...
ثالثا: علما و صلحا کا ادب کیا رہا ہے؟ اختلاف احوال زمانہ و عادات قوم ہمیشہ مسائل تعظیم و توہین میں دخل رکھتا ہے...
رابعا: غیر اسلامی سلطنت اور نا مسلموں کی کثرت میں اسکی اجازت کی اشا عت اور مساجد کو پامالی کفار کے لیے وقف کرنا کس قدر بہی خواہی اسلام ہے؟؟
خامسا: وہ نجس قوم کہ بہ نص قطعی قرآن اس پر حکم نجاست ہے اور وہ مسلمانوں کو ملیچھ کہے، بھنگی کی مثل سمجھے، سودا بیچے تو دور سے ہاتھ میں رکھدے، اسکے نجس بدن ناپاک پاؤں کے لیے تم اپنی مساجد کو وقف کرو، یہ کس قدر مصلحت اسلام کے گہرے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ان سب سے قطع نظر ان حرکات شنیعہ کا اس سے کیا علاج ہو سکتا ہے...

او گماں بردہ کہ من کردم چو او
فرق را کے بیند آں استیزہ چو

صحیح بخاری شریف میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"قال کانت الکلاب تقبل و تدبر فی المسجد فی زمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" "
"کہا زمانہ رسالت میں مسجد شریف میں کتے آتے جاتے تھے"

اب تم کتے خود اپنی مسجدوں اور مسجد الحرام شریف یا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لے جاؤ اور جمعہ کے دن امام کے داہنے بائیں منبر پر دو کتے بٹھاؤ.. تمہارے استدلال کی نظیر تو یہیں تک ہو گی، کہہ دینا کہ زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں نہ آتے جاتے تھے؟ ہم لے گئے اور منبر پر انہیں بٹھایا تو کیا ہوا؟؟ اور وہ جو آنے جانے اور یوں لے جانے اور منبر پر بٹھانے کا فرق ہے اس سے آنکھ بند کر لینا جیسے یہاں بند کر لی، کون سی آنکھ دل کی کہ
"تعمی القلوب التی فی الصدور"

بلکہ خدا تمہیں عقل و انصاف دے تو یہ بھی تمہارے فعل کی نظیر نہیں، تم خطیب کے آس پاس منبر پر کتے بٹھاؤ، اس سے وہ کتے خطیب نہ ہو جائیں گے اور تم نے مشرکین کو خطیب مسلمین بنایا لہذا اگر قدرے اپنے فعل سے تقریب چاہو تو ان کتوں کو سدھاؤ کہ جب امام پہلا خطبہ پڑھ کر بیٹھے، وہ نہایت بلند آواز سے بھونکنا اور رونا شروع کریں کہ باہر تک کے سب لوگوں کو خبر ہو جائے کہ جلسہ و دعا کا وقت ہے، یوں ہی نماز کے وقت آٹھ آٹھ دس دس صفوں کے فاصلے سے چار چار کتے صف میں کھٹرے کرو کہ تکبیر انتقال کے وقت چیخیں اور مکبروں سے زیادہ تبلیغ کا کام دیں اور یہی حدیث بخاری حجت میں پیش کر دینا کہ دیکھو زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے، بلکہ ان کے آنے سے کوئی فائدہ نہ تھا اور ہم کتے اس نفع دینی کے لیے لے گئے تو بدرجہ اولی یہ جائز ہوا.. وہاں تک تو قیاس تھا یہ دلالتہ النص ہوئی اور اس میں جو تمارے استدلال کی خباثت ہے نہ دیکھنا، کیونکہ ٹھہر گئ ہے کہ:
"تعمی القلوب التی فی الصدور"
دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہے...
(فتاوی رضویہ جلد ۶صفحہ ۸۵۰۸۴)۰

مزید عرض ہے کہ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب ضروری نوٹ کا عنوان قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس وفد میں مسجد نبوی شریف میں اپنی عبادت اس وقت شروع کردی جب مسلمان نماز عصر پڑھ رہے تھے.. مسلمانوں نے بعد نماز انکو انکی عبادت سے نہ روکا.. اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب ہم مشرکوں کو اپنی مسجدوں میں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیں.. ان کو نہ روکنا ایسا تھا جیسے ایک بدوی نے مسجد نبوی شریف میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے نہ روکو.. اس سے مسجدوں میں پیشاب پاخانہ کی اجازت نہ ہوگی... ( تفسیر نور العرفان صفحہ ۷۸).
بات یہود نصاری کی ہے اور آپ کفارو مشرکین کو گھسیٹ رہے ہیں ۔۔
علامہ شبلی نغمانی نے سیرہ النبی کی جلد دوم مطبوعہ آرمی بک کلب لاہور (۱۹۸۰) کے صفحہ ۳۷۰ پر یہود و نصاریٰ کے ساتھ برتاؤ کا عنوان باندھا ہے اور صفحہ ۳۷۱ پر اسی عنوان تلے تحریر فرمایا ہے
"نصاریٰ کا وفد جب نجران سے مدینہ حاضر ہوا تو آپ نے اس کی مہمانداری کی مسجد نبوی میں ان کو جگہ دی بلکہ ان کو اپنے طریق پر مسجد میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت دے دی اور جب عام مسلمانوں نے ان کو اس کام سے روکنا چاہا تو آپ نے منع فرما دیا (یہاں علامہ شبلی نے مسلم شریف کتاب الادب کا حوالہ دیا ہے)
اس کے بعد لکھا ہے کہ : یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانے پینے، نکاح و معاشرت کی اجازت دی اور اس کے لیے مخصوص امتیازی احکامات شریعت اسلامیہ میں جاری فرمائے)
 
میرے ناقص علم کے مطابق تہجد کی نماز کا تو حکم ہے مگر یہ فرض نہیں رمضان میں عشاء کے وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں جیسا کہ محترم شاکرالقادری نے فرمایا ہے کہ اس دن شکرانے کے نوافل پڑھ لیتا ہوں جو میری رائے میں احسن فعل ہے مگر اس کو باقاعدہ دین کے ساتھ جوڑنا اور نماز عیدین کی طرح ایک روایت کے طور پر باجماعت پڑھنا کہاں تک درست ہے مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں


تہجد کی نماز نفل نماز ہے یہ سب جانتے ہیں۔جو لوگ باقاعدہ نمازِ تہجد پڑھتے ہیں وہ وتر نماز، نمازِ تہجد کے بعد پڑھتے ہیں میں ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو ایسا ہی کرتے ہیں۔۔۔۔ ہمارے یہاں مہینے میں ایک دو یا تین دفعہ نماز تہجد باجماعت پڑھتے ہیں، اور ہر مہینہ توفیق کے مطابق ایک دو تین یا چار نفلی روزہ بھی رکھتے ہیں، کوئی ہر پیر کو کوئی ہر جمعہ کو یا جب بھی ممکن ہو نفلی روزہ رکھتے ہیں۔۔۔۔
 
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام، مکی زندگی میں بیت اللہ کا طواف کیا کرتے تھے حالانکہ کعبے کے اندر اس وقت تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور مشرکین مکہ بھی کعبے کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔۔۔
 

عمار عامر

محفلین
میں کتنے خاص افعال کا ذکر کروں ۔۔۔ جن پر میاں فضیحت کا خود عمل ہے ۔۔ دوسروں کو نصیحت تو عادتا کی جاتی ہے
کوئی ایک پیش کر دیجئے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے موقعہ و حالات اور قوت کے ہوتے ہوئے بھی انجام نہ دیا ہو،
ہم اس کام کو دین سمجھ کر انجام دیتے ہوں، اور خاص اس فعل کے فضائل و محاسن بیان کرتے ہوں، اس کے حق میں قرآن و سنت سے دلائل لاتے ہوں۔
جو اس فعل کا منکر یا تارک ہو، اس کی تردید کرتے ہوں۔ مثلا اسے گستاخ، ایمان سے محروم، ابلیس وغیرہ گردانتے ہوں۔
اس فعل کو عبادت سمجھ کر بجا لاتے ہوں۔
اس فعل کو اپنی مسلکی پہچان بنا رکھا ہو۔
(اور یہ تمام شرائط عید میلاد منانے والوں پر منطبق ہوتی ہیں، لہٰذا انہیں غیر متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا)
 

عمار عامر

محفلین
بات یہود نصاری کی ہے اور آپ کفارو مشرکین کو گھسیٹ رہے ہیں ۔۔
علامہ شبلی نغمانی نے سیرہ النبی کی جلد دوم مطبوعہ آرمی بک کلب لاہور (۱۹۸۰) کے صفحہ ۳۷۰ پر یہود و نصاریٰ کے ساتھ برتاؤ کا عنوان باندھا ہے اور صفحہ ۳۷۱ پر اسی عنوان تلے تحریر فرمایا ہے
"نصاریٰ کا وفد جب نجران سے مدینہ حاضر ہوا تو آپ نے اس کی مہمانداری کی مسجد نبوی میں ان کو جگہ دی بلکہ ان کو اپنے طریق پر مسجد میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت دے دی اور جب عام مسلمانوں نے ان کو اس کام سے روکنا چاہا تو آپ نے منع فرما دیا (یہاں علامہ شبلی نے مسلم شریف کتاب الادب کا حوالہ دیا ہے)
اس کے بعد لکھا ہے کہ : یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانے پینے، نکاح و معاشرت کی اجازت دی اور اس کے لیے مخصوص امتیازی احکامات شریعت اسلامیہ میں جاری فرمائے)
اعلیٰ حضرت نے نصاریٰ کی تردید میں بھی لکھا ہے، میں نے وہی پیش کیا ہے۔ پھر مفتی احمد یار خان صاحب کی بات کو بھی آپ نے اہمیت نہیں دی۔ مکرر عرض ہے:

اس وفد میں مسجد نبوی شریف میں اپنی عبادت اس وقت شروع کردی جب مسلمان نماز عصر پڑھ رہے تھے.. مسلمانوں نے بعد نماز انکو انکی عبادت سے نہ روکا.. اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب ہم مشرکوں کو اپنی مسجدوں میں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیں.. ان کو نہ روکنا ایسا تھا جیسے ایک بدوی نے مسجد نبوی شریف میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے نہ روکو.. اس سے مسجدوں میں پیشاب پاخانہ کی اجازت نہ ہوگی... ( تفسیر نور العرفان صفحہ ۷۸).

اصل واقعہ اس طرح ہے کہ نجران کے علاقے سے ساٹھ عیسائیوں کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا. عصر کی نماز کے وقت یہ وفد بھی مسجد میں داخل ہو گیا. ( فد خلوا علیہ مسجدہ حین صلی العصر)...
تھوڑی دیر بعد انکی نماز کا وقت آ گیا تو انہوں نے اپنے طریقے کے مطابق مسجد نبوی شریف میں نماز شروع کر دی.. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو.. ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی:
" وقد حانت صلاتھم فقا موا للصلاۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوھم فصلوا الی المشرق"
(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ ۵۷۴، بغوی جلد 1 صفحہ ۶۷۶)
بہت سے مفسرین نے اسے اپنی تفاسیر میں بیان فرمایا ہے مگر انکے اصل ماخذ تقریبا یہی ہیں...
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد شریف کے علاوہ کوئی مخصوص مہمان خانہ موجود نہ تھا، ہر خاص و عام کو وہیں ٹھہرایا جاتا تھا.. نیز عیسائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کو نہیں فرمایا تھا.. عیسائیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کی اجازت بھی نہیں مانگی تھی.. بلکہ وہ خود بخود نماز پڑھنے لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دعوھم" انہیں چھوڑ دو...
بہ بیں تفاوت راہ از کجا است تا یکجا
 

عمار عامر

محفلین
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام، مکی زندگی میں بیت اللہ کا طواف کیا کرتے تھے حالانکہ کعبے کے اندر اس وقت تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور مشرکین مکہ بھی کعبے کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔۔۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہم بھی بتوں کا طواف کر سکتے ہیں، بتوں کی تعظیم اور ان کی عبادت بجا لا سکتے ہیں یا مندروں میں جا کر نمازیں پڑھ سکتے ہیں؟ چودہ صدیوں میں کسی نے یہ استدلال قائم کیا ہو تو نام پیش کیجئے؟
محترم، بھوک سے مر جانے کے خوف سے حرام کھانے کی اجازت اسلام میں موجود ہے۔ لیکن اس سے مردار کے سیخ کباب بنا کر کھانا تو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج بھی بامر مجبوری اگر نماز کی جگہ فقط ایسی ہو کہ وہاں بت ، مجسمے موجود ہوں، تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ مسجد پاس میں ہو تب بھی چرچ و مندر میں جا کر نماز ادا کی جا سکتی ہے ، بہت دور کی کوڑی ہے۔
سوال یہ ہے طاقت حاصل ہو جانے کے بعد بھی کیا مسلمانوں نے ایک دن بھی بتوں کی موجودگی برداشت کی؟ خاص اس معاملے میں کوئی مشرکین مکہ سے بھائی چارے کا خیال رکھا ہو؟ کہ بتوں کو مسمار کرنے سے بے چاروں کی دلآزاری ہوگی، وحدت بین المذاہب کا کوئی جذبہ مسلمانوں میں جاگا ہو کہ چلو کچھ تمہاری کچھ ہماری ۔ یا ویسے ہی تاریخی یادگار کے طور پر ان بتوں کو قائم رہنے دیا گیا ہو؟؟؟
 

شمشاد

لائبریرین
یہ خبر غلط ہے مسلمانوں نے چرچ میں نماز ادا نہیں کی۔
اگر کوئی فوٹو شوٹو دکھائیں تو 1 سے 2 فیصد کہہ سکتے ہیں کہ کیا صحیح کیا غلط۔
کیا آپ کو امینہ ودود یاد نہیں جس نے امریکہ میں ایک گرجا گھر میں جمعہ کی نماز کی امامت کی تھی اور اس کے پیچھے مردوں اور عورتوں نے اکٹھے نماز ادا کی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ نماز تھی یا نماز پڑھنے کی ایکٹنگ کی گئی تھی۔

IH-Iqb1.jpg
1111220731_1084.jpg
4283438992_061dc8b6f7.jpg
2005050100020401.jpg
wadud100_v-ARDFotogalerie.jpg
 

ساجد

محفلین
:rollingonthefloor:
وہی پانی میں مدھانی :)
چلئے ایک بات بتائیے کہ اندرا گاندھی نے اسلام قبول کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں قدم رکھا تھا ؟
لیڈی ڈیانا اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا عبدالقادر روپڑی کے ہمراہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوئی تھی ؟
کیا ساری زمیں اللہ تعالی ی نہیں ،اور جس زمین پر نجاست نہ پڑی ہو کیا وہاں نماز نہیں ہوتی بھلے وہ چرچ ہی کیوں نہ ہو ؟
اور سب سے اہم یہ کہ صاحب مراسلہ چرچ میں نماز کی ادائیگی کو عید کی نماز کہنے پر کیون بضد ہیں جبکہ خبر میں اس کا ذکر ہی نہیں ! ۔
بنا پانی کے موزے اتارنے والو کچھ تو اللہ کا خوف کرو ۔ کیا تمہیں دوسروں پر تنقید اور عجیب و غریب فتوے دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا ؟
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہی خوب علم و دانش کے پیکر اک مجہول خبر کے ہمراہ تشریف لائے ہیں ۔۔
لگتا ہے مختلف فیہ احادیث توگھول کر پی لیں مگر قران پاک کے پیغام انسانیت سے انجان رہے ۔
اے ایمان والو صاف سیدھی سچی بات کیا کرو ۔ قران پاک کے اس آفاقی اصول سے براہ راست متصادم ہےیہ درج بالا خبر ۔۔۔۔۔
پوری خبر میں کہیں یہ صراحت نہیں کہ کون سی نماز ادا کی گئی ۔۔۔۔۔
علم و دانش سے بھرپور ہستی بنا خبر کی تصدیق کئے اپنے گمان میں الجھ کر قران پاک کے اک دوسرے عظیم الشان حکم سے غافل محسوس ہوئی ۔۔
اے ایمان والو زیادہ گمان کرنے سے بچا کرو اکثر گمان غلط ہوتے ہیں ۔۔۔
احادیث کو بصورت ایندھن استعمال کرتے کفر کی فیکٹری بہت تیز رفتاری سے چلانا بہت آسان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر احادیث مبارکہ کواسوہ حسنہ مان کر ان پر عمل بہت مشکل ہے ۔۔احادیث پاک کا فساد و انتشار و تفرقے اور کفر کے فتوے لگانے کےلئے استعمال کرنے والے بلاشبہ "صم بکم " والی خبر کی حامل آیت قرانی کے مصداق ٹھہرتے ہیں ۔۔
استغفراللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کیا ہی خوب علم و دانش کے پیکر اک مجہول خبر کے ہمراہ تشریف لائے ہیں ۔۔
لگتا ہے مختلف فیہ احادیث توگھول کر پی لیں مگر قران پاک کے پیغام انسانیت سے انجان رہے ۔
اے ایمان والو صاف سیدھی سچی بات کیا کرو ۔ قران پاک اس آفاقی اصول سے براہ راست متصادم ہےیہ درج بالا خبر ۔۔۔ ۔۔
پوری خبر میں کہیں یہ صراحت نہیں کہ کون سی نماز ادا کی گئی ۔۔۔ ۔۔
علم و دانش سے بھرپور ہستی بنا خبر کی تصدیق کئے اپنے گمان میں الجھ کر قران پاک کے اک دوسرے عظیم الشان حکم سے غافل محسوس ہوئی ۔۔
اے ایمان والو زیادہ گمان کرنے سے بچا کرو اکثر گمان غلط ہوتے ہیں ۔۔۔
احادیث کو بصورت ایندھن استعمال کرتے کفر کی فیکٹری بہت تیز رفتاری سے چلانا بہت آسان ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔مگر احادیث مبارکہ اسوہ حسنہ مان کر ان پر عمل بہت مشکل ہے ۔۔احادیث پاک کا فساد و انتشار و تفرقے اور کفر کے فتوے لگانے کےلئے استعمال کرنے والے بلاشبہ "صم بکم " کی خبر کا حامل آیت قرانی کے مصداق ٹھہرتے ہیں ۔۔
استغفراللہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
جزاک اللہ سید بادشاہ :)
 
اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہم بھی بتوں کا طواف کر سکتے ہیں، بتوں کی تعظیم اور ان کی عبادت بجا لا سکتے ہیں یا مندروں میں جا کر نمازیں پڑھ سکتے ہیں؟ چودہ صدیوں میں کسی نے یہ استدلال قائم کیا ہو تو نام پیش کیجئے؟
محترم، بھوک سے مر جانے کے خوف سے حرام کھانے کی اجازت اسلام میں موجود ہے۔ لیکن اس سے مردار کے سیخ کباب بنا کر کھانا تو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج بھی بامر مجبوری اگر نماز کی جگہ فقط ایسی ہو کہ وہاں بت ، مجسمے موجود ہوں، تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ مسجد پاس میں ہو تب بھی چرچ و مندر میں جا کر نماز ادا کی جا سکتی ہے ، بہت دور کی کوڑی ہے۔
سوال یہ ہے طاقت حاصل ہو جانے کے بعد بھی کیا مسلمانوں نے ایک دن بھی بتوں کی موجودگی برداشت کی؟ خاص اس معاملے میں کوئی مشرکین مکہ سے بھائی چارے کا خیال رکھا ہو؟ کہ بتوں کو مسمار کرنے سے بے چاروں کی دلآزاری ہوگی، وحدت بین المذاہب کا کوئی جذبہ مسلمانوں میں جاگا ہو کہ چلو کچھ تمہاری کچھ ہماری ۔ یا ویسے ہی تاریخی یادگار کے طور پر ان بتوں کو قائم رہنے دیا گیا ہو؟؟؟
آپ کی اس خودکلامی کا اصل واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ایک خبر پڑھ کر خود ہی غلط مفروضے قائم کررہے ہیں ، خود ہی مدعی بن کے خود ہی فیصلے صادر کررہے ہیں۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہاں آپ قرآنی آیہ کی نفی کر رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ایک کزن بھائی یہودی عالم تھے ، جن کے پاس آپ (ر) ، رسول اکرم کو لے کر گئی تھیں ۔ اگر کزن بھائی یہودی عالم تھے تو حضرت خدیجہ (ر) کیا ہوئیں؟ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تو یہ رشتہ کیوں برقرار رہا؟ میرا خیال ہے کہ اس آیت پر اس طرح کا چونا پھیرنے سے پرہیز کرنا چاہئے کہ سب کے سب یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے ۔۔۔ کیا موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے نبی نہیں ؟؟؟
 

عمار عامر

محفلین
:rollingonthefloor:
وہی پانی میں مدھانی :)
چلئے ایک بات بتائیے کہ اندرا گاندھی نے اسلام قبول کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں قدم رکھا تھا ؟
لیڈی ڈیانا اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا عبدالقادر روپڑی کے ہمراہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوئی تھی ؟
کیا ساری زمیں اللہ تعالی ی نہیں ،اور جس زمین پر نجاست نہ پڑی ہو کیا وہاں نماز نہیں ہوتی بھلے وہ چرچ ہی کیوں نہ ہو ؟
اور سب سے اہم یہ کہ صاحب مراسلہ چرچ میں نماز کی ادائیگی کو عید کی نماز کہنے پر کیون بضد ہیں جبکہ خبر میں اس کا ذکر ہی نہیں ! ۔
بنا پانی کے موزے اتارنے والو کچھ تو اللہ کا خوف کرو ۔ کیا تمہیں دوسروں پر تنقید اور عجیب و غریب فتوے دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا ؟
غیر مسلموں کا مساجد میں داخلہ ممنوع نہیں ہے۔ ہاں، انہیں مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا نی چاہئے۔ ۔
چرچ میں نماز کے لئے عرض کر چکا ہوں:

نماز کی ادائیگی کی کچھ دیگر شرائط بھی ہوتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ایسی جگہ نذر پورا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی جہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلا لگتا تھا۔ (گویا اگر نذر جیسی عبادت ایسی جگہ نہیں ہو سکتی تو نماز تو بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگی)
قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
چرچ میں عام طور پر مجسمے اور تصاویر ہوتی ہی ہیں۔
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قریب میں مسجد نہیں تھی جو وہاں نماز ادا کی جا سکتی ؟
اور یہ سب تو موضوع سے فرار ہے۔ ورنہ اصل بات ہے کہ عید میلاد کی کون سی نماز؟
اور عید میلاد کا اہتمام چرچ میں؟ کیا عید الفطر اور عیدالاضحیٰ بھی اب چرچ اور مندروں میں ادا کی جائیں گی؟
افسوس کہ، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

چرچ میں عید کی نماز ہوئی ہو یا باجماعت نوافل ادا کئے گئے ہوں۔ یہ فعل غلط تھا۔ خود میلاد کے حامی علماء کو اس سے اتفاق نہیں۔
 

عمار عامر

محفلین
سبحان اللہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کیا ہی خوب علم و دانش کے پیکر اک مجہول خبر کے ہمراہ تشریف لائے ہیں ۔۔
لگتا ہے مختلف فیہ احادیث توگھول کر پی لیں مگر قران پاک کے پیغام انسانیت سے انجان رہے ۔
اے ایمان والو صاف سیدھی سچی بات کیا کرو ۔ قران پاک کے اس آفاقی اصول سے براہ راست متصادم ہےیہ درج بالا خبر ۔۔۔ ۔۔
پوری خبر میں کہیں یہ صراحت نہیں کہ کون سی نماز ادا کی گئی ۔۔۔ ۔۔
علم و دانش سے بھرپور ہستی بنا خبر کی تصدیق کئے اپنے گمان میں الجھ کر قران پاک کے اک دوسرے عظیم الشان حکم سے غافل محسوس ہوئی ۔۔
اے ایمان والو زیادہ گمان کرنے سے بچا کرو اکثر گمان غلط ہوتے ہیں ۔۔۔
احادیث کو بصورت ایندھن استعمال کرتے کفر کی فیکٹری بہت تیز رفتاری سے چلانا بہت آسان ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔مگر احادیث مبارکہ کواسوہ حسنہ مان کر ان پر عمل بہت مشکل ہے ۔۔احادیث پاک کا فساد و انتشار و تفرقے اور کفر کے فتوے لگانے کےلئے استعمال کرنے والے بلاشبہ "صم بکم " والی خبر کی حامل آیت قرانی کے مصداق ٹھہرتے ہیں ۔۔
استغفراللہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اتنے سخت الفاظ ، وجہ؟
خود قرآن نے بھی تو مشرکین کو نجس قرار دیتے ہوئے مسجد حرام میں داخلہ منع کر دیا۔ کیا یہ بھی آپ کے نام نہاد پیغام انسانیت کے خلاف تو نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلا شک و شبہ مسلمانوں کے بھی ننی اور رسول ہیں لیکن ان کی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نافذ ہونے پر معطل ہو گئی۔

مجھے علم ہے کہ آپ اب الفاظ سے کھیلیں گے اور ظفری بھائی بھی بہت سی دلیلیں لائیں گے لیکن قرآن کی آیت بالکل صاف اور سیدھی ہے۔ اس کو گھمانے پھرانے کی ضرورت نہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top