لاہور کے چرچ میں 'عید میلاد' کا جشن، نماز بھی ادا کی گئی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عمار عامر

محفلین
اگر ہمارے سامنے ایک برا کام ہو رہا ہے تو کیا ہم یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں کہ جی یہ بات انتظامیہ سنبھال لے گی؟ کیا انتظامیہ کے پاس کرنے کو دیگر کوئی کام نہیں ہوتا کہ یہ مسائل بھی ان کو دے دیئے جائیں؟ یہ ایک رحجان ہے جس کے باعث اکثر پرانی آئی ڈیز مر جاتی ہیں اور نئی آئی ڈیز سے وہی گند پھیلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ بطور ایک قدیم رکن کے (رکنیت اور عمر، دونوں کے حساب سے) ہمیں اپنا حساب ڈالنا چاہئے اور برائی کو زبان سے روکنا چاہئے۔ اگر وہ نہ رکے تو پھر انتظامیہ کو تکلیف دی جائے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ماڈریشن کتنا مشکل کام ہے اور آپ کو یہ بھی بخوبی یاد ہوگا کہ میری طرف سے ہمیشہ انتظامیہ کو مدد حاصل ہوتی ہے
بس اسی سوچ کے تحت یہ پوسٹ شیئر کرنے کی جسارت کر لی تھی ۔
کہ برائی کو زبان سے تو روکنا چاہئے۔
کسی مسلک کا کوئی عالم مسجد کے ہوتے ہوئے چرچ میں نماز عصر یا نماز عید میلاد یا باجماعت نوافل کی ادائیگی کو احسن اقدام قرار نہیں دیتا۔
یار لوگوں نے سب کہا سنا کیا، لیکن چرچ میں قیام صلوٰۃ کے فعل سے زبانی کلامی ہی سہی ، براءت ظاہر کرنا تو بنتا تھا۔
تھا جو 'ناخوب'، بتدریج وہی 'خوب' ہوا۔
 

عمار عامر

محفلین
دین واقعی انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ متفق :)
محترم بھائی،
یہی سوچ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہوتی، تو تبلیغ کر کے دین کے راستے میں تکلیفیں مشقتیں اٹھانے کی ضرورت ہی کیا بنتی تھی۔
صحابہ تک ہی دین پہنچ گیا تھا، اور وہ اسے ذاتی معاملہ سمجھ کر باہر دوسروں سے بات تک نہ کرتے ، کجا یہ کہ دین کے لئے جہاد کرتے، تو آج ہم بھی شاید کالی ماتا کے سامنے ڈنڈوت کر رہے ہوتے۔
دین کو دوسروں پر تھوپنا بھی غلط۔
اور خود تک محدود رکھنا بھی غلط۔
اعتدال کی راہ ہے کہ احسن طریقے سے اور حکمت کے ساتھ دین کی طرف دوسروں کو بلایا جائے۔ کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی مبادیات دین میں سے ہے، جو اسے ہرگز ذاتی معاملہ نہیں رہنے دیتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم بھائی،
یہی سوچ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہوتی، تو تبلیغ کر کے دین کے راستے میں تکلیفیں مشقتیں اٹھانے کی ضرورت ہی کیا بنتی تھی۔
صحابہ تک ہی دین پہنچ گیا تھا، اور وہ اسے ذاتی معاملہ سمجھ کر باہر دوسروں سے بات تک نہ کرتے ، کجا یہ کہ دین کے لئے جہاد کرتے، تو آج ہم بھی شاید کالی ماتا کے سامنے ڈنڈوت کر رہے ہوتے۔
دین کو دوسروں پر تھوپنا بھی غلط۔
اور خود تک محدود رکھنا بھی غلط۔
اعتدال کی راہ ہے کہ احسن طریقے سے اور حکمت کے ساتھ دین کی طرف دوسروں کو بلایا جائے۔ کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی مبادیات دین میں سے ہے، جو اسے ہرگز ذاتی معاملہ نہیں رہنے دیتا۔
لکم دینکم ولی الدین کے بارے کچھ بتائیے :)
 

گرائیں

محفلین
لکم دینکم ولی الدین کے بارے کچھ بتائیے :)
تفسیر بیان القرآن میں ہے :
ف٤۔ اس سورت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک بار چند روسا نے آپ سے عرض کیا کہ آیئے ہمارے معبودوں کی آپ عبادت کیا کیجئے اور آپ کے معبود کی ہم عبادت کیا کریں جس میں ہم اور آپ طریق دین میں شریک رہیں جونسا طریقہ ٹھیک ہوگا اس سے سب کو کچھ کچھ حصہ مل جائے گا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی ۔ کذا فی الدر المنثور۔
اور تفسیر موودودی میں کچھ اس طرح ہے :
نام :
پہلی ہی آیت قل یایھا الکٰفرون کے لفظ الکافرون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :
حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن بصری اور عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے، حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مدنی ہے، اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ مکی سورت ہے اور اس کا مضمون خود اس کے مکی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تاریخی پس منظر :
مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتا وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ ان میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور ان کے درمیان رونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہیں ۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا، ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابل غور بھی سمجھتے تھے، اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کے بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار رہتا ہے لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں ۔ بہرحال اس پر وحی نازل ہوئی "قل یایھا الکٰفرون ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ "ان سے کہو، اے نادانو! کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں" (الزمر، آیت 64) حوالہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا "اے محمد، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔" اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ حوالہ عبد بن حمید سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں ۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفار قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک دفعہ دو ٹوک جواب دے کر ان کی اس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین کے معاملے میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر ان سے کوئی مصالحت کرلیں گے۔
موضوع اور مضمون :
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین اور ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کر دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ دین کفر اور دین اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، ان کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتداءً قریش کے کفار کو مخاطب کر کے ان کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی، لیکن یہ انہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دین کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے ان کو اس سے قول اور عمل میں براءت کا اظہار کرنا چاہیے اور بلا رو رعایت کہہ دینا چاہیے کہ دین کے معاملے میں وہ کافروں سے کسی قسم کی مداہنت یا مصالحت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے یہ سورت اس وقت بھی پڑھی جاتی رہی جب وہ لوگ مر کھپ گئے تھے جن کی باتوں کے جواب میں اسے نازل فرمایا گیا تھا، اور وہ لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد اسے پڑھتے رہے جو اس کے نزول کے وقت کافر و مشرک تھے، اور ان کے گزر جانے کے صدیوں بعد آج بھی مسلمان اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ کفر اور کافری سے بیزاری و لا تعلقی ایمان کا دائمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں اس سورت کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ ذیل کی چند احادیث سے کیا جا سکتا ہے: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے بارہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فجر کی نماز سے پہلے اور مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتوں میں قل یایھا الکٰفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے دیکھا ہے۔ (اس مضمون کی متعدد روایات کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ امام احمد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہیں) ۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹو تو قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو" حوالہ ابو یعلٰی طبرانی حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا سوتے وقت قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ بیہقی فی الشعب فروہ بن نوفل اور عبد الرحمٰن بن نوفل، دونوں کا بیان ہے کہ ان کے والد نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ الاشجعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیے جسے میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں ۔ آپ نے فرمایا قل یایھا الکٰفرون آخر تک پڑھ کر سو جایا کرو، کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے حوالہ مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ابی شیبہ، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب۔ ایسی ہی درخواست حضرت زید بن حارثہ کے بھائی حضرت جبلہ بن حارثہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی تھی اور ان کو بھی آپ نے یہی جواب دیا تھا حوالہ مسند احمد، طبرانی
تفسیر عثمانی میں ہے :
ف١ چند رؤسائے قریش نے کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آؤ! ہم تم صلح کرلیں کہ ایک سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں کی پرستش کیا کریں، پھر دوسرے سال ہم آپ کے معبود کو پوجیں ۔ اس طرح دونوں فریق کو ہر ایک کے دین سے کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی پناہ کہ میں اس کے ساتھ (ایک لمحہ کے لئے بھی) کسی کو شریک ٹھہراؤں ۔ کہنے لگے اچھا تم ہمارے بعض معبودوں کو مان لو (ان کی مذمت نہ کرو) ہم تمہاری تصدیق کریں گے اور تمہارے معبود کو پوجیں گے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مجمع میں پڑھ کر سنائی۔ جس کا خلاصہ مشرکین کے طور وطریق سے بکلی بیزاری کا اظہار اور انقطاع تعلقات کا اعلان کرتا ہے۔ بھلا انبیاء علیہم السلام جن کا پہلا کام شرک کی جڑیں کاٹنا ہے۔ ایسی ناپاک اور گندی صلح پر کب راضی ہو سکتے ہیں ۔ فی الحقیقت اللہ کے معبود ہونے میں تو کسی مذہب والے کو اختلاف ہی نہیں ۔ خود مشرکین اس کا اقرار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم بتوں کی پرستش اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دیں گے (مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى) 39۔ الزمر:3) اختلاف جو کچھ ہے غیر اللہ دونوں کی پرستش میں ہے۔ لہذا صلح کی جو صورت قریش نے پیش کی تھی اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ تو برابر اپنی روش پر قائم رہیں ۔ یعنی اللہ اور غیر اللہ دونوں کی پرستش کیا کریں اور آپ اپنے مسلک توحید سے دستبردار ہوجائیں ۔ اسے گفتگوئے مصالحت کو ختم کرنے کے لئے یہ سورت اتاری گئی ہے۔
تفسیر کنز الایمان میں ہے :
(ف1) سورۃ الکافرون مکّیہ ہے ، اس میں ایک رکوع، چھ آیتیں ، چھبّیس کلمے ، چورانوے حرف ہیں ۔
شان نزول : قریش کی ایک جماعت نے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ آپ ہمارے دین کا اتباع کیجئے ہم آپ کے دین کا اتباع کریں گے ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے ، سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی پناہ کہ میں اس کے ساتھ غیر کو شریک کروں کہنے لگے تو آپ ہمارے کسی معبود کو ہاتھ ہی لگادیجئے ہم آپ کی تصدیق کردیں گے آپ کے معبود کی عبادت کریں گے ، اس پر یہ سورہ شریفہ نازل ہوئی اور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد حرام میں تشریف لے گئے وہاں قریش کی وہ جماعت موجود تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سورت انہیں پڑھ کر سنائی تو وہ مایوس ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور حضور کے اصحاب کے درپے ایذا ہوئے ۔
(ف2) مخاطب یہاں مخصوص کافر ہیں جو علم الٰہی میں ایمان سے محروم ہیں ۔
تفسیر مدنی کبیر میں ہے :
1۔ منکرین سے اظہار بیزاری کا حکم و ارشاد: سو اس سے اہل کفر و باطل کے ہٹ دھرم لوگوں سے اظہار بیزاری و علیحدگی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے " قل" (کہو) کے اس خطاب کا اصل تعلق تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہے ، لیکن آپ کی پیروی اور آپ کے توسط سے آپ کی امت کے ہر مومن کے لیے بھی یہی حکم و ارشاد ہے کہ وہ بھی حسب ضرورت و موقع کفر اور اہل کفر سے اسی طرح اظہار بیزاری کرے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے ، روایات کے مطابق کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صلح صفائی کا یہ فارمولا پیش کیا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی پوجا کرں گے ، تاکہ یہ باہمی اختلاف اور سر پھٹول ختم ہوجائے، تو آپ نے صاف و صریح اور قطعی طور پر اس سے انکار فرمایا تو اس پر یہ سورہ کریمہ نازل ہوئی جس میں صراحت و وضاحت سے بتا دیا گیا کہ حق و باطل کی آمیزش کسی بھی صورت میں ممکن نہیں، (روح، ابن کثیر، صفوہ وغیرہ) کہ حق بہرحال حق ہے اور باطل باطل ، دونوں میں نہ اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے کوئی امتزاج ممکن ہوسکتا ہے، اور نہ مآل و انجام کے اعتبار سے کسی طرح کا کوئی اشتراک دونوں کے راستے الگ ہیں، اور دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے یکسر مختلف ، پس جب اہل کفر و باطل حق کو ماننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اہل حق کے لیے صاف سیدھی اور آخری راہ یہ ہے کہ وہ ان سے اپنی بیزاری اور علیحدگی کا اعلان کردیں، اہل کفر و باطل کی طرف سے آج بھی " وحدت دیان" وغیرہ جیسے خوشنما اور پرفریب عنوانات کے تحت اسی فتنے کی دعوت دی جاتی ہے، جس میں سب مذاہب کے علمبرداروں کو اکٹھا کر کے کوئی ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، سو اہل حق کو اگر ایسی کسی کانفرنس میں شریک ہوکر کلمہ حق کہنے کا موقع مل سکتا ہے تو ٹھیک، ورنہ ایسی کسی کانفرنس میں ان کے لیے شریک ہونا جائز نہیں کہ دین حق بہرحال ایک اور صرف ایک ہی ہے، جو حضرت خالق جل مجدہ کی طرف سے تمام بنی نوع انسان کے لیے بھیجا گیا ہے، یعنی دین اسلام ارشاد ہوتا ہے، اور حرف "ان" کی تاکید کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (آل عمران 19 پ 3) یعنی دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے، اور پس جس نے اس کے سوا جس کسی کی کوئی بھی اور دین اپنایا وہ اس سے کبھی بھی قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں سخت خسارے میں ہوگا ارشاد ہوتا ہے وَمَنْ يَّبْتَ۔غِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (آل عمران 85 پ 3) والعیاذ باللہ العظیم۔ پس جس نے اسلام کے کسی اور دین کو اپنایا وہ اس سے کبھی قبول نہیں ہوگا، وہ آخرت میں بہرحال سخت خسارے والوں میں سےہوگا۔
2۔ اصل اعتبار اخلاق و کردار کا ہے نہ کہ ذوات و اشخاص کا : سو اس وصف کے ساتھ خطاب کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصل اعتبار و اوصاف کا ہے نہ کہ اشخاص و ذوات کا، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اے کافرو، یعنی جنہوں نے حق کا انکار کیا، اور کفر وباطل کو اپنایا، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں کہ ہمارا جھگڑا کسی کی ذات اور اس کی شخصیت سے نہیں، بلکہ اس کے اس وصف کفر و شرک سے ہے جس کو ان لوگوں نے اپنایا اور اختیار کیا ہوا ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ اسی لیے ان کو اے کافرو کے الفاظ سے خطاب کیا گیا، سو اعتبار اخلاق و اوصاف کا ہے نہ کہ ذوات و اشخاص کا، پس جو کوئی ایمان و یقین کی دولت سے سرشار و مالا مال ہوگا وہ ہمارا اپنا ہے خواہ وہ کوئی بھی اور کہیں کا بھی ہو، اور جو اس سے محروم ہوگا اس سے ہمارا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں خواہ وہ اپنے ہی قوم قبیلے کا کیوں نہہو ۔ کہ اصل رشتہ دین و ایمان ہی کا رشتہ ہے۔
تفسیر تیسیر القرآن میں ہے :
[٤] شرک سے متعلق کسی قسم کی لچک اور رواداری کی کوئی گنجائش نہیں:۔ یہ ہے وہ دوٹوک فیصلہ جو صرف مکہ کے کافروں کو نہیں، دنیا بھر کے کافروں کو بھی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ مشرکوں کو ان کے معبود مبارک رہیں ۔ مگر مسلمان اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں کرسکتے۔ شرک کے معاملہ میں اسلام نے کسی قسم کی لچک اور روا داری برداشت نہیں کی۔ خواہ یہ مشرک کافر ہوں یا اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں ۔ کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت مشرک ہی ہوتی ہے جیسا کہ سورت یوسف کی آیت نمبر ١٠٦ میں فرمایا: ( وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁) 12- یوسف:106)
 
خود ہی دیکھ لیجئے۔ آپ نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ کا اشارہ روحانی بابا کی طرف نہیں کسی اور کی طرف تھا۔ اور یہ سب پڑھنے کے بعد ہی میں نے وہ سب لکھا۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں، آپ نے مجھے کباڑی بھی بنا دی اتھا۔
یہ آپ کے دستخط میں سوال کیا ہے؟؟؟ یعنی اس کا مطلب کیا ہے؟؟؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دین واقعی انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ متفق :)
قیصرانی بھائی اگر دین ذاتی معاملہ ہوتا تو اللہ کے بھیجے گئے انبیاء اور رسل کو اتنی قربانیاں نہ دینی پڑتیں جن پر ہر دین سے تعلق رکھنے والا مؤرخ تک شاہد ہے۔
میرے خیال میں یہ محض اپنے آپ کو بہلانے کا تصور ہے۔یا یہ کہ یہخیال ہر دین کے بارے میں غلط ہے۔
 

عثمان

محفلین
قیصرانی بھائی اگر دین ذاتی معاملہ ہوتا تو اللہ کے بھیجے گئے انبیاء اور رسل کو اتنی قربانیاں نہ دینی پڑتیں جن پر ہر دین سے تعلق رکھنے والا مؤرخ تک شاہد ہے۔
میرے خیال میں یہ محض اپنے آپ کو بہلانے کا تصور ہے۔یا یہ کہ یہخیال ہر دین کے بارے میں غلط ہے۔
آپ نے یہ کیوں فرض کیا کہ کوئی ذاتی معاملہ غیر اہم ہے ؟
بندے اور خدا کے مابین اہم ہو سکتا ہے۔ جس کے لیے انبیاء اور رسل بھیجے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کیوں ہوں کہ میرے دین کا معاملہ آپ کے لیے اور آپ کے دین کا معاملہ میرے لیے اہم ہے۔
 

گرائیں

محفلین
اور یوں دین میں کاپی پیسٹ کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔
کاپی پیسٹ کی برکت ہی ہے کہ آپ فاتح الدین بشیر کہلائے جاتے ہیں۔بصورت دیگر آپ شائد آج کھانڈے لال ورما ہوتے یا کچھ اور۔ پتہ نہیں ویش ہوتے، کھشتری ہوتے یا شودر۔ وہو نوز۔
 

گرائیں

محفلین
امجد بھائی آج کی خبر کے زمرے میں ہی پشاور میں تبلیغی مرکز میں دھماکے کی بابت حسینی بھائی کا شروع کردہ دھاگہ مطالعہ فرما لیں۔ آپکو اس سوال کے سیاق و سباق کا اندازہ ہو جائے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top