لاہور کی باتیں

میں کچھ مہینے جلوموڑ میں ایک ٹیوب ویل سٹیشن پر آپریٹر بھی رہا۔ میرے پاس ایک نیا بھرتی کیا ہوا ’’ہیلپر‘‘ آیا۔ اس نے اندرونِ لاہور کے لہجے میں سلام کہا، میں نے جواب دیا تو کہنے لگا: ’’میں جی تہاڈے نال ہیلپڑ آیا ہیغاں‘‘ (اندرونِ لاہور کے لہجے میں ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ اور ’’گ‘‘ کو ’’غ‘‘ کے قریب قریب بولتے ہیں)۔ میں نے وہی لہجہ اپناتے ہوئے پوچھا: ’’تیڑا ناں کی ہیغا اے چھوٹے؟‘‘
’’میڑا ناں تنویڑ اختڑ ہیغا اے‘‘
’’ڑیہندے کتھے ہیغے او؟‘‘
’’لوہاڑی اندڑ۔ بھاء یی تسیں کٹھے ڑہندے ہیغے او‘‘
’’ایتھے ای کالونی وچ‘‘
اسے گمان گزرا کہ میں بھی اندرونِ لاہور کا باشندہ ہو اور اس کو بتا نہیں رہا۔ بعد میں خاصی بے تکلفی ہو گئی، بھاء یی وغیرہ کی جگہ ’’یاڑ‘‘ نے لے لی۔ ایک دن ڈیوٹی پر آتے ہی بہت پرجوش لہجے میں بولا: ’’یاڑھ، ڑاتیں پکچڑ ویکھی، بڑا مژہ آیا ہیغا قسمے‘‘
’’اوئے کیہڑی پکچڑ اوئے؟‘‘ ’’نیند ہماڑی خواب تمہاڑے ۔۔ ڑیغل سیلمے چو ویکھی ہیغی‘‘ ۔۔۔ (ریگل سینما)۔
یہ لہجہ میرے لئے ظاہر ہے مصنوعی تھا، کبھی کبھار تنویر اختر کو چھیڑنے کو بول لیا کرتا، معمول تو نہیں بن سکتا تھا نا!۔
 

شمشاد

لائبریرین
لاہوریوں نے اپنے شہر کے بارے میں دھاگے کا آغاز کر کے ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ مجھے کئی مرتبہ لاہور دیکھنے کا موقع ملا۔ یقینا" انتہائی دلفریب شہر ہے۔جگہ جگہ تاریخی مناظر اس عظیم شہر کی تہذیب کے گواہ ہیں۔ جو بات اس شہر کو دوسرے شہروں سے منفرد بناتی ہے وہ یہاں کے باسیوں کی خوشدلی ہے۔کھانوں سے رغبت بھی منفرد پہلو ہے۔
میں سرگودھا میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم سے لیکر اب تک راولپنڈی کا ہو کر رہ گیا۔ دنیا کے کئی ملکوں اور شہروں میں قیام رہا۔ کئی شہر ہمارے تمام شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود میرے دل میں وہ مقام نہ بنا سکے جو میر ے ملک اور میرے شہروں کا خاصا ہے۔
آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گےکہ جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں وہاں کی مٹی سے ہم ایک خاص ا’نسیت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ مثلا" پاکستان کے کئی شہروں میں (کراچی سمیت) رہنے یا کچھ وقت گزارنے کے باوجود میرے دل میں وہ لگاؤ کبھی پیدا نہیں ہوا جو مجھے سرگودھا سے رہا۔
آپ سے گزارش ہے کہ اپنے شہر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس نقطہ کو بھی مدِنظر رکھیں۔ پاکستان کے تمام شہر بہت پیارے ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں۔
راولپنڈی میں کہاں پر ہیں؟
 

پردیسی

محفلین
ان سب باتوں سے جو سب سے اچھی بات علم میں آئی وہ قرۃالعین اعوان آپ کا میرے شہر سے ہونا ہے :)
اوٹھ اوئے ۔۔۔۔

امیدوار محبت صاحب آپ میرے اوپر کے الفاظ کا برا نہ منانا ۔۔ یہ خالصتاً لاہوری الفاظ ہیں اور خاص معنوں میں استمال ہوتے ہیں ۔۔ خالص لاہوری شہزادے ان کو جانتے ہیں :twisted:
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور جانے کا اتفاق تو تین چار مرتبہ ہوا ہے اور مال روڈ ، منٹو پارک ، لال قلعہ بادشاہی مسجد ، راوی کا پل ، اور سب بڑھ کر لاہور ریلوے اسٹیشن خوب یاد ہے ۔
ناشتے میں فضل حق کے پائے اور حجم کے اعتبار سے شاہی پراٹھوں کا ذائقہ اب بھی یاد ہے۔
دو بار لاہوریوں نے چونا بھی لگایا ہے ۔
زیادہ لاہور لکھاریوں کے قلم سے ہی دیکھا ہے ، اور اگر مستنصر حسین تارڑ لکھیں تو لاہور کی فلم ہی چل پڑتی ہے صفحوں میں۔
لہور لہور اے۔
اے حمید صاحب نے بھی لاہور کے بارے میں بہت لکھا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
میں پنڈی میں سر سید خیابان میں رہتا ہوں۔ افشاں کالونی اکثر آنا جانا ہوتا ہے۔ وہاں میری بڑی ہمشیرہ رہائش پذیر ہیں اور بڑے بھائی کا مکان بھی وہیں ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاہور صرف باغوں اور کالجوں کا ہی شہر نہیں بلکہ لاہور ادبا، شعرا اور فن کاروں کا بھی شہر ہے۔ کتنے بڑے بڑے نام اس لاہور سے وابستہ ہیں۔ ان کا ذکر بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
میں نے وہاں (لاہور میں) امریکن سنٹر لائبریری اور برٹش کونسل لائبریری کی رکنیت لے لی۔ یہ دونوں لائبریریاں شاید ریگل چوک میں تھیں یا چیئرنگ کراس میں، ٹھیک سے یاد نہیں۔ میں پندرہ دن میں ایک بار بائیسکل پہ جاتا پہلی کتابیں جمع کراتا اور دوسری لے آتا۔ ایک میٹرک پاس کی انگریزی جتنی ہو سکتی ہے، اتنی ہی اپنی تھی۔ تاہم کتابیں لاتا تو ان کو ’’پڑھتا‘‘ بھی تھا۔ سمجھ میں کچھ آ جاتا، کچھ نہ آتا مگر پڑھتا رہتا۔ انگریزی میں ’’نونفوذپذیر‘‘ الفاظ maybe بغیر سپیس کے، gonna, donna, dunno وغیرہ میں نے تب پڑھے تھے اور تکا میتھڈ سے سمجھے بھی تھے۔
امریکن سنٹر کوئنز روڈ پر تھا اب نہیں ہے برٹش کونسل مزنگ روڈپر
 
لاہور صرف باغوں اور کالجوں کا ہی شہر نہیں بلکہ لاہور ادبا، شعرا اور فن کاروں کا بھی شہر ہے۔ کتنے بڑے بڑے نام اس لاہور سے وابستہ ہیں۔ ان کا ذکر بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔

جی جناب فرخ منظور صاحب۔ بر سبیلِ تذکرہ دو نام تو آ گئے: ڈاکٹر رشید انور مرحوم اور ڈاکٹر سید اختر حسین اختر مرحوم۔

ادب اور فن آپ کا شعبہ بھی ہے اور آپ رہتے بھی لاہور میں ہیں۔ کیجئے بسم اللہ!
 
امریکن سنٹر کوئنز روڈ پر تھا اب نہیں ہے برٹش کونسل مزنگ روڈپر
زرقا مفتی

عرصہ گزر گیا اس بات کو، جو میں نے کی! چالیس سال سے تو زیادہ ہو گئے۔ اتنا یاد ہے کہ ایک بڑی کھلی سڑک کے کنارے تھیں یہ دونوں لائبریریاں، اور مجھے سائیکل سے اتر کر سڑک پار کرنی پڑتی تھی۔ ذیلی سڑکوں کے نام آپ بہتر جانتی ہیں۔

اس مفید اطلاع کے لئے ممنون ہوں۔
 
لاہور کی باتیں چل رہی ہیں تو آج کے ایکسپریس میں سعید پرویز کا یہ کالم چھپا ہے لاہور کے بارے میں۔ ملاحظہ کیجیے

پانچ منفرد نوبیل انعام یافتگان



متحدہ ہندوستان میں دہلی، لاہور، مدراس،کلکتہ، ممبئی بہت بڑے شہرتھے۔ثقافت، معیشت، تجارت اور قدیم تاریخی ورثے ان شہروں کے مضبوط حوالے تھے اور آج بھی ہیں۔ 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا تو نئے ملک پاکستان کے حصے میں صرف لاہورآیا، متحدہ ہندوستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور، ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل اپنی کتاب ’’امیر خسرو جرمنی میں‘‘ لاہور کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مشہور شاعر جان ملٹن نے اپنی شہرہ آفاق نظم “Paradise Lost” میںلکھا ہے کہ جب اللہ میاں نے حضرت آدمؑ کو جنت سے نکالا تو آسمانوں سے دنیا دکھائی اور مغلوں کا شہر لاہور دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہم نے تمہارے لیے دنیا کتنی خوبصورت بنائی ہے۔‘‘اور اس وقت میں سوچ رہا ہوں کہ شاعر جان ملٹن کے زمانے میں لاہور کتنا خوبصورت ہوگا۔
ہندوستان کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح لاہور شہر میں بھی بہت بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے، اب یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے، آج میں ایک خاص حوالے سے اس شہر کا ذکر قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں اور اس کے لیے مجھے ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل صاحب کی کتاب کا سہارا لینا ہوگا، ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب میں زیر عنوان ’’وہ شہر جس نے پانچ نوبیل انعام یافتگان پیدا کیے‘‘ لکھتے ہیں ’’پنجاب کی فتح کے بعد انگریزوں نے لاہور کو صوبہ پنجاب کا دارالحکومت قرار دیا اور کئی عمارتیں بنوائیں، جن میں سب سے بڑی شاہراہ مال روڈ پر جامعہ پنجاب کی خوبصورت عمارت بھی شامل ہے۔ جامعہ پنجاب پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے، جو شروع شروع میں تو جامعہ کلکتہ سے ملحق رہی، مگر بعد میں اس کو خود مختار حیثیت حاصل ہوگئی۔ جامعہ کے سامنے ایک نہایت خوبصورت عمارت ہے، جہاں لاہور کا عجائب خانہ قائم ہے۔
اس عجائب خانے کا محافظ ایک شخص ہوتا تھا، جس کا نام Kipling تھا، اس نے لاہور کالج آف آرٹ بھی قائم کیا تھا، اس کا بیٹا Rudyard Kipling عجائب خانے کے سامنے روڈ پر رکھی ایک نہایت عظیم الشان توپ پر کھیلا کرتا تھا اور دن میں بھی خواب دیکھا کرتا تھا ، بعد میں اس توپ کا نام “Kims Gun” پڑ گیا۔ جب وہ جوان ہوا تو اس نے اپنے دن میں خواب دیکھنے کی کہانی ایک کتاب کی شکل میں لکھ دی۔ اس کتاب کا نام “Kim” تھا۔ اس کتاب پر “Rudyard Kipling” کو 1907 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی یہ پہلی کتاب تھی جس پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ Rudyard Kipling نے بعد میں لاہور کے مشہور اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘کے مدیرکی حیثیت سے کام کیا، یہ اخبار پاکستان بننے کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔
جامعہ پنجاب میں کیمسٹری کے شعبے میں ایک پروفیسر تھے شانتی سروپ بھٹ ناگر، جو بعد میں ہندوستان کے محکمہICSIR کے چیئرمین بنے۔ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی انھی کے ماتحت ICSIR دہلی میں ڈائریکٹر تھے۔ بھٹ ناگر نے ایک ترازو ایسی بنائی کہ اس کے ایک بازو کے چاروں طرف ایک برقی مقناطیس لپیٹ دیا۔ اس ترازو سے وہ یہ ناپا کرتے تھے کہ کسی چیز کا وزن مقناطیسی میدان میں اتنا ہی رہتا ہے؟ کم ہوتا ہے یا زیادہ ہوجاتاہے۔ اس ترازو کی شہرت سن کر انگلستان سے ایک صاحب آئے جن کا نام Comptain تھا۔ انھوں نے اس تھیوری پر کام کیا اور ان کے مقالے پر ان کو 1927 میں طبیعات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا جب کہ بنیادی کام جامعہ پنجاب لاہور کے پروفیسر شانتی سروپ بھٹ ناگر صاحب نے کیا تھا۔
ایک صاحب تھے گووند کھورانا “Govind Khorana” جو پیدا تو ملتان میں ہوئے تھے، مگر انھوں نے ساری تعلیم کالجوں کے شہر لاہور میں حاصل کی تھی، وہ جامعہ پنجاب سے ایم ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1947 میں فسادات کی وجہ سے گووند صاحب امریکا چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ 1968 میں جینیات (Genetics) پر کیے گئے ان کے کام پر ان کو میڈیسن کا نوبیل انعام ملا۔ ان کے انعام ملنے پر ہندوستان نے بڑی دھوم مچائی کہ ایک ہندوستانی کو نوبیل انعام دیا گیا، مگر گووند کھورانا صاحب نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ ’’میں پہلے برطانوی شہری تھا، اب امریکی شہری ہوں، ہاں البتہ میں لاہوری ضرور ہوں۔‘‘
لاہور کے مضافات مغل پورہ میں ریلوے کی ایک ورکشاپ میں جنوبی ہندوستان کے ایک انجینئر کام کرتے تھے ، ان کا نام تھا سبرامینیم(Subramanium) ان کا بیٹا چندرا شیکھر نہ صرف لاہور میں پیدا ہوا بلکہ اس نے وہیں ساری تعلیم بھی پائی۔ جامعہ پنجاب سے ایم ایس سی کرکے وہ امریکا سدھار گیا۔ اس نے کائنات میں Black Hole دریافت کیے، جس پر 1983 میں طبیعات کے نوبیل انعام سے چندرا شیکھر کو نوازا گیا۔ اس کے نام پر ’’چندرا‘‘ نامی دوربین (Telescope) بھی خلاء میں بھیجی گئی تھی، اس نے بھی لاہوری ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
نوبیل انعام حاصل کرنے والے پانچویں شخص کا نام ڈاکٹر عبدالسلام ہے، ڈاکٹر صاحب جھنگ شہر میں پیدا ہوئے اور میٹرک سے ایم ایس سی تک ہمیشہ اول آتے رہے۔ 1979 میں طبیعات کا نوبیل انعام ان کو ملا۔ ان کے کام یعنی روشنی، مقناطیسیت، کشش ثقل، حرارت، توانائی، ان سب کو ملاکر ایک واحدانیت (Unified Field Theory) ثابت کرنے پر ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں ایک ادارہ ’’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف تھیوریٹیکل فزکس‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ اس طرح شہر لاہور کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے پانچ نوبیل انعام یافتہ افراد دنیا کو دیے ۔
آخر میں ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل صاحب کا مختصراً تعارف کروادوں۔ ڈاکٹر صاحب سائنسدان ہیں، کئی ممالک میں خدمات انجام دے چکے ہیں، اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب کے زیر سایہ زندگی کے طویل ماہ و سال گزارے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب صوبہ بہار کے دارالخلافے پٹنہ میں پیدا ہوئے اور حال مقیم کراچی ہیں جہاں آج بھی درس و تدریس کا کام کر رہے ہیں ۔ (کتاب امیر خسرو جرمنی میں سے اکتساب)

کالم کا لنک
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی جناب فرخ منظور صاحب۔ بر سبیلِ تذکرہ دو نام تو آ گئے: ڈاکٹر رشید انور مرحوم اور ڈاکٹر سید اختر حسین اختر مرحوم۔

ادب اور فن آپ کا شعبہ بھی ہے اور آپ رہتے بھی لاہور میں ہیں۔ کیجئے بسم اللہ!

اگر مرحومین سے شروع کریں گے تو لاتعداد نام سامنے آئیں گے۔ جیسے محسن وقار علی نے ایک کالم شئیر کیا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا والد لوک وڈ کپلنگ میو سکول آف آرٹ(اب نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور) کا پہلا پرنسپل تھا۔ اسی طرح لاتعداد نام ہیں۔ جو انڈین اور پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے۔ اقبال سے شروع ہو جائیں تو لاتعداد نام بنتے ہیں۔ اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے تو کافی وقت چاہیے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہوری ہونے کا افتخار مجھے بھی حاصل ہے کئی نسلوں سے۔ میرے دادا اور نانا دونوں اندرون شہر کے رہائشی تھے ۔
شہر کے چودہ دروازے تھے جن میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں
کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، دہلی دروازہ، بھاٹی دروازہ اور لاہوری دروازہ اب بھی سلامت ہیں۔ باقی دروازے تجاوازات کی زد میں آ گئے یا سڑکوں کی
لاہور ایک تاریخی شہر ہے ۔ بادشاہوں کے زمانے میں اس کے گرد ایک مضبوط فصیل تھی ۔ جس کا کچھ حصہ ورلڈ بینک کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاہوری ہونے کا افتخار مجھے بھی حاصل ہے کئی نسلوں سے۔ میرے دادا اور نانا دونوں اندرون شہر کے رہائشی تھے ۔
شہر کے چودہ دروازے تھے جن میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں
کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، دہلی دروازہ، بھاٹی دروازہ اور لاہوری دروازہ اب بھی سلامت ہیں۔ باقی دروازے تجاوازات کی زد میں آ گئے یا سڑکوں کی
لاہور ایک تاریخی شہر ہے ۔ بادشاہوں کے زمانے میں اس کے گرد ایک مضبوط فصیل تھی ۔ جس کا کچھ حصہ ورلڈ بینک کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔


لاہور کے بارہ دروازے تھے اور تیرھواں موری دروازہ ہے۔ جو اصل میں دروازہ نہیں ہے بلکہ لاہور میں داخل ہونے کے لئے چھوٹا راستہ ہوا کرتا تھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاہوری ہونے کا افتخار مجھے بھی حاصل ہے کئی نسلوں سے۔ میرے دادا اور نانا دونوں اندرون شہر کے رہائشی تھے ۔
شہر کے چودہ دروازے تھے جن میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں
کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، دہلی دروازہ، بھاٹی دروازہ اور لاہوری دروازہ اب بھی سلامت ہیں۔ باقی دروازے تجاوازات کی زد میں آ گئے یا سڑکوں کی
لاہور ایک تاریخی شہر ہے ۔ بادشاہوں کے زمانے میں اس کے گرد ایک مضبوط فصیل تھی ۔ جس کا کچھ حصہ ورلڈ بینک کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔

لاہور میں لاہوری دروازہ کوئی نہیں ہے۔ یہ لوہاری دروازہ ہے اور میں اسی دروازے کا رہائشی رہ چکا ہوں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور اپنی تاریخی عمارات کی وجہ سے بھی ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ لاہورکے باسی فطرتا خوش مزاج، خوش ذوق اور کُشادہ دل ہیں۔ جذباتی بھی ہیں۔ بہت کم ہیں جو ﴿ر﴾ پر لڑھکتے ہیں۔ کئی خوبصورت مساجد ہیں مسجد وزیر خان، سُنہری مسجد، موتی مسجد، بادشاہی مسجد اور کئی مقابر بھی ہیں
اندرون شہر میں کچھ خوبصورت قدیم حویلیاں بھی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بادشاہوں نے شہر کی بہترین منصوبہ بندی کی تھی ۔ شہر کی فصیل کے باہر ایک پرانا نالہ تھا اور ہر دروازے کے دو جانب خوبصورت باغات تھے جن میں سے کچھ ہی باقی ہیں۔ قبضہ گروپوں نے ان باغات میں کہیں مزار بنا لئے ہیں کہیں دوکانیں اور کہیں مسجدیں
اندرون شہر کے کچھ بازار اور کوچے پرانے پیشوں کے نام پر ہیں ایسا لگتا ہے کہ مخصوص پیشوں سے متعلق لوگ مخصوص محلوں میں آباد تھے
جیسے بازار حکیماں، کسیرا بازار، کوچہ کندی گراں، بزاز ہٹہ، وغیرہ
 
Top