لاہور کی باتیں

طالوت

محفلین
لگے ہاتھوں اس پر بھی روشنی ڈال ہی دیں۔:)
ایک واقعہ پر روشنی ڈال دیتا ہوں ، منٹو پارک کی سرسبز و شاداب گھاس پر رات کی تھکن اتارنے کے بعد جب پیاس محسوس ہوئی تو ایک شربت والے سے لیموں پانی پیا جو یقینا شکرین یا سکرین سے بھرپور تھا۔ بہرحال صاحب کو سمجھ آ گئی کہ منڈے لاہوری نہیں ہیں تو انھوں نے ایک ریگولر پیپسی یعنی قریبا تگنی قیمت وصول کی۔
تاہم میری لاہور کی زیادہ یادیں انھی دو تین دنوں سے وابستہ ہیں۔

مجھے سخت اختلاف ہے اس بات سے بھیا!
کراچی بھی کراچی ہے اور کیا ہی بات ہے کراچی کی ۔۔۔ ۔لاہور میں تو میں نے سب سے زیادہ گفتگو کھانے کے متعلق سنی ۔۔۔ ناشتہ ایسا ہونا چاہیئے۔۔۔ ۔تگڑا قسم کا۔۔۔ ۔سری پائے۔۔فجے کے پائے ۔۔نلی نہاری ۔۔۔ اف ساری تان مدار اسی گفتگو کے گرد گھومتی ہے یا پھر پیڑے والی لسی کے گرد:heehee:
اختلاف نہ کریں ، یہ کچھ کچھ فطرت سی ہے کہ جہاں آپ نے اپنے شب و روز خصوصا بچپن اور لڑکپن گزارا ہو وہاں سے محبت فطری ہے۔ تاہم لاہور ایک تاریخی شہر اور اس کے مزاج کا کراچی کے مزاج سے کوئی تقابل نہیں۔ کراچی کے لئے تو میں بس اتنا بھی کافی سمجھتا ہوں کہ کراچی ساحلی شہر ہے اور سمندر کا کوئی جوڑ نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
محب بھائی بہت سی جگہیں گنوا دیں لیکن بادشاہی مسجد کا ذکر ہی نہیں کیا۔ مقبرہ جہانگیر، دریائے راوی اور شالیمار باغ بھی تو ہیں۔
 
محب بھائی بہت سی جگہیں گنوا دیں لیکن بادشاہی مسجد کا ذکر ہی نہیں کیا۔ مقبرہ جہانگیر، دریائے راوی اور شالیمار باغ بھی تو ہیں۔
شمشاد ابھی لاہور کا سفر اور سیاحت جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

ابھی بہت سی جگہوں کا ذکر اور فضائل و خصائل بیان ہوں گے۔ :)
 
مگر یہ بات تو تقریبا ہر شہر کے لوگوں کے متعلق کی جا سکتی ہے ۔ جیسے کراچی والے (معذرت کے ساتھ کہ دل شکنی مقصود نہیں ہے) گٹکے ۔ چائے اور پان کے گرداگرد ۔ گوجرانوالے والے چڑون کے قرب و جوار میں ۔ ہندوستانی گجرات کے لوگ روٹلا اور پوری ۔ کشمیر والے شب دیگ ۔ پشاور والے چپلی کباب اور قہوہ ۔ کوئیٹے والے اپنے کھانوں ۔ حید ر آباد (پاکستانی) اپنے اچار ۔ حیدر آباد ہندوستان والے اپنی بریانی ۔ کابل والے کابلی چائے اور مصری ۔ لبنان والے شوارمے اور مناقیش ۔ اٹلی والے پیزے اور دبئی والے شرابوں کے بھنورے گھومتے ہیں ۔ کیونکہ کسی بھی تہذیب کا کھانوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور اس سے اس کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے کھانوں کا ذکر لامحالہ ائے گا ہی ۔

یہ چار اشارے اگر کسی شہر کے بارے میں دیئے جائیں تو بے اختیار کس شہر کا نام ذہن میں آتا ہے:

بھائی لوگ

جلاؤ گھیراؤ

ٹریفک جام

شہر بند :LOL:
 
نہیں ریساں شہر لہور دیاں محب علوی صاحب۔

1968 سے 1972 تک تقریباً چار سال ’’جلوموڑ‘‘ میں رہا ہوں۔
تب ’’ٹے شن‘‘ سے جلوموڑ کے لئے 12 نمبر بس چلتی تھی، ٹانگے بھی ہوتے تھے، ’’رِش کے‘‘ بھی اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی۔ ریلوے سٹیشن اور جلوموڑ کے درمیان متعدد جگہیں گویا ویران ہوا کرتی تھیں۔ محمود بوٹی سے مناواں تک سڑک کے دونوں طرف کھیت اور گھر ملے جلے ہوتے تھے۔ اور جلوموڑ سے واہگہ بارڈر سارا راستہ ویرانی، کھیت بھی کم کم ہوتے تھے۔
 
نہیں ریساں شہر لہور دیاں محب علوی صاحب۔

1968 سے 1972 تک تقریباً چار سال ’’جلوموڑ‘‘ میں رہا ہوں۔
تب ’’ٹے شن‘‘ سے جلوموڑ کے لئے 12 نمبر بس چلتی تھی، ٹانگے بھی ہوتے تھے، ’’رِش کے‘‘ بھی اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی۔ ریلوے سٹیشن اور جلوموڑ کے درمیان متعدد جگہیں گویا ویران ہوا کرتی تھیں۔ محمود بوٹی سے مناواں تک سڑک کے دونوں طرف کھیت اور گھر ملے جلے ہوتے تھے۔ اور جلوموڑ سے واہگہ بارڈر سارا راستہ ویرانی، کھیت بھی کم کم ہوتے تھے۔

کیا خوب منظر کشی کی ہے آسی صاحب، لطف آ گیا ۔
 
اب تو خیر ٹانگا لاہور میں اگر ہو تو ہو، میرا خیال ہے کہ نہیں رہا ہو گا۔

میرے اپنے تجربے کی بات ہے کہ تب (1968 ۔ 1972) جلوموڑ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک ٹانگا بھی ایک گھنٹہ لیا کرتا تھا اور بس بھی۔ ویگن وغیرہ لاہور شہر کے اندر تو چلتی تھیں، لمبے روٹوں پر نہیں۔ اور 12 میل کا وہ فاصلہ تب لمبا رُوٹ سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار پنجاب یونیورسٹی جانا ہوا۔ تب نیو کیمپس کا کچھ حصہ زیرِ تعمیر تھا اور کچھ حصے میں کلاسز ہوا کرتی تھیں۔ وہ فاصلہ جناب کٹنے میں نہیں آ رہا تھا، گویا۔ اس نسبت سے اب تو وہ سارا علاقہ شہر کے مرکز میں ہے۔
 
میں نے وہاں (لاہور میں) امریکن سنٹر لائبریری اور برٹش کونسل لائبریری کی رکنیت لے لی۔ یہ دونوں لائبریریاں شاید ریگل چوک میں تھیں یا چیئرنگ کراس میں، ٹھیک سے یاد نہیں۔ میں پندرہ دن میں ایک بار بائیسکل پہ جاتا پہلی کتابیں جمع کراتا اور دوسری لے آتا۔ ایک میٹرک پاس کی انگریزی جتنی ہو سکتی ہے، اتنی ہی اپنی تھی۔ تاہم کتابیں لاتا تو ان کو ’’پڑھتا‘‘ بھی تھا۔ سمجھ میں کچھ آ جاتا، کچھ نہ آتا مگر پڑھتا رہتا۔ انگریزی میں ’’نونفوذپذیر‘‘ الفاظ maybe بغیر سپیس کے، gonna, donna, dunno وغیرہ میں نے تب پڑھے تھے اور تکا میتھڈ سے سمجھے بھی تھے۔
 
ڈاکٹر رشید انور مرحوم ایک پنجابی پرچہ نکالتے تھے ’’ماہنامہ پنجابی زبان‘‘ اس میں 1972 میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے میری ایک ’’نظم نما‘‘ چیز ’’رنگ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، ایک کہانی ’’ماسی فتح‘‘ اسی تناظر میں اور ایک ’’ماں دا خط قیدی پتر دے ناں‘‘۔ اس کو آپ کیا کہئے گا کہ ڈاکٹر صاحب کی ملی اور عسکری نغموں، اور پنجابی شاعری پر مشتمل کتاب ’’منزلاں‘‘ یہاں ایک دوست نے اتوار بازار فٹ پاتھ بک شاپ پر دیکھی اور میرے لئے خرید لائے۔ ان کا معروف عسکری ترانہ ’’جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ بھی اسی کتاب میں شامل ہے۔

ڈاکٹر سید اختر حسین اختر مرحوم کا ’’مہینہ وار لہراں‘‘ مجھے بہت مشکل لگا کرتا تھا۔ میں ’’لہراں‘‘ پڑھتا تو تھا، مگر اپنی کوئی ’’لکھت‘‘ ان کو بھیجنے کی جرات نہیں کی۔ وہ تو یہاں ٹیکسلا آنے کے بہت بعد 1988، 1989 میں اپنے حلقے کی رپورٹیں اور کچھ کاوشیں شاہ جی کو بھیجنی شروع کیں اور انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ پنجابی لکھنے سے دل چسپی کچھ تو پہلے تھی، کچھ ڈاکٹر رشید انور مرحوم کے پرچے سے بڑھی، تاہم وہ جسے چسکا کہتے ہیں، وہ مجھے ’’لہراں‘‘ میں ملا۔ یہاں تک کہ حلقہ کے تنقیدی اجلاسوں کی رودادیں جہاں فن پارہ بھی اردو میں اور گفتگو بھی اردو میں ہوا کرتی، میں اُن کو پنجابی میں ڈھال کر ’’لہراں‘‘ کو بھیجا کرتا۔ وہ ایک سلسلہ بن گیا تھا: مثال کے طور پر ’’حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا : جولائی دا مہینہ‘‘ جو ایک مدت تک چلا۔ مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیجئے کہ میرے دیکھا دیکھی دیگر ادبی تنظیموں نے بھی اپنی مختصر مہینہ وار رپورٹیں ’’لہراں‘‘ کو بھیجنی شروع کر دیں۔ یوں اس پرچے کا ’’ادبی رُجھاں‘‘ والا سیکشن بہت بھرپور ہو گیا تھا۔
 
ایک دل چسپ واقعہ! جناب محب علوی صاحب کی خصوصی توجہ چاہوں گا۔

میں نے اسی چار سال کے عرصے میں اردو نثر لکھنے کی ’’کوشش‘‘ کی۔ اور پہلی کوشش تھی ایک افسانہ 1965 کی جنگ کے حوالے سے۔ اس کا مسودہ میں لکھ چکا تھا ابھی نظر ثانی نہیں کیا تھا، کہ ایک صاحب جو اتفاق سے افسانہ نگار تھے میری ’’رہائش + دفتر‘‘ میں آ نکلے جس کی کل عمارت بغیر کسی چار دیواری کے ایک کمرے اور اس سے ملحق ایک کوٹھڑی پر مشتمل تھی۔ وہ کوٹھڑی بھی میرے ’’صاحب‘‘ نے میرے لئے ’’باورچی خانہ‘‘ کے طور پر بنوا دی تھی۔ حاجاتِ ضروریہ کی کفالت کے لئے گرد و پیش میں واقع غیرآباد، غیر مزروع، زمین بہت تھی۔ جنگلی کیکر وہاں بہت تھے اور ہم لوگ وہیں سے ایندھن کی ضروریات پوری کیا کرتے۔

واپس آتے ہیں جناب افسانہ نگار کی طرف۔ میں نے اُن کو اپنا تازہ ’’افسانہ‘‘ مطالعے کے لئے پیش کیا، کہنے لگے: پڑھ کے سناؤ! میں نے پہلی چند سطریں پڑھی ہوں گی کہ موصوف زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگے، بولے: نہیں، نہیں، نہیں میاں صاحبزادے۔ یہ تم کیا داستان لے بیٹھے ہو! میں تمہیں بتاؤں آج کا افسانہ کیسے شروع ہوتا ہے؟ ’’اس نے چٹنی کی ہنڈیا سر پر اٹھائی اور بھاگ گئی‘‘۔۔ یوں ابتدا کرو! سچ یہی ہے کہ بات انہوں نے بڑی پتے کی کی تھی! انہوں نے اپنا نام بھی بتایا تھا جسے میں تیسرے دن بھول چکا تھا۔ تاہم یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے!

’’اس نے چٹنی کی ہنڈیا سر پر اٹھائی اور بھاگ گئی!‘‘ قاری پہلے ہی جملے پر کہانی کی گرفت میں آ جاتا ہے۔ ہے نا!!؟
 
اب تو خیر ٹانگا لاہور میں اگر ہو تو ہو، میرا خیال ہے کہ نہیں رہا ہو گا۔

میرے اپنے تجربے کی بات ہے کہ تب (1968 ۔ 1972) جلوموڑ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک ٹانگا بھی ایک گھنٹہ لیا کرتا تھا اور بس بھی۔ ویگن وغیرہ لاہور شہر کے اندر تو چلتی تھیں، لمبے روٹوں پر نہیں۔ اور 12 میل کا وہ فاصلہ تب لمبا رُوٹ سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار پنجاب یونیورسٹی جانا ہوا۔ تب نیو کیمپس کا کچھ حصہ زیرِ تعمیر تھا اور کچھ حصے میں کلاسز ہوا کرتی تھیں۔ وہ فاصلہ جناب کٹنے میں نہیں آ رہا تھا، گویا۔ اس نسبت سے اب تو وہ سارا علاقہ شہر کے مرکز میں ہے۔

کیا خوب تاریخ بیان کی ہے ۔
آپ کی یاداشت کے کچھ اور نمونے بھی درکار ہوں گے تاکہ ہم لاہور کے ماضی کے بارے میں وہ چیزیں جان سکیں جو اب صرف تجربے کی بنیاد پر بیان کی جا سکتی ہیں۔
 
ایک دل چسپ واقعہ! جناب محب علوی صاحب کی خصوصی توجہ چاہوں گا۔

میں نے اسی چار سال کے عرصے میں اردو نثر لکھنے کی ’’کوشش‘‘ کی۔ اور پہلی کوشش تھی ایک افسانہ 1965 کی جنگ کے حوالے سے۔ اس کا مسودہ میں لکھ چکا تھا ابھی نظر ثانی نہیں کیا تھا، کہ ایک صاحب جو اتفاق سے افسانہ نگار تھے میری ’’رہائش + دفتر‘‘ میں آ نکلے جس کی کل عمارت بغیر کسی چار دیواری کے ایک کمرے اور اس سے ملحق ایک کوٹھڑی پر مشتمل تھی۔ وہ کوٹھڑی بھی میرے ’’صاحب‘‘ نے میرے لئے ’’باورچی خانہ‘‘ کے طور پر بنوا دی تھی۔ حاجاتِ ضروریہ کی کفالت کے لئے گرد و پیش میں واقع غیرآباد، غیر مزروع، زمین بہت تھی۔ جنگلی کیکر وہاں بہت تھے اور ہم لوگ وہیں سے ایندھن کی ضروریات پوری کیا کرتے۔

واپس آتے ہیں جناب افسانہ نگار کی طرف۔ میں نے اُن کو اپنا تازہ ’’افسانہ‘‘ مطالعے کے لئے پیش کیا، کہنے لگے: پڑھ کے سناؤ! میں نے پہلی چند سطریں پڑھی ہوں گی کہ موصوف زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگے، بولے: نہیں، نہیں، نہیں میاں صاحبزادے۔ یہ تم کیا داستان لے بیٹھے ہو! میں تمہیں بتاؤں آج کا افسانہ کیسے شروع ہوتا ہے؟ ’’اس نے چٹنی کی ہنڈیا سر پر اٹھائی اور بھاگ گئی‘‘۔۔ یوں ابتدا کرو! سچ یہی ہے کہ بات انہوں نے بڑی پتے کی کی تھی! انہوں نے اپنا نام بھی بتایا تھا جسے میں تیسرے دن بھول چکا تھا۔ تاہم یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے!

’’اس نے چٹنی کی ہنڈیا سر پر اٹھائی اور بھاگ گئی!‘‘ قاری پہلے ہی جملے پر کہانی کی گرفت میں آ جاتا ہے۔ ہے نا!!؟

زبردست آسی صاحب ،
اس طرح کے مفید مشورے اور خاص اسلوب واقعی تحریر میں جان پیدا کر دیتا ہے اور کسی بھی اچھی تحریر کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ قاری کی توجہ ایسے حاصل کر لے کہ وہ کسی موقع پر بیزار نہ ہو اور توجہ حاصل کرنے کےلیے پہلا صفحہ بہتر ، پہلا پیراگراف بہترین اور پہلی لائن سے زیادہ اچھی شے تو ہو ہی نہیں سکتی۔
 

عمراعظم

محفلین
لاہوریوں نے اپنے شہر کے بارے میں دھاگے کا آغاز کر کے ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ مجھے کئی مرتبہ لاہور دیکھنے کا موقع ملا۔ یقینا" انتہائی دلفریب شہر ہے۔جگہ جگہ تاریخی مناظر اس عظیم شہر کی تہذیب کے گواہ ہیں۔ جو بات اس شہر کو دوسرے شہروں سے منفرد بناتی ہے وہ یہاں کے باسیوں کی خوشدلی ہے۔کھانوں سے رغبت بھی منفرد پہلو ہے۔
میں سرگودھا میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم سے لیکر اب تک راولپنڈی کا ہو کر رہ گیا۔ دنیا کے کئی ملکوں اور شہروں میں قیام رہا۔ کئی شہر ہمارے تمام شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود میرے دل میں وہ مقام نہ بنا سکے جو میر ے ملک اور میرے شہروں کا خاصا ہے۔
آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گےکہ جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں وہاں کی مٹی سے ہم ایک خاص ا’نسیت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ مثلا" پاکستان کے کئی شہروں میں (کراچی سمیت) رہنے یا کچھ وقت گزارنے کے باوجود میرے دل میں وہ لگاؤ کبھی پیدا نہیں ہوا جو مجھے سرگودھا سے رہا۔
آپ سے گزارش ہے کہ اپنے شہر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس نقطہ کو بھی مدِنظر رکھیں۔ پاکستان کے تمام شہر بہت پیارے ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں۔
 
چار سال کا وہ عرصہ میرے لئے کئی حوالوں سے اہم ہے۔
اول: وہ میرا پہلا روزگار تھا، جب کہ میری عمر ساڑھے پندرہ سال تھی۔ میں نے میٹرک کے پرچے دئے تھے اور جلوموڑ چلا آیا تھا، امتحان کا نتیجہ بعد میں آیا۔
ایک اور مزے کی بات سنئے۔ میرے نمبر تھے 62 فیصد، بس فرسٹ ڈویژن بن گئی تھی، اور اتنے کم نمبروں پر کسی بھی کالج میں داخلہ ملنا محال تھا، اور داخلہ لینا محال تر! وجہ آپ سمجھ ہی چکے ہیں! یقین جانئے میں بہت خوش قسمت واقع ہوا ہوں! میں نے کئی لوگوں کی شخصیتوں کو دو روٹی کے پاٹوں میں پس کر ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے۔ اماں کا خط ملا کہ بیٹا، تمہارا دسویں جماعت کا نتیجہ بول گیا ہے، سکول والے کہتے ہیں طالبِ علم خود آ کر سرٹیفکیٹ وصول کرے، کسی اور کو نہیں دیں گے۔
ملت ہائی سکول، رینالہ خورد ۔۔ آج کل گورنمنٹ ملت ہائی سکول ہے، تب نجی ہوتا تھا اور اس کو ’’غریبوں کا سکول‘‘ کہا جاتا تھا۔ اور سکول کے سیاہ و سفید کے مالک تھے چوہدری نذیر صاحب، وہ خود کو مینیجر کہا کرتے۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، بہت سخت لہجہ بیک وقت کڑوا بھی اور میٹھا بھی، اندر سے بہت نرم (اخروٹ کی مثال شاید ان پر پوری اترتی ہے)۔ اور انتظامی امور میں بے لچک رویہ ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ فیسیں سرکاری شرح کے مطابق تھیں اور فیس معافی کے معاملے میں بہت فراخ دل تھے۔ میں پورے پانچ سال (چھٹی سے دسویں تک) ایک روپیہ دس پیسے مہینہ دیتا رہا۔ ڈرائنگ میں میرا ہاتھ اچھا تھا، مگر پڑھی اس لئے نہیں کہ ڈرائنگ بورڈ، جیومیٹری کا بڑا سیٹ، بڑی پرکار، پنسلیں، اور سپیشل کاغذ کی ڈرائنگ شیٹ !!! اتنا کچھ کہاں سے آتا!!۔

معذرت خواہ ہوں، بات کسی اور طرف نکل گئی۔ اور وہ مزے کی بات رہ گئی۔
 
لاہور کی کشش صرف کھانوں یا تاریخی عمارتوں ، باغات اور کالجوں میں نہیں بلکہ ساکنانِ کوچہ ءِ دلدار کا مخصوص مزاج بھی اس میں کافی دخل رکھتا ہے۔۔۔لاہور اور کراچی کی بات چلی ہے تو ایک قصہ یاد آیا کہ کراچی کے ایک صاحب پہلی مرتبہ لاہور میں وارد ہوئے۔ شہر کی سیر کرتے کرتے جب وہ داتا دربار کے قریب پہنچے تو باہر سڑک پر کھڑے ایک لاہوری سے پوچھا:​
حضرت کیا مینارِ پاکستان کو یہی سڑک جاتی ہے؟​
جواب میں اس شخص نے کہا "آہو"۔۔​
یہ بہت سٹپٹائے کہ یہ کونسا لفظ ہے اور اسکا مطلب کیا ہے۔۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی اور شخص سے راستہ پوچھتے ہیں۔ ایک اور آدمی آتا ہوا نظر آیا تو اس سے بھی یہی سوال پوچھا جواب میں اس بندے نے بھی یہی کہا کہ "آہو"۔۔​
اب تو یہ بہت ہی جھنجھلائے اور غصہ میں جلتے بھنتے ہوئے پھر کسی اور شخص کی راہ دیکھنے لگے۔ دور سے ایک آدمی آتا نظر آیا جو پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو سلام کیا اور پوچھا:​
بھائی صاحب ! کیا مینارِ پاکستان کو یہی سڑک جاتی ہے؟​
انہوں نے کہا " جی ہاں ۔ یہی سڑک مینارِ پاکستان کو جاتی ہے"۔۔۔​
یہ بہت خوش ہوئے کہ چلو کوئی بندہ تو معقول ملا جس نے ڈھنگ کا جواب دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس شخص سے کہا کہ" بہت بہت شکریہ۔ آپ مجھے پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟؟"​
جواب ملا۔۔۔۔آہو
:p:D:laughing:
 
معذرت خواہ ہوں، بات کسی اور طرف نکل گئی۔ اور وہ مزے کی بات رہ گئی۔

میرے لئے فرسٹ ڈویژن کا صرف ایک مطلب تھا ’’نوکری کے بہتر مواقع‘‘! اور اپنے حالات کے پیش منظر میں یہی بہت تھا۔ میں نے ہیڈماسٹر صاحب کے بابو سے سکول کا سرٹیفکیٹ وصول کیا، ہیڈماسٹر صاحب کو سلام کیا، اُن سے شاباش لی اور دفتر سے باہر نکلا تو مینیجر صاحب پھولوں کی کیاریوں کے بیچ ایک روش پر کھڑے تھے۔ اُن کی پاٹ دار آواز گونجی ’’اَدھر آؤ!‘‘ میں گیا، سلام کیا اور چپکا کھڑا ہو گیا۔ گھبراہٹ شاید میری ٹانگوں سے بھی محسوس کی جا سکتی ہو گی۔ ان کا دبدبہ ہی کچھ ایسا تھا!
’’پاس ہو گئے؟‘‘ اس سوال پر میں بمشکل اپنا سر اثبات میں ہلا سکا۔ ’’نمبر کتنے ہیں؟‘‘ ’’جی وہفرسٹ ڈویژن ہے۔‘‘ میرے لہجے میں کچھ اعتماد در آیا تھا۔ پہلے سے بھی زیادہ دبنگ لہجے میں پوچھا گیا: ’’کتنے فی صد لئے ہیں؟‘‘ ’’جی ب ب باٹھ‘‘ میرا سارا اعتماد جاتا رہا اور ’’باسٹھ‘‘ کا ’’باٹھ‘‘ بن گیا۔ ’’شرم آنی چاہئے تمہیں! اتنے کم نمبر؟ تمہیں کون داخلہ دے گا اتنے نمبروں پر؟ کرتے کیا ہو؟‘‘ ’’جی وہ میں نوکری کرتا ہوں، لاہور‘‘۔ ان کا لہجہ ایک دم بدل گیا: ’’تم، تم نوکری کرتے ہو؟ اس عمر میں؟‘‘ ’’جی‘‘ مجھے اپنی آواز بدلی ہوئی محسوس ہوئی، آنکھوں کا مجھے نہیں پتہ۔ ’’کتنی تنخواہ لیتے ہو؟‘‘ ’’جی، پینسٹھ روپے‘‘ ’’ہم م م، شاباش! ۔۔ ٹھہرو!‘‘ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ واپس آیا تو اس میں دس دس کے کچھ نوٹ تھے۔ میں نے نوٹ دیکھے تو وہاں سے سکول کے گیٹ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔‘‘ ’’پکڑو اسے کوئی‘‘ مینیجر صاحب نے زور سے کسی کو پکارا، گیٹ کیپر میری طرف لپکا ہی تھا کہ مینیجر صاحب کی آواز گونجی ’’رہنے دو، جانے دو! مجھے اس کی خود داری اچھی لگی!‘‘۔
 
Top