یہ فضا، یہ گھاٹیاں، یہ بدلیاں یہ بوندیاں
کاش اس بھیگے ہوئے پربت سے لہراتی ہوئی
دھیرے دھیرے ناچتی آئے صبوحی اور پھر گھل کے کھو جائے کہیں میری غزل گاتی ہوئی
لڑکیاں چنتی ہیں گیہوں کی سنہری بالیاں
کاٹتے ہیں گھاس مینڈھوں پر سے بانکے نوجواں
کھوئی کھوئی ایک لڑکی بیریوں کی چھاؤں میں دیکھتی ہے گھاس پر لیٹی ہوئی جانے کہاں
گورے ہاتھوں میں یہ دھانی چوڑیوں کی آن بان
کالی زلفوں پر گلابی اوڑھنی کی آب و تاب
ہر قدم پر نقرئی خلخال کے نغموں کی لہر تیرے پیکر میں مجسم ہو گئی روحِ شباب
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی
مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا
بدل دیا ترے غم نے بہار کا کردار کہ اب سے قبل چمن کا مزاج یوں تو نہ تھا
گائیں ڈکراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر آ گئیں
مرلیاں ہاتھوں میں لے کر مست چرواہے بڑھے
بیریوں کے دھندلے سایوں میں کھڑا ہوں منتظر ایک لڑکی کا گزرنا ہے یہاں سے دن چڑھے
کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی
دم بخود پنہاریاں کنگن گھماتی رہ گئیں
وہ کنویں میں ایک چرواہا اترنے کو بڑھا وہ صبوحی کی نگاہیں مسکراتی رہ گئیں