احمد ندیم قاسمی قطعات

Umair Maqsood

محفلین
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں
کتنا دلچسپ نظارہ ہوگا
یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند

تیرے آنگن میں بھی نکلا ہوگا
 

Umair Maqsood

محفلین
کبھی نہ پلٹے گی بیتی ہوئی گھڑی لیکن
تصورات سے دل خوش ہیں نوع انساں کے
وہ کس کے ہاتھ کے ہیں منتظر خدا جانے

لرزتے رہتے ہیں پردے حریم جان کے
 

Umair Maqsood

محفلین
عید کا دن ہے فضا میں گونجتے ہیں قہقہے
جھولتی ہیں لڑکیاں جھولوں پہ گاتی ہیں ملہار
میرا جھولا جس سے ہیں لپٹے ہوئے سرسوں کے پھول

دیکھتا ہے ایک نکڑ کو لپک کر بار بار
 

Umair Maqsood

محفلین
ساون کی یہ رت اور یہ جھولوں کی قطاریں
اڑتی ہوئی زلفوں پہ مچلتی ہیں پھواریں
میں صبح سے ندی کے کنارے پہ کھڑا ہوں

ملاح کہاں ہیں جو مجھے پار اُتاریں
 

Umair Maqsood

محفلین
ریشۂ گل کو رگ سنگ بنانے والو
بوئے گل سنگ سے ٹپکے گی شرارے بن کر
تم کو معلوم تو ہوگا کہ اُجالا دن کا

سینۂ شب میں دھڑکتا ہے ستارے بن کر
 

Umair Maqsood

محفلین
رنگ حرف صدا کی دنیا میں
زندگی قتل ہو گئی ہے کہیں
مر گیا لفظ اڑ گیا مفہوم

اور آواز کھو گئی ہے کہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
رنگ جب اپنی حقیقت سے شناسا ہو جائے
لالہ زاروں میں بھڑکتا ہے الاؤ بن کر
رقص جب دائرۂ فن سے اُبل پڑتا ہے

دندناتا ہے سمندر کا بہاؤ بن کر
 

Umair Maqsood

محفلین
رخسار ہیں یا عکس ہے برگِ گل تر کا
چاندی کا یہ جھومر ہے کہ تارا ہے سحر کا
یہ آپ ہیں یا شعبدۂ خواب جوانی

یہ رات حقیقت ہے کہ دھوکا ہے نظر کا
 

Umair Maqsood

محفلین
ذکر مریخ و مشتری کے ساتھ
اپنی دھرتی کی بات بھی تو کرو
موت کا احترام برحق ہے

احترام حیات بھی تو کرو
 

Umair Maqsood

محفلین
داور حشر مجھے تیری قسم
عمر بھر میں نے عبادت کی ہے
تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ

میں نے انساں سے محبت کی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
خموش جھیل پہ کیوں ڈولنے لگا بجرا
ہوائیں تند نہیں ہیں کنارہ دور نہیں
بھنور کا ذکر نہ کر زندگی کا لطف نہ چھین

مجھے ابھی کسی انجام کا شعور نہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
حکمت اہل مدرسہ کا غرور
میری وحشت سے دب کے ہار گیا
تیرا گھبرا کے مسکرا دینا

زندگی کے نقاب اتار گیا
 

Umair Maqsood

محفلین
جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد
وہی رنگیں نوا خونیں نوا ہے
اب ان رنگوں کے نیچے دھیرے دھیرے

لہو کا ایک دریا بہہ رہا ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب
دور تک موج کے رونے کی صدا آتی ہے
یک بیک پھر یہی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی موج

اک نئی موج میں ڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے
آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا
اتنا سیال ہے یہ پَل کہ گُماں ہوتا ہے

میں ترے جسم کو چھو لوں تو پگھل جائے گا
 

Umair Maqsood

محفلین
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے
تیرے عارض ہیں کہ پھولوں کو ہنسی آئی ہے
یہ تیرا جسم ہے یا صبح کی شہزادی ہے

ظلمتِ شب سے الجھتی ہوئی انگڑائی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
پو پھٹے رینگتے جھرنے پہ یہ کون آیا ہے
بال بکھرے ہوئے لپٹے ہوئے خواب آنکھوں سے
لوٹ لیں تشنگئ زیست نے نیندیں ورنہ

یوں پیاپے نہ برستی مئے ناب آنکھوں سے
 

Umair Maqsood

محفلین
اپنی آواز کی لرزش پہ تو قابو پا لو
پیار کے بول تو ہونٹوں سے نکل جاتے ہیں
اپنے تیور بھی سنبھالو کہ کوئی یہ نہ کہے

دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا
لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں
اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی

انکھڑیاں چار ہوئیں جھک گئیں شرما سی گئیں
 

Umair Maqsood

محفلین
اداس چاند نے بدلی کی آڑ میں ہو کر
کنارے ملگجے بادل کے کر دیئے روشن
شب فراق میں جیسے تصور رخ دوست

دل حزیں کے اندھیرے میں روشنی کی کرن
 
Top