احمد ندیم قاسمی قطعات

Umair Maqsood

محفلین
آنسوؤں میں بھگو کے آنکھوں کو
دیکھتے ہو تو خاک دیکھو گے
آئینے کو ذرا سا نم کر دو

پیرہن چاک چاک دیکھو گے
 

Umair Maqsood

محفلین
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے
کتنی سونی نظر آتی ہے گزر گاہ حیات
ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے ہیں

شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات
 

Umair Maqsood

محفلین
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں
ایک ہی بات میں کہہ جاتے ہیں کہنے والے
لیکن اِن کے لئے ہر لفظ کا مفہوم ہے ایک

کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
 

Umair Maqsood

محفلین
باجرے کی فصل سے چڑیاں اڑانے کے لئے
ایک دوشیزہ کھڑی ہے کنکروں کے ڈھیر پر
وہ جھکی وہ ایک پتھر سنسنایا، وہ گِرا

کٹ گئے ہیں اس کے جھٹکے سے مرے قلب و جگر
 

Umair Maqsood

محفلین
برس کے چھٹ گئے بادل ہوائیں گاتی ہیں
گرجتے نالوں میں چرواہیاں نہاتی ہیں
وہ نیلی دھوئی ہوئی گھاٹیوں سے دو گونجیں

کسی کو دکھ بھری آواز میں بلاتی ہیں
 

Umair Maqsood

محفلین
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے
چونک اٹھے ہیں وہ شہنائی بجانے والے
اف بچھڑتی ہوئی دوشیزہ کے نالوں کا اثر

ڈولتے جاتے ہیں ڈولی کے اٹھانے والے
 

Umair Maqsood

محفلین
وہ پانی بھرنے چلی اک جوان پنساری
وہ گورے ٹخنوں پہ پازیب چھنچھناتی ہے
غضب غضب کہ مرے دل کی سرد راکھ سے پھر

کسی کی تپتی جوانی کی آنچ آتی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند
پہاڑیوں کے اندھیروں پہ نور چھانے لگا
وہ ایک کھوہ میں اک بد نصیب چرواہا

بھگو کے آنسوؤں میں ایک گیت گانے لگا
 

Umair Maqsood

محفلین
وہ سبز کھیت کے اس پار ایک چٹان کے پاس
کڑکتی دھوپ میں بیٹھی ہے ایک چرواہی
پرے چٹان سے پگڈنڈیوں کے جالوں میں

بھٹکتا پھرتا ہے وہ ایک نوجوان راہی
 

Umair Maqsood

محفلین
یہ بھی کیا چال ہے ہر گام پہ محشر کا گماں
پائلیں بجتی ہیں لہنگے کی کماں تنتی ہے
یوں چلو جیسے اترتی ہے کہستاں سے ہوا

جیسے رنگوں کے تموج سے کرن بنتی ہے
 

Umair Maqsood

محفلین
ایک مدت کے بعد آج مجھے
ہم زباں ماننے لگے ہیں لوگ
پہلے روتے تھے، چونکتے ہیں اب
مجھ کو پہچاننے لگے ہیں لوگ​
 
Top