قطعات

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہ حُضُورِ شاہ


اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل

پانو سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ ا َورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادتِ اِ کلیل

تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُ لفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

تجھ سے عِالم پہ کُھلا رابطۂ قُربِ کلیم
تُجھ سے دنیا میں بِچھا مائدۂ بَذلِ خلیل

بہ سُخَن ا َوجِ دہِ مرتبۂ معنی و لفظ
بہ کرم داغِ نِہِِ ناصیۂ قُلزُم و نِیل

تا ، ترے وقت میں ہو عَیش و طرب کی توفیر
تا ، ترے عہد میں ہو رنج و اَلَم کی تقلیل

ماہ نے چھوڑ دیا ثَور سے جانا باہر
زُہرہ نے ترک کیا حُوت سے کرنا تحویل

تیری دانش ، مری اصلاحِ مَفاسد کی رَہین
تیری بخشش ، مِرے اِنجاحِ مقاصد کی کفیل

تیرا اقبالِ تَرَحُّم مِرے جینے کی نَوِید
تیرا اندازِ تَغافُل مِرے مرنے کی دلیل

بختِ ناساز نے چاہا کہ نہ دے مُجھ کو اماں
چرخِ کج باز نے چاہا کہ کرے مُجھ کو ذلیل

پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بُنِ ناخُنِ تدبیر میں کیل

تَپِشِ دل نہیں بے رابطۂ خَوفِ عظیم
کششِ دم نہیں بے ضابطۂ جَرِّ ثقیل

دُرِ معنی سے مِرا صفحہ ، لقا کی ڈاڑھی
غَمِ گیتی سے مِرا سینہ ا َمَر کی زنبیل

فکر میری گُہر اندوزِ اشاراتِ کثیر
کِلک میری رقَم آموزِ عباراتِ قلیل

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدُق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

نیک ہوتی مِری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مِری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

قبلۂ کون و مکاں ، خستہ نوازی میں یہ دیر؟
کعبۂ امن و اماں ، عُقدہ کُشائی میں یہ ڈھیل؟


--------×××××--------


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


گئے وہ دن۔۔۔

گئے وہ دن کہ ، نادانستہ ، غیروں کی وفاداری
کیا کرتے تھے تم تقریر ہم خاموش رہتے تھے

بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ، جانے دو ، مل جاؤ
قَسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے


-----×××-----


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ہاے ہاے

کلکتے کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں !
اِ ک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہاے ہاے

وہ سبزہ زار ہاے مُطرّا کہ ، ہے غضب !
وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہاے ہاے!

صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر !
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہاے ہاے !

وہ میوہ ہاے تازۂ شیریں کہ ، واہ واہ
وہ بادہ ہاے نابِ گوارا کہ ہاے ہاے !

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بیسنی روٹی

نہ پُوچھ اِس کی حقیقت ، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں ، نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


روزہ

افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے



----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سیہ گلیم

سیہ گلیم ہوں ، لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا ، شریکِ غالب ہے

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سہل تھا مُسہل

سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آپڑی
مجھ پہ کیا گُزرے گی ، اتنے روز حاضر بِن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے ، تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل ، تین تَبریدیں ، یہ سب کَے دِن ہوئے؟

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


خُجستہ ۔۔۔

خُجستہ انجمن طُوے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالب
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی " محظوظ "

(1854ء)

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


گُزارشِ مُصنف بہ حُضُورِ شاہ

اَے شَہنشاہِ آسماں اَورنگ
اَے جہاندارِ آفتاب آثار

تھا میں اِک بے نَوَاے گوشہ نشیں
تھا میں اِک دردمندِ سینہ فگار

تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئ بازار

کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار

گر چہ از رُوے ننگ و بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار

کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آے خاک کو عار

شاد ہوں لیکن اپنے جی میں کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار

خانہ زاد اور مُرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار

بارے نوکر بھی ہو گیا صد شُکر
نسبتیں ہو گئیں مُشخص چار

نہ کہُوں آپ سے تو کس سے کہوں
مُدعائے ضروری الاظہار

پِیر و مُرشد ! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و دستار

کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زَمہریر آزار

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نَزار

کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار

رات کو آگ اور دن کو دُھوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار !

آگ تاپے کہاں تلک اِنسان
دُھوپ کھاوے کہاں تلک جاندار

دُھوپ کی تابِش ، آگ کی گرمی !
وَقِنَا رَبَّنَا عَذَاب النَّار !

میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار

رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار

مجھ کو دیکھو تو ، ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار !

بسکہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا
ہوگیا ہے شریک ساہُو کار

آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغزگوے خوش گُفتار

رزم کی داستان گر سُنئیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر دار

بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری ابرِ گوہر بار

ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار

آپ کا بندہ ، اور پِھروں ننگا ؟
آپ کا نوکر ، اور کھاؤں اُدھار ؟

میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تا ، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار

ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام:
(شاعری سے نہیں مجھے سروکار)

تُم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار



-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


اِنشراحِ جشنِ جمشید

ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید
کہا غالب سے: " تاریخ اس کی کیا ہے؟ "
تو بولا : " اِنشراحِ جشنِ جمشید"

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ہم آشنا نہیں !

گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
دربار دار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں

-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


چہار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر

ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مے مُشک بُو کی ناند

جو آئے ، جام بھر کے پیے ، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے ، پُھولوں کو جائے پھاند

غالب یہ کیا بیاں ہے ، بجُز مدحِ پادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند

بَٹتے ہیں سونے رُوپے کے چھلے حُضُور میں
ہے جن کے آگے سیم و زر مہر و ماہِ ماند

یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند


-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


مَدحِ نُصرت الملک

نُصرت الملک بہادُر مجھے بتلا کہ مجھے
تجھ سے جو اتنی اِرادت ہے تو کس بات سے ہے؟

گرچہ تُو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونقِ بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے

اور میں وہ ہوں کہ ، گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے

خستگی کا ہو بھلا ، جس کے سبب سے سرِ دست
نسبت اِک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے

ہاتھ میں تیرے رہے توسنِ دَولت کی عِناں
یہ دُعا شام و سحر قاضئ حاجات سے ہے

تُو سکندر ہے مِرا ، فخر ہے ملنا تیرا
گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے

اِس پہ گُزرے نہ گماں رِیو و رِیا کا زِنہار
غالب خاک نشیں اہلِ خرابات سے ہے


-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


در مدح شاہ

اے شاہِ جہانگیرِ جہاں بخش جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گُونہ بشارت

جو عُقدۂ دُشوار کہ کوشش سے نہ وا ہوا
تو وَا کرے اُس عُقدے کو ، سو بھی بہ اشارات

ممکن ہے ، کرے خضر سکندر سے ترا ذ کر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت

آصف کو سُلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخرِ سُلیماں ، جو کرے تیری وزارت

ہے نقشِ مُریدی ترا ، فرمانِ الٰہی
ہے داغِ غُلامی تِرا ، توقیعِ امارت

تُو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت

ڈُھونڈے نہ مِلے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

ہے گر چہ مجھے نُکتہ سرائی میں توغُل
ہے گر چہ مجھے سحر طرازی میں مہارت

کیونکر نہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر
قاصر ہے ستائش میں تِری ، میری عبارت

نَو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگئ صنعتِ حق اہلِ بصارت

تجھ کو شرفِ مہرِ جہانتاب مُبارک !
غالب کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت !



-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بیانِ مُصنف

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سَوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

میں کون ، اور ریختہ ، ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِہرا لکھا گیا ز رہِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ
سودا نہیں ، جُنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں غالب ، خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے



-----×××-----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


خوش ہو اے بخت ۔۔۔

خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
تب بنا ہوگا اِس انداز کا گز بھر سِہرا

رُخ پہ دُولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر سِہرا

یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جاے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سِہرا

جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے پُھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا

جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پُھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سِہرا

رُخ روشن کی دَمک ، گوہرِ غلتاں کی چمک
کیوں نہ دکھلاے فرُوغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں ، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار
لاے گا تابِ گرانبارئ گوہر سِہرا !

ہم سُخن فہم ہیں ، غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں ، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا



-----×××-----

 

الف عین

لائبریرین
۔ق۔
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا
انکو لڑیاں نہ کہو، نحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا
 

الف عین

لائبریرین
۔ق۔
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لئے میں نے جو اُٹھایا سہرا
 
Top