قرض کی پیتے تھے مے ۔۔۔ (جناح ائرپورٹ، موٹرویز، ہائی ویز، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے اثاثے رہن)

محمداحمد

لائبریرین
شنید ہے کہ پاکستانی حکومت نے صکوک بانڈز کے عوض جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ، نیشنل موٹرویز اور ہائی ویز، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے اثاثے رہن رکھ دیے ہیں۔

مزید متعلقہ روابط:
اول
دوم
سوئم

اور بے تحاشہ خبریں اس ضمن میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا :eek:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شرافتوں کی فاقہ مستیاں جب خر مستیاں بننے لگیں تو قوم کے کے لیے لمحہءفکریہ ہونا چاہیئے۔
لگتا ہےصبر میں تو ہماری قوم نمبر لے گئی ، اب قوم کےصبر کا نہیں بلکہ بے صبری کا امتحان ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عجیب معاملات ہیں ایک طرف تو ہر تیسرے ماہ ایمنسٹی اسکیم نکال کر ٹیکس چوروں کے کالے دھن کو پاک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف آئے دن روز مرہ کی اشیائے صرف اور بجلی گیس وغیرہ پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بیرونی قرضے اس طرح لیے جاتے ہیں کہ اُنہیں اپنی کامیابی بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ پروجیکٹ شروع کیا اور وہ پروجیکٹ شروع کیا اور فلاں ملک کے تعاون (قرضے) سے کیا۔

یہ قرضوں کے لئے تعاون کا لفظ جو استعمال کیا جاتا ہے یہ عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف نہیں ہے تو کیا ہے۔

پھر شاہ خرچیاں! ختم ہی نہیں ہوتیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مزید سنیے! پانچ ریگولیٹری اتھارٹیز کےجن کا کام حکومت سمیت بہت سے معاملات کو ریگولیٹ کرنا ہے، اُنہیں حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت اپنے وزراء کے تحت کر دیا۔ یعنی جانچ پڑتال کرنے والے اب چوروں کو رپورٹ کیا کریں گے۔ اوگرا، پیمرا، نیپرا، پی ٹی اے وغیرہ اب حکومت کو کسی بات پر پابند نہیں کر سکتے بلکہ حکومت کے پابند ہیں۔ کیا ریگولیٹری اتھارٹیز آزاد اور خود مختار نہیں ہونا چاہیے۔

یہ کام کرنے کے فوراً بعد یہ کیا گیا کہ اوگرا نے سی این جی کی قیمتیں ریگولیٹ کرنا بند کردیں اور سی این جی مالکان کے ذمہ یہ کام لگا دیا (یعنی بلّے کو دودھ کی نگرانی پر لگا دیا گیا) انہیں نے فوراً 4 روپے فی کلو اضافہ کر دیا۔

یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ حکومت نے یہ سب نیک نیتی کی بنیاد پر کیا ہوگا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
شرافتوں کی فاقہ مستیاں جب خر مستیاں بننے لگیں تو قوم کے کے لیے لمحہءفکریہ ہونا چاہیئے۔
لمحہء فکریہ والے دور سے بھی ہم آگے آ گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے سب کسی نشے میں دُھت ہیں، جو تھوڑا بہت دیکھ سن رہے ہیں اُن کے بھی اعصاب اس قابل نہیں کے ردِ عمل ظاہر کر سکیں۔
لگتا ہےصبر میں تو ہماری قوم نمبر لے گئی ، اب قوم کےصبر کا نہیں بلکہ بے صبری کا امتحان ہے۔

قوم بے حسی، لا علمی، لا تعلقی اور خوش گمانی کے ملے جُلے تاثرات لیے ایک عجیب ہی شے بن گئی ہے۔

عام آدمی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ اور جو عام آدمی نہیں ہے یہ مسائل اُسی کے پیدا کردہ ہیں۔
 
پہلے الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا نے ہم سب کو اپاہج بنا دیا ہے۔
جو غصہ اور بھڑاس نکالنی ہوتی ہے، وہ کسی اینکر کی زبانی نکلتی دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
یا سوشل میڈیا پر بھڑاس نکال کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پہلے الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا نے ہم سب کو اپاہج بنا دیا ہے۔
جو غصہ اور بھڑاس نکالنی ہوتی ہے، وہ کسی اینکر کی زبانی نکلتی دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
یا سوشل میڈیا پر بھڑاس نکال کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا۔

بجا فرمایا۔۔۔!

ہمارے آج کے لیڈرز کی تقریر کچھ اس قسم کی ہوا کرتی ہے۔

"آج کی عوام باشعور ہے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر آواز اُٹھاتی ہے۔ آج کی عوام کو دبایا نہیں جا سکتا۔۔۔ !" وغیرہ وغیرہ

سمجھ نہیں آتا کہ اس بات پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بددیانتی کے بارے میں ہمارے شعور و ادراک کو مزاحیہ سیاسی پروگراموں کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔

ٹی وی پر "ہم سب اُمید سے ہیں" اور اس قبیل کے دیگر پروگرامز میں چوبیس گھنٹے ہمیں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی بددیانتی پر ہنسنا سکھایا گیا۔ اب ہم بڑی سے بڑی بات کو بھی ہنسی میں ٹال دیتے ہیں۔

ملک تباہ ہو گیا ہم ہنس رہے ہیں۔ قوم کا بچہ بچہ گردن گردن تک قرضوں میں ڈوب گیا، ہم ہنس رہے ہیں۔ پی آئی اے میں حادثے ہو رہے ہیں لوگ جان سے جا رہے ہیں، ہم ہنس رہے ہیں۔ بد دیانتی اور نااہلی ہنستے رہنے سے تو ختم نہیں ہوگی، اس کے لئے تو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔

کیا ہوگیا ہے ہمیں! اگر یہ دانستہ نہیں بھی کیا گیا تب بھی ہمارے حق میں بہت بُرا ہوا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اقتصادی سپر پاور چائنہ اب ہمارا مائی باپ بن گیا ہے۔

ہم تو خوش ہی غلامی میں رہتے ہیں۔

چائینیز تعداد میں اتنے سارے ہیں اور مستقبل قریب میں انہیں وسائل کی اس قدر ضرورت پڑنے والی ہے کہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ آنے والے وقت میں پاکستانیوں کا حال بھی روہنگیا مسلمانوں کا سا نہ ہو جائے۔
 
چائینیز تعداد میں اتنے سارے ہیں اور مستقبل قریب میں انہیں وسائل کی اس قدر ضرورت پڑنے والی ہے کہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ آنے والے وقت میں پاکستانیوں کا حال بھی روہنگیا مسلمانوں کا سا نہ ہو جائے۔
کبھی یہاں موجود چائنیز کمپنیز میں موجود پاکستانیوں سے پوچھیں۔ کہ ایک چائنیز ملازم اور ایک پاکستانی ملازم میں کیا فرق ہے۔ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کبھی یہاں موجود چائنیز کمپنیز میں موجود پاکستانیوں سے پوچھیں۔ کہ ایک چائنیز ملازم اور ایک پاکستانی ملازم میں کیا فرق ہے۔ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا۔

اس سارے معاملے کی جڑ بھی وہی ملتی ہے جہاں اور بربادیوں کی ملا کرتی ہے۔ یعنی حکومتی بد عنوانی اور نا اہلی!
 
Top