قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے بجائے منصور الخازنی رکھنے کی منظوری

شاہد شاہ

محفلین
سیکولر لبرل ہونے کی وجہ سے بائی ڈیفالٹ تمام اقلیتوں کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں ریاست اپنے تمام شہریوں کی ماں ہے۔ اور جیسے ماں اپنے کسی بچے کیساتھ تفرقہ و تعصب برداشت نہیں کر سکتی۔ یہی رشتہ ریاست کا اپنے تمام شہریوں کیساتھ ہونا چاہیے۔
 

آصف اثر

معطل
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مشرق میں مسلمانوں کو سائنس اور طبیعیات کے نام پر دین سے دور کرنے والے یہی قادیانی، احمدی فرقہ پرست (ظاہراً سیکولر) اور مغرب میں یہودیت کے پیروکارکبھی اپنے ”مذہب“ سے بیگانہ تک نہیں ہوتے۔ ملحد ہونا دور کی بات!
پرویز ہود بھائے صاحب کو اپنا ”احمدی“ مذہب اتنا یاد آجاتاہے کہ ”احمدی ہونے کی سزا دی جارہی ہے“ جیسے الفاظ بے ہوش وحواس نکل اُٹھتے ہیں۔
فعتبروا یااولی الالباب!
 

شاہد شاہ

محفلین
آپکو کئی قادیانیت سے ملحد ہونے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ ایک دو تو شاید محفل پر ہی موجود ہوں۔ قادیانیت میں مسلمانوں والا کٹر پن نہیں ہوتا۔ جسکو جانا ہے جائے جو چاہے دین اختیار کر لے یا دین مکمل چھوڑ دے۔ جبکہ مسلمانوں میں اسلام کو چھوڑنے کی سزا موت کے خوف سے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مشرق میں مسلمانوں کو سائنس اور طبیعیات کے نام پر دین سے دور کرنے والے یہی قادیانی، احمدی فرقہ پرست (ظاہراً سیکولر) اور مغرب میں یہودیت کے پیروکارکبھی اپنے ”مذہب“ سے بیگانہ تک نہیں ہوتے۔ ملحد ہونا دور کی بات!
 

فرقان احمد

محفلین
قادیانی 1953ء تک اقلیت قرار نہیں دیے گئے تھے۔ اس نتیجے تک پہنچتے پہنچتے مزید اکیس برس لگ گئے۔ پچاس کی دہائی کے اوائل میں علمائے کرام کا یہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو اعلیٰ سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے اور وزیرخارجہ ظفر اللہ خان کو عہدے سے ہٹایا جائے کیونکہ وہ قادیانیوں کے خفیہ مقاصد کے نگہبان بنے ہوئے ہیں۔ ان مطالبات کے لیے اس وقت کے علمائے کرام نے مختلف جواز پیش کیےجن سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، حکومت نے علمائے کرام کا الٹی میٹم رد کر دیا جس کے بعد فسادات کی صورت پیدا ہوئی۔ ہمارے خیال میں علمائے کرام کو صبر سے کام لینا چاہیے تھا۔ تاہم، اس وقت تک یہ مطالبہ غالباً عوام کے دل کی آواز بن چکا تھا۔ تحریک پرتشدد ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑ گیا۔ بہت خون بہا اور اس تحریک میں جان پڑ گئی۔ اب اس سے آپ خود نتیجہ اخذ کریں کہ کون حق پر تھا؟ ایک مکتبہء فکر کی رائے یہ رہی ہے کہ حکومت یہ جائز مطالبات تسلیم کر لیتی تو معاملہ اس حد تک نہ پھیلتا۔ مخالف مکتبہء فکر کی رائے اس کے برعکس رہی۔ ان مطالبات کو ریاست کی رِٹ چیلنج کرنے اور انتہاپسندی کے مترادف تصور کیا گیا۔ فی زمانہ جس طرح خادم حسین رضوی صاحب نے غلط زبان کا استعمال کیا، اس زمانے میں بھی بدقسمتی سے اسی طرح کی زبان برسرعام استعمال کی گئی تھی اور ریاستی اداروں کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ہم تو اب بھی یہ کہیں گے کہ مطالبہ جائز بھی ہو تب بھی آئین اور قانون کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ بہرصورت، ازاں بعد کمیشن بنا، یہ معاملات چلتے رہے۔ بالآخر پارلیمان نے طویل بحث مباحثے کے بعد انیس سو چوہتر میں احمدیوں، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور اس معاملے کو 'جمہوری انداز' میں حل کر دیا جس پر اس جماعت کے پیروکاروں کو کافی تکلیف ہے تاہم دیکھا جائے تو یہ بھی تو جمہور کی آواز تھی۔ یہ بات مانے بغیر چارہ نہیں کہ علمائے کرام اور عوام کے بڑے گروہ کا ایک بڑا مطالبہ یہی تھا کہ اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے، جسے تسلیم کر لیا گیا۔ اب اس پر واویلا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ قادیانیوں کو بطور اقلیت ہر طرح کے حقوق فراہم کرنا مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اس مراسلے سے اپنی اپنی مرضی کے نتیجے اخذ کرلیجیے تاہم یاد رکھیے، ہمارا مراسلہ زیادہ تر معروضی نوعیت کا ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
منصور الخازنی
اس کے پاکستانی ہونے کا کیا ثبوت ہے
اس کے مسلمان ہونے اور اسلام کی خدمات بھی بیان کی جائیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی بیان کیا جائے کہ اس نے کس کس دھرنے میں خادم رضوی جیسے بدتمیز آدمی (اگر آدمی کہا جائے)کا ساتھ دیا۔
نام تبدیل دو وجوہات پر ہوا ہے۔ ایک اسلام اور دوسرے پاکستانی۔ اس لئے منصور الخازنی کو بھی اسی بنیاد پر پرکھنا پڑے گا۔
میرے خیال میں قادیانی مسلمان نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ قادیانی پاکستانی ہیں۔ جیسے الف نظامی اور میں ہیں۔
 

زیک

مسافر
پچاس کی دہائی کے اوائل میں علمائے کرام کا یہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو اعلیٰ سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے اور وزیرخارجہ ظفر اللہ خان کو عہدے سے ہٹایا جائے کیونکہ وہ قادیانیوں کے خفیہ مقاصد کے نگہبان بنے ہوئے ہیں۔ ان مطالبات کے لیے اس وقت کے علمائے کرام نے مختلف جواز پیش کیےجن سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
اس مطالبے سے اختلاف ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ریاست سے ہے۔ یہ مطالبہ احمدیوں کو مسلم یا غیرمسلم ماننے سے کافی مختلف ہے۔
 

زیک

مسافر
منصور الخازنی
اس کے پاکستانی ہونے کا کیا ثبوت ہے
اس کے مسلمان ہونے اور اسلام کی خدمات بھی بیان کی جائیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی بیان کیا جائے کہ اس نے کس کس دھرنے میں خادم رضوی جیسے بدتمیز آدمی (اگر آدمی کہا جائے)کا ساتھ دیا۔
نام تبدیل دو وجوہات پر ہوا ہے۔ ایک اسلام اور دوسرے پاکستانی۔ اس لئے منصور الخازنی کو بھی اسی بنیاد پر پرکھنا پڑے گا۔
میرے خیال میں قادیانی مسلمان نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ قادیانی پاکستانی ہیں۔ جیسے الف نظامی اور میں ہیں۔
فلکیات کے فیلڈ میں زبردست انسان تھا۔
 

آصف اثر

معطل
آپکو کئی قادیانیت سے ملحد ہونے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ ایک دو تو شاید محفل پر ہی موجود ہوں۔ قادیانیت میں مسلمانوں والا کٹر پن نہیں ہوتا۔ جسکو جانا ہے جائے جو چاہے دین اختیار کر لے یا دین مکمل چھوڑ دے۔ جبکہ مسلمانوں میں اسلام کو چھوڑنے کی سزا موت کے خوف سے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا
قادیانیوں اور اسلام سے مرتد ہونے والے مسلمانوں میں ایک بہت واضح فرق ہے۔ قادیانی ملحد، اپنا مذہب چھوڑنے کے بعد قادیانیوں کے لیے وہی ہمدردی رکھتا ہے جو قادنیت کے وقت ہوتاہے۔ اسی نرم گوشے کی وجہ سے وہ قادیانیوں کو الحاد پر مائل کرنے میں کبھی اسی طرح دلچسپی نہیں لیتا جو مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے میں لیتاہے۔ جب کہ اسلام سے مرتد ہونے والے کے دِل میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جب کہ قادیانیوں کے برخلاف اس کا باقی ماندہ وقت انہیں کوششوں میں گزرتا ہے کہ مسلمانوں کو ارتداد اور الحاد کی جانب کیسے مائل کیا جائے۔ جائزہ لینے اور غورکرنے کے بعد آگاہ کیجیے۔
 

آصف اثر

معطل
قدیر صاحب نے قوم کو آغا وقار کا تحفہ بھی تو دیا تھا۔
یاز ایک ماہر طبیعات سے اس قسم کی توقع نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے جس دن انہوں نے آغا وقار کی گاڑی کو سائنسی قرار دیا اس دن انکی طبیعت خراب ہو
آغا وقار کو صرف رواں ”انڈسٹریز“ میں جس سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا، نقب لگانے پر دگرگوں کیا گیا ورنہ اس کے کام سے فائدہ لیا جاسکتاتھا۔ یورپی سوسائٹیوں میں ضم ہونے والے ”پاکستانی“ پروفیسرز کیوں کر اس طرح کے اقدام کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ مجھے اعلیٰ اذہان کے اس طرح کے ”دیسی“ رویے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ اے آر وائی پر اس حوالے سے آخری پروگرام اقرارالحسن نے اسی فیلڈ میں سرگرم ماہر کے سامنے آغا وقار سے عملی مظاہرہ کیا تھا جس پر وہ کافی متاثر ہوا، اور اسے اتنے ہائی پرسنٹیج پر مبارک باد بھی دی تھی۔ آغا قار نے ابتدا میں کاروباری راز سمجھ کر پورے عمل کو چھپانے کی کوشش کی جس پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یورپی سوسائٹیوں کے ملکی ماہرین ناراض ہوگئے۔

کسی سائنسدان کی عظمت کا تعلق اسکی قابلیت سے ہے، اسکے دین یا مذہب سے نہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کی قابلیت ڈاکٹر قدیر سے کہیں زیادہ تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں نام ہے۔ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ یہی قابل اور مذہبی سائنسدان کا فرق ہے
ڈاکٹر عبدالقدیر نے کروڑوں لوگوں کو بچا کر جو ”گناہِ کبیرہ“ کیا تھا، وہ واقعی عبدالسلام کے ”انسانیت دوست“ تھیوری کا مقابل نہیں ہوسکتاتھا۔ جب کہ وہ کٹر مسلمان بھی تھا بیچارہ۔ جسے مظلومیت کی شکار اقلیت ”قادیانی“ جنرل پرویز مشرف نے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی۔

فرق پڑتا ہے۔ یہ ادارہ فوج کی نگرانی میں کام کر رہا ہے جس کے سربراہ قمر باجوہ ہیں۔ ان کے بارہ میں مشہور ہے کہ یہ خود یا انکا خاندان قادیانی ہے۔ اسلیے ان سے پنگا لینے کیلئے یہ ڈرامہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر عبدالسلام نام کی منظوری خود نا اہل پانامہ شریف نے دو سال قبل اپنے مبارک ہاتھوں سے دی تھی
اسلام پسندوں کو خوش کرنے کیلئے قادیانیوں کی قربانی دینا بہت معمولی سی بات ہی۔ بھارت میں یہی کام مسلمان اقلیتوں کیساتھ ہوتا۔ ادھر پاکستان میں قادیانی اقلیت کیساتھ۔ لیکن دعوی ہے کہ پاکستان بھارت سے بہتر ہے
اب صبر کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ان متعصبانہ قومی رویوں کی وجہ سے زیادہ تر قادیانی ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

منافقت کی اس سے زیادہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہی ”اقلیتی“ طبقہ پاکستان میں ہر سرکاری ڈیپارٹ میں گھس بیٹھیا بن کر اسلام کا لبادہ اوڑھے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ فوج کا ہر دوسرا تیسرا جنرل قادیانی یا قادیانیوں کا داماد نکلتا ہے۔ مشرف کے بعد یہ شرح اور بھی بڑھے گی۔ پھر بھی میڈیا کے ذریعے (یہ بھی اِن سے بھرا پڑا ہے) واویلا مچائے رکھا ہوا ہے۔

یہ سارا معاملہ ۱۹۵۳ میں شروع ہوا تھا، جب پاکستان کی پہلی وزارت خارجہ کی پوسٹ پہ میرٹ پر بھرتی ایک قادیانی ظفراللہ خان کو غیر جمہوری انداز سے ہٹانے کی علما کرام نے دنگا فساد کیا تھا۔ اگر اسوقت اس منافقانہ اور غیر جمہوری طرز عمل پر عوام کھڑی ہوتی آج ہم اس قسم کے واقعات پر طویل بحث و مباحثہ نہ کر رہے ہوتے۔
اب محمد تابش صدیقی بھائی کہیں گے یہاں پھر ۱۹۵۳ کو فٹ کر دیا۔ مگر بات تو درست ہے کہ قادیانیوں کیخلاف تعصب کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
آستین کے سانپ کو کون پالتاہے؟
ہم تو بس اتنا ہی کہیں گے کہ ہماری بدبختیوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ نفرت کی آگ ہمیں جلا کر رہے گی۔
قادیانیوں/احمدیوں کے لیے سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ اپنے مذہب کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں میں گھسنے کے لیے بے تاب ہے۔

انڈین اور پاکستانی مکمل طور پر ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
یہ تھیلی امریکیوں کے یورپی آباؤ اجداد کی بنائی اور درآمد شدہ تھی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتاہے۔
 

آصف اثر

معطل
دراصل پرویز ہودبھائے مردے میں جان ڈالنے کے چکر میں ہے اور یہ ممکن نہیں۔ یہ گلاسڑا نظریہ اب متروک ہے لیکن ملحدین کے لیے لالی پاپ کا کام خوب دے رہاہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اور ہونا بھی چاہیے۔ جس طرح دیگر فرقوں کے مولوی لیڈران نے ان کو تباہ کیا وہی معاملہ قادیانی مولویوں نے اپنے فرقے کیساتھ کیا۔
اوّل تو ۱۹۱۴ میں لیڈر شپ کے معاملہ پر پھوٹ پڑوا کر مزید دو فرقوں لاہوری اور قادیانیوں میں بٹ گئے۔ پھر ۱۹۵۳ کے فسادات کے دوران اپنے فرقہ کی صحیح ترجمانی نہیں کی۔ جسکی وجہ سے قادیانی املاک کا نقصان کرنے والوں کو کوئی سزائیں نہیں ہوئیں۔ اسکے بعد ۱۹۷۴ کے فسادات کے دوران اپنے فرقے کے مسائل پارلیمان میں لے گئے۔
اگر قادیانیوں کے پاس کوئی قابل لیڈرشپ ہوتی تو وہ اپنے حقوق کیلئے اوّل دن ہی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ کیونکہ آئین پاکستان ہر دین و مذہب کو مکمل آزادی کیساتھ پار بند رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ جسے حکومت کے ذریعہ لاگو کروانا عظمی کا کام ہے۔
مگر قادیانیوں کی مولویانہ لیڈرشپ کو اپنی حقانیت پر اتنا تکبر تھا کہ وہ ۱۹۷۴ میں بڑے دھڑلے سے اینٹی قادیانی علما کے سامنے کئی روز تک پیش ہوتی رہی۔ جسکا نتیجہ پہلے ہی طے شدہ تھا کہ انکو کافر قرار دیکر قربانی کا بکرا بناؤ اور انکا نام استعمال کرکے مذہبی سیاست کا بازار گرم رکھو۔ اور آج تک وہی ہو رہا ہے۔ کبھی احراری، کبھی جماعتی کبھی دیوبندی تو کبھی بریلوی، جس نے سیاست چمکانی ہوتی ہے وہ قادیانیوں کا نام لیکر سڑک پر آجاتا ہے۔ اور پھر وہی دنگا فساد کا چکر چلتا رہتا ہے۔
جس پر اس جماعت کے پیروکاروں کو کافی تکلیف ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
منافقت کی اس سے زیادہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہی ”اقلیتی“ طبقہ پاکستان میں ہر سرکاری ڈیپارٹ میں گھس بیٹھیا بن کر اسلام کا لبادہ اوڑھے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ فوج کا ہر دوسرا تیسرا جنرل قادیانی یا قادیانیوں کا داماد نکلتا ہے۔ مشرف کے بعد یہ شرح اور بھی بڑھے گی۔ پھر بھی میڈیا کے ذریعے (یہ بھی اِن سے بھرا پڑا ہے) واویلا مچائے رکھا ہوا ہے۔
۔
گھس بیٹھیا سے کیا مراد ہے؟ کیا قادیانی پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ آپ لوگوں نے اینٹی قادیانی تحریک اس بنیاد پر شروع کی تھی کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ جسے خود بانی پاکستان نے اس پوسٹ پر لگایا تھا کو قادیانی ہونے کی بنیاد پر ہٹاؤ۔ جب اس غیر جمہوری اور آئینی مطالبہ پر دال نہیں گلی تو تمام قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کیلئے تحریک کا رخ موڑ دیا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جب تمام قادیانی غیر مسلم ہو جائیں گے تو انکو ملک دشمن قرار دیکر بڑی آسامیوں پر سے انکو ہٹانا زیادہ آسان ہوگا۔
مگر اللہ کی کرنی بازی پلٹ گئی۔ جہاں پہلے بڑی پوسٹس پر قادیانی اپنے مذہب کیساتھ براجمان تھے، ۱۹۷۴ کی آئینی ترمیم کے بعد انہوں نے اپنی کرسی بچانے کیلئے مذہب کے خانے میں قادیانی ہٹا کر مسلمان لکھنا شروع کر دیا۔ یوں آپکی برادری کیلئے ان قادیانیوں کو نشانہ بنانا مزید مشکل ہوگیا۔ آج بھی پاکستان کے ہر ادارے میں بڑی پوسٹس پر جابجا قادیانی موجود ہیں۔ کیونکہ ان میں وہ قابلیت ہے جو سرکاری مسلمانوں میں نہیں۔ اسلئے آپکے اس غم میں میں برابر کا شریک ہوں۔
 
Top