قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے بجائے منصور الخازنی رکھنے کی منظوری

شاہد شاہ

محفلین
آپکا اندازہ بالکل ہی غلط ہے۔ الحاد کوئی الگ دین یا مذہب نہیں جس کی طرف باقاعدہ دوسروں کو مائل کرنے کی ضرورت پڑے۔ الحاد اصل میں کسی چیز کے نہ ہونے کا نام ہے۔ جیسے جہاں حرارت نہ ہو وہاں اپنے آپ سردی ہوتی ہے۔ جہاں روشنی نہ ہو وہاں اپنے آپ اندھیرا ہوتا ہے۔ الغرض الحاد خدا کی غیر موجودگی کا تصور ہے جو کسی بھی دین و مذہب کے پیروکار میں از خود آتا ہے۔ جسکے بعد وہ خود اس سے بیزار ہو کر خود کو الگ کر لیتا ہے۔ اسکے لئے اسے کسی کی تبلیغ کی ضرورت نہیں ہوتی
قادیانیوں اور اسلام سے مرتد ہونے والے مسلمانوں میں ایک بہت واضح فرق ہے۔ قادیانی ملحد، اپنا مذہب چھوڑنے کے بعد قادیانیوں کے لیے وہی ہمدردی رکھتا ہے جو قادنیت کے وقت ہوتاہے۔ اسی نرم گوشے کی وجہ سے وہ قادیانیوں کو الحاد پر مائل کرنے میں کبھی اسی طرح دلچسپی نہیں لیتا جو مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے میں لیتاہے۔ جب کہ اسلام سے مرتد ہونے والے کے دِل میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جب کہ قادیانیوں کے برخلاف اس کا باقی ماندہ وقت انہیں کوششوں میں گزرتا ہے کہ مسلمانوں کو ارتداد اور الحاد کی جانب کیسے مائل کیا جائے۔ جائزہ لینے اور غورکرنے کے بعد آگاہ کیجیے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
کونسی نئی آئیڈی؟ اس آئیڈی میں کیا مسئلہ ہے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ محفل کی انتظامیہ نے حدود آرڈیننس کی طرح میری آئیڈی کے نقصانات کو کافی حد تک روکنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے نئی لڑائیاں نہیں کھول سکتا۔ بہت سے رواں دھاگوں پر کمنٹ نہیں کر سکتا وغیرہ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انتظامیہ میرا کھاتہ مکمل ختم کرنے کے حق میں ہے۔ حالانکہ میں اسکی کئی بار درخواست بھی کر چکا ہوں۔
عبید انصاری
 

آصف اثر

معطل
گھس بیٹھیا سے کیا مراد ہے؟ کیا قادیانی پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ آپ لوگوں نے اینٹی قادیانی تحریک اس بنیاد پر شروع کی تھی کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ جسے خود بانی پاکستان نے اس پوسٹ پر لگایا تھا کو قادیانی ہونے کی بنیاد پر ہٹاؤ۔ جب اس غیر جمہوری اور آئینی مطالبہ پر دال نہیں گلی تو تمام قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کیلئے تحریک کا رخ موڑ دیا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جب تمام قادیانی غیر مسلم ہو جائیں گے تو انکو ملک دشمن قرار دیکر بڑی آسامیوں پر سے انکو ہٹانا زیادہ آسان ہوگا۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں ایک مسلمان اور قادیانی کے انتخاب کا آپشن ہوتاہے تو پہلے سے موجود قادیانی آفیسر کم اہلی کے باوجود قادیانی کو سپورٹ کرتاہے۔ اس سے زیادہ میرٹ کی تباہی کیا ہوگی۔ اور اسی تباہی نے ملک کو انتشار کا شکار کیے رکھا ہے۔ ایک کو دس ہزار پر مسلط کرنے کا یہی تو انجام ہوتاہے۔

مگر اللہ کی کرنی بازی پلٹ گئی۔ جہاں پہلے بڑی پوسٹس پر قادیانی اپنے مذہب کیساتھ براجمان تھے، ۱۹۷۴ کی آئینی ترمیم کے بعد انہوں نے اپنی کرسی بچانے کیلئے مذہب کے خانے میں قادیانی ہٹا کر مسلمان لکھنا شروع کر دیا۔ یوں آپکی برادری کیلئے ان قادیانیوں کو نشانہ بنانا مزید مشکل ہوگیا۔ آج بھی پاکستان کے ہر ادارے میں بڑی پوسٹس پر جابجا قادیانی موجود ہیں۔ کیونکہ ان میں وہ قابلیت ہے جو سرکاری مسلمانوں میں نہیں۔ اسلئے آپکے اس غم میں میں برابر کا شریک ہوں۔
شکر ہے آپ نے خود اعتراف کرلیا۔ یہی میں سمجھانا چاہ رہاتھا۔ اب آپ خود سوچیے یہ کتنا ”مظلوم“ اور ”بے بس“ طبقہ ہے!
 

آصف اثر

معطل
آپکا اندازہ بالکل ہی غلط ہے۔ الحاد کوئی الگ دین یا مذہب نہیں جس کی طرف باقاعدہ دوسروں کو مائل کرنے کی ضرورت پڑے۔ الحاد اصل میں کسی چیز کے نہ ہونے کا نام ہے۔ جیسے جہاں حرارت نہ ہو وہاں اپنے آپ سردی ہوتی ہے۔ جہاں روشنی نہ ہو وہاں اپنے آپ اندھیرا ہوتا ہے۔ الغرض الحاد خدا کی غیر موجودگی کا تصور ہے جو کسی بھی دین و مذہب کے پیروکار میں از خود آتا ہے۔ جسکے بعد وہ خود اس سے بیزار ہو کر خود کو الگ کر لیتا ہے۔ اسکے لئے اسے کسی کی تبلیغ کی ضرورت نہیں ہوتی
الحاد ایک مذہب ہے۔ آپ موازنہ کرلیجیے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں ایک مسلمان اور قادیانی کے انتخاب کا آپشن ہوتاہے تو پہلے سے موجود قادیانی آفیسر کم اہلی کے باوجود قادیانی کو سپورٹ کرتاہے۔ اس سے زیادہ میرٹ کی تباہی کیا ہوگی۔ اور اسی تباہی نے ملک کو انتشار کا شکار کیے رکھا ہے۔ ایک کو دس ہزار پر مسلط کرنے کا یہی تو انجام ہوتاہے۔
میرٹ کی تباہی کی بات کم از کم آپ تو نہ کریں۔ آپ ہی کی برادری نے میرٹ پر بھرتی قادیانی ظفر اللہ خان اور عبد السلام وغیرہ کو برطرف کرنے کیلیے تحریکیں چلائی تھی۔
 

فرقان احمد

محفلین
مگر قادیانیوں کی مولویانہ لیڈرشپ کو اپنی حقانیت پر اتنا تکبر تھا کہ وہ ۱۹۷۴ میں بڑے دھڑلے سے اینٹی قادیانی علما کے سامنے کئی روز تک پیش ہوتی رہی۔ جسکا نتیجہ پہلے ہی طے شدہ تھا کہ انکو کافر قرار دیکر قربانی کا بکرا بناؤ اور انکا نام استعمال کرکے مذہبی سیاست کا بازار گرم رکھو۔ اور آج تک وہی ہو رہا ہے۔ کبھی احراری، کبھی جماعتی کبھی دیوبندی تو کبھی بریلوی، جس نے سیاست چمکانی ہوتی ہے وہ قادیانیوں کا نام لیکر سڑک پر آجاتا ہے۔ اور پھر وہی دنگا فساد کا چکر چلتا رہتا ہے۔
جسٹس منیر کمیشن نے 1954ء میں اپنی رپورٹ شائع کی تھی اور اس رپورٹ کو مرتب کرتے ہوئے ہر فریق کا موقف نہایت تفصیل سے سنا گیا تھا۔ اس تفصیلی رپورٹ میں قادیانیوں اور احمدیوں کے عقائد کو بھی زیربحث لایا گیا تھا۔ اس بات میں کافی حد تک صداقت معلو م ہوتی ہے کہ قادیانیوں کے مخالف گروہوں خاص طور پر احراریوں نے انیس سو پچاس کی دہائی کے اوائل میں پرتشدد طریقہ اختیار کیا اور بسا اوقات قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے ضروری کاوشیں کروانے کی بجائے عجلت سے کام لیا یوں کئی بار تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی اور حکومت کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اس معاملے سے کیسے نپٹے۔ ریاست نے بہرصورت اس وقت زیادہ تر قادیانیوں اور احمدیوں کا ہی ساتھ دیا جس کی وجہ ان کے عقائد نہیں تھے بلکہ احراریوں اور دیگر مذہبی گروہوں کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش تھی۔ بات سیدھی سی ہے کہ جمہورر علماء یہ چاہتے تھے کہ قادیانیوں کو فی الفور غیر مسلم قرار دیا جائے۔ 1951ء میں جب راولپنڈی سازش کیس میں بھی ایک قادیانی جرنیل کا نام سامنے آنے کا انکشاف ہوا تو معاملات زیادہ سنگین ہو گئے۔ ظفر اللہ خان، وزیرخارجہ تھے اور قادیانی گروہ سے متعلق تھے، ان پر بہت الزامات لگائے جا رہے تھے کہ وہ پاکستان توڑنے کی سازش میں ملوث ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بہرصورت، 1953ء میں صورت حال بہت بگڑ گئی اور لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑ گیا۔ قصہ مختصر، 1954ء کی جسٹس منیر کمیشن رپورٹ کے بعد بھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہ پڑا یہاں تک کہ ستر کی دہائی کے وسط میں یہ معاملہ پارلیمان کے ذریعے حل ہوا۔ جب جمہور علمائے کرام قادیانیوں کے عقائد کو غیر اسلامی قرار دے چکے تھے تو پارلیمان اورکیا کر سکتی تھی۔ جمہورعلمائے کرام اور جمہور کے نمائندگان نے اس مسئلے کا حل نکال دیا۔ اب چاہے آپ دیگر کو سرکاری مسلمان قرار دیتے رہیں، تاہم، یہ بات مدنظر رہے کہ احراریوں یا موجودہ و ماضی کے دور کے سخت گیرمذہبی گروہوں کے طریقہء کار سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قادیانیوں کے جملہ عقائد کو درست تسلیم کر لیا جائے یا انہیں ہر لحاظ سے مظلوم تصور کر لیا جائے۔ اب جب کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا جا چکا ہے تو ہم حکومت سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ایک اقلیت کے طور پر ان کو ہر طرح کے جائز حقوق فراہم کیے جائیں۔ اس معاملے میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
 

شاہد شاہ

محفلین
یہاں تک کہ ستر کی دہائی کے وسط میں یہ معاملہ پارلیمان کے ذریعے حل ہوا۔
یہیں سے میرا آپ کے ساتھ بنیادی اختلاف ہے۔ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ۱۹۷۴ کے آئین میں ترامیم کرکے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیکر معاملہ ختم ہو گیا۔ یوں انکو ریاست کی طرف سے اقلیتوں والے تمام حقوق ملنے چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہوا؟ اس آئینی ترامیم کے محض ۱۰ سال بعد ضیا حکومت نے آرڈیننس ۲۰ پاس کیا جس میں قادیانیوں سے انکی مذہبی آزادی چھین لی گئی۔ اب وہ السلام علیکم نہیں کہہ سکتے، آذان نہیں دے سکتے، نماز نہیں پڑھ سکتے کہ ایسا کرنا قانون کی خلاف ورزی اور قابل جرم ہو گیا۔ دنیا کا اور کونسا جمہوری ملک ہے جہاں کسی ایک خاص مذہبی طبقے کیساتھ ایسا امتیازی سلوک قانون کی طاقت سے رواں رکھا جاتا ہے؟
اس قانون کے بعد قادیانیوں کو جیل میں بھرنا مولویوں کیلیے بہت آسان ہو گیا۔ جس کے خلاف دل کرتا اس پر اسلامی شعائر کے استعمال کا الزام لگا کر جیل میں ڈلوا دیتے اور وہ بیچارہ ساری عمر مقدمات بھگتتا رہتا۔ اسی قانون کی برکت سے قادیانیوں کے لیڈر کو ملک بدر ہونا پڑا جسکے بعد انکی جماعت دنیا کے ۲۰۰ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ آپ کسی بھی قادیانی سے پوچھ لیں وہ اپنی جماعت کی ترقی کا ذمہ دار ان مدرسے کے مولویوں اور ان کے پیچھے چلنے والے حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں۔
پاکستان میں قادیانیوں کی زندگی تلخ بنا کر انہیں پوری دنیا میں پھلنے پھولنے پر مجبور کرنے پر مولوی برادری اور سیاست دان برابر مبارک باد کے مستحق ہیں
 

فرقان احمد

محفلین
جسٹس منیر کمیشن نے 1954ء میں اپنی رپورٹ شائع کی تھی اور اس رپورٹ کو مرتب کرتے ہوئے ہر فریق کا موقف نہایت تفصیل سے سنا گیا تھا۔ اس تفصیلی رپورٹ میں قادیانیوں اور احمدیوں کے عقائد کو بھی زیربحث لایا گیا تھا۔ اس بات میں کافی حد تک صداقت معلو م ہوتی ہے کہ قادیانیوں کے مخالف گروہوں خاص طور پر احراریوں نے انیس سو پچاس کی دہائی کے اوائل میں پرتشدد طریقہ اختیار کیا اور بسا اوقات قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے ضروری کاوشیں کروانے کی بجائے عجلت سے کام لیا یوں کئی بار تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی اور حکومت کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اس معاملے سے کیسے نپٹے۔ ریاست نے بہرصورت اس وقت زیادہ تر قادیانیوں اور احمدیوں کا ہی ساتھ دیا جس کی وجہ ان کے عقائد نہیں تھے بلکہ احراریوں اور دیگر مذہبی گروہوں کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش تھی۔ بات سیدھی سی ہے کہ جمہورر علماء یہ چاہتے تھے کہ قادیانیوں کو فی الفور غیر مسلم قرار دیا جائے۔ 1951ء میں جب راولپنڈی سازش کیس میں بھی ایک قادیانی جرنیل کا نام سامنے آنے کا انکشاف ہوا تو معاملات زیادہ سنگین ہو گئے۔ ظفر اللہ خان، وزیرخارجہ تھے اور قادیانی گروہ سے متعلق تھے، ان پر بہت الزامات لگائے جا رہے تھے کہ وہ پاکستان توڑنے کی سازش میں ملوث ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بہرصورت، 1953ء میں صورت حال بہت بگڑ گئی اور لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑ گیا۔ قصہ مختصر، 1954ء کی جسٹس منیر کمیشن رپورٹ کے بعد بھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہ پڑا یہاں تک کہ ستر کی دہائی کے وسط میں یہ معاملہ پارلیمان کے ذریعے حل ہوا۔ جب جمہور علمائے کرام قادیانیوں کے عقائد کو غیر اسلامی قرار دے چکے تھے تو پارلیمان اورکیا کر سکتی تھی۔ جمہورعلمائے کرام اور جمہور کے نمائندگان نے اس مسئلے کا حل نکال دیا۔ اب چاہے آپ دیگر کو سرکاری مسلمان قرار دیتے رہیں، تاہم، یہ بات مدنظر رہے کہ احراریوں یا موجودہ و ماضی کے دور کے سخت گیرمذہبی گروہوں کے طریقہء کار سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قادیانیوں کے جملہ عقائد کو درست تسلیم کر لیا جائے یا انہیں ہر لحاظ سے مظلوم تصور کر لیا جائے۔ اب جب کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا جا چکا ہے تو ہم حکومت سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ایک اقلیت کے طور پر ان کو ہر طرح کے جائز حقوق فراہم کیے جائیں۔ اس معاملے میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

یہیں سے میرا آپ کے ساتھ بنیادی اختلاف ہے۔ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ۱۹۷۴ کے آئین میں ترامیم کرکے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیکر معاملہ ختم ہو گیا۔ یوں انکو ریاست کی طرف سے اقلیتوں والے تمام حقوق ملنے چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہوا؟ اس آئینی ترامیم کے محض ۱۰ سال بعد ضیا حکومت نے آرڈیننس ۲۰ پاس کیا جس میں قادیانیوں سے انکی مذہبی آزادی چھین لی گئی۔ اب وہ السلام علیکم نہیں کہہ سکتے، آذان نہیں دے سکتے، نماز نہیں پڑھ سکتے کہ ایسا کرنا قانون کی خلاف ورزی اور قابل جرم ہو گیا۔ دنیا کا اور کونسا جمہوری ملک ہے جہاں کسی ایک خاص مذہبی طبقے کیساتھ ایسا امتیازی سلوک قانون کی طاقت سے رواں رکھا جاتا ہے؟
اس قانون کے بعد قادیانیوں کو جیل میں بھرنا مولویوں کیلیے بہت آسان ہو گیا۔ جس کے خلاف دل کرتا اس پر اسلامی شعائر کے استعمال کا الزام لگا کر جیل میں ڈلوا دیتے اور وہ بیچارہ ساری عمر مقدمات بھگتتا رہتا۔ اسی قانون کی برکت سے قادیانیوں کے لیڈر کو ملک بدر ہونا پڑا جسکے بعد انکی جماعت دنیا کے ۲۰۰ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ آپ کسی بھی قادیانی سے پوچھ لیں وہ اپنی جماعت کی ترقی کا ذمہ دار ان مدرسے کے مولویوں اور ان کے پیچھے چلنے والے حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں۔
پاکستان میں قادیانیوں کی زندگی تلخ بنا کر انہیں پوری دنیا میں پھلنے پھولنے پر مجبور کرنے پر مولوی برادری اور سیاست دان برابر مبارک باد کے مستحق ہیں
ہمارا موقف ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت کے طور پر ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ تاہم، ان کا معاملہ اس حوالے سے اک ذرا مختلف ہے کہ ان کے بنیادی عقائد (جن کی بنیاد پر انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا) سے ہٹ کر ان کے دیگر شعائر اور مذہبی رسوم و رواج عام مسلمانوں سے مماثل ہیں جس کے باعث مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں جنہیں انتظامی بنیادوں پر حل کیاجاتاہے۔ اگر کسی فعل سے عوام کی بڑی اکثریت اشتعال میں آ جاتی ہو تو آپ کے خیال میں اس کی اجازت دینا مناسب ہے! ہمارے خیال میں پارلیمان کے اندر عوام کے منتخب کردہ نمائندگان نے یہ معاملہ نپٹا دیا ہے وگرنہ یہ فسادات اب تک جاری ہوتے۔ یوں بھی آپ اس بات پر مسرور ہیں کہ قادیانیوں نے بہت 'ترقی' کر لی تو اس پر خوش ہو جائیں۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟
 

یاز

محفلین
ہماری ایک عرض تو یہ ہے کہ ریاست کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ شہریوں کے مذاہب کا تعین کرنا شروع کر دے، چہ جائیکہ ان سے مذہب کی بنیاد پہ تفریقی یا ترجیحی سلوک بھی کرے۔

ریاست کا کام شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینا ہے جس میں صحت، تعلیم، امن و امان، انفراسٹرکچر وغیرہ مہیا کرنا ہے۔
لیکن قرارداد مقاصد سے یہ ثابت کیا گیا کہ ریاست کوئی اور کام کرے یا نہ کرے، مذہب کو ہر چیز میں داخل ضرور کرنا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
ان کے دیگر شعائر اور مذہبی رسوم و رواج عام مسلمانوں سے مماثل ہیں جس کے باعث مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں جنہیں انتظامی بنیادوں پر حل کیاجاتاہے۔ اگر کسی فعل سے عوام کی بڑی اکثریت اشتعال میں آ جاتی ہو تو آپ کے خیال میں اس کی اجازت دینا مناسب ہے!؟
اس معاملے میں اس زمانہ کے قادیانی لیڈر نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ۱۹۷۴ میں ہمیں کہا گیا کہ تم کتے ہیں، ہم نے جیسے تیسے مان لیا، پھر ۱۹۸۴ میں کہا گیا اب تم بھونکو بھی، تو اب ایسا تو ممکن نہیں ہے۔
میرے خیال میں آپ یہاں دو متضاد باتیں کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان ہر مذہب کو آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ بیشک آئین میں وہ غیر مسلم قرار دئے گئے ہیں اسکے باوجود وہ آزادی کیساتھ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں۔
اگر قادیانی اسلامی شعائر کی توہین کریں، انکا مذاق وغیرہ اڑائیں تو اسپر قانونی چارہ جوئی بنتی ہے۔ صرف اس بات پر کہ وہ اسلامی شعائر کا استعمال کر رہے ہیں جو انکی مذہبی امور کا اوّل دن سے حصہ ہیں، قانونی پابندیاں لگانا شدت پسندی کی علامات ہیں۔
اگر کوئی قادیانی سلام کر رہا ہے، آذان دے رہا ہے، نماز پڑھ رہا ہے تو اس بنیاد پر دیگر مسلمانوں کی اشتعال انگیزی کا کیا جواز ہے؟ یہ انکا مذہب ہے وہ جو چاہے کریں۔ باقیوں کو اسمیں ٹانگ اڑانے کا اختیار کس نے دیا؟
 

سید ذیشان

محفلین
ہمارا موقف ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت کے طور پر ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ تاہم، ان کا معاملہ اس حوالے سے اک ذرا مختلف ہے کہ ان کے بنیادی عقائد (جن کی بنیاد پر انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا) سے ہٹ کر ان کے دیگر شعائر اور مذہبی رسوم و رواج عام مسلمانوں سے مماثل ہیں جس کے باعث مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں جنہیں انتظامی بنیادوں پر حل کیاجاتاہے۔ اگر کسی فعل سے عوام کی بڑی اکثریت اشتعال میں آ جاتی ہو تو آپ کے خیال میں اس کی اجازت دینا مناسب ہے! ہمارے خیال میں پارلیمان کے اندر عوام کے منتخب کردہ نمائندگان نے یہ معاملہ نپٹا دیا ہے وگرنہ یہ فسادات اب تک جاری ہوتے۔ یوں بھی آپ اس بات پر مسرور ہیں کہ قادیانیوں نے بہت 'ترقی' کر لی تو اس پر خوش ہو جائیں۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟

عوام تو ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آ جاتی ہے۔ تو پھر ہر چیز پر پابندی لگا دی جائے؟ درست طریقہ یہ ہے کہ تعلیم عام کی جائے تاکہ لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا ہو۔
 

شاہد شاہ

محفلین
تعلیم عام کرنے سے تعلیم کی قسم زیادہ اہم ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات مذہبی تعلیم عام کر دینے کی وجہ سے اس نہج کو پہنچے ہیں۔ کیونکہ قادیانیوں کیساتھ امتیازی سلوک کرنے کی تحریک سب سے پہلے مدرسے سے تعلیم یافتہ افراد نے ہی شروع کی تھی۔ جسے عوام کی بھیڑ چال نے قومی ایشو بنا دیا۔ وگرنہ عام ان پڑھ لوگوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ والے کا مذہب کیا ہے۔
عوام تو ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آ جاتی ہے۔ تو پھر ہر چیز پر پابندی لگا دی جائے؟ درست طریقہ یہ ہے کہ تعلیم عام کی جائے تاکہ لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا ہو۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس معاملے میں اس زمانہ کے قادیانی لیڈر نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ۱۹۷۴ میں ہمیں کہا گیا کہ تم کتے ہیں، ہم نے جیسے تیسے مان لیا، پھر ۱۹۸۴ میں کہا گیا اب تم بھونکو بھی، تو اب ایسا تو ممکن نہیں ہے۔
میرے خیال میں آپ یہاں دو متضاد باتیں کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان ہر مذہب کو آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ بیشک آئین میں وہ غیر مسلم قرار دئے گئے ہیں اسکے باوجود وہ آزادی کیساتھ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں۔
اگر قادیانی اسلامی شعائر کی توہین کریں، انکا مذاق وغیرہ اڑائیں تو اسپر قانونی چارہ جوئی بنتی ہے۔ صرف اس بات پر کہ وہ اسلامی شعائر کا استعمال کر رہے ہیں جو انکی مذہبی امور کا اوّل دن سے حصہ ہیں، قانونی پابندیاں لگانا شدت پسندی کی علامات ہیں۔
اگر کوئی قادیانی سلام کر رہا ہے، آذان دے رہا ہے، نماز پڑھ رہا ہے تو اس بنیاد پر دیگر مسلمانوں کی اشتعال انگیزی کا کیا جواز ہے؟ یہ انکا مذہب ہے وہ جو چاہے کریں۔ باقیوں کو اسمیں ٹانگ اڑانے کا اختیار کس نے دیا؟

عوام تو ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آ جاتی ہے۔ تو پھر ہر چیز پر پابندی لگا دی جائے؟ درست طریقہ یہ ہے کہ تعلیم عام کی جائے تاکہ لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا ہو۔

تعلیم عام کرنے سے تعلیم کی قسم زیادہ اہم ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملات مذہبی تعلیم عام کر دینے کی وجہ سے اس نہج کو پہنچے ہیں۔ کیونکہ قادیانیوں کیساتھ امتیازی سلوک کرنے کی تحریک سب سے پہلے مدرسے سے تعلیم یافتہ افراد نے ہی شروع کی تھی۔ جسے عوام کی بھیڑ چال نے قومی ایشو بنا دیا۔ وگرنہ عام ان پڑھ لوگوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ والے کا مذہب کیا ہے۔

یہ بحث اب طرف جا رہی ہے کہ جس سے قبل یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ آیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہے، یا یہ کبھی سیکولر ریاست رہی ہے یا آئندہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ ریاست سیکولرازم کو اپنا لے گی۔ہمارے خیال میں اس حوالے سے ہماری قوم (کچھ دیر کے لیے ہم اِسے قوم تسلیم کر لیتے ہیں)کی رائے منقسم رہی ہے تاہم مجموعی حوالے سے ہماری سوچ پر مذہبیت کا رنگ غالب ہے اور ہمیں اس بات کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں کہ ریاستی معاملات سے مذہب کا عمل دخل کم کیا جا سکے گا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمارے تبصرہ جات کو 'کیا ہے'کی ذیل میں پڑھا جائے۔ 'کیا ہونا چاہیے!' پر بات کی گئی تو شاید ہم موضوع سے ہٹ جائیں۔
 

شاہد شاہ

محفلین
یہ بحث اب طرف جا رہی ہے کہ جس سے قبل یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ آیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہے، یا یہ کبھی سیکولر ریاست رہی ہے یا آئندہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ ریاست سیکولرازم کو اپنا لے گی۔ہمارے خیال میں اس حوالے سے ہماری قوم (کچھ دیر کے لیے ہم اِسے قوم تسلیم کر لیتے ہیں)کی رائے منقسم رہی ہے تاہم مجموعی حوالے سے ہماری سوچ پر مذہبیت کا رنگ غالب ہے اور ہمیں اس بات کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں کہ ریاستی معاملات سے مذہب کا عمل دخل کم کیا جا سکے گا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمارے تبصرہ جات کو 'کیا ہے'کی ذیل میں پڑھا جائے۔ 'کیا ہونا چاہیے!' پر بات کی گئی تو شاید ہم موضوع سے ہٹ جائیں۔
کوئی بھی ملک سو فیصد سیکولر نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں مذہب، تہذیب، کلچر وغیرہ کی آمیزش ضرور موجود رہتی ہے۔ اسلئے میرا نہیں خیال ان مسائل کا سیکولرازم ہے۔ پاکستان کی اکثریت مسلمان ہے اور صرف اس بنیاد پر اسے اسلامی رہنے کا حق حاصل ہے۔ البتہ اس عددی برتری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک خاصُ اقلیت کو نشانہ بنا کر اسکے آئینی حقوق قانونا چھین لئے جائیں۔
جمہوریت اکثریت کی ڈنڈا برداری کا نام نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام شہریوں کی بہتری و فلاح کی جدوجہد ہے۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے، اور اسے اسلامی قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سیکولر لبرل جو چاہے کر لیں یہ ہمیشہ اقلیت ہی رہیں گے۔ لیکن اسلام کی آڑ میں کسی خاص فرقہ یا اقلیت کو ہر وقت نشانہ بنانا بھی درست قومی رویہ نہیں ہے
 

فرقان احمد

محفلین
البتہ اس عددی برتری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک خاصُ اقلیت کو نشانہ بنا کر اسکے آئینی حقوق قانونا چھین لئے جائیں۔
ہماری معلومات میں اضافہ فرمائیں۔ پاکستان میں قادیانیوں کے کون سے آئینی اور قانونی حقوق سلب کیے گئے ہیں؟ مذہبی شعائر میں غیر معمولی مماثلت کے باعث پیدا شدہ مسائل کا حل تو خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے، اگر آئینی اور قانونی حقوق سے آپ کی مراد یہی ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
مذہبی شعائر میں غیر معمولی مماثلت کے باعث پیدا شدہ مسائل کا حل تو خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے، اگر آئینی اور قانونی حقوق سے آپ کی مراد یہی ہے۔
جی مراد تو یہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ معاملہ کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ جب یہ شروع ہوا تھا تو اسوقت دو مطالبے تھے۔ اوّل قادیانیوں کو بڑی سرکاری پوسٹس سے ہٹایا جائے۔ دوئم انہیں غیر مسلم تسلیم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبے سرکاری طور پر منظور ہوئے بیسیوں سال بیت گئے مگر اینٹی قادیانی پروپگنڈہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا؟ ہر سال ختم نبوت و دیگر کی جانب سے مختلف کانفرنسز و اجتماعات لگائے جاتے ہیں تاکہ قادیانیوں کی زندگی مزید اجرین بنائی جاتی رہے۔ مجھے اصل میں اعتراض اس تسلسل پر ہے۔ ماضی میں جو ہوا وہ ہو گیا۔ اس پر اب کیا کر سکتے ہیں
 
Top