نیت کی پاکیزگی
سب سے پہلی چیز نیت کی پاکیزگی ہے۔ نیت کی پاکیزگی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کو صرف طلبِ ہدایت کے لیے پڑھے، کسی اور غرض کو سامنے رکھ کر نہ پڑھے۔ اگر طلبِ ہدایت کے سوا آدمی کے سامنے کوئی اور غرض ہوگی تو نہ صرف یہ کہ قرآن کے فیض سے محروم رہے گا، بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ قرآن سے جتنا دور وہ اب تک رہا ہے اس سے بھی کچھ زیادہ دور ہٹ جائے۔ اگر آدمی قرآن کو اس لیے پڑھے کہ لوگ اسے مفسّرِ قرآن سمجھنے لگیں اور وہ کوئ تفسیر لکھ کر جلد اس سے شہرت اور نفعِ دنیاوی حاصل کر سکے تو ممکن ہے اس کی یہ غرض حاصل ہو جائے، لیکن قرآن مجید کے علم سے وہ محروم رہے گا۔ اسی طرح اگر آدمی کے کچھ اپنے نظریات ہوں اور وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرے کہ ان نظریات کے لیے قرآن سے کچھ دلائل ہاتھ آجائیں تو ممکن ہے وہ قرآن سے کچھ الٹی سیدھی دلیلیں، اپنے خیال کے مطابق، اپنے نظریات کی تائید میں نکالنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن ساتھ ہی اس حرکت کے سبب سے وہ اپنے اوپر فہمِ قرآن کا دروازہ بلکل بند کر لے گا۔
قرآن مجید کو الله تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اور ہر آدمی کے اندر طلبِ ہدایت کا داعیہ ودیعت فرمایا ہے۔ اگر اسی داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ اس سے بقدرِ کوشش اور بقدرِ توفیقِ الہٰی فیض پاتا ہے۔ اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو 'لِكُلِّ امْرِءٍ مَا نويَ' کے اصول کے مطابق وہ وہی چیز پاتا ہے جس کی اس کو تلاش ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی اس خصوصیت کی وجہ سے الله تعالیٰ نے اس کی تعریف یہ فرمائ ہے 'يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً' (البقرہ ۲۶:۲) (الله اس چیز سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے) اور یہ اصول بیان فرمانے کے بعد یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ 'وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ' (البقرہ ۲۶:۲) (اور وہ نہیں گمراہ کرتا مگر انہی لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں)۔ یعنی جو لوگ فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہدایت سے بھی ضلالت ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، الله تعالیٰ ان کو وہی چیز دیتا ہے جس کے وہ بھوکے ہوتے ہیں۔ اگر ایک شخص کعبہ جاکر بھی بتوں ہی کو یاد کرتا ہے تو وہ ہرگز اس بات کا سزاوار نہیں کہ اس پر توحید کے رموز کھولے جایئں۔ اگر کوی شخص پھولوں کے اندر سے بھی کانٹے ہی جمع کرنے کا شوق رکھتا ہے تو وہ ہرگز اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس کو پھولوں کی خوشبو نصیب ہو۔ اگر ایک شخص اپنے فسادِ طعبیت کو سبب سے علاج کو بھی بیماری بنا لیتا ہے تو وہ اسی بات کے لائق ہے کہ شفا حاصل ہونے کے بجائے اس کی بیماری ہی میں اضافہ ہو۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن حکیم نے سورہۤ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت میں اشارہ فرمایا ہے:
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ (2·12)
یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کی تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئ اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے۔ (2·12)