فہمِ قرآن کے لیے چند ابتدائ شرطیں - امین احسن اصلاحی

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: فہمِ قرآن کے لیے چند ابتدائ شرطیں


جس طرح نماز کے لیے طہارت اور وضو شرط ہے، نماز کی برکت آدمی کو اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب وہ وضو اور طہارت کے شرائط پورے کر کے نماز کا قصد کرے، اسی طرح فہمِ قرآن کے لیے بھی کچھ ابتدائ شرطیں ہیں اور آدمی کو فہمِ قرآن کی نعمت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ ان شرائط کے اہتمام کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے۔ ہم یہاں مختصراً ان شرائط کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نیت کی پاکیزگی

سب سے پہلی چیز نیت کی پاکیزگی ہے۔ نیت کی پاکیزگی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کو صرف طلبِ ہدایت کے لیے پڑھے، کسی اور غرض کو سامنے رکھ کر نہ پڑھے۔ اگر طلبِ ہدایت کے سوا آدمی کے سامنے کوئی اور غرض ہوگی تو نہ صرف یہ کہ قرآن کے فیض سے محروم رہے گا، بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ قرآن سے جتنا دور وہ اب تک رہا ہے اس سے بھی کچھ زیادہ دور ہٹ جائے۔ اگر آدمی قرآن کو اس لیے پڑھے کہ لوگ اسے مفسّرِ قرآن سمجھنے لگیں اور وہ کوئ تفسیر لکھ کر جلد اس سے شہرت اور نفعِ دنیاوی حاصل کر سکے تو ممکن ہے اس کی یہ غرض حاصل ہو جائے، لیکن قرآن مجید کے علم سے وہ محروم رہے گا۔ اسی طرح اگر آدمی کے کچھ اپنے نظریات ہوں اور وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرے کہ ان نظریات کے لیے قرآن سے کچھ دلائل ہاتھ آجائیں تو ممکن ہے وہ قرآن سے کچھ الٹی سیدھی دلیلیں، اپنے خیال کے مطابق، اپنے نظریات کی تائید میں نکالنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن ساتھ ہی اس حرکت کے سبب سے وہ اپنے اوپر فہمِ قرآن کا دروازہ بلکل بند کر لے گا۔

قرآن مجید کو الله تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اور ہر آدمی کے اندر طلبِ ہدایت کا داعیہ ودیعت فرمایا ہے۔ اگر اسی داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ اس سے بقدرِ کوشش اور بقدرِ توفیقِ الہٰی فیض پاتا ہے۔ اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو 'لِكُلِّ امْرِءٍ مَا نويَ' کے اصول کے مطابق وہ وہی چیز پاتا ہے جس کی اس کو تلاش ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی اس خصوصیت کی وجہ سے الله تعالیٰ نے اس کی تعریف یہ فرمائ ہے 'يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً' (البقرہ ۲۶:۲) (الله اس چیز سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے) اور یہ اصول بیان فرمانے کے بعد یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ 'وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ' (البقرہ ۲۶:۲) (اور وہ نہیں گمراہ کرتا مگر انہی لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں)۔ یعنی جو لوگ فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہدایت سے بھی ضلالت ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، الله تعالیٰ ان کو وہی چیز دیتا ہے جس کے وہ بھوکے ہوتے ہیں۔ اگر ایک شخص کعبہ جاکر بھی بتوں ہی کو یاد کرتا ہے تو وہ ہرگز اس بات کا سزاوار نہیں کہ اس پر توحید کے رموز کھولے جایئں۔ اگر کوی شخص پھولوں کے اندر سے بھی کانٹے ہی جمع کرنے کا شوق رکھتا ہے تو وہ ہرگز اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس کو پھولوں کی خوشبو نصیب ہو۔ اگر ایک شخص اپنے فسادِ طعبیت کو سبب سے علاج کو بھی بیماری بنا لیتا ہے تو وہ اسی بات کے لائق ہے کہ شفا حاصل ہونے کے بجائے اس کی بیماری ہی میں اضافہ ہو۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن حکیم نے سورہۤ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت میں اشارہ فرمایا ہے:


أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ (2·12)


یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کی تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئ اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے۔ (2·12)
 

نبیل

تکنیکی معاون
قرآن کو ایک برتر کلام مانا جائے

دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور برتر کلام مان کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر دل میں قرآن مجید کی عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کے سمجھنے اور اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر وہ محنت نہیں کر سکتا جو اس کے خزائنِ حکمت سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے۔ بظاہر یہ بات بعض لوگوں کو کچھ عجیب سی معلوم ہوگی کہ ایک کتاب کے متعلق اس کے جاننے سے پہلے ہی حسنِ ظن قائم کر لیا جائے کہ وہ بڑی پُر حکمت اور اعلیٰ کتاب ہے۔ لیکن غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ قرآن مجید کے متعلق اس قسم کا حسنِ ظن پیدا ہونا ایک نہایت معقول بات ہے۔ قرآن اپنے پیچھے ایک عظیم الشّان تاریخ رکھتا ہے۔ اس کے کارنامے نہایت شاندار ہیں۔ ذہنوں اور دماغوں کی تبدیلی میں اس کتاب نے جو معجزہ دکھایا ہے آج تک کسی کتاب نے بھی یہ معجزہ نہیں دکھایا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک عظیم حصّہ اس کو نہ صرف کتاب مانتا ہے؛ بلکہ اس کو خدائی اور آسمانی کتاب مانتا ہے، اس کو لوحِ محفوظ سے اتارہ ہوا کلام مانتا ہے، ایک ایسا مُعجز کلام مانتا ہے، جس کی نظیر نہ انسان پیش کر سکتے نہ جنّات پیش کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا کلام جس کے ماضی اور جس کے حاضر کے متعلق یہ شہادتیں اور لوگوں کے یہ احساسات موجود ہوں، بہرحال ایک اہمیت رکھنے والا کلام ہے اور آدمی اس کو سمجھنے کا حق اسی وقت ادا کر سکتا ہے جب اس کی یہ عظمت و اہمیت اس کے پیشِ نظر ہو۔ اگر یہ اہمیت اس کے سامنے نہ ہو تو ممکن نہیں ہے کہ آدمی اس کو اس اہتمام کا مستحق سمجھے جو اہتمام اس کے لیے فی الواقع مطلوب ہے۔ اگر کسی رقبہۤ زمین کے مطابق یہ علم ہو کہ وہاں سے سونا نکلتا رہا ہے اور کسی زمانہ میں وہاں کافی سونا برآمد ہو چکا ہے تو توقع یہی کی جاتی ہے کہ اگر کھدائی کی جائے تو یہاں سے سونا نکلے گا اور پھر اس کی اسی حیثیّت کو پیشِ نطر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کا سروسامان کیا جاتا ہے اور اس پر محنت صرف کی جاتی ہے۔لیکن ایک معدن کو اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ایک کھورا ہے یا یہ کہ اگر یہاں محنت کی جائے تو یہاں سے زیادہ سے زیادہ کوئلہ یا چونا فراہم ہو سکے گا تو اس پر یا تو کوئی سرے سے اپنا وقت ہی ضائع کرنا پسند نہیں کرے گا یا کرے گا تو صرف اس حد تک جس حد تک اس سے اس کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہو گی۔

یہ تنبیہ ہم نے اس لیے ضروری سمجھی ہے کہ قرآن مجید کے متعلق ایسی غلط فہمیاں لوگوں کے اندر موجود ہیں جن کہ ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہے کہ اس کو اس اعتناء و اہتمام کا مستحق سمجھا جائے جو اس سے حقیقی استفادہ کے لیے ضروری ہے۔ یہ غلط فہمیاں قرآن مجید کے ماننے والوں اور اس کے منکروں، دونوں کے اندر موجود ہیں۔ جو اس کے منکر ہیں وہ اس بات کا تو ایک حد تک اعتراف کرتے ہیں کہ ایک خاص دور میں اس کتاو کے ذریعہ سے کچھ اصلاحات واقع ہوئیں، لیکن موجودہ زمانہ کے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کے لیے وہ اس کتاب کو کافی نہیں سمجھتے۔

جو اس کو ماننے والے ہیں ان میں سے بہت لوگ اس کو محض حرام و حلال کے بتانے کا ایک فقہی ضابطہ سمجھتے ہیں اور فقہ کے احکام علیٰحدہ مرتّب ہو جانے کے بعد ان نگاہوں میں اگر اس کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے تو صرف تبّرک کے نقطہء نظر سے رہ گئی ہے۔ بہت سے لوگ اس کو اچھی اچھی نصیحتوں کا ایک مجموعہ سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ نزع کی سختیوں کے دور کرنے اور ایصالِ ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کو دفعِ آفات و بلیّات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح عیسائی دل کے جانب والے جیب میں انجیل رکھے پھرتے ہیں اسی طرح اس خیال کے مسلمان جیب میں قرآن کو رکھتے ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے مسلمان ناممکن ہے کہ قرآن حکیم سے وہ فائدہ اٹھاسکیں جس کے لیے فی الحقیقت وہ نازل ہوا ہے۔ ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کسی شخص کو ایک توپ دی جائے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دشمنوں کے قلعہ کو مسمار کرے لیکن وہ اس کو مچھر مارنے کی ایک مشین سمجھ بیٹھے اور اسی حقیر مقصد کے لیے اس کو استعمال کرنا شروع کر دے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
قرآن کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کا عزم

قرآن حکیم سے حقیقی استفادہ کے لیے تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کو بدلنے کا مضبوط ارادہ موجود ہو۔ ایک شخص جب قرآن مجید کو گہری نگاہ سے پڑھتا ہے تو وہ ہر قدم پر یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کے تقاضے اور مطالبے اس کی اپنی خواہشوں اور چاہتوں سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے تصّورات و نظریات بھی قرآن سے بیشتر الگ ہیں اور اس کے معاملات و تعلّقات بھی قرآن کے مقرر کردہ حدود سے ہٹے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے باطن کو بھی قرآن سے دور پاتا ہے اور اپنے ظاہر کو بھی اس سے بالکل منحرف محسوس کرتا ہے۔ اس فرق و اختلاف کو محسوس کر کے ایک صاحبِ عظم اور حق طلب آدمی تو یہ فیصلہ کرتا ہے خواہ کچھ ہو میں اپنے آپ کو قرآن کے تقاضوں کے مطابق بنا کے رہوں گا۔ وہ ہر قسم کی قربانیاں کر کے، ہر طرح کے مصائب جھیل کر، ہر قسم کی ناگواریاں برداشت کر کے اپنے آپ کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر اپنے آپ کو قرآن کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ لیکن جو شخص صاحبِ عزم نہیں ہوتا ہے وہ اس کو خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کر سکتا جو وہ اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصوّرات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔ اسے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں اپنے اعمال و اخلاق کو قرآن کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کروں تو میرا اپنا ماحول میرے لیے بلکل اجنبی بن کے رہ جائے گا۔ اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر میں اپنے آپ کو ان مقاصد کی تکمیل میں سرگرم کروں جن کا مطالبہ مجھ سے قرآن کر رہا ہے تو میں جن منافع اور لذّات سے متمتّع ہو رہا ہوں ان سے متمتّع ہونا تو الگ رہا عجب نہیں کہ جیل اور پھانسی کی سزاؤں سے دوچار ہونا پڑے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اپنے وسائلِ معاش کو قرآن کے ضابطئہ حلال و حرام کے کسوٹی پر پرکھوں تو آج جو عیش مجھے حاصل اس سے محروم ہو کر شائد اپنی نانِ شبینہ کے لیے بھی فکر مند ہونا پڑے۔ ان خطروں کے مقابل میں ڈٹ جانا اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لینا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ صرف مروانِ کارہی ان گھاٹیوں کو پار کر سکتے ہیں۔ معمولی ہمت و ارادہ کے لوگ یہیں سے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ بعض جو اپنی کمزوریو پر زیادہ پردہ ڈالنے کے خواہشمند نہیں ہوتے وہ تو یہ کہتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے چل پڑے ہوتے ہیں کہ قرآن مجید کا راستہ ہے تو بلکل صحیح، لیکن ہمارے لیے اس پر چلنا نہایت مشکل ہے، اس لیے ہم اسی راہ پر چلیں گے جس راہ پر ہم کو ہمارہ نفس لے جا رہا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی کمزوریوں کو عزیمت اور اپنے نفاق کو ایمان کے روپ میں پیش کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اپنا یہ شوق مختلف تدبیروں سے پورا کرتے ہیں۔ بعض اضطرار اور مجبوری کے بہانوں سے اپنے لیے نا جائز کو جائز اور حرام کو حلال بناتے ہیں۔ بعض جھوٹی اور باطل تاویلات کے ذریعہ سے باطل پر حق کا ملمع چڑھاتے ہیں۔ بعض وقت کے تقاضوں اور مصالح کی آڑ تلاش کرتے ہیں۔ بعض کتابِ الہیٰ میں اس قسم کی تحریفیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس قسم کی تحریفیں یہود نے الله کی کتاب میں کی تھیں۔ بعض کفر و ایمان کے بیچ سے ایک راہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی قرآن کے جس حصّہ کو اپنی خواہشوں کے مطابق پاتے ہیں، اس کی تو پیروی کرتے ہیں اور جس حصہ کو اپنی خواہشوں کے مطابق نہیں پاتے اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

یہ ساری راہیں شیطان کی نکالی ہوئی ہیں اور ان میں سے جس راہ کو بھی آدمی اختیار کرے گا وہ اس کو سیدھے ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے جائے گی۔ کامیابی اور فلاح کا راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو قرآن کے سانچہ میں ذھالنے کی ہمت کر لے اور اس کے لیے ہر قربانی پر آمادہ ہو جائے۔ کچھ عرصہ تک الله تعالیٰ کی طرف سے اس ارادہ کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگر آدمی اس آزمائش میں اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو خدا اس کے لیے دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اگر ایک ماحول سے وہ پھینکا جاتا ہے تو دوسرا ماحول اس کے خیر مقدم کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ اگر ایک زمین اس کو پناہ دینے سے انکار کر دیتی ہے تو دوسری سر زمین اس کے لیے اپنی آغوش کھول دیتی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن حکیم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:


وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت-۲۹:۶۹) (29·69)


اور جو لوگ ہماری راہ می مشقتیں جھیل رہے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے اور بے شک الله خوب کاروں کے ساتھ ہے۔ (29·69)
 

نبیل

تکنیکی معاون
تدبّر

قرآن سے استفادہ کے لیے چوتھی شرط تدبّر ہے۔ اس شرط کا ذکر خود قرآن مجید نے بار بار کیا ہے:


أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد-۴۷:۲۴) (47·24)


کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں! (47·24)

صحابہ رضی الله عنہم جو قرآن کے مخاطب اوّل تھے، وہ قرآن مجید کو برابر تدبّر کے ساتھ پڑھتے تھے اور جو لوگ جتنا ہی تدبّر کرتے تھے وہ اتنے ہی قرآن مجید کے فہم میں ممتاز تھے۔ صحابہ نے قرآن مجید کے مطالعہ کے لیے حلقے بھی قائم کیے تھے جن میں اہلِ ذوق حضرات اکٹھے او کر قرآن کا اجتماعی مطالعہ کرتے تھے۔ اس طرح کے قرآنی حلقوں سے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خاص دلچسپی تھی۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں خلفائے راشدین، بالخصوص حضرت عمر رضی الله عنہ، اس قسم کے حلقوں سے اور قرآن کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے رہے۔

محض تبّرک کے طور پر الفاظ کی تلاوت کرلینا اور قرآن کے معانی کی طرف دھیان نہ دکرنا صحابہ کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ طریقہ تو اس وقت سے رائج ہوا ہے جب لوگوں نے قرآن مجید کو ایک صحیفہء ہدایت کے بجائے حصولِ برکت کی ایک کتاب سمجھنا شروع کردیا۔جب زندگی کے مسائل سے قرآن کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا کہ دمِ نزع اس کے ذریعہ سے جانکی کی سختیوں کو آسان کیا جائے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعہ سے میت کو ایصالِ ثواب کیا جائے،جب زندگی کے نشیب و فراز میں رہنما ہونے کے بجائے اس کا مصرف یہ رہ گیا کہ ہم جس ضلالت کا بھی ارتکاب کریں اس کے ذریعہ سے اس کا افتتاح کریں تا کہ یہ برکت دے کر اس ضلالت کو ہدایت بنا دیا کرے، جب لوگوں نے اس کو تعویذ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا تا کہ جب وہ اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لیے نکلیں تو قرآن ان کی حفاظت کرے کہ اس راہ میں کہیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔

دنیا کی شائد ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف اس شکل میں حاصل کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کو پورے غور و تدبّر کے ساتھ پڑھا جائے۔ لیکن یہ بات بھی ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ یہی کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھ بند کر کے پڑھی جاتی ہے۔ معمولی سے معمولی چیز بھی آدمی پڑھتا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے وہ اپنے دماغ کو حاضر کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کو سمجھ سکے۔ لیکن قرآن کے ساتھ لوگوں کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ جب اس کو پڑھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے دماغ پر پٹی باندھ لیتے ہیں کہ مبادا کہیں اس کے کسی لفظ کا مفہوم دماغ کو چھو جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تفویض الیٰ الله

قرآن مجید سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لیے پانچویں شرط یہ ہے کہ اس کی مشکلات میں آدمی بددل اور مایوس ہونے یا قرآن مجید سے بدگمان یا اس پر معترض ہونے کے بجائے اپنی الجھن کو خدا کے سامنے پیش کرے اور اس سے مدد اور رہنمائی طلب کرے۔ قرآن میں آدمی کبھی کبھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے 'قولِ ثقیل' کے نیچے دب گیا ہے کہ اس بارِ گراں کو اٹھانا اس کے لیے ناممکن ہے۔ اسی طرح عملی اور فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی الله تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے۔ اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھر ٹھر کر پڑھے ان شاءالله اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں کی اور حکمتِ قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآنِ حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔ مندرجہ ذیل دعا بھی اس طرح کے حالات میں پڑھتے رہنا نہایت نافع ہے۔


اللّٰهُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ، اِبْنُ عَبْدِکَ اِبْنُ اَمَتِکَ نَاصِيَتِیْ بِيَدِکَ ماضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدُلٌ فِیَّ قَضَاءُکَ اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَکَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَهُ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَهُ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِيْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَ جَلَاءَ حُزْنِیْ وَ ذَهَابَ هَمِّیْ وَ غَمِّیْ


اے الله! میں تیرا غلام، تیرے غلام کا بیٹا،اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں۔ میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے۔ مجھ پر تیرا حکم جاری ہے۔ میرے بارہ میں تیرا فیصلہ حق ہے۔ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطہ سے جو تیرا ہے، جس سے تو نے اپنے آپ کو پکارا ہے، یا جں کو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینہ کا نور، میرے غم کا مداوا اور میرے فکر و پریشانی کا علاج بنا دے۔
 
Top