شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۶

چُناں چہ یہ نقل، ضربُ المثل ہے اور حقیقت میں اصل ہے۔ چشمِ عبرت ہیں اور گُوشِ شنوا اس کے دیکھنے اور سُننے کو درکار ہے، نیرنگیِ عشق کا اظہار ہے۔

نقل سوداگر کی بیٹی کی۔ انگریز کا آنا، فریفتہ ہو جانا؛ آخر کو جان دینا دونوں کا۔

کلکتے میں ایک سوداگر تھا عالی شان۔ متاعِ ہر دِیار، تُحفۂ جوار جوار دُکان میں فراواں۔ اُس کی بیٹی تھی حسین، مہر طلعت، ماہ جبیں، سیمیں تن، کافِرِ فرنگ، غارت گرِ لندن۔ غرض کہ اور تو اسباب سب طرح کا دُکان میں تھا؛ مگر گھر میں وہ زُور رقم، طُرفہ ٹوم تھی۔ فرنگ سے ہند تک اُس کے حُسن کا چرچا تھا۔ روم سے شام تک اور بنبئی سے سؤرت تک اُس کی صورت کی دھوم تھی۔ اُستاد :

ہے رخنہ سازِ ایماں وہ زادۂ فرنگی (۱)
اِسلام اب کہاں ہے؛ عاصی، فرامِشن ہے

ہزاروں انگریز، بِرِیز بِرِیز کرتے، اُس پر شیفتہ و بے تاب تھے۔ لاکھوں مسلمان سرگرداں، خستہ و خراب تھے۔ جب ہوا کھانے کو سوار ہو کر آتی تھی؛ راہ میں دو رویہ خلقت کی جان، اُس کی ہوا خواہی میں برباد جاتی تھی۔ گبرو ترسا اُس کا کلمہ پڑھتے تھے، یہود و نصاریٰ اُ س کا دم بھرتے تھے، مسلمان دل و جاں نذر کرتے تھے۔ مُؤلف :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۷


اُس لُعبتِ فرنگ کو دکھلا کے قاشِ دل
کہتا ہوں : چکھو، یہ دلِ بریاں کا تُوس ہے

اتفاقِ زمانہ، کوئی انگریز لندن سے تازہ وارد ہوا جلیلُ القدر، ذی شان، خوب صورت، نوجوان؛ شُورِ عشقِ سودا خیز سَر میں، سُوز دل میں مزاج بے شر، بے قراری آب و گِل میں۔ میرؔ :

تھا طرح دار آپ بھی، لیکن (۱)
رہ نہ سکتا تھا اچھی صورت بِن

قضارا، وہ آفت کا مارا کچھ اسباب لینے اُس کی کُوٹھی میں ایا اور اُس غارت گرِ دین و ایمانِ ہر گبرو مسلماں سے دو چار ہوا۔ عشق گلے کا ہار ہوا۔ دیکھتے ہی متاعِ عقل، اثاثِ ہُوش و حواس گرہ سے کُھو بیٹھا۔ دل سے ہاتھ دُھو، دمِ نقد جان کو رُو بیٹھا۔ اسباب خریدنے گیا تھا، سودا مُول لیا۔ اُس نے مُشتری سمجھ، میزانِ محبت میں تُول لیا۔ ہاتھ پاؤں نے ست، دل نے ہمت ہاری؛ دن دیئے لُٹ گیا عشق کا بیپاری۔ جب اور کچھ تدبیر بن نہ آئی، خرید و فروخت کے حیلے میں آمد و رفت بڑھائی۔ پھر تو یہ حال ہوا، جُرأتؔ :

دن میں سو سو بار اب ہم اُن کے جانے لگے (۲)
مُنہ چِھپانے وہ لگے، ہم اُن پہ مر جانے لگے

سلف سے آج تک عشق چِپھا نہیں، مشہور ہے۔ اس مُقدمے میں انسان مجبور ہے۔ میرؔ :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۸

عشقِ بے پردہ جب فسانہ ہوا
مُضطرب کد خُداے خانہ ہوا (۱)

جب یہ امر مُفصل سوداگر کے گُوش زد ہوا، بہ پاسِ نام و نشاں خوف ذِلت و رُسوائی کا از حد ہوا۔ پہلے دونوں کو نصیحت کی، پندکیاؔ؛ پھر سلسلۂ آمد و رفت قطع، دیکھا بھالی کا رخنہ بند کیا۔ اُدھر شُعلۂ عشق نے بھڑک کر تاب و توان و شکیب و تحمُل کو ہیزُمِ خُشک کی طرھ جلا دیا،عقل کا چراغ بُجھا دیا، صبر کا قافلہ لُٹ گیا، دامنِ ضبط ناتواں کے ہاتھ سے چُھٹ گیا، بے چارے صاحب کو چند عرصے میں سلامت نہ رکھا۔ میرؔ :

بستر خاک پر گرا یہ زار
درد کا گھر ہوا دلِ بیمار (۲)

خاطر افگار، خار خار ہوئی
جاں، تمنا کشِ نگار ہوئی

دل نہ سمجھا اور اضطراب کیا
شوق نے کام کو خراب کیا

رفتہ رفتہ سخن ہوئے نالے
لگے اُڑنے جگر کے پر کالے

یہاں تک تپِ مُہاجرت اورو دردِ مُفارقت سے حال درہم و برہم ہوا کہ صاحب بہادُر شِکستِ فاش اٹھا کے صاحبِ فِراش ہوا، دل و جگر سینے میں پاش پاش ہوا۔ حِس و حرکت کی طاقت نہ رہی، لینے کے دینے پڑ گئے۔ اُستاد :

مرضِ یہ پھیل پڑا ہے تپِ جُدائی سے (۳)
کہ پیٹھ لگ گئی یاروں کی چارپائی سے

جو جو اُس کے یار، مؤنِس و غم گُسار تھے؛ نصیحت و پند، قید و بند کرنے لگے۔ عورتوں کی بے وفائی، بُتوں کی سنگ دلی، معشوقوں کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۹

کج ادائی بہت مُشرح سمجھائی؛ سود مند نہ ہوئی، خاطر میں نہ آئی۔ اُس سے میں ایک اُس دشمنِ جاں کا شفیق و غم خوار، وفا شعار تھا؛ کہنے لگا: کیوں جُویائے مرگ ہوا ہے! ظالم، یہ کیا کرتا ہے! اے ناداں، عدوے دل، بدخواہِ جاں! اِس کا انجام ذِلت ہے۔ حاصل اس کا خفت ہے۔ یہ خیالِ مُحال اپنے دل سے نکال۔ زورقِ زندگانی، سفینۂ نوجوانی دیدہ و دانستہ ورطۂ ہلاکت میں نہ ڈال۔ اپنے کس و کؤ پر نظر کر۔ للہ دلِ خود رفتہ کو سنبھال۔ تو نے پِسرِ مِجسٹن کی حِکایت نہیں سُنی کہ اُس پر کیا گُزری! یہ سُن کے، وہ حزیں بادِلِ غمگین پوچنے لگا: کیونکر ہے؟

حالِ خُسراں مآل مِجسٹن کے بیٹے کا۔ سفر کو جانا، راہ میں جہازوں کا غرق ہو جانا۔ پھر تختے کے سہارے سے پہنچنا کنارے پر، فریفتہ ہونا ایک ماہ پارے پر۔ لڑکوں کا پیدا ہونا۔ پھر تفرقہ، اور خفت کا مُبتلا ہونا۔

وہ بولا: اسی شہر میں ایک شخص تھا مِجِسٹن نام۔ نہایت اہلِ دول، مُرفۂ حال۔ صاحب علم و فضل، جامعِ ہر کمال۔ طبیب و ادیبِ بے بدل۔ سخُن سنج، لطیفہ گُ بر محل۔ کمالات میں یگانۂ رُوزگار۔ تجارتے میں نامورِ ہر دیار۔ سو سو جہاز ایک ایک بار تجارت کو جاتا تھا۔ نصیب ایسا جاگتا تھا مٹی کو چھوٹا، سُونا ہاتھ آتا تھا۔ کسی طرح کا خواہش مند، بجُز فرزندِ ارجُمند
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۰

نہ تھا۔ دُعا، دوا، خیرات تک بند نہ تھا۔ شب و رُوز اس کا خیال تھا۔ مُدام فرحت میں یہ ملال تھا۔ ہزاروں رنج لا ولدی کے سہتا تھا؛ مگر صابر ایسا تھا کہ خدا کے سوا کسی بندے سےکچھ نہ کہتا تھا۔

خوش قسمتوں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے، تمناے دل حُصؤل ہوتی ہے۔ پچھتر برس کے سِن میں اللہ نے بیٹا عنایت کیا حسبِ دِل خواہ، صورت میں غیرتِ ماہ۔ بہت شاداں ہو کے سرگرم پرورش ہوا۔ ایک عالم اُس کی صورت دیکھ کے غش ہوا۔ جب بارہ برس کا سِن ہوا، نشیب و فراز دیکھنے کا دن ہوا؛ بہ سببِ طبعِ رسا و تعلیمِ اُستادانِ باد کا جمیع عُلوم، سب فُنون میں یکتاے زمانہ مشہور ہوا۔ ماں کو خوشی، باپ کو سُرور ہوا۔ درس دینے لگا، مطب کرنے لگا؛ اوروں کو تعلیم سب کرنے لگا۔ چودھویں برس باپ سے سفر کی اجازت چاہی، کہ تجارت میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ جائے، والدین کو حاصلِ مشقت دکھائے۔ مِجِسٹن نے کہا: اپنا بھی یہی قصد تھا؛ مگر چندِے توقُف کرو، ابھی ناتجربہ کار ہو۔ اُس نے عرض کہ: حُضور عُمرِ طبعی کو پہنچے، مُسن ہیں؛ فدوی کے سیاحت اور سفر کے یہی دن ہیں۔ چاہتا ہوں کہ آپ کے بہ قیدِ حیات سفر کو جاؤں؛ گرم و سردِ زمانہ دیکھوں، جودتِ طبع سب کو دکھاؤں۔

آخر مِجِسٹن نے دس بارہ جہاز مر متاع و مال، اور کچھ رفیقِ قدیم کار گُزار، دیانت دار، امانت شعار ہمراہ کر رُخصت کیا۔ نشیب و فرازِ دوراں، نیرنگیِ جہاں سے آگاہ کر دیا۔ جہاز ایک سمت روانہ ہوئے۔ دو مہینے کے بعد ہواے ضورِ گردؤں سے سرنِگُوں ہو کے تباہ ہو گئے۔ مِجِسٹن کے بیٹھے کا بھی جہاز ڈوب گیا۔ یاران ہمراہی عالمِ بقا کر راہی ہوئے، کچھ طُعمۂ نِہنگ و ماہی ہوئے۔ یہ ایک تختے پر ڈوبتا تِرتا بہ چلا۔ حیاتِ مُستعار باتی تھی؛ ساتویں دن ہِرتا پھرتا تختہ کنارے پر لگا۔ غش سے جو افاقہ ہوا؛ آنکھیں کھولیں، سِر اُٹھایا، تختے کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۱

گھاٹ پر پایا۔ بہ ہر کیف اُترا۔ کچھ گھانس لا، رسی بنا، وہ تختۂ کشتیِ شکستہ پتھر سے اٹکا دیا۔ پھر آپ بہ تلاشِ آب و دانہ روانہ ہوا۔ تھوڑی مسافت بہ صد آفت طے کی۔ شہر عظیمُ الشان، بہت آبادان نمود ہوا۔ آہستہ آہستہ، بیٹھتا اُٹھتا شہر میں داخل ہوا۔ وہاں عجیب سانحہ، طُرفہ ماجرا نظر آیا؛ دُکان ہر ایک وا، اشرفی روپے کا ڈھیر جا بہ جا، اسباب سب طرح کا نایاب موجود، مگر آدمی کا پتا مُفقود۔ اس قرینے سے ثابت ہو اکہ عرصے سے یہ بازار جِنسِ بشر سے خالی ہے۔ ویرانِ مطلق ہے، شہر کا وارِث ہے نہ والی ہے۔ پھرتا پھرتا قلعے میں آیا۔ باغ سر سبز، پُر میوہ؛ بیچ میں بنگلا، زربفت کے نفیس پردے پڑے ہوئے، در و دیوار میں جواہر بیش بہا قرینے سے جڑے ہوئے۔ پردہ اُٹھا بنگلے میں گیا۔ پلنگ جواہر نگار گُستردہ، اس پر بہ شکلِ مُردہ ایک شخص دوپٹا تانے، نہ کوئی پائنتی نہ سرھانے، پڑا ہے۔ ان سے دوپٹا جو سرکایا، وہ عورت تھی۔ نیند سے چونک پڑی، سَر اُٹھایا، مُتعجب ہو کے اس کی صورت دیکھی، مُتاسف ہو کے یہ سُنایا کہ اے عزیز! اپنی جوانی پر رحم کر۔ یہ مکان نہیں، سیلِ فنا ہے؛ تو ناآشنا ہے۔ اس سے درگُزر، وگرنہ آفت کا مُبتلا ہو گا، خدا جانے ایک دم میں کیا ہو گا! اس نے کہا: ایسا ماجرا کیا ہے، بیان تو کر۔ عورت نے کہا: پہلے تؤ اپنے یہاں آنے کا حال سُنا کہ کیوں کر آ پھنسا۔ ان نے کہا : ہفتہ گزرا بے دانہ و آب، خستہ و خراب ہوں؛ جو کچھ کھاؤں، تو داستان پریشانی کی سُناؤں۔ عورت بولی: مدت کے بعد کھانے کا نام تیرے مُنہ سے سُنا ہے؛ سُو کھانا یہاں کہاں، بجُز غم کھانے کے اور پانی، سوا اشک بہانے کے۔ آنسو پینے کا نام ہے، اس سے نہیں پیتی ہوں اور کھانے کی قِسم سے قسم تک نہیں کھاتی۔ مُتحیر ہوں کیوں کر جیتی ہوں! مگر تنہائی میں ہاں، خوف کھا کے، رُوز دن بھرتی ہوں۔ ہر شب کے شبِ اولینِ گُور ہے، جاں کنی رہتی ہے؛ سخت جانی کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۲

بدولت نہیں مرتی ہوں۔ جُرأت :

یہ غلط کہتے ہیں، بے آب و خُوِرِش جیتے ہیں
لختِ دل کھاتے ہیں اور خونِ جگر پیتے ہیں (۱)

تو اس باغ میں جا، جس میوے پر رغبتِ خاطر ہو، کھا۔ مِجِسٹن کے بیٹے نے جا کے میوہ کھایا، نہر سے پانی پیا۔ گؤنہ رنجِ فاقہ کشی سے اِفاقہ ہوا۔ پھر عورت کے پاس بنگلے میں آ کے حسب و نسب اپنا اور باعِثِ سفر، جہاز کی تباہی کی مُفصل سرگذشت سُنائی۔ پھر اُس کا ماجرا پوچھا۔ وہ بولی: اے شخص! اس شہر بے چراغ میں میں شہ زادی ہوں۔ باپ میرا اس ملک کا حاکم تھا۔ چھوٹا بڑا یہاں کا شاد و خرم تھا۔ باپ جو تاج دار تھا، مجھ کو مشغلۂ سیر و شکار تھا۔ ایک روز لبِ دریا مصروفِ تماشا بیٹھی تھی، دفعتہً ایک سانپ پانی سے نکل کے میری طرف بڑھا۔ میں نے اُس کو تیر مارا۔ معلوم نہیں لگاہ یا خطا کر گیا۔ پھر جو دیکھا تو اژدہاے مُہیب بہ شکلِ عجیب جھپٹا آتا ہے۔ میں تو ڈر، گھوڑے پر چڑھ کر بھاگی۔ جو جو ہمراہِ رکاب تھے، طُعمۂ دہنِ مارِ خوں خوار ہوئے۔ کہاں تک بیان کروں؛ ساکنانِ شہر معِ بادشاہ، انسان تا حیوان، کوئی نہ بچا، سب ہلاک ہوئے، تہِ خاک ہوئے؛ فقط میں سخت جان باقی ہوں۔ اور یہ صُحبت ہے کہ قریبِ شام وہ مارِ خوں آشام آ کر اس بنگلے کے نیچے بیٹھتا ہے؛ دو گھڑی کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ مجھ پر جب بھوک پیاس کا غلبہ ہوتا ہے؛ اسی باغ سے میوہ کھا، پانی پیتی ہوں، اس خرابی سے جیتی ہوں۔ کوئی غم خوار بجُز ذاتِ پروردگار نہ تھا، جس کو حالِ زار سُناتی۔ اِتنے دنوں میں آج تجھے دیکھا؛ خوفِ خُدا آیا، مُطلع کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۳

پِسر مِجِسٹن نے کہا: خاطِرِ پریشاں جمع رکھ؛ اگر فضلِ الٰہی مددگار ہے، تو جلد اُس کو فی النار کر، تجھ کو اس آفت سے نجات دیتا ہوں۔ یہ کہہ کے، جس جگہ سانپ کے بیٹھنے کی جگہ عورت نے بتائی تھی، وہاں گڑھا کُھود اور قلعے سے باروت لا کر دور تک نقب سی بنا، بارؤت اُس میں چھڑک دی۔ پھر گھانس ہری اُس پر جمائی۔ شہ زادی نے کہا: اب وہ آتا ہی ہو گا۔ یہ جا کے سرِ نقب پوشیدہ ہو کر بیٹھ رہا؛ کہ دفعتہً وہ افعِیِ پُر زہر، قہر آیا اور اپنی جگہ پر اُس سبز قدم نے فرشِ زمُردیں پایا؛ بہت خوش ہو کر بیٹھا۔ یہ تو تاک میں تھا؛ پتھر سے آگ نکال، اُس نقب میں ڈال دی۔ فوراً ایک دھماکا پیدا ہو، وہ ٹکڑا زمین کا مع سانپ آسمان پر پہنچا۔ دونوں نے شُکر کا سِجدہ بہ درگاہِ دافِعُ البلیات کیا۔ باہم بے اندیشہ و غم رہنے لگے۔ سات برس دونوں ساتھ رہے۔ اس عرصے میں دو لڑکے بھی پیدا ہوئے۔ ایک دن رنجِ تنہائی کی شہ زادی نے شکایت کی کہ اکیلے طبیعت نہیں لگتی۔ سعدیؔ :

بہارِ عُمر، ملاقاتِ دوستدار انست (۱)
چہ حظ برد خِضر از عُمرِ جاوِداں تنہا

کب تک تنہائی میں بسر کریں، شامِ غم انجام رُو رُو سحر کریں۔ کوئی ترکیب ایسی نکالو کہ پھر یہ ویران شہر آباد ہو، خاطِرِ غمگین شاد ہو۔ وہ بولا: اگر وطن جاؤں اور مِجِسٹن کو یہاں لاؤں، تو یہ بستی بسے۔ عورت نے کہا: اکیلی میں کیوں کر بسر کروں گی، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ آخرشِ، ایک ایک لڑکا دونوں گُود میں لے کے چل نکلے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۴

قضارا، وہاں پہنچے جہاں تختہ بندھا تھا؛ ذِہن میں آیا: پیادہ پا لڑکوں کا لے چلنا مُحال ہے، یہ بے جا خیال ہے، توکلتُ رلی اللہ کہہ کے اسی تختے پر سوار ہو، رسی کھول دو؛ کہیں تو جا نکلو گے۔ یہ سوچ کر دونوں سوار ہوئے۔ وہ تختہ کھولنے لگا، شہ زادی نے کہا: مال و اسباب تو اس قدر ہے کہ بیان میں زبان قاصر ہے؛ مگر ایک ناریل اکسیر سے بھرا ہے، دولتِ لا انتہا ہے، رتی باون تولے کا تجربہ ہو چکا ہے۔ بہت تردُد سے ظِلِ سُبحانی نے پایا تھا، سب سے چِھپایا تھا؛ جو تو اجازت دے تو اُسے لے آؤں۔ مصرع : بد و زد طمع دیدۂ ہوشمند (۱)

مِجِسٹن کے بیٹھے نے کہا: اچھا۔ وہ تختہ کچھ کُھلا کچھ بندھا، یوں ہی رہا۔ شہ زادی لڑکا لیے اُتری۔ اس کے اُترتے ہی ایسی تُند ہوا چلی کہ رسی، تکان سے ٹوٹ گئی؛ تختہ بہ چلا۔ ہر چند اس نے ہاتھ پاؤں مارے، وہ ساحلِ مطلب سے کنارے ہوا۔ کنارے پر شہ زادی بہ حالِ خراب، دریا میں وہ بادلِ کباب بہ نکلا۔ دل سے کہتا تھا: دیکھیے، مرضیِ ناخُداے کشتیِ بادباں شکستہ کیا ہے! یہ جُھونکا ہوائے قومِ ثمؤد، عاد کا ہے۔ اس سُوچ میں چلا جاتا تھا کہ ایک جہاز نمود ہوا۔ اہل جہاز نے جو دیکھا: تختے پر کوئی جوان گُود میں لڑکا نادان لیے بہا جاتا ہے؛ رحم کھا، پنسوہی کو دوڑا جہاز پر لیا۔ اتفاقِ زمانہ، مالکِ جہاز مِجِسٹن کا دوست و دم ساز تھا؛ اُس کو پہچانا، بہت تعظیم تکریم سے پیش آیا۔

برس رُوز میں جہاز کلکتے میں داخل ہوا۔ جہاز کا حاکم مجسٹن کی ملاقات کو آیا، بچھڑے بیٹے کو باپ سے ملایا۔ یہاں جس دن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۵

سے جہاز کی تباہی مِجِسٹن نے سُن پائی تھی، مُحیطِ رنج و الم، غریزِ لُجۂ غم تھا۔ بارے، بیٹے کو دیکھ کر سجدہ بہ درگاہِ باری کیا، پُوتا گھاتے میں ملا، اور کلمات شُکریہ اُس سے کرنے لگا۔ اُس نے کہا: بندہ پرور٬ خیر ہے، دُنیا اسی کا نام ہے۔ جس کا کام جس سے نکلے، وہ فخر و سعادت سمجھے۔

بعد چند روز مِجِسٹن نے بیٹے سے رؤدادِ سفر پوچھی۔ اُس نے ابتدا سے انتہا تک حکایت، فلک کج رفتار کی شکایت بیان کی۔ وہ یہ سُن کر سمجھا: مشکل پیچ پڑا؛ مگر سہک انگاری یہ جواد دیا کہ الخیر فی ما وقع خیریت اسی میں تھی جو ہُوا۔ مصرع : بر سرِ فرزندِ آدم ہرچہ آید، بُگذرد۔ (۱)

مگر یہ مقدمہ اور بیان "سرودبمستاں" ہُوا، بیٹے نے کہا: مناسب یہ ہے کہ اب چلیے۔ ایسا مُلکِ مالا مال، یہ دولتِ لازوال ہاتھ سے نہ دیجیے، نصیبِ دُشمناں نہ کیجیے۔ مِجِسٹن نے کہا: خیر ہے باباجان! کیسا آنا، کیسا جانا! یہ بھی ایک فسانہ تھا جو تم نے کہا، ہم نے سُنا؛ اور وہ بھی خوابِ پریشاں تھا جو تو نے دیکھا۔ اس کو یاد رکھ، لا اعلم :

ایامِ وِصال و صُحبتِ سیم تناں
در عالمِ خواب اِحِتلامے شد و رفت

بیٹے نے جواب دیا: آپ سا عقل مند ایسا کلمہ فرمائے تو نہایت بعید ہے۔ دُنیا میں تین معرکے ہیں: زر، زمین، زن؛ یہ سامان جمع ہیں؛ اگر آپ نہ جائیں گے، فِدوی تنہا جائے گا، پھر نہ آئے گا۔ مِجِسٹن نے کہا: افسوس! ہم تجھے دانا جانتے تھے؛ اِلا، ہماری نادانی تھی۔ حُمُق کی مُقتضی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۶

تمہاری نوجوانی تھی۔ اے بھائی! کوئی نادان سے نادان عورت کی بات کا دھیان نہیں کرتا۔ یہ باتیں جب تک تھیں، جو تم اور وہ باہم تھے۔ وہ مؤنس تھی، تم ہم دم تھے۔ اب خیریت ہے۔ سعدیؔ :

زن دوست بود، ولے زمانے
تاجُز تو نیافت مہر بانے

چوں دربرِ دیگرے نشیند
خواہد کہ ترا دگر نہ بیند

مصرع : اسپ وزن و شمشیرِ وفادار کہ دید

ہر چند اُس نے سِر پھیرایا، مغز خالی کیا، یہ مُقدمہ اُس پر حالی کیا: وہ بے مغز نہ سمجھا۔ مُصحفیؔ

مُصحفیؔ! سؤد نصیحت کا نہیں عاشق کو
میں نہ سمجھوں تو بھلا کیا کوئی سمجھائے مجھے

ناچار مِجِسٹن نے کہا: تم جب تک ذلت نہ اُٹھاؤ گے اور ہمیں خراب نہ کروگے؛ اس حرکتِ بے جا سے باز نہ آؤ گے، نہ چین لُو گے۔ اُسی دن مِجِسٹن سامانِ سفر دفست کر، ساٹھ جہاز معِ اسباب اور چند مُشیر خوش تدبیر ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ عقل کے دشمن بیٹے کو ساتھ لیا۔ چند روز میں ہوا جو مُوافق تھی، وہ جزیرہ ملا۔ جہازوں کو لنگر ہوا۔ مِجِسٹن کا بیٹا اُترا۔ مگر جہاں ویرانہ، بوم و غُول کا آشیانہ تھا، وہاں بستی دیکھی۔ اور جس جگہ بیہڑ تھا، اُسے ہموار پایا، بلندی نظر آئی، نہ پستی دیکھی۔ دشت مُصفیٰ، آدمی ہر سمت سرگرمِ کاروبار، شہر پناہ تیار۔ اسے تعجب ہوا، سمجھا کہ میں بھول گیا۔ کسی سے پوچھا: اس شہر کا نام کیا ہے؟ والی مُلک کون سا ہے؟ وہ بُولا: مدت سے یہ مُلک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۷

بہ سببِ آفتِ آسمانی اُجاڑ ہو گیا تھا۔ رِعایا برایا، بلکہ بادشاہ بھی نہ بچا تھا، فقط بادشاہ کی بیٹی باقی تھی۔ اب برس دن سے اُس نے شوہر کیا ہے۔ شہر از سرِ نو آباد ہوا، نیا طرز ایجاد ہوا۔ زمین یہاں کی زر رِیز، چشمے سرد و شیریں، ہوا فرحت انگیز، ٹھنڈی ہے۔ عورت نے بسایا ہے۔ اس باعث سے نام اس کا شہ زادی منڈی ہے۔

مِجِسٹن نے یہ ماجرا سُن کر بیٹے سے کہا: خوش تو بہت ہوئے ہو گے!لُو سیدھے پِھر چلو، یہاں نہ ٹھہرو۔ اُس نے کہا: اتنی سفر کی صُعوبت اُٹھائی، اُس کی صورت بھی نظر نہ آئی۔ دو باتیں کر لوں تو پھر چلوں۔ مِجِسٹن نے کہا: یہ مصیبت کچھ نہ تھی، جو بات کرنے میں ایذا اُتھے گی، وہ کسی کی کب مانتا تھا، عورت کو اپنے اوپر فریفتہ جانتا تھا؛ اُنہیں لوگوں سے پھر پوچھا: شہ زادی کبھی سوار بھی ہوتی ہے؟ کسی سے دوچار بھی ہوتی ہے؟ وہ بولے : روز ہر گلی کوچے میں آتی ہے، دیکھ بھال کے چلی جاتی ہے۔ غرض کہ سواری کا وقت دریافت کر، لڑکے کا ہاتھ پکڑ کے سرِ راہ جا کھڑا ہوا؛ کہ شہ زادی شبدِیز کو مہمیز کرتی آ پہنچی۔ یہ پُکارا: ہم نے ایفاے وعدہ کیا، حاضر ہوئے، آئے، اور لڑکا بھی فضلِ الٰہی سے سلامت موجود ہے، ساتھ لائے؛ کیا ارشاد ہوتا ہے؟ اُس نے بے گانہ وار، جیسے کسی اجنبی کو کوئی دیکھتا ہے، گھورا؛ مگر جواب کچھ نہ دیا، چلی گئی۔ یہ خفیف گھر پھرا۔

مِجِسٹن نے حال پوچھا، کیا گزری؟ یہ بولو: ملاقات نہ ہوئی، کل پھر جاؤں گا۔ اُس نے کہا: صُبح کا جانا؛ رُوزِ سیاہ، شامِ غم دکھائے گا؛ بُھور ہو جائے گی، بہت پچھتائے گا۔ اُس نے نہ مانا۔ دوسرے رُوز بیٹے کو سکھایا کہ جب سواری قریب آئے، گھوڑے سے لِپٹ جانا اور یہ زبان پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۸

لانا کہ دُنیا کا لہو سفید ہو گیا۔ مہرِ مادری سے محبتِ پدری میں لطف زیادہ پایا کہ ہمیں ساتھ بہ آرامِ تمام لیے پھرتا ہے؛ تم بات بھی نہیں پوچھتی ہو، بلکہ پہچانتی نہیں۔ جس دم سواری قریب آئی؛ یہ تو بہت جلا تھا اور سمجھ چکا تھا کہ کھیل بگڑ گیا، کہا: شہ زادی! بات کو رُوکو، شیروں کا نعرہ سُن لو۔ وہ خود تو رُکی تھی، باگ بھی خود بہ خود رک گئی۔ بشرِ مِجِسٹن نے اور تو کچھ نہ کیا، یہ مُسدس شروع کیا، مُؤلف

یاد ایام، کہ نفرت تھی زمانے سے تجھے
ہوتی وحشت تھی بہت غیر کے آنے سے تجھے

خوف آتا تھا کہیں آنے سے جانے سے تجھے
مکر تھا یاد، خبر تھی نہ بہانے سے تجھے

بے دھڑک غیر سے باتوں کا کبھی طور نہ تھا
ہمیں ہم تھے، تری صُحبت میں کوئی اور نہ تھا

کبھی چُوٹی کی خبر تھی نہ تھا کنگھی کا خیال
بارہا اُلجھے ہی رہتے تھے ترے سُلجھے بال

پان کے لاکھے سے اور مسی سے ہوتا تھا ملال
مجھ کو افسوس یہ آتا ہے کہ گُذرا نہیں سال

ایسی کیا بات تیرے دل میں سمائی ظالم!
دفعتہً سب وہ رہ و رسم بُھلائی ظالم!

تھی لگاوٹ ہی تجھے یاد نہ خُلطا سب سے
گرم جُوشی کا بھلا کب تھا یہ لپکا سب سے

بیٹھا کُونے میں ہر دم تجھے تنہا سب سے
تجھ کو لگ چلتے کبھی ہم نے نہ دیکھا سب سے

اب تو ٹٹی میں کیا چِھید، غضب تو نے کیا
کُھل گیا سب پہ ترا بھید، غضب تو نے کیا

شُکر صد شُکر، ہوئی جلد رہائی تجھ سے
اب تو تاحژر مُکدر ہے صفائی تجھ سے

وضع اپنی نہیں، کیا کیجیے بُرائی تجھ سے
نہ ملیں پر، جو کہے ساری خُدائی تجھ سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۹

بہ خُدا، ملنے سے ہم ہاتھ ترے دُھو بیٹھے
اُٹھو بس جاؤ، تمہیں کُھول کے دل رُو بیٹھے

سوچ اکثر ہے مگر دل یہ ہمارا کرتا
گرچہ حیوان سے تو ربط گوارا کرتا

ایسا بدنام تو وہ بھی نہ بچارا کرتا
بحرِ اُلفت سے نہ اس طرح کنارا کرتا

مُفت لی پیارے! زمانے کی بُرائی ہم نے
سخت اوقات یہ بیہودہ گنوائی ہم نے

اب قسم کھاتا ہوں لُو، دل نہ لگاؤں گا کبھی
ذلت و رنج نہ اس طرح اُٹھاؤں گا کبھی

گر طرح دار بھی اس دہر میں پاؤں گا کبھی
اُٹھ کھڑا ہوں گا، نہ میں پاس بٹھاؤں گا کبھی

موسم اب دل کے لگانے ہی کا، جانا، نہ رہا
ربط کیا خاک کریں ہم، وہ زمانا نہ رہا

بر زبان یاروں کے یہ ذکر رہے گا ہر بار
گُو کہ عاشق تھا، مگر تھا یہ بڑا غیرت دار

دیکھ بد وضع، کیا دیکھیے ایسا انکار
سر پٹک مر گئے سب، پر نہ ملا وہ زنہار

کرے معشوق کسی سے تو دغا ایسی کرے
پیچ کرے بات کی عاشق، تو بھلا ایسی کرے

یہ سُن کر وہ شرمندہ ہوئی۔ پھر لڑکا گُھوڑے سے لیپٹا۔ یہ بے چارہ نادان، اُن باتوں کا سود و زیاں کچھ نہ سمجھا؛ جو کچھ باپ نے سکھایا تھا، کہنے لگا۔ جب کہہ چُکا؛ شہ زادی نے تپنچہ قُبؤر سے کھینچ لڑکے پر جُھونک دیا۔ دھم سے گر پڑا؛ دایہ اجل نے کنارِ عاطفت میں اُٹھا، اہل قُبور سے ملا دیا۔ پھر باگ اُٹھا چل نکلی۔ مِجِسٹن کے بیٹے نے بہت خاک اُڑائی،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۰

بیٹے کی لاش باپ کو دکھائی۔ اُس نے کہا: ہماری بات جو سُنتا تو کیوں سر دُھنتا! وہ بدنصیب دشمنِ عقل بولا: صبح اختتام ہے؛ جو ہونا ہے، ہو جائے گا۔ مِجِسٹن نے کہا: تو اپنا بھی حال ایسا ہی بنائے گا۔ دمِ سحر جب وہ چلا؛ مِجِسٹن کا جہ نہ رہ سکا، ساتھ ہوا۔ جس دم شہ زادی کی سواری پاس آئی، باگ پکڑ لی۔ ہنُوز زبان نہ ہلائی تھی، شہ زادی نے کہا: اے مِجِسٹن! ہم نے سُنا تھا کہ تو مردِ جہاں دیدہ، سرد و گرمِ رُوز گار چشیدہ، تجربہ رسیدہ ہے؛ مگر افسوس! بہ ایں ریش و فش پیرِ نابالغ ہے۔ تو نے سُنا نہیں، لا اعلم :

زحادثاتِ جہاں بس ہمیں پسند آمد
کہ خوب وزِشت، بد و نیک در گُذر دیدم (۱)

اس پیرانہ سالی میں تجھ پر ہزار سانحے گزرے ہوں گے؛ کچھ الم و رنج کا مزہ، یا فرحت و خوشی کا نشہ باقی ہے؟ اے ناداں! دُنیائے دؤں کے مُعاملے بؤ قلمؤں ہیں۔ کس کس بات کو یاد کیجیے۔ کس کا غم، کس بات سے خاطر شاد کیجیے۔ اگر عقلِ رسایا یا کچھ فہم و ذکا ہو، تو دُنیا میں کافی ہے یہ بات: گُذشتہ را صلوات۔ مُصحفیؔ :

اے مُصحجفیؔ! میں رُوؤں کیا پچھلی صُحبتوں کو
بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئے ہیں (۲)

یہ کہہ کر گھوڑا چُھچکارا کہ پھر سلسلہ جُنبانی اس امرِ بے معنی کی مؤجب مضرتِ جاں جاننا۔ مِجِسٹن نے بیٹے کو سلام کیا، اور نہ کچھ کلام کیا۔ وہ بھی نُطفۂ ضعیف کا پیدا، بوڑھے باپ کا بیٹا؛ محجؤب وطن پھرا، جیتے جی باپ سے آنکھ چار نہ کی۔

یہ جُملہ اُس انگریز نے تمام کر کے کہا: مطلب اس سمع خراشی سے یہ ہے کہ آدمی وہ بات نہ کرے جس کا حُصول ذلت و خفت ہو۔ کہو اب کیا کہتے ہو؟ یہ قصہ سُن کر وہ فرہاِ بیسُتؤنِ عشق شیریں زبانی سے یہ کہنے لگا : یہ سب میں سُنا مگر بہ قولِ اُستاد :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۱

کب تلک جیوں گا میں، موت ایک دن آنی ہے
ہجر میں جو آ جاوے، عین مہربانی ہے

سب جلسہ سر پٹک کر اُتھ کھڑا ہوا، کہا: جب یہ جان گنوائے گا، تب جھگڑا جائے گا۔ آخر کار جب اُس کا حال ردی ہوا؛ دوستوں کا چٹھیاں لکھ کر جمع کیا، کہا: دُنیا مقام گُذراں ہے۔ جو ہے، رواں دواں ہے۔ کل اس مقام سے ہمارا کوچ ہے۔ یہ سرا سراسرپُوچ ہے۔ اگر ہماری وصیت بجا لاؤ گے؛ دُنیا میں نامل حشر کو بہ خیر انجام ہو گا۔ سب نے اقرار کیا کہ سرِ مؤ اس میں کمی بیشی نہ ہو گی، مطلق عاقبت اندیشی نہ ہو گی، جو جی میں ہو شوق سے کہو۔ اُس نے کہا: بعدِ انتقال ہمارا جنازہ تکلُف کا بنا کر بجرے کی چھت پر صندوقِ نعش دھر، باجے بجاتے؛ ہمارے معشوق کی کُوٹھی جو لبِ دریا ہے، دارِ فنا ہے، اُس کے نیچے سے لے جانا۔ اور دل میں یہ کہتا تھا، استاد

ساتھ وہ میرے جنازے کے لحد تک آئے (۲)
اے اضل! تیرا قدم مجھ کو مبارک ہووے

قصہ مُختصر، اُسی شب کو تڑپ کر اُس مریضِ فرقت کا ہجر میں وصال ہوا، سراے فانی سے انتقال ہوا۔ گُویاؔ :

مرنے کو بھی لوگ کہتے ہیں وصال (۳)
یہ اگر سچ ہے تو مر جاتے ہیں ہم

مُؤلف :

مر کے حاصل کیا فرقت ہی میں لُو نامِ وصال
جان دی ہم نے، مٹایا ہے خلش ہجراں کا

صبح کو یہ خبر عام ہوئی کہ سوداگر بچی کے عاشقِ محروم، ناکام کا کام تمام ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۲

مر گیا۔شُدہ شُدہ سوداگر کو اور اُس ماہ پیکر کو یہ حال معلوم ہوا۔ جذبِ محبت سے حال تغییر ہوا، مگر ضبط سے کام لیا، دلِ بے قرار کو تھام لیا۔ انگریز جمع ہو، بہ صد پریشانی وصیت بجا لائے۔ جنازہ درست کر، بجرے کی چھت پر دھر؛ لباس سب نے سیاہ کیا، نالہ و فریاد کر کے حال تباہ کیا۔ سِر ننگے، غُل مچاتے، باجے بجاتے چلے۔ عجب سانحہ تھا کہ ہزار ہا زن و مرد کنارے کنارےگِریاں چلا آتا تھا۔ صندوقِ نعش کی طرف دیکھا نہ جاتا تھا۔ اُسی دن سے آج تک اندوہ میں دریا دریا اشک بحرِ عُماں کی چشم سے رواں ہے۔ مثلِ سیماب بے قرارانہ دواں ہے۔ اور جسے احباب حباب کہتے ہیں؛ یہ فرطِ قلق سے ہر مُحیط کی چھاتی میں پھپۃولا پڑتا ہے اور پھوٹتا ہے،، موجوں سے تلاطُم نہیں چھوٹتا ہے۔ ماہیانِ بحر کا خنجرِ الم سے حنجر یعنی گلا زخم دار ہے، سِنانِ غم سینے کے پار ہے۔ ساکنانِ دریا کو بس کہ شمشیرِ عشق کا خوف و خطر ہے، اس ڈر سے ہر سنگ پُشت کی پُشت پر سپر ہے۔

جس وقت اس حالِ خراب سے جنازہ اُس کی کُوٹھی تلے آیا اور فرنگیوں نے شُور و غُل زیادہ مچایا؛ اُس زندۂ جاوید نے بہ آوازِ بلند سُنایا، اُستاد :

اے فلک! آخری پھیرا ہے، نہ تجھ سے گر اور (۱)
اُس کے کوچے میں جنازہ مرا سنگین تو ہو

اُس وقت وہ ماہ سیما کشِشِ دل اور تپشِ مُتصِل سے مُطلع ہو؛ دیوانہ وار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۳

بے قرار کُوٹھے پر چڑھی اور بے تابانہ پوچھا کہ یہ لاشِ دل خراش کس جگر پاش پاش کی ہے کہ حاجِبانِ بارگاہِ عشق سے صدا "دؤر باش دؤر باش" کی ہے۔ وہ سب بولے: عجب ماجرا ہے! یہ کُشتہ تمہارا ہے۔ رنجِ مُفارقت نے آپ کے اسے بے اجل مارا ہے۔ افسوس کہ اس بے کس نے جان دی اور تم کو مُطلق خبر نہ ہوئی! اور کسی شخص نے عمداً اُسے سُنا کر یہ شعر پڑھا، جُرأتؔ :

مُکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھب نکالا ہے (۱)
سبھوں سے پوچھتا ہے: کس نے اس کو مار ڈالا ہے؟

یہ باتیں سُن کر، سِر دُھن کر؛ دفعتہً نعرۂ جاں سُوز، آہِ دل دُوز سینۂ بریاں سے کھینچ، آتشِ غیرت میں بُھن کر کود پڑی۔ عشق کا نشانہ دیکھیے: صندوقِ نعش پر گِر، ٹکڑے ٹکڑے مثلِ جگرِ عاشقِ زار ہُو، خوابِ مرگ میں سُو، بختِ خُفتۂ عاشق جگایا؛ کشش محبت نے اس طرح بچھڑوں کو ملایا۔ دیکھنے والے تھرا گئے، دل گُدازُوں کو غش آ گئے۔ شہر میں یہ چرچا گھر گھر ہوا، منزلُوں یہ اخبار مُشتہر ہوا۔ اُس کے ماں باپ نے بہت سی خاک سر پر اُڑا، دونوں کو پیوندِ زمیں کیا۔ اس عشقِ فتنہ انگیز نے کیا کیا نہیں کیا! تہِ خاک ہجر کے ماروں کو، بے قراروں کو قرار آیا۔ ہزارہا شخص دیکھنے کو سرِ مزار آیا، مطابقِ قولِ میر تقیؔ :

حیرتِ کارِ عشق سے، مردُم
شکلِ تصویر، آپ میں تھے گُم (۲)

کام میں اپنے عشق پکا ہے
ہاں، یہ نیرنگ ساز یکا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۴

جس کو ہو التفات اُس کی، نصیب
ہے وہ مہمانِ چند روز، غریب

ایسی تقریب ڈھونڈھ لاتا ہے
کہ وہ ناچار جی سے جاتا ہے

کون محروم وصل یھاں سے گیا
کہ نہ یار اُس کا اِس جہاں سے گیا

اپنی قدرت جہاں دکھاتا ہے
اس سے جو کچھ کہو سو آتا ہے

پھر یہاں سے خامۂ مُصیبت نگار
حالِ ملکۂ زار لکھتا ہے کہ آخر جی

بتنگ ہُوا، تپِ دوری سے یہ ڈھنگ ہوا، اُستاد :

لگے زمین پر اب سب اُتارنے ہم کو
یہ دن دکھائے ترے انتظار نے ہم کو

فراق میں ترے، بن موت اب تو مارا ہے
تڑپ تڑپ کے، دلِ بے قرار نے ہم کو

جب اپنا، آہ، دمِ نزع کنغھ بیٹھ گیا
تم آئے بالیں پر اُس دم پکارنے ہم کو

صبح سے تا شام ٹکٹکی جانب در و دستِ تاسُف بر سر اور دیوانوں کی طرح یہ کلمہ زبان پر، اُستاد :

زبس کہ رہتا ہے آنے کا اُس کے دھیان لگا (۲)
صداے در پہ ہے در پردہ اپنا کان لگا

بہ یادِ زُلف، نہ تا دؤدِ آہ سب پہ کُھلے
میں مُنہ پر اس لیے رہتا ہوں پیچوان لگا

ہزار خار ہو مٔے تجھ سے، عندلیب! یہاں
یہ بے ثبات چمن ہے، نہ آشیان لگا

آخر کثرتِ انتظار سے نظر کمی کرنے لگی۔ اور جانِ زار، تڑپنے سے دلِ بے قرار کے، برہمی کرنے لگی۔ یہ نوبت ہوئی، شعر :

گئے دن ٹکٹکی کے باندھنے کے
اب آنکھیں رہتی ہیں دو دو پہر بند (۳)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۵

اُس وقت کششِ محبتِ ملکۂ مہر نگار نے جانِ عالم کے دل کو بے چین کیا، خیال آیا کہ خُدا جانے صدمۂ فُرقت سے اُس کا کیا حال ہو گا! دل نے کہا: جینا وبال ہو گا۔ گھبرا کر دست پاچہ ہوا، عیش و نشاط بھولا؛ یہ تازہ گُل پھولا۔ انجمن آرا سے کہا: زیادہ طاقتِ مُفارقتِ احباب دلِ بے تاب کو، اور گوارا دوریِ وطن مجھ خستہ تن کو نہیں؛ آج بادشاہ سے رُخصت خواہ ہوں گا۔ وہ بہ ہر حال اطاعت اور رضا اس کی جمیع اُمور پر مُقدم جانتی تھی، کہا: مجھے بھی تمنائے سیرِ کُوہ و بیاباں، بے بیاں ہے۔

شہ زادہ مُوافقِ معمول دربار میں آیا اور سلسلۂ سُخن بہ طلبِ رُخصتِ وطن کھول کے، عزمِ بالجزم سُنایا۔ بادشاہ محزؤن و غم ناک ہُو فرمانے لگا: یہ کیا کہا، جو کلیجا مُنہ کو آنے لگا! جانِ من! تابِ جُدائی نہیں، رُخصتِ بادیہ پیمائی نہیں۔ اگر خواہش سیر ہے، تو فِضا اس نواح کی جا بہ جا مشہور ہے۔ خزانہ موجود، فوج فرماں بردار، مُلک حاضر، میری جان نثار؛ اگر منظور ہے۔ حکمِ سفر، اجازتِ دوری بہت دور ہے۔

جانِ عالم نے دست بستہ عرض کی: اے شہر یارِ باوقار، پُر تمکیں! برس دِن میں حُضور کو مجھ غمگیں سے یہ محبت ہوئی کہ مال، مُلک، سلطنت، بلکہ جان تک دریغ نہیں؛ وائے بر حالِ مادر و پدر سُوختہ جگر! جنہوں نے لاکھ منتوں، کرو مُرادوں سے، دن کو دن نہ رات کو رات جان کر، سُولہ سترہ برس دُنیا کی خاک
 
Top