شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۵

ہو۔ کبھی کہتا تھا : واہ، قسمت کی خوبی! پہر بھر کا عرصہ ہوا، گھڑی نہیں ڈوبی! ہُوش کہاں بجا تھا، مُکرر پوچھتا: ابھی کیا بجا تھا؟ اُدھر انجمن آرا بھی جمائِیاں لیتی تھی، تکیے پر سِر دھر دیتی تھی۔ جب یہ بھی تدبیر بن نہ آتی تھی؛ لوگوں کے چونکانے کو اؤنگھ جاتی تھی۔

غرض کہ خُدا خُدا کر وہ دن تمام ہوا، نمؤد وقتِ شام ہوا۔ عرؤسِ شب نے مقنعۂ مہتاب سے رؤپوشی کی، مشتاقوں کو فرصت ملی گرم جُوشی کی۔ لوگ آنکھ بچا کر جا بہ جا کنارے ہوئے، دولھا دُلھن چھپر کھٹ میں ہم کِنار بے تابی کے مارے ہوئے۔ شادی کا رُوز، شباب کا عالم؛ مُشتاقوں کا بیٹھنا باہم۔ آنکھوں میں خُمار نیند کا، دل میں اِشتِیاق دید کا۔ عِطرِ سُہاگ اور فِتنے کی خوش بو۔ بُٹنے اور تِیل کی عجب مِیل کی مہک ہو سؤ۔ پھولوں سے پلنگ بسا، ادقمہ کسا۔ خود نشۂ عشق سے باختہ حواس، تمناے دل پاس، نہ کچھ دغدغہ نہ وسواس۔ ہنگامۂ صُحبت طرفین سے گرم؛ اُدھر شوق، اِدھر شرم۔ ایک طرف ولولۂ گرم جُوشی، ایک سِمت کثرتِ حیا سے مُنہ پر مُہرِ خموشی۔ بیان کرنا گُذشتہ حال کا، خیال لوگوں کی دیکھ بھال کا۔ یہ معمؤل ہے : اُس رُوز ہم سِنِیں تاکتی جھانکتی ہیں؛ لیکن اِن ڈروں پر چُپ نہ رہے، آہستہ آہستہ دونوں نے دُکھڑے کہے۔

جانِ عالم نے تُوتے سے ذِکر سُن کر در بہ در خراب خستہ ہو کر آنا، تُوتے کا بیٹھ رہنا، وزیر زادے کا صدمۂ فِراق سہنا؛ پھر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۶

طِلِسم کا پھنس جانا، جادوگرنی کا ستانا؛ بعد اِس کے نقشِ سُلیمانی لینا، وہاں سے چل دینا؛ بہ کُشادہ پِیشانی و خوش بیانی بیان کیا۔ مگر ملکہ مِہر نگار کی ملاقات، جگت رنگی کے حرف و حِکایات؛ اُس کی طبیعت کا آ جانا، اپنا بے اِعتِنائی سے چلے آنا؛ کچھ شرما کے، بات کو مطلب کی جا سے چبا چبا کے بیان کیا۔ یہ اکثر ہوا ہے کہ معشق کے رؤ بہ رؤ، جو اِس پر کبھی کوئی عاشق ہوا ہے، اُس کا ذکر کرتا ہے شِیخی بگھارتا ہے، کچھ جھوٹ اپنی طرف سے جُوڑتا ہے، دل کے پھیپُھولےتُوڑتا ہے۔ اِس کی شرح، گُو طؤل طلب ہے پر، عاشق مزاجوں پر مُنکشِف سب ہے۔

انجمن آرا نے جادوگرنی کے قصے پر تاسُف کیا۔ ملکہ کے مذکؤر پر بناوٹ سے ہنس دیا۔ پھر رؤکھی صورت بنائی، ناک بھوں سمیٹی، تیوری چڑھائی؛ مگر چلے آنے کے سہارے پر مسکرائی۔ اپنا بھی اِشتِیاق، لیے دیے، از رُوزِ ملاقات، محنت و مشقت کی قدر دانی سے، جادوگر کی لڑائی میں جاں فِشانی سے بیان کر کے کہا: اَلاِنسانُ عَبِیدُ الاِحسانِ۔ جب اِش طرح کے دو دو انچھر ہو چکے، دل کے ارمان کھو چکے؛ پھر دونوں بے ساختہ ہو، شرم و حیا کُھو ہم آغُوش ہوئے۔ رنج درکنار، غم و دردِ مُہاجرت فرامُوش ہوئے۔ مُؤلف :

یہ ہم کِنارِیِ جاناں سے تازہ لطف اُٹھا
گلے سے ملتے ہی، سب رنج درکنار ہوا

سینے سے سینہ، لب سے لب، ہاتھ پاؤں؛ بلکہ جتنے اعضاے جِسم ہیں،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۷

سب وصل تھے۔ مثل ہے : ایک جان دو قالِب؛ وہ ایک جان ایک ہی قالِب، غالب ہے کہ ہو گئے۔ اُستاد :

ایامِ وصل میں ہملپٹے ہیں جیسے اُس سے
یوں وصلی کے بھی کاغذ چسپاں بہم نہ ہوں گے (۱)

خواہش کو اِضطِرار، حیا مانِعِ کار، شرم بر سرِ تکرار۔ دونوں کے دم چڑھ گئے تھے، اندازے سے بڑھ گئے تھے۔ دست پُردی، ہاتھا پائی تھی، چُوریاں تھیں۔ جنبِ زرگری، گاو زُوریاں تھیں۔ شہ زادی موقِع پر ہاتھ نہ لگانے دیتی تھی۔ جب بے بس ہو جاتی تو چُٹکیاں لیتی تھی۔ گاہ کہتی تھی: اے صاحبِ! اِتنا کوئی گھبراتا ہے! دیکھو تو کون آتا ہے! کبھی خود اُٹھ کے دیکھتی بھالتی تھی، کوئی دم یوں ٹالتی تھی۔ آخرِ کار جب غمزہ و ناز کی نوبت بڑھ گئی، تھک کے ڈھب پر چڑھ گئی۔ غُنچۂ سربستۂ تمناے دراز، بہ حرکتِ نسیم وصل شِگُفتہ و خنداں ہوا۔ دُرِ ناسُفتۂ دُرجِ شہر یاری؛ رشکِ عقیقِ یمنیِ، غیرت دِہِ لعلِ بدخشاں ہوا؛ جیسا پیر دِہقاں، فردوسیِؔ سخُن داں نے کہا ہے، شعر :

چناں بُردو آورد و آورد و بُرد
کہ دایہ زحسرت پسِ پردہ مُرد

رشک و حسرت سے جگرِ صدف چاک ہوا، قطرۂ نیساں صدف میں گرا، دشمن کم بخت در پردہ ہلاک ہوا۔ تقاضاے سِن، الھڑپنے کے دن؛ سیر تو یہ ہوئی اُس وقت دونوں ناتجربہ کار، بادۂ اُلفت کے سرشار کیا کیا گھبرائے، ہزاروں طرح کے نئے نئے خیال آئے، کیفیت سب بھولی؛ جب دامنِ شب میں چاررِ پلنگ پر سفقِ صُبح پھولی۔ غرض کہ شرما کے اِستِراحت فرمائی، دلِ بے تاب نے تسکین پائی۔

ہنُوز پلک نہ جھپکی تھی، صُبح کا غُلغُلہ ہوا، نمؤدِ سحر ہوئی، خاص و عام میں شب کی خبر ہوئی۔ دمِ صُبح ایک سُرخ رؤ، دوسرا ژُولیدہ مؤ حمام میں داخل ہوئے۔ جو جو محرمِ راز، شریکِ ناز و نیاز تھیں؛ رات کی باتوں کے پتے رمز و کِنایے میں دینے لگیں۔ کوئی شرمایا، کوئی جُھنجھلایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۸

غمزہ و ناز ہر انداز میں رہا۔ اُس وقت قہقہے کا شُور آسمان پر پہنچایا، جب خوانوں میں پنجیری اور شیشوں میں تنبُول آیا۔ الغرضِ نہا دُھو خاصہ نُوش فرمایا۔ جانِ عالم بادشاہ کے حُضور میں ایا، خِلعتتِ فتح پایا۔ اب اُمؤراتِ سلطنت بہ مشورۂ شاہ زادہ ہونے لگے۔

بعد رسم چوتھی چالےکے؛ لبِ دریا ایک باغ بہت تکلف کا، نشاط افزا نام، بادشاہ نے رہنے کو عِنایت کیا۔ اگر اُس باغ کی تعریف رقم کروں، شاخِ زنبق و نرگس کی ٹہنی کو لاکھ بار قلم کروں۔ اِلا، خِضر کی حیات، رِضواں کا ثبات درکار ہے؛ نہیں تو ناتمام رہے، لکھنا بےکار ہے۔ سو بار خِزاں جائے، بہار آئے؛ ایک پڑی کی روِشِ صفا تحریر نہ ہو سکے، خامۂ مانی پِھسل جائے۔ رشکِ گُلزارِ جِناں، ایک تختۂ فِردوس سا کئی کُو کا باغِ بے پایاں۔ برگ و بار، گُل اُس کے جورِ خزاں سے آزاد بِالکل۔ نہ بلبل پر ستِم باغباں، نہ خوفِ صیاد؛ عجائِب غرائِب چہچہے، نئے رنگ ڈھنگ کے تارنے یاد۔ جتنے دُنیا کے مِیوے ہیں، تر و تازہ ہمیشہ تیار۔ سرسبز پتے، خوش رنگ پھول، پھل مزے دار۔ گُل تکلیف، خار سے بری۔ جہان کی نعمت ہر تختے میں بھری۔ روِش کی پٹرِیوں پر مِنہدی کی ٹِٹیاں کتری ہوئی برابر۔ چمن میں وہ وہ درخت پھلےپھولے، جسے دیکھ کر انسان کی عقل بھولے۔ پھولوں کی بوے خوش سے دل و دِماغ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۹

طاقت پائے۔ جو پھل نظر سے گزرے، بارِ خاطِر نہ ہو؛ ذائِقہ زبان پر، مُنہ میں پانی بھر آئے۔

نہریں ہزار در ہزار، پُر از آبشار۔ گِرد چرِند و پرنِد خوب صورت، قطع دار۔ باغبانِیاں پری زار، حؤر وش، کم سِن، مِہر لِقا۔ بیلچے جواہر نِگار ہاتھوں میں۔ ہر ایک آفت کا پرکالہ، دل رُبا، مہ سیما۔ کُنوِیں پُختہ، جڑاؤ چرخی، رسے کلابتؤن کے۔ دُول وہ کہ عقل دیکھ کر ڈانواں ڈُول ہو۔ چرسے پر نازکت برسے۔ بیل کے بدلے نیل گاے کی جُوڑِیاں۔ آہؤ جن کے رؤ بہ رؤ چِہ کارہ، باغبانِیاں مۃ پارہ۔ زربفت کے لنہگے قیمت کے منہگے۔ شبنم کے نفیس دوپٹے مُغرق۔ مسالے کی کُرتی، انگیا۔ چھڑے پاؤں میں: طِلائی، واچھڑے۔ کان کی لو میں ہیرے کی بِجلی: برق دم، سب کی آنکھ جس پر پڑے۔ کوئی ڈُول کو سنبھال ٹپا، خیال گاتی۔ کوئی شعرِ برجستہ یا ہندی کا دُوہا اُس میں مِلاتی، چِھیڑ چھاڑ میں چُٹکی لےلے اُچھل جاتی۔

ایسے باغِ پُر بہار میں جانِ عالم اور انجمن آرا ہاتھ میں ہاتھ، پریوں کا اکھاڑا ساتھ، دین و دُنیا فرامُوش، ہر دم نُوشانُوش، باعیش و نشاط اوقات بسر کرنے لگا۔ جہان کا ساز و ساماں ہر دم مُہیا۔ شراب و کباب، چنگ و رباب کا جلسہ۔ خدمت گُزاریں پری طلعت، ماہ پیکر سب کام کو حاضر۔ جیسے کنھیا شامِ عشرت سحر کرنے لگا۔ نہ خیال اپنے شہر و دیار کا، نہ خوفِ نیرنگیِ فلک، نہ بیم و ہراس گردشِ روزگار کا، نہ ماں باپ سے مطلب۔ یار آشنا بھولے سب۔ نہ کچھ دھیان
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ ویب صفحہ۔۔۔ 245 اور داستان صفحہ 130

صَد و سی سلامت رہے با اَمن و اَماں
حُسن کی گرمیِ بازار مبارک ہووے
وہ بھی دن آئے جو سَہرا بندھے سر پر اس کے
سب خوشی سے کہیں ہر بار؛ مبارک ہووے
بعد شادی کے ، خدا دے کوئی فرزندِ رشید
ہم کہیں آکے؛ یہ دِل دار مبارک ہووے
خار کھاتے رہیں کم بَخت جو دشمن ہوں سُرورؔ
دوستوں کو گُل و گُلزار مبارک ہووے

بانِ جلسہِ شادی اس وطن آوارہ کا ۔ انکار کرنا اُس مِہر سیما، ماہ پارہ کا۔ ماں کا سمجھانا، اس کا شرما کے سر جھکانا۔ پھر سامان برات کا، مزہ لوٹنا پہلی رات کا۔
1
کدھر ہے تو اے ساقیِ گُل عِذار
میرا، غم سے، دل ہو گیا خار خار
پلا دے کوئی ساغرِ لالہ رنگ
جوانی کی لائے جو دل میں ترنگ
کہے کتنے صحرا نَوَردی کے رنج
بھلا کچھ تو شادی کا ہوں نغمہ سَنج
------------------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ۔۔۔۔ 250 اور داستان صفحہ 135

خیر ہے صاحبو! دُلھن سے صاف صاف کہوایا چاہتی ہو! دُنیا کی شرم و حیا نِگوڑی کیا اُڑ گئی! اتنا تو سمجھو، بھلا ماں باپ کا فرمان کسی نے ٹالا ہے، جو یہ نہ مانیں گی۔ الخاموشی نیم رضا۔ بوڑھے بڑے کے روٗ بہ روٗ اور کہنا کیا۔ یہ سن کے آتوٗ قدیم جس نے انجمن آرا کو ہاتھوں پر کھلایا تھا، پڑھایا لکھایا تھا، بِسمِ اللہ کہہ کے اٹھی، انجمن آرا کی ماں کو نَذر دی، مبارک باد کہہ کے ہنسنے لگی۔ محل میں قہاقِے مچے، شہہ زادی بناوٹ سے رونے لگی۔ نواب ناظِر ، بیگم کی نذر لے کر بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوا۔ نذر دی، خِلعَت مَرحَمَت ہوا۔ یہاں تو ارکانِ سلطنت اسی دن کے روز منتظر رہتے تھے؛ یہ مژدہِ فرحت افزا دریافت کر کے اٹھے، بہ مَراتب نذریں گزریں۔ توپ خانوں میں شَلَّک کا حکم پہنچا۔ نوبت خانوں میں شادیانے بجنے لگے۔ تمام شہر آگاہ ہوا کہ اب بیاہ ہوا۔ مبارک سلامت کی صدا زمین و آسماں سے پیدا ہوئی۔ شعر:
فلک پر یہ مبارک باد ہے اب کس کے ملنے کی 1
یہ ایسا کون بختاور ہے، جس کا بخت جاگا ہے
بادشاہ نے وزیرِ اعظم سے ارشاد کیا: جانِ عالم یہاں مسافِرانہ وارِد ہے؛ تم اُموراتِ محل میں مُستَعِد رہو، ہم اس کا سامان سر انجام کریں۔ وزیر آداب بجا لایا؛ خلعتِ فاخرہ ملا، ہاتھی، پالکی سے سرفراز ہوا۔ جانِ عالم کا یہ نقشہ تھا: چہرے پر بَشا شَت سے سُرخی، باچھیں تا بناگوش کھِلیں، فرحت کے باعث بندِ قبا ٹوٹے جاتے تھے، پھولے نہ سماتے تھے؛ مگر شرم کے باعِث
-------------------------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ۔۔۔۔ 251 اور داستان صفحہ 136

آپ سر نہ اٹھاتے تھے۔
بادشاہ نے رَمّال، نجومی، پنڈت، جَفرداں؛ جو جو علمِ ہیئت اور ہندسہ اور نجوم میں طاق، شُہرہ آفاق تھے؛ طلب کیے اور ساعتِ سعید کا سوال کیا۔ کسی نے قُرعہ پھینکا، زائچہ کھینچا، شکلیں لکھیں۔ کسی نے پُوتھی کھولی۔ کوئی حرفِ مُفرد لکھ کر حساب کرنے لگا۔ کوئی تُلا، بِڑچھِک، دَھن، مَکَر، کُمبھ، مین، مِیکھ، بِرَکھ، مِتُھن، کَڑک، سِنگھ، کَنِیّاں گن کر بچار کرنے لگا۔ کوئی مُشتری، مریخ، شمس، زُہرہ، عطارد، قمر، زحل کا ھال معِ گردشِ بُرج کہہ کے؛ حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، قوس، عقرب، جدی، دلو، حوت، میزان کی میزان دے کر، شمار کرنے لگا۔ کہا: بعدِ مدت قمر اور مشتری کا ، بہ طرزِ خلاف، حمل میں قِران ہے؛ اس ہفتے کا دن رات سَعدِ اکبر ہے۔ اور بِالاِتفاق ایک روز مقرر کیا۔ حضور سے، بہ قدرِ علم و کمال، خلعت اور انعام عنایت ہوا اور بعدِ جلسہِ شادی، بہ امیدِ دیگر و امدادِ وافِر امیدوار کیا۔
اِلقِصہ بہ موٗجِبِ اَحکامِ اختر شَناسانِ بلند بیں، فلک سیر، ماضی مستقبل کے حال داں، باریک خیال و مُنَجِمّانِ صدر نشینِ مسندِ کُنِشت و دَیر، حکم روایانِ خوش فال؛ مانجھے کا جُوڑا دلھن کے گھر سے چلا۔ مزدور سے تا فِیل نشیں، زن و مرد فرد فرد بالباسِ رنگیں۔ پُکھراج
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ ویب صفحہ 445 کتاب صفحہ 330

دور ہوں۔ جانِ عالم نے کہا: ایسی بات اس وقت واجِبات سے ہے، جلد کہہ۔

حکایَتِ ہوش رُبا، نقلِ عبرت خیز، حیرت افزا قاضیِ مُتَشَرِّ اور مُفتیِ صاحبِ وَرع کی۔ قاضی کا ایمان کھونا، بھاوج پر فریفتہ ہونا۔ اس کا انکار کرنا، قاضی کا مفتی میں بے گناہ سنگسار کرنا۔ اس کی جان بچ جانا، بادشاہ کا آنا۔ سب حال ظاہر ہونا، عورت کی پاک دامنی سے ماہر ہونا۔

تُوتے نے کہا: جناب امام جعفرِ صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا مُتَدَیِّن، نیک طینت، باصفا، سخی، شجاع، عابد، پارسا۔ اس کے عہدِ دولت میں دو2 بھائی تھے: ایک تو شہر کا قاضی، دوسرا مفتی۔ بہ ظاہر مردِ مسلماں، صاحبِ ایماں۔ مفتی کی بی بی نہایت شکیلہ، بہت جمیلہ تھی۔ اتفاقاً عِندَالضَّرورت مفتی کو بادشاہ نے کہیں دو چار منزل بھیجا۔ وہ اپنی عورت، دمِ رخصت بھائی کو سونپ گیا۔ قاضی گاہ گاہ خبر کو اس عورت کے پاس جاتا تھا۔ پردہ اسی واسطے
--------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 446کتاب صفحہ 331

خوب ہوتا ہے۔ جتنا دنیا کا قصہ بکھیڑا ہے، سب آنکھوں سے دیکھا سنا ہے۔ وہ تو بہ درجہ حسیں تھی؛ شیطان عَلَیہ اللَّعن نے ورغلانا؛ قاضی کی آنکھ پڑی، فریفتہ ہوا۔ چند روز میں ولولہ طبیعت میں حد سے فُزوں، بلکہ قریبِ جنوں ہوا؛ مگر وہ عورت جیسی خوب صورت تھی، اس سے زیادہ عِصمت و عِفّت رکھتی تھی۔ ایسا حسن حسنِ اتفاق سے ہوتا ہے۔
قاضی نے ایک روز اس سے سوالِ وِصال کیا۔ اس نے اس اَمرِ بد سے اَزحد انکار کر کے، خوشامد کا کچھ نہ خیال کیا۔ قاضی سمجھا: یہ راضی نہ ہوئی اور نہ ہو گی۔ خِفَّت میں دو2 اندیشے ہوئے: ایک تو محرومیِ وِصال، دوسرے اِفشاے راز کا ملال؛ گھبرا کر بادشاہ سے عرض کی: دمِ رخصت میرا بھائی اپنی جُورو مجھے سونپ گیا تھا؛ اس فاحِشہ نے اس کی غیبت میں زِنا کیا، مجھے ثبوتِ کامل ہوا۔ بادشاہ نے مردِ مُتَشَرِّع سمجھ، صاحبِ زُہد و وَرع جان کر اختیار دیا۔ قاضی نے اس کو تنہا لے کر کر سمجھایا کہ اب تک خیر ہے، مجھ سے راضی ہو؛ نہیں، بڑا شَر ہو گا، بے سود تیری جان کا ضَرَر ہو گا۔ دل پر جَبر اِختیار کروں گا، تجھے سنگسار کروں گا۔ وہ عورت شیر صفت اس کی گیڈر بھَبکی سے نہ ڈری، مرگ پر راضی ہوئی۔ اس کم بخت شہوت پرست نے شہر کے باہر لے جا، اس کو سنگسار کیا۔ خلقِ خدا عبرت کُناں، خائف و لرزاں اپنے اپنے گھر پھری۔ وہاں حافِظِ حقیقی نے شیشہِ حیات اس نیک صِفات کا سنگِ ستمِ قاضی سے بچا لیا، ٹھیس نہ لگی۔
------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 447 کتاب صفحہ 332

خواہشِ بے جا میں ایسا ہی ہو جاتا ہے، عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ شب کو عورت پتھر سَرکا، ایک سِمت پِیادہ پا روانہ ہوئی۔
جنگل میں ایک ویرانی رہتا تھا، مررِ خدا پرست۔ بستی کو چھوڑ، اہلِ دُنیا سے منہ موڑ دَشت بسایا تھا، ویرانے میں گھر بنایا تھا۔ یہ جب وہاں پہنچی، اس حق پرست نے اس کی غریبُ الوطنی پر رحم کھایا۔ لڑکا اس کا خُرد سال تھا؛ اس کی خبرگیری، خدمت کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اس ویرانی کا ایک غلام سخت نُطفہِ حرام تھا، بدذات، گیدی۔ مَثَل مشہور ہے: لَا خَیرَ فِی عَبِیدی۔ رنڈی جوان دیکھ کر عاشق ہوا۔ بہت سی چاپلوسی کی، وہ ڈَھب پر نہ چڑھی۔ اس شَقی نے ویرانی کا لڑکا ذَبح کر کے، تُہمتِ قتل اُس عورت پر کی۔ اولاد کی محبت مشہور ہے۔ امیر ہو یا فقیر، اس میں مجبور ہے۔ ویرانی کو بہ شِدّت رنج ہوا؛ لیکن وہ صابر و شاکر تھا، عورت سے کچھ نہ کہا، بجز : رَضِینا بِالقَضَا۔ اور بیس 20 دینار زادِ راہ دے کر رخصت کیا۔
وہ بے چاری مصیبت کی ماری چل نکلی۔ ایک شہر میں وارِد ہوئی۔ بازار میں بھیڑ دیکھی، شور و غل برپا تھا، اور ایک شخص کو زنجیر و طوق میں پھنسا، کَشاں کَشاں لوگ لیے جاتے تھے۔ عورت نے پوچھا: اس سے کون سا جرمِ قَبیح سرزد ہوا، جو ایسی آفت میں مبتلا کیا۔ لوگوں نے کہا: یہ بیس دینار کا قرض دار ہے، ادا کی طاقت نہیں؛ اس کے بدلے یہاں کے سردار نے دار کا حکم دیا ہے۔ عورت کو رَحم آیا، وہی ویرانی کے دینار دے کر قید سے چھڑایا۔ وہ مّکار، بَدباطن، عَیّار تھا۔ رنڈی
----------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 448 کتاب صفحہ 333

جو خوب صورت دیکھی، جی بُھربُھرایا، کہ: تو تو میری مُحسِنہ ہے، میں تیرے ہمراہ رہوں گا، خدمت گزاری کروں گا۔ اس حیلے سے ساتھ ہوا۔
کچھ دور شہر سے نکلی تھی، راہ میں دریا ملا۔ یہ مدت سے نہائی نہ تھی، کپڑے بھی کثیف ہو گئے تھے؛ ایک طرف لباس دھو کر، نہا رہی تھی۔ ناگہاں ایک سمت سے دو جہاز وہاں آئے۔ اہلِ جہاز نے دیکھا: عورت قمر طَلعَت ہے، اسی حرام زادے سے حال پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس نے اپنی لونڈی بتایا۔ مُول تُول درمیان آیا۔ غَرض کہ مَبالِغِ خطیر پر بیچ کر، کسی بہانے سے جہاز پر چڑھا دیا، روپے لے کر چل نکلا۔ وہ دو2 سوداگر تھے، دونوں اس پر مائل ہوئے، قصے فساد حائل ہوئے۔ پھر یہ صلاح ٹھہری کہ بِالفِعل مال کے جہاز پر یہ رہے۔ جب اسباب بِک چکے، اس وقت عورت جسے قبول کرے، وہ لذّت حُصول کرے۔ جھگڑا مٹا دیا، اسے مال کے جہاز پر بٹھا دیا۔ ایک روز آندھی چلی، طوفان آیا۔ جس جہاز پر سوداگر تھے، وہ تو ڈوب گیا؛ مال کا جہاز اور یہ جاں باز سلامت رہی، مالک ہوئی۔ جِند عرصے میں جہاز اس شہر میں آیا جہاں سے یہ سنگسار ہو کر نکلی تھی۔
دو2 کلمے یہ سنو: جس شخص نے اس کو بیچا تھا، کسی تقریب سے وہ یہاں کے بادشاہ کا بخشی ہوا۔ اور ویرانی کا غلام، بہ مَدَدِ اَیّام پایہِ وِزارت پا گیا۔ اور مفتی صاحب سفر سے پھر کر، مفت جورو کے الم میں مبتلا تھے۔ جس دن جہاز اس شہر میں پہنچا، وہاں کے پیمبر کو حکمِ الہی آیا کہ ہمارا ایک خاص بندہ جہاز پر آیا ہے، یہاں کا بادشاہ؛ وزیر، بخشی اور
-------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 449 کتاب صفحہ 334

قاضی و مفتی کو لے کر اس کے پاس جائے، اور اس سال جو گناہِ صغیرہ یا کبیرہ اان سب سے عمداً اور سہواً سرزد ہوئے ہوں، اس کے رو بہ رو بیان کریں۔ جو وہ خطا معاف کرے، تو ہم بھی درگزریں؛ وگرنہ بلاے آسمانی، آفتِ ناگہانی اس زمین پر نازل کروں گا۔
پیمبر نے بادشاہ سے کہا۔ وہ سب کو ہمراہ لے کر، نبی کو گواہ لے کر جہاز پر آیا۔ عورت پردہ چھوڑ کر آ بیٹھی۔ تقریر شروع ہوئی۔ پہلے بادشاہ نے کہا: میں سِیَہ کار، اَز سَر تا پا گُنہ گار، مَعصِیَت کا پُتلا ہوں؛ مگر یہ خدشہ تازہ ہوا ہے کہ قاضی کے کہنے سے مفتی کو جورو کو بے تحقیقات رَجم کا حکم دیا۔ عوعرت بولی: غَفَرَ اللہُ لَکَ۔ یعنی بخشے خدا تجھے۔
پھر مفتی نے کہا: مجھے جورو کی طرف سے گمانِ بد ہے۔ اس نے کہا تو ابھی چُپ رہ، بیٹھ جا۔ پھر قاضی نے بیان کیا: مجھ سے بَدولتِ نفسِ امّارہ یہ حرکتِ ناکارہ ہوئی کہ بے جرم و خطا ایک بے گناہ کو سنگسار کیا۔ اس نے کہا: اللہ تیری مغفرت کرے۔ بعد اس کے وزیر، وہ ویرانی کا غلام آیا؛ ندامت سے سر جھکایا، کہا: یہ بتحریکِ شیطان اور جوشِ شَہوت، غلام سے جرم قبیح ہوا کہ آقا کا لڑکا مار ڈالا، صاحبِ عِصمت کا قصور ٹھہرایا، بوجھ اپنا اس پر ٹالا۔ وہ بولی: غفورُ الرّھیم۔ تجھے پر رحم کرے۔
جب بخشی آیا اور بیچنے کا ماجرا زبان پر لایا، عورت نے کہا: تو مُحسن کُش ہے، خدا تجھے نہ بخشے گا۔ اَلغرض بخشی کی جُرم بخشی نہ ہوئی۔ پھر وہ پردہ اٹھا کے باہر آئی، مفتی سے کہا: یہ سب بکھیڑا تو نے سُنا، تو نے
------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 450 کتاب صفحہ 335

مجھے پہچانا؟ یہ سب قصہ میری عفت کا ہے۔ آج تک خدا کے حِفظ و عِنایت سے میری عزت و آبرو بچی، اب خُلع کی امید وار ہوں۔ یہ مال و متاع تو اپنے صرف میں لا، میں تنہا گوشہِ عُزلت میں بیٹھ کے عبادتِ معبود کروں گی، اسی شغل میں مروں گی۔ یہ ماجرا دیکھ کر حاضرینِ صحبت، ناظرینِ جلسہ تھّرائے۔ بادشاہ سلامت مُنفَعِل گھر آئے۔ وہ عورت تو حُجرہ بنا کے طاعتِ یزداں میں مشغول ہوئی، دولتِ کونین حصول ہوئی۔
توتا یہ قصہ تمام کر کے بولا: جانِ عالم! جو لوگ ثابت قدم ہیں، ان کا ہر وقت اللہ یار ہے۔ ہر بحرِ بےکَنار سے ان کا بیڑا پار ہے۔ فرد:
نہ ہر زن، زن است و نہ ہر مرد، مرد
خدا پنج انگشت یکساں نکرد
یہ نقل سن کر شاہ زادے کا نشہ ہِرن ہوا۔ دونوں کی مَشَقّت اور ایذا اٹھانی، خانہ ویرانی، بادیہ پیمائی، عزیزوں کی جدائی یاد آئی۔ خوفِ خدا سے مِثلِ بِید کانپا۔ نَدامت سے عُذر کیا کہ حالتِ نشے میں جھَک مارا، قصور ہوا، اب یہ خدشہ دل سے دور ہوا۔ پھر ہنسی خوشی وہاں سے کوچ کیا۔

اب تماشا ہے نہ سَیر ہے، خاتمہ بِالخیر ہے۔ وطن پہنچنا اُس سَیّاحِ جہاں گرد کا آرام و چَین سے،
-------------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 451 کتاب صفحہ 336

بعدِ حُصولِ سعادتِ قدم بوس ملنا والدین سے۔ پھر فیروز شاہ کا جانِ عالم کو تخت و تاج دینا، آپ کوشہِ عُزلت لینا۔ اور قتل وزیر زادے کا، سزاے اعمال کو پہنچنا اُس حرام زادے کا۔

اَبیات:
چل اے تَوسَنِ خامہ منزل رَساں
کہ اب گھر پہنچتا ہے یہ کارواں
پھرا گھر کو شہ زادہِ خوش سِیر
جَھمَکِڑے کا عالم، بہت کرّ و فَر
وہ اس طرح پہنچا وطن کی طرف
بہار آئے جیسے چمن کی طرف
بری فکر رہتی تھی ہر صبح و شام
ہوئی فضلِ حق سے کہانی تمام
وہ بچھڑے تو سب ہو گئے ایک جا
ہوئے اپنے مطلوب سے ہم جدا
رہی شَرحِ جَورِ فلک نا تمام
سُرورِؔ حَزیں!تَوسَنِ خامہ تمام

غرض کہ شاہ زادہِ جانِ عالم منزل بہ منزل مسافت طے کر، مَعَ الخَیر وطن پہنچا۔ دو2 کوس شہر سے باہر خِیامِ ذَوِی الاِحتِرام اِستادہ ہوئے، لشکرِ ظفر پَیکر نے مُقام کیا۔ یہ خبر فُسحت آباد میں گھر گھر مشہور ہوئی کہ کوئی غنیم بے خوف و بیم فوجِ عظیم لے کر وارِد ہوا ہے، دیکھیے ہوتا کیا ہے۔ شہر کا یہ نقشہ تھا: جس روز سے جانِ عالم مَفقودُ الخَبر،
---------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 452 کتاب صفحہ 337

در بدر ہوا تھا؛ سُنسان، ویران، بے چراغ پڑا تھا اور بادشاہِ گِریباں چاک، سر پہ خاک، نہ تخت کی خبر، نہ سلطنت سے سَروکار، نہ ملک سے مطلب، نہ دربار سے غرض، دیوانہ وار، با دِلِ بے قرار محل میں پڑا رہتا تھا۔ نہ کسی کی سنتا تھا، نہ اپنی کہتا تھا۔ اور شہ زادے کی ماں بھی غمگین، اندوہ ناک، بے چین؛ دن رات غم کی حکایت، اندوہ کے بین، نصیب کی شکایت، لب پر شُور و شَین۔ خَلِشِ نَشترِ غم سے کوئی ساعت قرار نہ پاتی تھی، ہر وقت بلبلاتی تھی۔ یہاں تک دوریِ دِلبَند، مَہجورِیِ فرزند میں دونوں روئے تھے کہ آنکھیں ان عزیزوں کی یوسفِ گم گَشتَہ کے فِراق میں، دید کے اِشتِیاق میں ہَم چَشمِ دیدہِ یعقوب لعیہ السَّلام ہو گئی تھیں، بہ حکمِ خدا آیہِ وافی ہَدایہ: وَابیَضَّت عَینٰہُ مِنَ الحُزنِ فَھُوَا کَظِیمٌ۔ اور سچ ہے: فراقِ نورِ چشم میں نورِ چشم کب رہتا ہے۔ رات دن آنکھوں میں یکساں، ہر وقت سَراسیمہ و پریشاں؛ مگر اَرکانِ سلطنت، نمک خوارِ قدیم کوشش عظیم سے درپردہ ریاست کا نام سنبھالے تھے۔
جب وُرودِ لشکر بہ ایں کّر و فَر سُنا، وزیرِ اعظم کو جانِ عالم کے پاس حال دریافت کرنے بھیجا۔ بس کہ شہہ زادہِ با اِمتیاز کی مُفارَقَت کی عرصہِ دراز ہوا تھا؛ اس کے سوا وہ سامان، جاہ و حَشَم لشکر کا چَم و خَم، فوج ہزار در ہزار، اَنبوہِ بے شمار، خزانہِ لا اِنتہا دیکھ کر وزیر گھبرایا، اپنے شہہ زادے کا وہم و گماں نہ آیا۔ دست بستہ عرض کی: قبلہِ عالم! گردِشِ طالعِ و اژوٗں، نَیرنگیِ گَردونِ دوٗں سے وارِثِ تختِ سلطنت یہاں کا دَفعتہً گُم ہو گیا۔ بادشاہِ
--------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 453. کتاب صفحہ 338

آسماں جاہ ہمارا، مصیبت کا مارا، جگر گُوشے کی مُفارقت میں دامانِ صبر، گِرِیبانِ شَکِیب پارہ پارہ کر کے؛ نورِ نظر بھی اس اپنے قُرّۃُالعین، طاقتِ بَصَر کے ہجر میں گِریے کی نَذر کر چکا ہے۔ زیست بہ نام ہے، مر چکا ہے۔ ہَنُوز اُس عَینُ الکمال کے قدم کی خاک سُرمہِ چشمِ مُشتاقاں و کُخلُ الجَواہِرِ دیدہِ مُنتظِراں نہیں ہوئی۔ بعدِ رسمِ سلام حضور کو یہ پیام دیا ہے کہ اگر خواہشِ تخت یا تمناے تاج منظورِ خاطر ہے؛ بِسمِ اللہ، کل نہیں آج حاضر ہے؛ مگر سامانِ جنگ و جِدال، گرم بازارِیِ عرصہِ قتال، خوں رِیزیِ بندہ ہاے خدا ناحق، نارَوا ہے۔ مجھے تختِ سلطنت تختہِ تابوت سے بدتر ہے، اَلّا معاملہِ قضا و قَدَر سے مجبور فردِ بَشَر ہے۔ ہر چند جینے سے سخت جی بیزار ہے، لیکن مرجانے کا کسے اختیار ہے۔ شعر:
مرنے کو میں تو راضی ہوں، موت کو موت آ گئی
زندگی اب گلے پڑی، اس کی میں کیا دوا کروں
شرحِ سخت جان موٗجِبِ پریشانیِ کُوشِ حق نِیُوش جان کر طوٗل کو مختصر کیا۔ جانِ عالم نے یہ سن کر رو دیا۔ وزیر کو گلے سے لگایا، خِلعتِ فاخِرہ عِنایَت کی، پھر کہا: افسوس! تم نے گود کے پالے عرصہِ قلیل میں بھُلا ڈالے۔ بعدِ آداب و کُورنِش عرض کرتا کہ بَدَولَتِ کشِشِ اُلفتِ پِدَری و تاثیرِ دعاے سَحَری سے خانہ زادِ با مراد زندہ و سالم شَرَفِ آساں بُوس سے مشرف ہوا۔ اس وقت وزیر نے پہچانا، قدموں پر گرا۔ پھر سر اٹھا کر بے اجازت بھاگا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا، پکارا: مبارک ہو۔ اُستاد:
بوے یوسف سوے پیغمبرِ کَنعاں آئی 1
-----------------------------------------

ریختہ ویب صفحہ 454 کتاب صفحہ 339

اے شاہِ با اقبال و اے صاحبِ جاہ و جلال! بہ عنایتِ جامعُ المُتفَرِقین اور باعِثِ برکتِ دعاے مُہاجِرین وہ نَیَّرِ اَوجِ بَختیاری، کَوکَبِ دَرَخشِندہِ سِپہرِ شَہر یاری با فوج و لشکر اور مجمعِ حورانِ پری پیکر یہاں آیا اور اس اجڑے نگر کو آباد کیا، بسایا۔ مُشتاقوں کا دلِ اَلَم رَسیدہ شاد کیا۔ شُکر صَد شُکر نالہِ شب گیر با تاثیر تھا۔ بادشاہ کو تو مرتبہِ یاس حاسل تھا، وزیر سے یہ کلمہ فرمایا، میر تقی:
کوئی اور ہو گی، وقتِ سحر ہو جو مُستَجاب
شرمندہِ اثر تو ہماری دعا نہیں
وزیر نے مُکرّر عرض کی: بہ سَرِ اَقدسِ حضور، شبِ دیَجور ہماری یُمنِ قدم سے اس شمعِ انجمن افروزِ سُلطانی کے روشن ہوئی۔ ہر گلی اس شہرِ ویراں کی رشکِ گلشن ہوئی۔ اس گفتگو میں وزیر تھا کہ جانِ عالم تنہا داخل ہوا۔ محل میں محشر کا قیام ہوا، رونا پیٹنا مچا، رنڈیوں کا اِزدِحام ہوا۔ ماں بات نے گلے سے لگایا۔ شہہ زادہ بِالرّاسِ و العَین آداب بجا لایا۔ عیَن عنایتِ الہی دیکھیے، اسی دم دونوں کی آنکھوں میں بینائی آئی، جسم میں تاب و توانائی آئی۔ بادشاہ جلد سوار ہوا، بہوؤں سے لشکر میں جا کر دو چار ہوا۔ شہر والوں نے یہ ماجرا سنا؛ صغیر و کبیر، بَرنا و پیر دوڑے۔ دونوں لشکر جلو میں ہمراہ، آگے آگے جہاں پناہ، روپیہ اشرفی دو رویہ تَصدُّق ہوتا، محل سرا میں لا کر داخل کیا۔ جانِ عالم کی ماں نے انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار کو دیکھا، جان و دل دونوں پر نثار کیا، بہت سا پیار کیا۔ مبارک سلامت کی صدا در و دیوار سے پیدا ہوئی جس نے
---------------------------------------
 
Top