شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۶

کہاں انجمن آرا، کُجا جنگل کا حوض کا حوض! وہ اس میں کیوں کر آئی! وہ از خاندانِ شاہی تھی، یا شریکِ سلسلۂ ماہی، واہی تباہی تھی!

جانِ عالم کھسیانا ہو گیا، کہا: بات اور، مسخرا پن اور۔ کہاں کا ذکر کس جگہ لا کے ملایا۔ میری حماقت کا موقع خوب تمھارے ہاتھ آیا، جس کو سند بنایا۔ یہ تو سمجھو، شعر:

عشق ازیں بسیار کرد است و کُند
سُبحہ را زُنار کرد است و کُند

اُستاد :

کہتے ہیں جسے عشق، وہ از قسمِ جُنوں ہے (۱)
کیوں کر کہ حواس اپنے میں پاتے ہیں خلل ہم

بھلا کچھ اپنی باتیں تو یاد کرو، دل میں مُنصف ہو۔ ملکہ نے کہا: دیکھا! آپ شرمائے تو یہ کہانی لائے۔ میں تو رنڈی ہوں، ناقِص عقل میرا نام ہے، مردوں کا یہ کلام ہے۔ بھلا صاحب! اگر مجھ سے کوئی بے وقوفی کی حرکت ہووے؛ تعجب کی جا نہیں، ایسی بڑی خطا نہیں؛ لیکن شُکر کرنے کی یہ جا ہے کہ آپ کا مزاج بھی میرا ہی سا ہے۔ آخر یہ بات ہنسی میں اُڑ گئی؛ مگر وہ مکار ہر کوچ و مُقام میں وقت کا مُنتظر تھا۔ ایک رُوزِ غم اندُوز شہ زادے کا خیمہ صحرائے باغ و بہار، دشتِ لالہ زار مگر ہمہ تن خار خار، پُر آزار میں ہُوا۔ فضاے صحرا نے کیفیت دکھائی، پھولوں کی خوش بو دِماغ میں سمائی۔ جا بہ جا چشمے رواں دیکھ کے، یہ لہر آئی کہ تنہا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۷

وزیر زادے کا ہاتھ پکڑ لبِ چشمہ جا بیٹھا۔ کشی شراب کی طلب ہوئی۔ جس دم جانِ عالم کی آنکھوں میں سُرور آیا، اِختِلاط کا زبان پر مذکؤر آیا؛ اُس دغا شعار، پُر فن مکار نے وقتِ تنہائی، صُحبتِ بادہ پیمائی، نشے کی حالت غنیمت جانی، رُونے لگا۔ شہ زادے نے ہنس کر کہا: خیر ہے! وہ بولا: جُو جُو شرطِ رفاقت، حقِ خدمت دُنیا میں ہوتا ہے، غُلام سب بجا لایا؛ مگر محنت و مشقت، غیریبُ الوطنی، دشت نوردی کا عِوض خوب بھر پایا۔ جب آپ سا قدر داں بات کو چھپاوے، تو پھر اور کسی سے کس بات کی اُمید رہے۔

جانِ عالم نشے میں انجام کار نہ سُوچا، اُس فیلسؤف کے رُونے سے بے چین ہو گیا، کہا: اگر تجھے یہی امر ناگوار ہے تو سُن لے جو اسرار ہے: مجھے ملکہ کے باپ نے یہ بات بتائی ہے جس کے قالب میں چاہوں، اپنی رؤح لے جاؤں۔ اُس نے پوچھا: کس طرح؟ شہ زادے نے ترکیب بتا دی۔ جب وہ سب سیکھ چُکا، بولا: غُلام کو بے امتحان غلطی کا گُمان ہے۔ شہ زادے نے کہا: اِثبات اس بات کا بہت آسان ہے۔ اُتھ کر جنگل کی طرف چلا۔ چند قدم بڑھ کر بندر مُردہ دیکھا، فرمایا: دیکھ میں اس کے قالب میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر شہ زادہ زمین پر لیٹا، بندر اُٹھ کھڑا ہوا۔ وزیر زادے کو سب ڈھنگ یاد ہو گیا تھا؛ فوراً وہ کُور نمک زمین پر گرا، اپنی روح جانِ عالم کے قالبِ خالی میں لا، کھڑا ہوا اور کمر سے تلوار نکال، اپنے جسم ٹکڑے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۸

ٹکڑے کر کے دریا میں پھینک دیا۔ یہ غضب بڑا ہوا، شہ زادے کو نشہ کِر کِرا ہوا۔ سمجھا: بڑی خطا ہوئی، ازماست کہ برماست، خود کردہ را علاجے نیست۔ وہ کافِر بندر کے پیچھے دوڑا۔ شہ زادہ بچارا بھاگ کر درختوں کے پتوں میں چِھپا۔

پھر تو بہ دِل جمعیِ تمام وہ نُطفۂ حرام لہو کپڑوں پر چھڑک، بے دھڑک ملکہ کے خیمے میں گیا، رُویا پیٹا، کہا: اس وقت ظلم کا حادِثہ ہوا، میں وزیر زادے کے ساتھ سیر کرتا تھا؛ یکایک جنگل سے شیر نکلا، اُسے اُٹھا لے چلا۔ ہر چند میں نے جاں بازی سے شیر کو تہِ شمشیر کیا، زخمی ہوا؛ مگر اُسے نہ چھوڑا، لے ہی گیا۔ ملکہ نے تاسُف کیا، سمجھایا: قضا سے کیا چارہ! یہی حیلۂ مرگ اُس کے مُقدر میں تھا۔ پھر انجمن آرا پاس گیا، وہاں بھی یہی اِظہار کیا؛ اِلا، گھبرایا ہوا باہر چلا گیا۔ ملکہ، انجمن آرا کے خیمے میں آئی، وزیر زادے کا مذکور آپس میں رہا؛ لیکن ملکہ کو قِیافہ شناسی کا بڑا ملکہ تھا، پریشان ہو کر یہ کلمہ کہا: خُدا خیر کرے! آج بہت شُگونِ بد ہوئے تھے: صُبح سے دہنی آنکھ پھڑکتی تھی؛ راہ میں ہِرنی اکیلی رستہ کاٹ میرا مُنہ تکتی تھی، اپنے سایے سے بھڑکتی تھی؛ خیمے میں اُترتے وقت کسی نے چھینکا تھا؛ خوابِ مُوحِشچ نماز کے وقت دیکھا تھا۔ تم بھی فضلِ اِلٰہی سے عقل و شعور رکھتی ہو، آج کی حرکتیں شہ زادے کی غور کرو؛
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۹

خلافِ عادت ہیں، یا مجھی کو وہم بے جا ہے؟ انجمن آرا نے کہا: تم جانتی ہو وزیر زادے سے محبت کیسی تھی! رنج و الم بُرا ہوتا ہے، بدحواسی میں اور کیا ہوتا ہے۔

القِصہ، وہ شب ملکہ کے پاس رہنے کی تھی، اسے اندر کا حال کیا معلوم تھا؛ طبیعت کے لگاو سے انجمن آرا کے خیمے میں گیا۔ جس وقت پہر بجا، ملکہ اِنتظار کر کے وہاں گئی۔ دیکھا شاہ زادہ مُضطرب بیٹھا ہے۔ اس نے پوچھا: آج کہاں آرام کرو گے؟ وہ سُچک کر بولا: جہاں تم کہو۔ ملکہ نے کہا: یہیں سُو رہو۔ شہ زادے نے کہا: بہت خوب۔ یہ کلمہ بھی خلافِ دستور ظُہور میں آیا۔ اس کا "خوب کہنا" ملکہ نے بُرا مانا۔ انجمن آرا کا ہاتھ پکڑ اپنے خیمے میں لائی، رُرئی پیٹی، چلائی۔ انجمن آرا بولی: ملکہ! خُدا کے واسطے کچھ مُفصل بتا۔ وہ بُولی: غضب ہوا، قسمت اُلٹ گئی، شہ زادے سے چُھٹ گئی؛ خُدا کی قسم یہ جانِ عالم نہیں۔ وہ بھی شہ زادی تھی، گُو سیدھی سادی تھی، کہا : دُرُست کہتی ہو، بہت سی باتیں اس نے آج نئی کی ہیں۔ ملکہ نے کہا: خیر، اب جو ہو سُو ہو، تم یہیں سُو رہو۔ پھر جشنُوں، تُرکنُوں سے فرمایا: ہم سُوتے ہیں، تم درِ خیمہ پر مُسلح جاگو؛ اس وقت شہ زادہ کیا، اگر فرشتہ آئے، بار نہ پائے۔ یہ خبر سُن کر وہ نامرد ڈرا، اکیلے اور خیمے میں جا پڑا۔ ایک ڈر دو (۲) طرف ہوتا ہے۔ ملکہ نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۰۰

کہا: دیکھا! اگر جانِ عالم ہوتا، کبھی اکیلا نہ سُوتا، بے تامُل چلا آتا۔ بدمزگی کا باعث، خفگی کا سبب پوچھتا۔ اُسے کس کا ڈر تھا، اُس کا تو گھر تھا۔ انجمن آرا کہنے لگی: صورت تو وہی ہے۔ اُس وقت ملکہ نے ماجرا غیر کے قالب میں روح لے جانے کا دمِ رُخصت اپنے باپ کے بتانے کا مُفصل بتایا؛ پھر کہا کہ شہ زادے نے وزیر زادے کو یہ حال بتایا ہے۔ آپ تو خُدا جانے کس مصیبت میں مُبتلا ہوا، ہم کو موذی کے چنگل میں پھنسایا ہے۔ ہمیں رُوزِ اول اُس کی چتون پر بدگمانی کا شک آیا تھا، سامنے لانے کو منع کیا تھا، سمجھایا تھا۔ وہ نادان ہمارا کہنا خاطر میں نہ لایا، اُس کا مزہ پایا۔

القِصہ، وہ شب کہ شبِ اولینِ گُور تھی، رُونے پیٹنے میں کٹی۔ انجام کار کا اُس نابکار کے خوف سے تردُد و تفکُر رہا کہ دیکھیے شیشۂ نامؤس و ننگ سنگِ ظُلم سے کیوں کر بچتا ہے! اور یہ کہتی تھیں، اُستاد :

کسے تیغِ جفاے چرخ سے اُمید ہنسنے کی (۱)
جو ہووے بھی تو ہاں شاید دہانِ زخم خنداں ہو

اِسی فکر و اندیشے میں صُبحِ قیامت نمود ہوئی، سواری ڈیوڑھی پر موجود ہوئی، کوچ ہوا۔ خبرداروں نے اُس بنے شہ زادے سے عرض کی: یہ سر زمینِ غضنفریہ ہے، یہاں سے پانچ کُوس شہر ہے۔ حاکم وہاں کا غضنفر شاہ زِرہ پُوش ہے۔ سوار و پایدے کو سوا، لاکھ غلام جنگ آزمودہ، جرار حلقہ بہ گوش ہے۔ حُکم کیا: خیمہ ہمار شہر کے قریب ہو۔ کار پرداز حسبُ الارشاد عمل میں لائے۔ جب شہ زادیاں خیمے میں داخل ہوئیں، خود آیا۔ ادھر یہ بے چاریاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۵

تمام لشکر میں، از شام تاپگاہ، ہر ایک کے لب سے نالۂ جاں کاہ بلند رہا۔ جس وقت ماہ دمِ سرد بھرتا نقابِ سِیاہ رؤے تاباں پر ڈال کر غم کدۂ مغرب کی طرف روانہ ہوا اور آفتابِ جِگر سُوختہ مشرق سے نکل کر خدنگِ آہِ بے کساں کا نشانہ ہوا، ایک ابرِ بیرہ و تار نمود ہوا۔ آدمی سب خوف زدہ دیکھنے لگے۔ اُس ابر سے اژدہا خوں خوار، شُعلہ فشاں، آتش دہاں نکلا۔ ایک رنڈی اُس پر سوار، وہ بھی آتش بار، شہ زادے کے خیمے میں اُتری۔ جانِ عالم نے پہچانا کہ وہی جادوگرنی ہے، دل سے کہا: شہر اپنا دور رہا، موت قریب آئی، قسمت نے کس جگہلا کر نیرنگی دِکھائی! وہ بولی: جانِ عالم! کہو اب کیا قصد ہے؟ شہ زادے نے کہا: وہی جو تھا۔ اُس نے کہا: اب وہ نقشِ سلیمانی اور لوح پیر مرد کی نشانی کہاں ہے، جس کے بھروسے پر کودتے تھے! اگر زِندگی معِ لشکر درکار ہو، اور دُوش پر سِر نہ بار ہو تو ملکہ اور انجمن آرا سے انکار کرو۔ ہماری اطاعت اور محبت مُقدم جانو، جو کہیں مانو، ہم سے دار و مدار کرو۔ نہیں تو ایک میں سب کو بے گُور و کفن، طُعمۂ زاغ و زغن کر دوں گی۔ دشت لاشوں سے بھر دوں گی۔

شہ زادے نے کہا: ہماری لوحِ دل پر نقشِ اِرادتِ باری، جو حافظِ حقیقی ہے، کِلکِ قُدرت سے مُنقش ہے۔ عادت سے مجبور ہوں، بے وفائی کے کوچے سے دور ہوں۔ جو کہا سُو کہا، کیا جُو کیا۔ اگر قضا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۴

آئی ہے، مرنے سے کیا چارہ ہے؛ مگر جیتے جی بات جانی کب گوارا ہے۔ یہ سُن کر جل گئی، غُصے سے رنگت بدل گئی۔ کچھ بُڑ بُڑا کر جانِ عالم پر پھؤنکا۔ یا نصف پتھر تھا، اب حلق تک ہو گیا۔ حسرت و یاس سینے میں بھری تھی، تصویرِ آزری سی پلنگڑی پر بے حس، خالی دھری تھی۔ وہ تو اژدہے پر چڑھ کر اُڑی اور پکاری: اے اجل رسیدہ! آج کے دن اور رات کی مُہلت ہے؛ اگر صُبح کو بھی انکار کیا، تو یاد رکھنا، لشکر کا خون اپنی گردن پر لیا۔ یہ سُنا وہ تو ہوا ہوئی۔

اب یہاں کا حال سُنو۔ جب تک شہ زادہ آدھا پتھر تھا، تو ملکہ اور انجمن آرا اپنے اپنے خیموں سے گھبرا کر پکارتی تھیں، جانِ عالم جواب دیتا تھا۔ یہی آواز کا سہارا اُن کی زیست کا سبب تھا۔ اب تا حلق پتھر ہونے سے، وہ جرسِ قافلۂ گُم کردہ راہِ دشتِ غُربت، بے صدا ہو گیا۔ وہاں صبر کا راہ بر جُدا ہو گیا۔ ہر چند دونوں چلائیں، شہ زادہ جانِ عالم نے مطلق جواب نہ دیا، بُولا ہی نہ گیا۔ پھر تو ملکہ مہر نگار بادِلِ فِگار سِر پیٹ کر کہنے لگی، میر حسن :

فلک نے تو اِتنا ہنسایا نہ تھا (۱)
کہ جس کے عوض یوں رُلانے لگا

مُژدہ اے مرگِ غریبُ الوطنی! خوب حیلہ ہاتھ آیا؛ تؤ بدنامی سے بچی، ہم نے ناکامی میں جان دی۔ چرخِ ستم شِعار زُور رنگ لایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۷

انجمن آرا بے چاری مصیبت کی ماری سب کا مُنہ حیرت سے تکتی تھی اور رُوتی تھی۔ نہ بین کر آتے تھے، نہ غُل مچایا جاتا تھا، گُھٹ گُھٹ کر جان کُھوتی تھی۔ خواصیں سِر کُھول کر کہتی تھیں: ہے ہے! ہم اس جنگل ویران میں لُٹ گئے، وارِث سے چُھٹ گئے۔ شعر

تو وہ کریم ہے، ناشاد کو جو شاد کرے
مراد مند کو ہر طرح بامُراد کرے

لوگو! ہم کدھر جائیں، کیوں کر اِس بلا سے نجات پائیں! کوئی کہتی تھی: شیطان کے کان بہرے، خدانخوستہ اگر جانِ عالم کے دشمنوں کا رؤنگٹا میلا ہُوا؛ شہ زادیاں خاک میں مل جائیں گی، غمِ جُدائی سے جانیں گنوائیں گی۔ ہم ان کے ماں باپ کو مُنہ کیا دِکھائیں گے، اِس دشتِ اِدبار میں سِر ٹکرا کر مر جائیں گے۔ یہ جادوگرنی، قربان کی تھی، لاشوں کو گُور و کفن نہ دے گی۔ اور آتؤ، محل دار جگر افگار سِر سے چاردیں پٹک، مدینے کی طرف پکار پکار یہ کہتی تھیں، شعر :

تصدُق اپنے نواسوں کا یا رسول اللہ
کہو کہ حل کریں مشکل ہماری حضرتِ شاہ

ایک طرف مُغلانیاں غم کی ماریاں دمِ گرم، آہِ سرد بھرتی تھیں۔ ایک سِمت انیسیں، جلیسیں نجف کی طرف بال کُھول کر اِلتِجا سے، گِریہ و بُکا سے یہ عرض کرتی تھیں، شعر :

تم نے مدد کر نوح کی طوفاں سے کشتی پار کی
یا مُرتضیٰ مشکل کُشا! کیوں بار میری بار کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۸

کوئی کہتی تھی: ہمارا لشکر اِس بلا سے جو نکلے گا، تو مُشکل کُشا کا کھڑا دونا دوں گی۔ کوئی بولی: میں سِہ ماہی کے رُوزے رکھوں گی، کؤنڈے بھروں گی، صحنک کِھلاؤں گی، دودھ کے کوزے بچوں کو پلاؤں گی۔ کسی نے کہا: میں اگر جیتی چُھٹی، جنابِ عباس کی درگاہ جاؤں گی۔ سقاے سکینہ کا علم چڑھاؤں گی۔ چِہِل مِنبری کر کے نذرِ حسین سبیل پِلاؤں گی۔

غرض کہ لشکر سے زیادہ خیموں میں تلاطُم پڑا تھا۔ صدائے حزیں، نالۂ ہر غمگین سے ہنگامۂ محشر بپا تھا۔ اتفاقاً ایک شاگرد ملکہ کے باپ کا رشید، فنِ سِحر میں دید نہ شنید اُس مردِ بزرگ کی ملاقات کو بہ رؤے ہوا اُڑا جاتا تھا۔ یہ نالۂ بلند، صداے ہر درد مند اُس کے کان میں جو پہنچی، زمین کا مُتوجِہ ہوا۔ دیکھا تو ایک لشکرِ عظیم بہ حالِ سقیم سِحر کا مُتلا ہے، شُور و غُل ہو رہا ہے۔ جب قریب تر آیا، طُرفہ ماجرا نظر آیا کہ انسان سے تا جانور سب آدھے پتھر ہیں۔ سمجھا سِحر شہپال میں خراب حال ہیں۔ لوگوں سے پوچھا: یہ ستم رسیدہ لشکر کس کا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے یہ حال بنایا ہے؟ وہ ملکہ مہر نگار کے ملازم تھے، اپنا حال سب نے بیان کیا۔ جب اُسے یہ امر معلوم ہوا کہ اُستاد زادی کی خانہ بربادی ہے اور شہپال کی بیٹی کو مسرت ہے، شادی ہے؛ درِ خیمئٔ ملکہ پر آیا، سِر پیٹا، چِلایا۔ ملکہ نے آواز پہچانی، کہا: بھائی! اِس وقت پردہ کہاں کا! یہاں آ کے بِالمُشافہہ ہمارا عذاب اور حالِ خراب دیکھو۔ وہ اندر آیا، ملکہ کو بھی اُسی عالم میں پایا۔ اُس نے فرمایا: عداوتِ ساحِرہ سے ہمارا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۹

قافلہ تباہ ہے۔ وہ عرض کرنے لگا: فِدوی کو اُس کی ہمسری کی طاقت نہیں اور وقفہ کم، صبح سب کارخانہ درہم و برہم ہو جائے گا۔ بجُز آپ کے والدِ بزرگوار کے تشریف لائے یہ بلا ٹلتی نہیں، خادم کی یہاں دال گلتی نہیں۔ لُو خُدا حافِظ و ناصِر ہے! یہ کہہ کر بہ حالِ خستہ و تباہ، لب پر نالہ و آہ، اِس تیز قدم سے چلا کہ ادہمِ صبا کی ڈپٹ ہر قدم نثار تھی، ٹھوکروں میں صر صر بے قرار تھی۔ پہر بھر میں واردِ باغ ہوا: گُل سا چاک گِرِیباں، شبنم نمط اشک رواں، غنچے کی صفت گاہ خموش، بلبل کے ڈھنگ سے گاہ نالے کو جُوش و خروش۔ پیر مرد نے فرمایا: خیر ہے! اُس نے شِمہۂ گِرفتاریِ جانِ عالم، ملکہ کی بے قراری، انجمن آرا کا الم، لشکر کا حالِ بتر کہہ کر عرض کی: جلد چلیے؛ اگر شام تک نہ پہنچے، وہاں صُبح ہے۔ دمِ سحر ملکُ الموت کا بازار گرم ہو گا، ارمان سب دل میں رہے گا، کُشتُوں کو عالم بے والی و وارِث کہے گا۔ کوئی گُور و کفن نہ پائے گا، خاتمہ بالخیر ہو جائے گا۔ پیر مرد نے آہِ سرد بھر کر فرمایا: افسوس! شہ زادے کو سب کچھ سمجھایا تھا مگر عمل میں نہلایا۔ میر سوزؔ :

ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا (۱)
پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ، نئی

اُسی دم شاہینِ تیز پرواز پر سوار ہوا، مغرب کی نماز لشکر میں داخل ہو کر پڑھی۔ پہلے جانِ عالم کے خیمے میں آیا، حال دیکھ کر سخت گھبرایا۔ پھر انجمن آرا کی جا کر تسکین کی، وہ رُونے لگی۔ وہاں سے ملکہ کے پاس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۰

آ کے فرمایا: تمہاری بدبختی نے ہماری وضع میں فرق ڈالا، برسوں کے بعد باغ سے نکالا۔ ملکہ نے رُو کر عرض کی: یہ وقتِ تدبیر ہے نہ ہنگامِ تعذیر؛ بعد رِہائی اِس آفتِ سماوی کے جو چاہنا فرمانا۔

القِصہ مجبور و ناچار وہ عارِفِ باوقار شہ زادے کے خیمے کے نزدیک دور تک حِصار کھینچ کر بیٹھا۔ یہ مردِ بزرگ، نیک صِفات، فنِ سِحر کے سِوا، عامِل اِسمِ ذات کا تھا؛ کچھ پڑھنے لگا۔ کبھی مُناجات بہ درگاہِ مُجیبُ الدعوات کرتا کہ اے یاورِ زِیر دشان و سرفِرُو کُنندۂ گردن کشاں! اِ بوڑھے کی شرم تیرے ہاتھ ہے۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں، اخیر وقت کا تو حافظ و نگہباں ہے۔ مجھ پر جو مشکل ہے، تیرے رؤ بہ رؤ آساں ہے۔ سفید ڈاڑھی کو بدنامی کے وسمے سے نہ رنگانا۔ تیرہ بختی کا دھبا بہ ایں ریشِ سفید نہ لگانا۔ شعر :

مشکل، ز توجہِ تو آساں
آساں، زتغافلِ تو مشکل

جب کہ سجادہ نشینِ چرخِ اول

با مجمعِ مُریدانِ کواکِب حُجرۂ مغرب میں رؤپُوش ہوا، اور ساحِرِ فلکِ چہارُم پُر شوکت و باحشم طِلِسمِ مشرق سے نمودار باجُوش و خرُوش ہوا، اور وہ عبادت گُزار پیرِ جواں مرد شب زِندہ دار وظائِفِ صُبح سے فرصت پا چکا؛ یکایک وہ نابکار شیطان صفت، ناپاک عورت اژدہے پر سوار، بہ چشمِ خوں خوار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۱

عزمِ قتلِ جانِ عالم، اور لشکر میں تنہا آئی۔ پہلے ملکہ کے باپ پاس گئی، آنکھیں لال لال، طیش کمال اور بہ آوازِ کرخت وہ نگؤں بخت پکاری اے مردِ پیر، سُست تدبیر! تیری اجل بھی دامن گیر ہو کر، کشاں کشاں اِس دشتِ جاں فشاں میں لائی! مجھے شرم آتی ہے کہ تو پیرِ نود سالہ ہو چکا ہے، بے مارے مر رہا ہے، تیرے قتل میں بدنامی چُھٹ فائدہ کیا ہے۔ جدھر سے آیا ہے، سیدھا چلا جا۔ میں بہ یک نگاہِ کج نشانِ لشکر اِ س صفحۂ زمیں سے مِثلِ حرفِ غلط کا ردِ سِحر سے مٹائے دیتی ہوں۔

مردِ بزرگ نے آشُفتہ ہو کر فرمایا: اے ننگِ فِرقۂ بنی آدم، مردؤدِ عالم! تجھے جُوشِ شہوت، ولؤلہ مُباشرت نے آمادہ قتلِ ہزرہا بندۂ اللہ، بے جُرم و گناہ، کیا۔ میں مرگِ عزیزاں دیکھوں، مرنے سے ڈروں! بہ قول تیرے: آج نہ مُوا، کل مر جاؤں گا؛ یہاں سے جو چلا گیا، خلق کو مُنہ کیا دکھاؤں گا! ہم چشموں سے ناحق آنکھ چِھپانی پڑے گی! تو بدبخت مجھ سے کیا لڑے گی! یہ سُن کر وہ فاحِشہ جھلا، آستین چڑھا سِحر کی نیرنگیاں دکھانے لگی۔ ان کی بھی دُعا کی تاثیر سِپر بن کے، اُس کا سِہر اُس پر ڈھال، رنگ مٹانے لگی۔ صبح سے پہر دن باقی رہا، کوئی دقیقہ طرفین سے نہ باقی رہا۔ طؤل اِس مقام کا بے جا تھا، اِسی کلمے پر تمام کیا کہ جب وہ عاجز ہوئی، تب سِحر کی طاقت سے شِیر کی صورت بنائی۔ پیر مرد بھی اسدُ اللہِ الغالِب کو یاد کر، وہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۲

مُہیب ببر بنا اوراِس للکار کر گؤنجا کہ جنگل کے چارپایے نعرے کے خوف سے دریا میں گرے اور پانی کے جانور خُشکی میں چِھپتے پھرے۔

کچھ دیر اِس ہیئت میں لڑائی، زُور آزمائی رہی۔ آخر کار وہ رُوباہ خِصال، اُس ہزبرِ نیستانِ شجاعت کی تاب نہ لائی، گیڈر بھبکی دِکھائی اور عُقاب بن کر اُڑ چلی۔ وہ شاہینِ اوجِ دِلیری سُوچا: بے گرفتاریِ طائرِ مطلب، یعنی اِس ڈھڈُو کے، لشکر جنجال سے نہ نکلے گا؛ اِسی طرح یہ پھٹکی پھٹکی ٹٹی کی آر میں شکار کھیلے گی۔ بلا سے کچھ ہو، اِسے پھنساؤ۔ زُور میں کم پایا تھا؛ فورا! بازِ تیز پرواز ہو کے، اس سناٹے سےچنگُلِ آہنی میں اُسے دبُوچا، ایسا نُوچا کہ اُس کی جان سنسنا گئی۔ بھاگتے وقت رِجالُ الغیب سامنے تھا، موت پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑی۔ بہت تڑپی، پنجۂ قضا سے نہ چُھٹ سکی۔ اُسی کشمکش، اینچا کھینچی میں مُرغِ روح اُس کا مجروح، قفسِ تن سے اُڑ کر آشیانۂ جہنم میں پہنچا۔ غُلغُلۂ حشر، شُورِ نُشؤر اُس صحرا میں نزدیک و دور مچا، ہر طرف سے دار و گیر کی صدا آئی۔ آسمان چکر میں آیا، زمین تھرائی، دشت تیرہ و مُکدر ہوا، آندھی چلی، سِحر کا کارخانہ اُڑ گیا، ابتر ہوا۔ قریبِ شام وہ سیاہی موقوف ہوئی، خورشید نے رُخِ انور دکھایا، اپنا بے گانہ نظر آیا۔ جانِ عالم گھبرا کر اُتھ بیٹھا۔ اہلِ لشکر نے رِہائی، از سرِ نو زِندگی پائی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۳

جانِ عالم خیمے سے نکل، نادِم و خجِل، پیر مرد کی خدمت میں حاضرہوا۔ سب نے دیکھا: دؤر حِصار میں ایک رنڈی، اسی نوے برس کا سِن، ضُعف کا زُور شُور، بُڑھاپے کے دن۔ قد خمیدہ جیسے چڑھی کمان۔ مرنے پر لیس، مُنہ اُترا، آنکھیں تؤدۂ طوفان۔ جسم کے ہر پٹھا در پےِ ژولیدگی گُھنی ہوئی رگیں صاف نظر آتی تھیں۔ ہڈیاں پسلیاں بُوسیدہ جِلد کے باہر سے گِنی جاتی تھیں۔ دُرجِ دہاںح بے دُرِ دندانِ حُقۂ خالی کی طرح وا، ڈاڑھ، دانت کے نام سے مُنہ میں خاک نہیں، بھاڑ سا کُھلا۔ نیلے نیلے مسوڑھے سڑے۔ تالو توے کا پتا؛ جیب جُھلسی، چھالے پڑے۔ ہاتھ دہنا برگد کا ٹہنا۔ بایاں جو زمین پر ڈالا تھا، وہ ساکھؤ کا ڈالا تھا۔ سینۂ پُر کینہ تنگ۔ چھاتیوں کے تِکے تُکے کی صورت لٹکتے، دمِ رفتار ٹانگوں میں اٹکتے۔ پیٹ کے لپیٹ کی انتہا نہیں، بے خاکِ گُور کبھی بھرا نہیں۔ دل پہاڑ کی سِل۔ گُردہ توپ کا مُقابل۔ بغلوں سے کیچڑ بہتی۔ ناف جیسے گھنٹا بیگ کی گڑھیا۔ ٹانگ ہر ایک تاڑ سے بڑی۔ کھڑی ہو تو سقفِ بے سُتوں کی اڑواڑ ہو، گُنبدِ چرخ کی پاڑ ہو۔ پھیلائے پڑی تھی، گویا پتھورا کے محل کی کڑی تھی۔ ہڈی سے گوشت، گوشت سے کھال جُدا۔ پیر زال، فرہاد کُش بُڑھیا۔ چہرے کا یہ رنگ کہ سِلہٹ کی سِپر کا اُس کے رؤ بہ رؤ مُنہ سفید ہو جائے، شبِ فرقت کی سیاہی میں کالی بلا سی نظر آئے۔ کُھونبڑ کا وہ ڈھنگ کہ سب کہتے تھے: بیچا ہے، لڑکوں کو نہ ڈرائے۔ ماتھے پر سیندؤر کا ٹیکا دور سے نظر پڑتا اور سفید چُونڈا چنور کی طرح لٹکتا۔ سیاہی کا دھبا بجُز تیرہ بکتی کہیں نہ دیکھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۴

ایسے سِر کی مانگ میں بھی مانگ جانچ سِیندؤر بھرا۔ بالوں میں ناریل کا تیل۔ پھٹے پھٹے دیدوں میں ندیدوں کی طرح کاجل ریل پیل۔ گہنے کے عوض سانپ بِچھو لپیٹے، کُھوپڑی اور ہڈیوں کے ہار گلے میں پڑے، سِحر کا سنگار وہ نابکار کیے، پُشت بہ بہشت رؤے نحس سوے جہنم، چت پڑی تھی۔ قد کا ڈول سب سے نرالا، عؤج بن عُنُق کی سگی خالہ۔ یہ دیکھ کے، شہ زادہ پیر مرد کو ساتھ لے کے محل سرا کے خیمے میں آیا۔ شہ زادیوں نے جان پائی، جلیسوں کے مُنہ پر رونق آئی۔ خواصوں نے شُکرِ جنابِ باری کیا۔ ماما، اصیلوں نے پیر مرد کے قدم پر گِر کر عرض کیا، مصرع :

اے آمدنت باعث، آبادیِ ما

اُس بزرگ نے فرمایا: ابھی اِس معرکے سے نجات نہیں ہوئی، آفتِ عظیم کا سامنا باقی ہے۔ جانِ عالم نے پوچھا: قِبلہ! وہ کیا ہے؟ اُس نے فرمایا: اِس کا باپ شہنشاہ جادُواں ہے؛ کوئی دم میں ضرور آئے گا، بکھیڑا مچائے گا۔ ملکہ مہر نگار مُضطرب ہوئی۔ پیر مرد نے فرمایا: اللہ یار ہے، وہ کیا نابکار ہے۔ مصرع :

دشمن اگر قویست، نگہباں قوی تراست

یہ کہہ کر دو (۲) ماش چپ و راست پھینکے۔ دو (۲) جانور نئی صورت کے پیدا ہوئے: ہرن کے چہرے، طاؤس کا دھڑ، یاقوت کے سینگ، الماس کی آنکھیں، زمرد کے پر، اور دو (۲) ٹھیکریوں پر کچھ لکھ کر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۵

اُن کے سامنے رکھا۔ وہ ہر ایک پنجے میں دبا اُڑ گیا۔

وہ رات بھی بہم و ہراس میں گُزری۔ جس وقت ساحِرِ شب گشت عاملِ صُبح کی آمد کے دبدبے سے بھاگا؛ ہوا تُند چلی، برق چمکی، رعد کی آواز ہوئی۔ اہل لشکر ڈر گئے۔ مثلِ مشہور: مارگزیدہ از ریسمانِ پیچیدہ می ترسد۔ پیر مرد کے گرد سب جمع ہوئے، کہ ایک سِمت سے غُول کے غُول، غٹ کے غٹ جادوگروں کے جھٹ پٹ؛ باز، جُرِے، باشے، بُھجنگے پر ننگے دھڑنگے سوار، قطار قطار آئے۔ میدان میں مُرشِدِ کامل نے ان کا پرا جمایا۔ دوسری جانب سے جادوگرنیاں طاؤس اور ناگنوں پر سوار، آتش بازی کے حُقے اُڑاتی، ناریل اُچھالتی؛ اِکتارے چِھڑتے، بادلے کی جھنڈیا کُھلی، ہوا سے اُڑتی ہوئیں؛ آپس میں چِھیڑ چھاڑ، سِحر آزمائیاں، ہاتھوں کی صفائیاں ہوتی، لڑئی کے عزم پر ہر ہر کرتی موجود ہوئیں؛ اُسی پرے کے مُقابل ٹھہریں۔

اِنہیں دیکھ کے جانِ عالم کا جی کُلبُلایا، فوج کے سرداروں کو بلایا، فرمایا: گُو آج دغدغۂ کامل ہے؛ اگر فضلِ الہٰی شامل ہے تو یہ جلسہ اور معرکہ دیکھنے کے قابل ہے۔ زندگی ہے تو ایسا روز کبھی کاہے کو نظر سے گزرے گا، سگرنہ مرگِ انبوہ جشنے دارد۔ ہمارے فوج بھی چمک دمک سے صف آرا ہو، اسباب نیا سب نکالو۔ یہ خبر سُن کر پہلے بیلدار نکلے۔ پست و بلند زمین ہموار کر، کنکر پتھر چُن کر، جھاڑی جُھنڈی کاٹ دالی، جھاڑی ہوئی زمین صاف برابر نکالی۔ پلٹنوں کی خاطر مُورچے درست کیے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۶

تُوپوں کے لیے دمدمے اندھے، جھانکی لگائی، کہیں سُرنگ کا پوشیدہ رنگ جمایا، باروت کو بچھایا، میدانِ جنگی بنایا۔ پھر سقے آب پاسی کر گئے۔ تُوپ خانے والے بالچُوں میں پانی بھر گئے۔

فوج کی آمد ہوئی۔ صفِ کارزار، موت کا بازار آراستہ ہوا۔ راس و چپ پانچ پانچ سے ہاتھی مست؛ پٹے سونڈوں میں گُل کاری بھسؤنڈوں میں۔ دانت سفید، آب دار، اُن پر چوڑی جواہر نگار چڑھی۔ ایک ایک پہلوان ثانیِ رستمِ دستاں؛ قوی ہیکل، زِرہ پُوش؛ گُرزِگراں، کُوہ شکن بردُوش اُن پر سوار۔ پھر پلٹنیں اور توپ خانہ آیا، اُنہیں قرینے سے جمایا۔ کیا کیا تُوپ فلک شکُوہ، شعلہ دہاں، آتش فشاں؛ سورج جھنکار اور نانک متے کے پتے کی، گردؤنِ گرداں پر چوٹ کرنے والی، غضب سے بھری، ترحُم سے خالی۔ مدد کو ہُوٹ، کُوسوں کی چُوٹ کی۔ اور وہ غُباری، جس کا گُولہ قصرِ زنگاری میں اُتارے۔ پھر سواروں کے پرے میں میمنہ، میسرہ، قلب و جناح، ساقہ و کمیں گاہ درست کر دیا۔ آگے ہراول۔ پیچھے سواروں کے پیدل فوجوں کے دل۔

نقیب چار سؤ سے نکلے؛ کلے سے کلہ، کنوتی سے کنوتی، پُٹھے سے پُٹھا، دُم سے دُم، سُم سے سُم مِلا دیا۔ نشان برداروں نے علمِ سبز و سُرخِ زر افشاں کو جلوہ دیا۔ سرِ ہر علم ماہی پرچم کی چمک چشمِ دِلاوراں میں بادۂ جُرأت کا کام کر گئی۔ نامردوں کو ہول ہوئی، بھاگنے کی فکر پڑی، پیٹ میں کھلبل مچی۔ کتنوں کی، چلتے چلتے گانڑ چلی۔ دریاے فوجِ ظفر موج موج زن ہوا۔ حشر کا میدان رن ہوا۔ غُرشِ کُوسِ حربی، صداے نقار خانۂ جنگی چرخ پر بُرجِ ثور تک،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۷

زِیر زمیں گاوِثریٰ کو پہنچی۔ اور صدمۂ تُندر نِہیب، آوازِ دُبُلِ گُوش فریب سے کُرۂ ارض و سما دہل گیا۔ اور کرناے چینی نے غِرِیو سے صؤر کی ہمدمی کا دم بھرا۔ اِذا زُلزِلتِ الارضُ زِلزالھا کا وقت قریب آیا۔

جانِ عالم بھی بہ صد جاہ و حشم اسپِ پری پیکر پر جلوہ گر ہوا۔ چترِ زرنگار بالائے سر، تاجِ شہر یاری کن کر کر، شمشیرِ برق دم زِیبِ کمر، فولادی سِپر پُشت پر۔ دہنے ہاتھ میں نیزۂ اژدہا پیکر، دو زباں۔ بائیں ہاتھ میں مرکبِ رشکِ صرصر کی عِناں۔ فتح و نُصرت جِلو میں، اقبال یاورتگ و دو میں۔ ہمت و غیرت دست بستہ بہم، جُرأت زِیرِ قدم۔ قربوسِ زین میں کمانِ کیانی، چہرے پر رُعب و جلالِ کشور ستانی۔ سمندِ صبا دم کو گرم عۃناں، رخشِ تیز قدم کو جولاں کر کے پرے کے برابر باگ لی۔ چاؤشِ طرار "خبردار باش" للکارا۔ مِریخ سا خنبر گُذار، بالائے چرخ "الاماں" پکارا۔ فوج کو ملاحظہ فرمایا۔ کڑکیتُوں نے کڑکا شُروع کیا۔ نقیبوں نے نِہیب دی کہ دِلاورو! آج عرصہ جنگ جگہ نام و ننگ کی ہے۔ دُنیا میں زِندگی چار دِن ہے۔ لڑنے بِھڑنےکا، نوجوانو یہی سِن ہے۔ کسی کو بقا بجُز ذاتِ خدا نہیں۔ ہمیشہ دُنیا میں کوئی جیتا رہا نہیں۔ شعر :

رستم رہا زمین پہ نہ سام رہ گیا (۱)
مردوں کا آسماں کے تلے نام رہ گیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۸

اِس صدا سے، جو سدا کے بہادُر، صاحِبِ جُرأت تھے؛ اُن کا دریاے شجاعت سینے میں موج زن ہوا۔ موچھیں کھڑی، آنکھیں سُرخ، چہرے بشاش ہو گئے۔ بسانِ شِیر وہ دلیر قبضہ ہاے شمشیر دیکھنے لگے اور چُست و چالاک ہو کر مُستعِدِ کارزار ہوئے، جاں فِشانی کو تیار ہوئے۔ ہر دم باہم یہ اِختِلاط تھا: دیکھیں، آج تلوار کس کی خوب کاٹتی ہے! کس کس کا لہو چاٹتی ہے! پہلے نیزہ کس کا سینۂ عدؤ پر چلتا ہے! اور نیزے کی طعن پر کون کون چھاتی تانتا ہے، لُوہا کون مانتا ہے! کس کے تیر کے نشانے سے خون کا فُوارہ اُچھلتا ہے! آبِ پیکاں سرِ میداں دُشمن کے حلق میں کون اُتارتا ہے! سرِ پیکاں کس کا تالبِ سؤفار سُرخ رؤ ہوتا ہے! کس کو کون للکار کر، ڈانٹ کر مارتا ہے، دوا کو کون پکارتا ہے! عرصۂ کارزار میں حقِ نمک آقا کا ادا کیجیے، دشمنوں کا لہو پیجیے۔ جب بِگڑے تو وہ کام بے جس سے رُستم کی گُور تھرائے، سام و نریمان کا رنگ فق ہو جائے۔ کُوہ کو پرِکاہ کی طرح اُکھاڑے۔ دِیو سامنے آ جائے تو پچھاڑے۔ رئیسِ قدر داں سرِ میداں سر گرمِ نظارہ ہے؛ دیکھیے کون کام کا ہے، کون ناکارہ ہے! کس کے ہاتھ کھیت رہتا ہے، کون کون کھیت رہتا ہے! من چلا پن کر لو، زرِ سُرخ و سفید سے سُپرِیں بھر لو۔ آج ہی تو آن بان ہے۔ یہ گُو، یہ میدان ہے۔

ڈِھل گنڈُوں کا ‘لا حول ولا‘ عجب ڈول ہوا کہ ہول سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۹

چہرے زرد، لب پر آہ، سرد۔ مُنہ پر ہوائیاں اُڑتی تھیں، ہر بار بھاگنے کو باگیں مُڑتی تھیں۔کھڑے ہوئے اپنے مُنہ نُوچتے تھے، بھاگنے کی راہ سُوچتے تھے۔ پیٹ پکڑے پھرتے تھے، دوست سرِ دست چلے آتے تھے۔ ڈر کے مارے بے مارے مُوئے جاتے تھے۔ کوئی کہتا تھا: میاں! جی ہے تو جہان ہے۔ نوکری نہ ملے گی، بھیک مانگ کھائیں گے، جانیں کہاں پائیں گے! حُرمت گئی تو گئی، جوتی پیزار سے، جان تو رہے گی، لہو کی ندی بدن سے نہ بہے گی۔ یہی نا کوئی نامرد کہے گا، آبرو جائے گی؛ جی تو رہے گا۔ یہاں بگڑی، اور کہیں بنا لیں گے۔ تیر تلوار کی گُولی بچا کر، گالیاں کھا لیں گے۔ لڑنے کو سپاہیوں نے کمریں باندھی ہیں؛ کُوسنے کو ہم موجود ہیں، کُوسُوں بھاگنے کو آندھی ہیں۔ جُوکِیں لگانے میں، ہمارے ماں باپ بھنگ پلاتے تھے، معجون کِھلاتے تھے۔ کسی کی فصد کُھلی دیکھ کر ہمیں غش آتے تھے۔ ہم تو دوست ہو یا دشمن، دونوں کی خیر مانگنے والے ہیں۔ سب سے پہلے معرکے سے بھاگنے والے ہیں۔ ہمیشہ گالی گلوچ کو خانہ جنگی، دھول دھپے کو میدان داری سمجھے۔ لڑائی بِھڑائی سے کبھی بِھڑکے نہ نکلے۔ تمام عُمر بدن میں سوئی نہ گڑی۔ یہ سِر وہ سِپر ہے جس پر جوتے کے سوا کوئی چیز نہیں پڑی۔ بے غیرتی کا بھلا ہو، جس کے صدقے میں آج تک جان سلامت رہی۔ اِس پر بھی قسمت نے یہ روزِ سیاہ دِکھایا! خُدا نے ہمیں ہیجڑا کیوں نہ بنایا!
 
Top