شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۶

چھان کر مجھ کو پالا، شؤمیِ طالع ولولۂ طبیعت نے گھر سے نکالا۔ اب مُدتِ مدید، عرصۂ بعید گُذرا؛ اُنہیں میرے جینے مرنے کا حال معلوم نہیں۔ اُن کے صدمے کو غور کیجیے، رُخصت بہ ہر طور کیجیے۔ آدمیت سے بعید ہے: آپ عیش و نشاط کرے، ماں باپ کو رنج و تعب میں چُھوڑ دے، سر رشتۂ اطاعتِ والدین توڑ دے۔ اُمید وار ہوں اِس امر میں حُضور کد نہ کریں، بہ کُشادہ پیشانی اجازتِ وطن دیں۔ اگر حیاتِ مُستعار، زیستِ نا پئیدار باقی ہے؛ پھر شرفِ آستاں بُوس حاصل کروں گا؛ نہیں تو اس فکر میں گُھٹ گُھٹ کر مروں گا۔ دین برباد ہو گا، دُنیا میں عزت و آبرو نہ رہے گی۔ خدا ناخوش ہو گا؛ خلقت تن پرور، راحت طلب کہے گی۔

بادشاہ سمجھا یہ اب نہ رُکے گا، آنسو آنکھوں میں بھر کر کہا: خیر بابا! مرضیِ خُدا، جو تیری رضا؛ مگر تیاریِ سامانِ سفر کو، چالیس دن کی مُہلت چاہیے۔ جانِ عالم نے یہ بات قبول کی۔ یہ تو رُخصت ہو کر گھر آیا، خبر داروں نے اس حال کا خاؤ و عام میں چرچا مچایا۔ خُلاصہ یہ کہ شُدہ شُدہ غُلغُلہ گھر گھر ہوا۔ خُرد و کلاں، بوڑھا اور جوان شہر کا اس خبر سے باخبر ہوا۔

عزمِ وطن شاہ زادۂ جانِ عالم کا، حال بادشاہ کے رنج و غم کا۔ تیاریِ سامانِ سفر بہ صد کر و فر۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۷

بادشاہ کا دور سے نظارہ، ترقیِ اندوہ سے گریبانِ صبر پارہ پارہ۔ اہلِ شہر کی گریہ و زاری، آمدِ سواری۔

نظم :

چل اے توسنِ خامہ چالات و چُست
کہ اب بیٹھے بیٹھے، بہت جی ہے سُست

جگہ بیٹھ رہنے کی دُنیا نہیں
یہاں خاک بیٹھے کوئی دل حزیں

سفر ہر نفس سب کو رہتا ہے یاں
سراے فنا بھی عجب ہے مکاں

نہ بیٹھا کبھی جم کے اک جا سُرورؔ
قریبوں سے اپنے رہا دور دور

طے کُنندگانِ مُلکِ معانی و سیاحانِ اقلیمِ خوش بیانی؛ بادیہ پیمایانِ بے تُوشہ، بارِ محبت بر سر؛ راہ نوردانِ ہُوش باختہ، بے راہ بر؛ یادِ دل دار در دل، این و دُنیا فرامُوش؛ الم ہمراہ، ہر گام نالہ و آہ، تصوُرِ یار ہم آغُوش لکھجتے ہیں کہ اُس عازمِ سمتِ معشوقِ عاشق خصال کو چلہ وہیں گُذرا، سامانِ سفر تیار ہوا، اب صُبح کو اُس چلہ نشینِ حُجرۂ محبت کی رُخصت ٹھہری۔ سر شام بادلِ ناکام، بادشہ دامنِ سحر کی صورت گرِیبان چاک کر، معِ ارکانِ سلطنت دو کُس شہر سے باہر سرِ راہ دامنِ کُوہ پر جا بیٹھا۔ وزیرِ خوش تدبیر سے فرمایا: تم شہ زادے کو رُخصت کرو؛ ہم یہاں سے جُلوسِ سواری، سامان سفر دیکھ لیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۸

یہ خبر اہلِ شہر کو معلوم ہوئی۔ تمام خلقت، پانچ برس کا لڑکا، پچانوے برس کا بوڑھا، رنڈی، مرد؛ دوسرے ٹیکرے پر جمع ہوا۔ جُھٹپُٹے وقت جانِ عالم نے سواری طلب کی۔ ہر کارُوں نے حُضور میں عرض کی۔ بادشاہ راہ کی طرف مُتوجہ ہوا۔ رُوشنی نمود ہوئی۔ پلٹنیں آئین سجی سجائیں۔ تُوپ خانہ گُذرا۔ پھر بارہ ہزار ہاتھی سواری کا، ہودج و عماری کا، ہرار بارہ سے جنگی، گاڑھا، مست؛ ایک سے ایک زبردست، چاروں بھٹیاں ٹپکتیں، بان، پٹے سونڈوں میں چڑھے، بھسؤنڈِے رنگے، جواہر نگار چؤڑی دانتوں پر، طلائی نقرئی زنجیریں کھنکتیں، جھولیں زر بفت کی نئی نئی، رسے کلابتون کے، ہیکلیں جڑاؤ، مُغرق گجباہیں پڑیں؛ سری سلمے ستارے کی، پنکھے کا جُوبن، ہوا پر دیکھنے والوں کی نگاہیں لڑیں؛ دو رویہ اس انداز کے کہ اگر اصحابِ فیل اُنہیں دیکھتا؛ خوف کھاتا، کبھی کعبہ ڈھانے نہ آتا۔

فیل بان زربفت کی قبا یا کمخواب کی پہنے، جؤڑے دار پکڑیاں باندھے۔ کمر میں پیش قبض یا کٹار، ہاتھوں میں گجباگ جواہر نگار۔ مستوں کے ساتھ دو (۲) بؤڑی بردار۔ ایک چرکٹا سنڈا، ہاتھ میں ڈنڈا۔ دو (۲) برچھے والے، دیکھے بھالے، آگے۔ پیچھے تریل، قریب سانٹھ مار، برابر دو (۲) سوار۔

پھر کئی لاکھ سواروں کے پرے، ہاتھیوں سے پرے پرے۔ سر سے تا پا لُوہے کے دریا میں ڈوپے۔ بیس اکیس برس کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۹

ہر شخص کا سِن۔ شباب کی راتیں، جوانی کے دن۔ خود، بکتر، زِرہ پہنے، بائیں دہنے۔ چار آئینۂ فولادی میں ہر دم رؤے مرگ مُعائنہ کرتے، بل سے قدم دھرتے۔ ہاتھوں میں داستانے، خانہ جنگوں کے بانے۔ دو تلواریں: ایک قاشِ زین میں، دوسری ڈاب میں، سیلِ فنا آب میں۔ تپنچے کی جُوڑیاں قُبؤر میں۔ نشۂ بہادری سے سُرور میں۔ کمر میں قرولی یا کٹار آب دار، سِپر پُشت پر، برچھا ہاتھ میں، تیکھا پن ہر بات میں۔ مثلِ نہنگانِ بحرِ ہیجا و شیرانِ کُنامِ و غا، موچھوں کو تاو دیتے، ہر بار نُوک کی لیتے۔ گھوڑے وہ خوش خرام کہ سمندِ سبز فام جن کا قدم دیکھ کے آج تک چال بھولا ہے۔ دیکھنے والے کہتے تھے: چمنِ رواں کیا پھلا پھؤلا ہے۔ دو (۲) صفیں باندھے ہوئے، بیچ میں پنچ شاخے رُوشن: گھوڑے کُداتے، جُوبن دکھاتے چلے گئے۔

پھر ہزار بارہ سے سانڈنی سوار خوش رفتار۔ زرد زرد قبائیں در بر، سُرخ پگڑیاں سر پر، آبی بانات کے پاجامے پاؤں میں۔ ہتھیار لگائے، مُہاریں اُٹھائے ستاروں کی چھاؤں میں۔ سانڈنیوں میں دو دو سے کُو کا دم، ہر قدم گُھنگرو کی چھم چھم۔ بُختیِ فلک اب تلک بلبلاتا ہے، جب اُن کا دھیان آتا ہے۔ قدم قدم یہ جب بڑھے تو سواری کا خاص خاصے نظر آئے: عربی، تُرکی، تازی، عراقی، یمنی اور کاٹھیا وار کا دکھنی۔ وہ وہ گھوڑا جو ابلقِ لیل و نہار کی نظر سے نہیں گزرا۔ سبُک رو ایسے کہ جو دریا میں در آئیں: سوار بجرے کا مزہ لوٹیں، سُم کے تلے حباب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۰

نہ ٹوٹیں۔ہڈا نہ مُوترا، نہ رس کا خلل، ڈنک اُجاڑ نہ کھؤنٹا اُکھاڑ، سانپن نہ ناگن، عقرب نہ ارجل، شب کُور نہیں، مُنہ زُور نہیں، کم خُور، نہ مٹھا نہ کُھوٹا، بال بھونری سے صاف۔ حشری نہ کمری، کُہنہ لنگ نہیں، سینے کا تنگ نہیں، ہمہ تن اوصاف۔ کسی پر جڑاؤ زین بندھا، الماس، زمُرد کے ہرنے؛ کسی پر چار جامہ دُو الگُو کسا۔ بنا بنا کر زمین پر پاؤں دھرتے، کودتے پھاندتے، لمبیاں بھرتے۔ کسی کی فقط گردنی اُلٹی، موگیوں کی جھالر لٹکتی۔ گنڈا، پٹا، ساز، یراق جواہر نگار۔ دُمچی طرح دار۔ پرِ ہُما کی کلغی لگی۔ پاکھر پُر تکلف پُٹھوں پر پڑی۔ دُوگاما، گام، شہ گا، یرغا، ایبِیا، رہوار، دُلکی کا منجا، اُلیل کرتا۔ جِلو دار چنور لیے مشغول مگس رانی میں۔ ہم رکاب تپائی بردار معقول سر گرم جاں فشانی میں۔ باگ دُوریں پُ زر سائیس لے کر نکلے۔

اُن کے بعد نوبت نشان، ماہی مراتبِ، میگھ ڈمبر۔ آگے علمِ اژدہا پیکر، جلو میں نُصرت و ظفر۔ بڑا جلوس، نہایت کر و فر۔ نوبت کی ندا، جھانجھ کی جھانجھ سے صدا۔ قرنا کا شُور و غُل، شہنا میں بھیرُوں، بِبھاس کا سُر بالکل۔ نقیب اور چُوبداروں کی آواز پُر سُوز و گُداز۔ عجب کیفیت کا عالم تھا۔ اُدھر نقارہ ہائے شُتری اور فیلی سے گُوشِ کر ؤ بیاں کر ہوا جاتا تھا۔ ایک طرف شہر کے لڑکوں کا غُول "بجا دے بجا دے" کا غُل مچاتا چلا آتا تھا۔ میر سوزؔ :

کہے تو، مہر و مہ لے کر عصاے نور ہاتھوں میں (۱)
یہی کہتے تھے گروؤں پر: ادب سے اور تفاوُت سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۱

پھر شکار کا سامان میر شکا لائے۔ بازِ آہنی چنگال، باز بچے تیز بال۔ بحری، باشے کے تماشے۔ شاہینِ فولاد مخلب، عُقابِ فلک سیر، جہان کے طیر سب۔ ان کے کے قریب ولایتی کُتے بودار، گُلڈانک، تازی، جاں بازی کرنے والے۔ چیتے، جو دشمنوں کا بُرا چیتے، بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گُوش در آغوش۔ ہرن لڑنے والے، خانہ زاد، گھر کے پالے۔ ان کے بعد ہزار ہا سقا، خواجہ خضر کا دم بھرتا، چھڑکاو کرتا۔ کمر میں کھارُوِے کی لُنگیاں، شانوں پر بادے کی جھنڈیاں۔ مشکُوں میں بید مُشک بھرا، دھانے میں ہزارے کا فُوارہ چڑھا، آب پاشی کرتا۔

مُتعدد غُلام بادلہ پُوش، حلقہ بہ گُوش، ہاتھوں میں ہیرے کے کڑے پڑے؛ منقل، انگیٹھیاں سُونے چاندی کی لیے، عنبر و عود جُھونکتے نکلے۔ پھر تو کُوسُوں تک جنگل رشکِ خُتن و تاتار مثلِ طبلۂ عطار ہو گیا۔ اُن کے مُتصل دو (۲) ہزار لالٹین والے کم سِن، بلؤر کی صاف صاف شفاف لالٹینیں لیے، شمعِ مُومی و کافوری رُوشن، وہ سب غُنچہ دہن، زیبِ انجمن، بڑھے۔ پھر صدائے اہتمامِ نقیبانِ خوش گُلو چار سؤ بلند ہوئی اور صبح صادق نے جلوہ دکھایا، ہاتھ کو ہاتھ اور اپنے بیگانے کا مُنہ صاف نظر آیا۔ سُلطانِ اریکۂ زنگاری بھی دریچۂ مشرق سے سر نکال مشغولِ نظارہ ہوا، حسرت میں وطن آوارہ ہوا۔

وہ دمِ سحر نسیم و صبا کی فر فر۔ شمع کا جھلملا جھلملا اُداس جلنا، سواری کا آہستہ آہستہ چلنا۔ پہاڑی جانوروں کی سیر،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۲

ذِکر حق میں کہیں وحش، کسی جاطیر۔ سرسبز درخت لہلہے، پھول رنگ برنگ کے ڈہڈ ہے۔ سقُوں کی آب پاشی۔ صداے نالۂ مُرغِ خوش الحاں سے دل خراشی۔ خُسروِ انجم کا معِ ثابت و سیارہ چھپتے جانا، سورج کی کرن کا جگمگانا۔ پھولوں کی بؤ باس، چشمۂ سرد و شیریں آس پاس۔ خلق کا مجمع دامنِ کُوہ پر؛ سب کی نگاہ کبھی اُس کیفیت پر، گاہ اس انبُوہ پر۔ ادھر مسافروں کی کثرت، اُدھر بادشاہ پُر ارمان۔ خلقِ خدا با حسرت بہ چشمِ انتظار، اُمید وارِ آمدِ پیادہ و سوار، محوِ تماشاے عجیبِ رُوزگار تھی۔

یکایک غُول خاص برداروں کا آیا: کمخواب کے مرزائی، انگرکھے، گُجراتی مشرؤع کے گُھٹنے، دلی کے ناگوری پاؤں میں، سر پر گُلنار اینٹھے طرح دار۔ خاصیوں کے غلاف باناتی، سقرلاتی، باغ و بہار۔ گرد پُوش ململ کے۔ سینکڑے اور ساز مُطلا، جھلا جھل کے۔ رفل: چقماق، تُوڑے دار۔ قرابین، شیر بچے؛ جس سے شیر زندہ نہ بچے: جواہر نگار۔ اور برچھے بردار، بان دار، کُتے والے، یکے، بیش قرار درما ہے دار، راکب و مرکب جھمکڑے کا عالم؛ گردا گرد۔ بیچ میں شہ زادہ جانِ عالم اسپِ باد رفتار پر سوار۔ برابر انجمن آرا کا سُکھپال پری تمثال۔ ہزار پان سے کہاریاں حوروش، پیاری پیاریاں، کم سن، جسم گدرایا، شباب چھایا؛ زربفت و اطلس کے لہنگے، مسالا ٹکا؛ ململ کے دوپٹے باریک، بنت گو کھرؤ کی کُرتی انگیا،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۳

کاشانی مخمل کا کُرتیاں کندھوں پر؛ کچھ سُکھپال اُٹھائے، باقی پرا جمائے اِدھر اُدھر۔ جڑاؤ کڑے مُلائم ہاتھوں میں پڑے، پاؤں سُونے کے تین تین چھڑے، کانو ں میں سادی سادی بالیاں، نشۂ حُسن میں متوالیاں۔ رُخساروں کا عکس جو پڑ جاتا تھا، شرم سے کُندن کا رنگ زرد نظر آتا تھا۔ کسی کا کان جو آلا تھا، تو حُسن کی دُکان میں ناز و انداز کا نرخ دوبالا تھا، اندازِ ناز نرالا تھا۔ وہ آہستہ تیوری چڑھا کے پاؤں رکھنا۔ کبھی سسکی، جھجکی۔ بڑی سَر تھی۔

کئی سے سواری کا دوڑنے والا خواجہ سرا، عجیب عجیب طرح کا نس کٹا۔ جشنیں، قلماقنیں، تُرکنیں سر گرمِ اہتمام، کبک خرام۔ خواجہ سرایان ذی لیاقت، معقول؛ نواب ناظر، داروغہ سب حاضر؛ عُمدہ پُوشاک پہلے گھوڑوں پر سوار بند و بست میں مشغول۔ جریب زمین پر پڑتی، کُوس کا پہیا ساتھ؛ ہاتھوں ہاتھ زمین کی پیمایش، سواری کی آرایش۔ خلاصہ یہ کہ بہ مرتبہ کر و فر، نہایت دھوم دھام۔ اشرفی، روپیہ تصدُق ہوتا، شۃدوں کا ازدِحام۔ اس صورت سے بادشاہ کے پاس آ پہنچے۔ جانِ عالم نے دیکھا: ظِلِ سُبحانی کے چشمۂ چسم سے جؤے خوں جاریہ ہچکی لگی، بے قراری طاری ہے؛ گھوڑے سے کود کر آداب تسلیمات بجا لایا۔ بادشاہ نے بہ قسم فرمایا: اس وقت ہمارے پاس نہ آؤ۔ خُدا کو سونپا، چلے جاؤ۔ مجبور، شہ زادہ مُجرا کر کے سوار ہوا۔ جس دم جانِ عالم نے گھوڑا بڑھیا، تمام خلقت کا جی بھر آیا۔ علی الخصُوص بادشاہ کی بے قراری، امیر اُمرا کی نالہ و زاری اور انجمن آرا کے بین سے، تمام تماشائی شُور و شین سے واویلا مچا کہنے لگے: آج رونقِ شہر کی رُخصت ہے، زینتِ سلطنت کی فرقت ہے۔ ایسے مہر و ماہ کے جانے سے شہر میں غدر پڑے گا، اندھیر ہو جائے گا۔ ان کا الم جُدائی و رنجِ دشت پیمائی ہزار رُوزِ سِیہ، شامِ غم دکھائے گا۔ کہتے ہیں: سیکڑوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۴

مرد رندی بے کہے سُنے ہمراہ ہوئے۔ غریبُ الوطنی اختیار کی، وہاں کی بؤد و باش گوارا نہ ہوئی۔

ان کے بعد چھ ساتھ سے پالکی، نالکی، چنڈُول، مُحافہ امیر زادیوں کا۔ اور انیسوں، جلیسوں کی تین چار سے کھڑ کھڑیا اور فنس قیمت کا بڑھیا۔ آتؤ اور محل داروں کے چو پہلے سے پہلے مُغلانیوں کی منجُھولیاں۔ خاص خواصوں کے پیچھے پیش خدمتوں کا دو تین سو میانہ۔ ہزار نو سے رتھ اکبر آبادی: دو بُرجے، سایبان دار، نئے مُغرق پردے چکمتے؛ ناگوری بیل، جو ثورِ فلک نے نہ دیکھے تھے، جُتے؛ مخمل کی جھولیں پڑیں؛ لونڈیاں، باندیاں، انا، چُھو چُھو، چھٹی نویس، باری دارنیاں اُن پر چڑھیں۔

جب یہ آگے بڑھیں، پھر چھکڑے اور اونٹ، ہاتھی خزانے اور اسباب کے؛ ڈِیرے، پیش خیمے لدے لدائے، کسے کسائے، جکڑے نظر آئے غرض کہ تا شام بہیر بُنگاہ، بازاری سرکاری سب لوگ چلے گئے۔ لکھا ہے کہ رویے اور اشرفیاں امام ضامن کی دمِ رُخصت اتنی آئیں کہ بازوؤںپر بندھ نہ سکیں، تمام راہ سید مسافروں نے پائیں۔ اور کُلچُوں کا یہ حال ہوا کہ اُن کا لے چلنا مُحال ہوا۔ راتب کو سوا، ہاتھیوں کو ملے اور اہلِ لشکر کو بانٹ دیے۔ کھجوریں جو بٹ نہ سکیں، راہ میں پھینگ دیں۔ وہ اُگین؛ اُس کے درخت آگے کم تھے، اُس دن سے جنگل ہو گئے۔

اُس وقت بادشاہ سراسیمہ و بدحواس با حالِ یاس دولت سرا میں پھر آیا۔ وہ بسا بسایا شہر لُٹا، اُجڑا، ویران نظر آیا۔ بازار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۵

میں جا بہ جا چراغ گُل، سرِ شام پگڑی غائب، اندھیرا بالکل۔ جس طرف دیکھا، لوگ تھکے ماندے پھر کر پڑے تھے۔ بازار میں تختے لگے، ٹٹر جڑے تھے۔ لوگ سُوزِ مُفارقت سے درد مند، دُکانیں بند۔ جو جہاں پڑا تھا، شہ زادے کی رُخصت کا ذِکر کر رہا تھا۔ دو شخص اگر باہم تھے، بادِلِ پُر غم تھے۔ کوئی سُوتا تھا، کوئی چُپکا پڑا روتا تھا۔ بستی سُنسان، بازار میں سناٹا، خلقِ خدا اندُوہ کی مُبتلا۔ بادشاہ کو دؤنا قلق ہوا، رنگ فق ہوا، دل سینے میں شق ہوا۔ محل سرا میں آیا، وہاں بھی چھوٹے بڑے کو غمگین پایا۔ لوگوں کے عزیز جدا ہو گئے، سب اُس یوسفِ رفتہ کے زندانِ فراق میں اسیرِ بلا ہو گئے۔ علی الخُصوص انجمن آرا کی ماں، جس کی نظر سے وہ چاند سورج چھپ گئے؛ زمانہ آنکھ میر تیرہ و تار، دل غم سے خار خار، حیرت میں نقشِ دیوار ہو رہی تھی۔ آنکھوں پر زور تھا، زار زار رو رہی تھی۔ بادشاہ نے سمجھایا، ہاتھ مُنہ دُھلوایا، کچھ کھلایا۔

یہ تو سب نالہ بہ لب، آہ در دل؛ جان عالم اور انجمن آرا رؤ بہ منزل۔ پانچ پانچ کُوس کا کؤچ، دو چار دن کے بعد ایک دو مُقام بہ راحت و آرام کرتے چلے۔ فوجِ ظفر موج ساتھ۔ اُردؤے مُعلیٰ کا عجب عالم تھا۔ ایک شہر رُوز ہمراہ، جہان کی نعمت تیار شام و پگاہ۔ صراف، بزاز، جوہری: روپیہ پیسہ، اشرفی کھری سے کھری؛ ڈھاکے کا ریزہ، بنارس کا گُلبدن، گجرات کا کمخواب؛ الماس و زمُرد، یاقوتِ احمر؛ جو چاہو سُو لُو، موجود۔ ایک طرف قصاب اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۶

نانبائی؛ وہ کچا گوشت لیے، یہ پکی پکائی، میوہ فروش خانہ بدُوش۔ حلوائی طرح طرح کی مٹھائی درست کیے۔ مینا بازار باغ و بہار۔ جُدا جُدا ہر گنج کا جھنڈ گڑا، ہر ایک منڈی کا پتا ملتا، چوپڑ کا بازار پڑا۔ جلو خانے کے رؤ بہ رؤ نصف شب گُزرے تک دُکانیں کُھلیں، اکاسی دِیا جلتا، بھؤلا بچھڑا اُس کی رُوشنی میں آ ملتا۔ کُوتوال سر گرمِ پاسبانی، بازاریوں کی نگہبانی، نرسنگا روند میں پھونکتا۔ غرض کہ سب خُرم و شاداں رواں تھے؛ مگر جانِ عالم گاہ گاہ جذبِ محبتِ ملکہ سے یہ کہتا، شعر :

بسامانِ سفر باخود دلِ رنجیدۂ دارم
بکف چیزیکہ دارم، دامنِ برچیدۂ دارم

وُرؤدِ موکبِ جاہ و جلالِ شاہ زادۂ خُجستہ خِصال مُتصلِ باغِ فراق دیدۂ روز گار ملکۂ مہر نگار، اور بیان ملاقاتِ انجمن آرا کا، پھر نکاح ملکہ کا۔

مشاطۂ خامہ نے عروسِ دِل فریبِ سخُن کو بہ صد زیب و زینت حجلۂ بیاں میں اس طرح جلوہ آرا کیا ہے کہ بعد قطع مانزل وطی مراحل جس روز وُرؤدِ لشکرِ فیروزی اثر باکروفر ملکہ مہر نگار کے باغ سے قریب ہوا، خبرداروں نے اور اخبار کے ہرکاروں نے یہ مُژدۂ جاں بخش فوراً ملکہ کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۷

پہنچایا کہ حُضور کی عُمر و دولت روز افزوں ہو، محکوم گردوں ہو؛ مُبارک! شاہ زادۂ جانِ عالم تشریف لایا۔ بس کہ غمِ مُفارقت سے تاب و تواں طاق، زندگی شاق تھی؛ سُنتے ہی مُشتاق کو غش آیا، پھر سنبھل کر فرمایا: بختِ خُفتہ کب بیدار ہوتا ہے، ایسا پاؤں پھیلائے سُوتا ہے! اور جو میرا دل بہلانے کو یہ کہتے ہو، تو سُن لو، مُؤلِف :

تفریح کُلفتُوں کی، ترغیب ہے لا حاصل
بہلانے کی باتیں ہیں، یہ دل بھی بہلتے ہیں

چندے جو یہی لیل و نہار ہے تو قصہ، فیصلہ ہے۔ تدبیر خلافِ تقدیر سراسر بے کار ہے۔ مُؤلف :

گر اُس کے ہجر میں یوں ہی اندوہگیں رہے
تو ہوئے گا وصال، دِلا، یہ یقیں رہے

ہے احتیاط شرط کہ اس چشم تر پر، آہ!
دامن رہے رہے نہ رہے، آستیں رہے

مدفن کا اپنے ہم کو تردُد ہو کس لیے
کوچے کی تیرے، یار، سلامت زمیں رہے

تو گلشنِ وصال کی کر سیر عندلیب!
ہم خرمنِ فراق کے بس خُوشہ چیں رہے

جو جو کہ انتخاب تھے صفحے پہ دہر کے
ایسے رہ مٹ گئے کہ نشاں بھی نہیں رہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۸

کس کی خوشی، کہاں کی ہنسی، کیسا اختلاط
ہم کو نہ چھیڑو تم کہ وہ اب ہم نہیں رہے

چھوٹا نہ نزع میں بھی خیال اُس کا اے سُرورؔ
دم بھرتے ہم اُسی کا دمِ واپسیں رہے

اس عرصے میں وہی خواص دل آرام نام بارہ دری سے نیچے اُتری، پھر کہا: خُدا جانے کہاں سے یہ لشکر آ کر اس دشت میں اُترا ہے! ملکہ ہنس کر بہ حیلۂ سیر خواصوں کے کندھوں پر ہاتھ دھر، ٹھنڈی سانس بھر کُوٹھےپر چڑھی۔ دیکھا تو فی الحقیقت لشکرِ بے پایاں، سپاہِ فراواں، فُزوں اس حدِ شُمار و بیاں ہے۔ خیامِ شاہی اِستادہ ہیں، پھرتے چلتے سوار اور پیادے ہیں۔ یکایک شہ زادہ جانِ عالم، بہ چند سوار، اسپِ صرصر خرام، رخشِ تیز گام پر سوار نظر آیا؛ تاجِ سلطانی سر پر کج، شہر یاری کی سج دھج۔ یا تو اُسے نُچا کُھچا، منزلوں کا مارا، دشتِ غربت کا آوارہ دیکھا تھا؛ اب چم و خم، جاہ و حشم سے پایا؛ بدن تھرایا، اعضا اعضا میں رعشہ ہوا، یہ زُور تماشا ہوا۔ اُستاد :

آتے ہی ترے، چُھٹتا ہے رعشہ سا بدن میں (۱)
ہر چند کہ ہیں بیٹھتے ہر لحطہ سنبھل ہم

وہ زردی چہرۂ پُر غم مُژدۂ وصل کی سُرخی سے بدل گئی، غش سے سنبھل گئی۔ شہ زادہ گھوڑے سے اُتر کے، سیدھا ملکہ کے باپ کے پاس گیا، جُھک کر نذر دی، رسمِ سلام بجا لایا۔ اُس نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸۹

دُعائے خیر دے کر چھاتی سے لگایا، کہا: للہ الحمد تمہیں بہ صحت و عاطیت اللہ نے کام یاب دکھایا۔ پھر انجمن آرا کی سواری آئی، تسلیم بجا لائی۔ پیر مرد نے فرمایا: شہ زادی! فقیر کے حال پر کرم کیا، اللہ بھلا کرے۔ اُس نے عرض کی: کنیز مُدت سے حضور کی صفت و ثنا ظِلِ سُبحانی کی زبانی سُنا کرتی تھی، آج شہ زادے کی بدولت سعادتِ آستاں بُوس سے مُشرف ہوئی۔ دو گھڑی بیتھی، پھر التماس کیا: اگر اجازت دیجیے، ملکہ کی ملاقات سے مسرور ہوں۔ اُس حق پرست نے فرمایا: ان کا پوچھنا کیا، بابا! بے تکلف خانہ خانۂ شماست۔ جانِ عالم تو رخصت ہو کے خیمے میں آیا، انجمن آرا نے ملکہ کے مکان کا رستہ لیا۔ آنے کی خبر پیش تر ملکہ کو پہنچی تھی، سامان اُس اُجڑے مکان کا درست ہو چکا تھا۔

جب سواری اُتری، لبِ فرش لینے آئی، فراشی سلام کیا۔ انجمن آرا نے گلے سے لگا لیا۔ ملکہ آبدیدہ ہو کر بولی: تم نے مجھے محجوب کیا۔ میں فقیر کی بیٹی، تم شاہ زادی۔ ہر چند شاہ و گدا دونوں بندۂ خُدا ہیں؛ اِلا، تمہارے قدم آنکھوں پر رکھوں تو بجا ہے، آپ کے آنے سے مجھے بڑا افتخار حاصل ہوا ہے۔ انجمن آرا بولی: ہم نے خوب کیا۔ رنڈی! یہ چُوچلے کی باتیں بیگانہ وار نہ کرتی تو کیا ہوتا! اے صاحب! ہمارے تمہارے تو رشتۂ ہمسری، سر رشتۂ برابری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۰

اور حساب کی راہ سے، پہلی تو "سلامتی سے" تمہیں ہو۔ سرکار کا اُلُش ہمیں ملا ہے، پہلے مزہ آپ نے چکھا ہے، جُوبن لوٹا ہے۔ غرض کہ دو دو نُوکیں ہو گئیں۔ پھر اختلاط، حرف و حکایات، رمز و کنایہ میں تمام رات بسر ہوئی۔

جس وقت عرؤسِ شب نے مقنعۂ مغرب میں مُنہ چِھپایا اور نو شاہِ رُوز مشرق سے نکل آیا؛ انجمن آرا جانِ عالم کے پاس آئی، ماجراے شب بر زباں لائی، کہا: بہ خُدا! اس خُلق و مروت، سنجیدہ و صفت کی عورت آج تک نہ دیکھی نہ سُنی تھی۔ دوسرے دن جانِ عالم نے ملکہ کے باپ سے عرض کیا کہ الکریمۃ اذا وعد وفیٰ۔ اُس سالِکِ راہِ حق نے ارشاد کیا؛ ہم اس لائق کہاں ہیں، لیکن، مصرع :

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

تم قول کے پورے، اقرار کے سچے ہو۔ بسم اللہ، اپنے زُمرۂ کنیزوں میں سرفراز کرو، آبرو بخشو۔ شادی کا نام لینا، مُنہ چڑانا ہے کہ نہ اب وہ ہم ہیں، نہ ہمارا زمانہ ہے۔ آخرش بہ طورِ شرعِ شریف ملکہ کا نکاح جانِ عالم کے ہمراہ ہوا۔ اب یہ معمؤل ٹھہرا: ایک شب انجمن آرا کی، دوسری رات ملکہ کی ملاقات ٹھہری؛ مگر اُن دونوں میں وہ رہ و رسم محبت، اُلفت کی بڑھی کہ شہ زادے کی عاشقی نظر سے گر گئی، نظری ہوئی۔ اور سچ ہے: جو طرفین سے نجیب الطرفین ہوتے ہیں؛ اُن میں رشک و حسد، رنج و ملال دخل نہیں پاتا، شکوہ و شکایت لب تک نہیں آتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۱

کٹی جلی ڈاہ، بُخض، عداوت، خواہ نخواہ کج بحثی، دانتا کل کل، رُوز کی تؤ تؤ میں میں چھوٹی اُمت پر ختم ہے۔ لاکھ طرح سے انہیں سمجھاؤ، نشیب و فارز دکھاؤ؛ لیکن ان لوگوں سے بے جُھونٹک جھانٹا گھڑی بھر چین سے رہا نہیں جاتا۔ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ آدمی سِر پکڑ کے روتا ہے۔ دو دن ایک طرح پر صُحبت بر آر نہیں آتی ہے، زندگی انسان کی تلخ ہو جاتی ہے۔ لاکھ طرح کا غم ہوتا ہے، ناک میں دم ہوتا ہے۔ مُؤلف :

عشق میں طرفین سے الفت برابر چاہیے
جو بہ دل بندہ ہو، اُس کو بندہ پرور چاہیے

داستانِ حیرت بیاں، رخصت شہ زادۂ باوقار کی پیر مرد کا عمل بتانا، وزیر زادۂ گُم گشتہ کا اُسی روز آنا، جانِ عالم کی عنایت، اُس کا انجمن آرا پر فریفتہ ہو جانا، دغا سے شہ زادے کو بندر بنانا۔ بعدِ خرابی ملکہ باعِث رہائی پانا۔

نظم :

مُصیبت نگار و مصائِب رقم
جگر چاک و مغموم میرا قلم

زمانے کی کچھ طرز لکھتا ہے یاں
عجائب غرائب ہے، یہ داستاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۲

مری بات یہ دل سے کرنا یقیں
کسی کا کوئی دوست مطلق نہیں

جو یہ دوست ہیں، ان سا دشمن کہیں
نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں

کیا امتحاں میں نے اکثر سُرور
ضرورت کی کچھ دوستی ہے ضرور

قِصہ کُوتاہ، چندے شہ زادۂ والا جاہ وہاں رہا۔ ایک رُوزیہ سب عاشق و معشوق باہم خوش و خُرم بیٹھے تھے؛ جانِ عالم نے کہا: ہمیں وطن چُھوڑے، عزیزوں سے مُنہ مُوڑے عرصہ ہوا؛ ہنُوز دِلی دور ہے، اب چلنا ضرور ہے۔ وہ دونوں نیک خؤ، رضا جؤ بولیں: بہت خوب۔ اُسی روز حرفِ رُخصت ملکہ کے باپ سے درمیان آیا۔ مردِ انجام بیں نے رُوکنا مناسب نہ جانا۔ سفر کی تیاری ہوئی۔ دمِ رُخصت اس قدر مال و اسباب، نقد و جنس وغیرہ کی قسم سے شہ زادی کو ملا کہ انجمن آرا کی جہیز بھولا۔ اور وقت وداع پیر مرد نے بادِلِ پُر درد جانِ عالم سے کہا: فقیر کے پاس آپ کے لائق کچھ نہ تھا جو پیش کش کرتا، مگر ایک نُکتہ بتاتا ہوں؛ جب کہ امتحان ہو گا، خزانہ قارؤں سے زیادہ کام آوے گا۔ راست، دروغ خاطر نشاں ہو گا، لطف مل جائے گا۔ پھر چند فقرے تنہا لے جا کے بتا کے، تاکید سے کہا: اگر یہ مُقدمہ حقیقی بھائی سے اظہار کرو گے؛ یاد رکھو، حضرت یوسف علیہِ السلام سے زیادہ صدمے سہو گے۔ زمانے کے اِخوانُ الشیاطیں بہ ہزار کید آمادۂ کیں رہتے ہیں۔ اسی سبب سے دانش مند زبان بند رکھتے ہیں، راز اپنا نہیں کہتے ہیں۔ یہ نُکتہ حضرت آدم ؑ کے وقت سے سب کو یاد ہے: دُنیا میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۳

برادرِ حقیقی دشمنِ مادرزاد ہے۔ فرد :

بھاگ ان بردہ فروشُوں سے، کہاں کے بھائی (۱)
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہووے

پھر انجمن آرا پاس آ فرمایا: شہ زادی! فقیر زادی کنیز کو عزیز جان کر، نظرِ الطاف و کرم ہر دم رکھنا۔ یہ بھی خدمت گُزاری میں قُصور نہ کرے گی۔ اسے تم کو سونپا، تمھیں حافِظِ حقیقی کے سپُرد کیا؛ لُو خُدا حافظ۔ سواری دیر سے تیار تھی۔ لوگوں پر ثابت تھا کہ کوئی امرِ پُوشیدہ، درویشِ باوقار شہ زادے پر بہ تکرار اظہار کرتا ہے۔

اِتفاقاتِ زمانہ، اُسی روز وہ وزیر زادہ جو وطن سے ساتھ نکل، ہرن کے پیچھے گھوڑا پھینک، دشتِ اِدبار میں شہ زادے سے جُدا ہوتا تھا؛ سرگشتہ و پریشاں، پِھرتا پِھرتا، پیادہ پا اِدھر آ نکلا۔ اُس نے جو یہ لشکرِ جرار اور قافلہ تیار دیکھا، پوچھا: کس کی سواری ہے، کہاں کی تیاری ہے؟ لوگوں نے تمام جانِ عالم کا قصہ سُنایا۔ یہ خوش ہوا، جی میں آیا۔ پوچھا: شہ زادہ کہاں ہے؟ وہ بولے: پیر مرد جو یہاں کا مالک ہے، کامِل ہے، عامِل ہے، فقیرِ سالِک ہے؛ کچھ کہنے کو تنہا جُدا لے گیا ہے۔ اس عرصے میں جانِ عالم رُخصت ہو سوار ہوا۔ سلامی کی تُوپ چلی، نقارہ نواز نے ڈنکے پر چُوب دی۔ وزیر زادے نے ہُلڑ میں دوڑ کر مُجرا کیا۔ شہ زادے نے گھوڑے سے کود کے گلے لگایا، دیر تک نہ چُھوڑا۔ اُسی دم لباسِ فاخرہ پنھا، ہمراہ سوار کیا۔ راہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۴

میں سرگُذشتِ تفرقہ پوچھتا کہتا چلا۔ جب خیمے میں داخل ہوا، وزیر کو محل سرا میں طلب کیا۔ انجمن آرا اور ملکہ کو نذر دلوا کے، کہا: یہ وہی شخص ہے جس کا المِ مُفارقت مُدام دل میں کانٹا سا کھٹکتا تھا، جی سینے میں تنگ تھا، آمد و شُد میں دم اٹکتا تھا۔ دیکھو، جب اچھے دن آتے ہیں، بے تلاش بچھڑے مل جاتے ہیں۔ جس دن گردؤں نے ہمیں آوارۂ دشتِ اِدبار کیا تھا، جُدا ہر ایک دوست دارِ غم خوار کیا تھا۔ اب مۃساعدتِ بخت سے ایامِ سختے دور ہوئے، بہم مہجؤر ہوئے۔

وزیر زادے کا حال سُنو: انجمن آرا کا حُسن و جمالِ بے مِثال دیکھ، دیوانہ ہو، ہوش و حواس، عقل کُھو؛ نمک حرام بنا، وصل کی تدبیر میں پھنسا۔ اُستاد:

یار، اغیار ہو گئے، اللہ! (۱)
کیا زمانے کا انقلاب ہوا

اُستاد :

خدا ملے تو ملے، آشنا نہیں ملتا (۲)
کوئی کسی کا نہیں دوست، سب کہانی ہے

دُو چار گھڑی یہ صُحبت رہی، پھر اپنے اپنے خیموں میں گئے۔ وزیر زادے کے واسطے خیمۂ عالی اِستادہ ہوا۔ پھر جتنی جلیسیں، انیسیں حسیں، مہ جبیں دونوں شہ زادیوں کے ہمرا تھیں؛ اُسے دِکھا، فرمایا: جس طرف تیری رغبت ہو؛ سعی کروں، دِلوا دوں۔ وہ نُطفۂ حرام اور خیال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹۵

میں تھا، یہ مُقدمہ مطلب کے خلاف صاف صاف سمجھا، عرض کرنے لگا: میری کیا مجال ہے اور کیا تاب و طاقت ہے جو اِنھیں بُری نگاہ سے دیکھوں۔ جانِ عالم اس وضعی حرکت سے بہت رضامند ہوا کہ یہ بڑا نیک طینت، صاف باطن ہے۔ بہ اسبابِ ظاہر اِس نظر سے زیادہ مدِ نظر ہوا، دل میں بھر ہوا۔ تمام صُعوبتیں، حالاتِ سفر، رنجِ راہ، قریہ و شہر کا گزر شہ زادے نے بیان کیا؛ مگر پیر مرد کے مشورے کا ذکر آتا، ٹال جاتا۔ وہ سمجھا، کچھ اس میں بھید ہے۔

ایک رُوز ملکہ مہر نگار اور انجمن آرا نے مُتفِق ہو کر جانِ عالم سے کہا: یہ نیا ماجرا ہے، ہر دم ایک شخصِ غیر اور جوان کو شریکِ صُحبتِ خلا ملا رکھنا کیا مناسب ہے؟اور دابِ سلطنت سے بھی یہ اۢر بعید ہے۔ شیطان کو انسان دور نہ جانے۔ غیر تو کیا، اپنے کا اعتبار نہ مانے۔ جانِ عالم نے کہا: پھر ایسا کلمہ زبان پر نہ لانا۔ تم نے اتنا نہ قیا س کیا کہ اُس نے تمہاری لونڈیوں کا پاس کیا، نہ کہ تمہارا حفظ مراتب۔ اور میں بھی تو ایسا بیہودہ، نادان نہ تھا جو خلافِ وضع حرکت کرتا۔ ملکہ یہ سُن کر ہنسی، انجمن آرا سے مُخاطب ہو کر کہا: براے خُدا انصاف کیجیے، خاطر کی نہ لیجیے؛ اِن کھ حُمُق میں کس بے وقوف کو تامُل ہو گا! آپ اگر عقل کے دُشمن نہ ہوتے، تو کیوں حوض میں کود کر، ساحِرہ کی قید میں پھنستے، نام ڈُبُوتے۔ لُو بھلا سچ کہو، شرمندہ نہ ہو؛ جی میں کیا سمجھے تھے جو کود پڑے؟ ذرا یہ خیال نہ آیا، غواصِ فِکر کو مُحیط تامُل میں غوطہ زن نہ فرمایا کہ
 
Top