عارضی کے

محفلین
ذیل میں کچھ فارسی کہانیاں پیش کررہا ہوں۔ فارسی کے اساتذہ ، محبان اور ماہرین سے گزارش ہے کہ ان کا ترجمہ کیجیے۔ تاکہ نوآموزوں کے لیے فارسی سیکھنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ترجمہ رواں نہ ہو تاکہ جملہ کی ساخت کو سمجھا جاسکے۔ دستتون درد نکنہ!

ھوس ھائ مورچہ ای

یک مورچه در پی جمع کردن دانه های جو از راهی می گذشت و نزدیک کندوی عسل رسید. از بوی عسل دهانش آب افتاد ولی کندو بر بالای سنگی قرار داشت و هر چه سعی کرد از دیواره سنگی بالا رود و به کندو برسد نشد. دست و پایش لیز می خورد و می افتاد.

هوس عسل او را به صدا درآورد و فریاد زد: ای مردم، من عسل می خواهم، اگر یک جوانمرد پیدا شود و مرا به کندوی عسل برساند یک «جور» به او پاداش می دهم. یک مورچه بالدار در هوا پرواز می کرد. صدای مورچه را شنید و به او گفت:«نبادا بروی ها... کندو خیلی خطر دارد!» مورچه گفت: بی خیالش باش، من می دانم که چه باید کرد.

بالدار گفت: آنجا نیش زنبور است.

مورچه گفت: من از زنبور نمی ترسم، من عسل می خواهم.

بالدار گفت: عسل چسبناک است، دست و پایت گیر می کند.

مورچه گفت: اگر دست و پاگیر می کرد هیچ کس عسل نمی خورد.

بالدار گفت: خودت می دانی، ولی بیا و از من بشنو و از این هوس دست بردار، من بالدارم، تجربه دارم، به کندو رفتن برایت گران تمام می شود و ممکن است خودت را به دردسر بیندازی.

مورچه گفت: اگر می توانی مزدت را بگیر و مرا برسان، اگر هم نمی توانی جوش زیادی نزن. من بزرگتر لازم ندارم و از کسی که نصیحت می کند خوشم نمی آید .

بالدار گفت: ممکن است کسی پیدا شود و ترا برساند ولی من صلاح نمی دانم و در کاری که عاقبتش خوب نیست کمک نمی کنم.

مورچه گفت: پس بیهوده خودت را خسته نکن. من امروز به هر قیمتی شده به کندو خواهم رفت.

بالدار رفت و مورچه دوباره داد کشید: یک جوانمرد می خواهم که مرا به کندو برساند و یک جو پاداش بگیرد. مگسی سر رسید و گفت: بیچاره مورچه، عسل می خواهی و حق داری، من تو را به آرزویت می رسانم .

مورچه گفت: تو را می گویند، حیوان خیرخواه.

مگس مورچه را از زمین بلند کرد و او را دم کندو گذاشت و رفت. مورچه خیلی خوشحال شد و گفت: به به، چه سعادتی، چه کندویی، چه بویی، چه عسلی، چه مزه یی، خوشبختی از این بالاتر نمی شود، چقدر مورچه ها بدبختند که جو و گندم جمع می کنند و هیچ وقت به کندوی عسل نمی آیند. مورچه قدری از اینجا و آنجا عسل را چشید و هی پیش رفت تا رسید به میان حوضچه عسل، و یک وقت دید که دست و پایش به عسل چسبیده و دیگر نمی تواند از جایش حرکت کند.

مور را چون با عسل افتاد کار ------- دست و پایش در عسل شد استوار

از تپیدن سست شد پیوند او ----------دست و پا زد، سخت تر شد بند او

هرچه برای نجات خود کوشش کرد نتیجه نداشت. آن وقت فریاد زد: عجب گیری افتادم، بدبختی از این بدتر نمی شود، ای مردم، مرا نجات بدهید. اگر یک جوانمرد پیدا شود و مرا از این کندو بیرون ببرد دو جو به او پاداش می دهم.

گر جوی دادم دو جو اکنون دهم -------- تا از این درماندگی بیرون جهم

مورچه بالدار از سفر برمی گشت، دلش به حال او سوخت و او را نجات داد و گفت: نمی خواهم تو را سرزنش کنم اما هوسهای زیادی مایه گرفتاری است این بار بختت بلند بود که من سر رسیدم ولی بعد از این مواظب باش پیش از گرفتاری نصیحت گوش کنی و از مگس کمک نگیری. مگس همدرد مورچه نیست و نمی تواند دوست خیرخواه او باشد.


حسان خان
الف عین
محمد وارث
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ان کا ترجمہ تو خان صاحب ہی فرمائیں گے کہ میری اتنی بساط نہیں ہے۔

ویسے آپ کے لیے ایک ربط دے رہا ہوں، یہ ایک فارسی ناول ہے۔ ہر لفظ کے اوپر کرسر لے جانے سے اس کا ترجمہ ظاہر ہوجاتا ہے، اور ہر جملے کے بعد ایک جھنڈا بنا ہوا اس پر کرسر لے کر جانے سے پورے جملے کا ترجمہ مل جاتا ہے۔ فارسی ہاتھ کی لکھائی بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ فارسی تلفظ بھی سننے کو ملتا ہے۔ ہاں فقط یہ کہ ترجمہ انگلش میں ہے لیکن پھر بھی انتہائی سود مند ہے۔
 

عارضی کے

محفلین
زبردست محمد وارث صاحب۔ بہترین طریقۂ تدریس ہے۔ بس ایک بات ہے کہ ناول ادبی ہے۔ اورمیں ابھی مبتدی ہوں۔ اس لیے فی الحال آسان کہانیوں سے ابتدائی سفر طے کرنا چاہتا ہوں۔
 

عارضی کے

محفلین
آپ نے تو کہا تھا تین دن لگیںگے فارسی سیکھنے میں بتایا بھی نہیں آپ نے وہ راز . . . کیا رہا پھر ؟
بالکل اکمل زیدی صاحب۔ تین دن ابھی پورے ہونے کو ہیں۔ الحمد للہ۔ زمانوں (کے صیغوں) سمیت گرامر کی کئی اقسام کی پہچان ہوچکی ہے۔ لیکن میں نے سادہ کا ذکر اسی لیے کیا تھا کہ کسی زبان کے جملوں کے پوری ساخت کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ساتھ ساتھ جو اسماء وافعال نیے ہوں تو انہیں بھی رٹنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ اس کہانی میں کافی کچھ سمجھ آرہا ہے لیکن ”مورچہ“ کو پہلی بار دیکھ کر ہم اردو والوں کو پاک انڈیا کا مورچہ یاد آجاتا ہے ، اب یہ ہے کہ گرامر ہمیں بتاتا ہے کہ جب ” چہ“ آخر میں آئے تو کسی چیز کو صغیر بنادیتا ہے۔تو آہستہ آہستہ چلنے والی ایسی چیز کو جو چھوٹی ہو ،کو فارسیوں نے مورچہ بنالیا۔! اب اُس مورچہ سے اِ س مورچہ پر آنے میں تو کچھ نہ کچھ وقت لگے گا ہی۔!
اسی طرح کندوی عسل، زنبور، نیش، مواظب وغیرہ۔۔۔پھر بھی الحمد للہ کافی سرعت سے بہت کچھ سیکھاہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بالکل اکمل زیدی صاحب۔ تین دن ابھی پورے ہونے کو ہیں۔ الحمد للہ۔ زمانوں (کے صیغوں) سمیت گرامر کی کئی اقسام کی پہچان ہوچکی ہے۔ لیکن میں نے سادہ کا ذکر اسی لیے کیا تھا کہ کسی زبان کے جملوں کے پوری ساخت کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ساتھ ساتھ جو اسماء وافعال نیے ہوں تو انہیں بھی رٹنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ اس کہانی میں کافی کچھ سمجھ آرہا ہے لیکن ”مورچہ“ کو پہلی بار دیکھ کر ہم اردو والوں کو پاک انڈیا کا مورچہ یاد آجاتا ہے ، اب یہ ہے کہ گرامر ہمیں بتاتا ہے کہ جب ” چہ“ آخر میں آئے تو کسی چیز کو صغیر بنادیتا ہے۔تو آہستہ آہستہ چلنے والی ایسی چیز کو جو چھوٹی ہو ،کو فارسیوں نے مورچہ بنالیا۔! اب اُس مورچہ سے اِ س مورچہ پر آنے میں تو کچھ نہ کچھ وقت لگے گا ہی۔!
پھر بھی الحمد للہ کافی سرعت سے بہت کچھ سیکھاہے۔
ماشا الله ...خوب است . (y).. راز پھر دبا گئے آپ ...:D
 

نبیل

تکنیکی معاون
جو دوست کوئی نئی زبان سیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے ریڈلینگ سائٹ کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ کم از کم مجھے یہ کافی مفید معلوم ہوئی ہے۔ اس سائٹ کا بکمارکلٹ مفت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی سبسکرپشن خرید لی جائے تو چند فیچرز مزید دستیاب ہو جاتی ہیں۔
 
من کوشش میکنم و پس ازین برادرم حسان خان را درخواست می کنم که اصلاح در ترجمه بکنند۔۔۔سطرِ سبز جمله ایست که ترجمه اش بر من واضح نیست
یک مورچه در پی جمع کردن دانه های جو از راهی می گذشت و نزدیک کندوی عسل رسید. از بوی عسل دهانش آب افتاد ولی کندو بر بالای سنگی قرار داشت و هر چه سعی کرد از دیواره سنگی بالا رود و به کندو برسد نشد. دست و پایش لیز می خورد و می افتاد.
(ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک راہ سے گزر رہا تھا اور ایک شہد کے چھتے کے نزدیک پہنچا۔شہد کی بُو سے اس کے منہ میں پانی آگیا (لفظی ترجمہ: شہد کی بو سے اس کے منہ نے پانی گرایا) لیکن چھتہ ایک پتھر کے اوپر نصب تھا اور جتنی بھی کوشش کی (کہ) دیوار سے پتھر اُٹھے اور چھتے تک پہنچے، نہیں ہوا۔اس کے دست و پا پھسل جاتے اور وہ گر جاتا۔)

هوس عسل او را به صدا درآورد و فریاد زد: ای مردم، من عسل می خواهم، اگر یک جوانمرد پیدا شود و مرا به کندوی عسل برساند یک «جو» به او پاداش می دهم. یک مورچه بالدار در هوا پرواز می کرد. صدای مورچه را شنید و به او گفت:«نبادا بروی... کندو خیلی خطر دارد!» مورچه گفت: بی خیالش باش، من می دانم که چه باید کرد.
شہد کی ہوس اسے صدا کرنے تک لے آئی اور اس نے فریاد کی: اے لوگو! میں شہد چاہتا ہوں، اگر ایک جواں مرد پیدا(پیدا کا ایک مطلب ظاہر ہونا بھی ہے) ہو اور مجھے شہد کے چھتے پہنچادے تو ایک جو اسے انعام میں دوں گا۔ ایک مورچہء بالدار ہوا میں اڑ رہا تھا، اس نے چیونٹی کی آواز سنی اور اسے کہا:تمہیں ادھر نہیں جانا چاہیے۔۔۔۔چھتہ بسیار خطرہ رکھتا ہے۔ چیونٹی نے کہا: اس سے بےفکر رہو، میں جانتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔

بالدار گفت: آنجا نیش زنبور است.
مورچه گفت: من از زنبور نمی ترسم، من عسل می خواهم.
بالدار گفت: عسل چسبناک است، دست و پایت گیر می کند.
مورچه گفت: اگر دست و پاگیر می کرد هیچ کس عسل نمی خورد.
مورچہء بالدار نے کہا: ادھر (شہد کی) مکھی کا ڈنگ ہے۔
چیونٹی نے کہا:میں زنبور سے نہیں ڈرتا، مجھے شہد چاہیے
مورچہء بالدار نے کہا: شہد چسپناک( چپکنے والا) ہے، تمہارے دست و پا پھنسا دیتے ہیں۔
چیونٹی نے کہا: اگر دست و پا پھنساتے تو کوئی بھی شہد نہیں کھاتا


بالدار گفت: خودت می دانی، ولی بیا و از من بشنو و از این هوس دست بردار، من بالدارم، تجربه دارم، به کندو رفتن برایت گران تمام می شود و ممکن است خودت را به دردسر بیندازی.
مورچه گفت: اگر می توانی مزدت را بگیر و مرا برسان، اگر هم نمی توانی جوش زیادی نزن. من بزرگتر لازم ندارم و از کسی که نصیحت می کند خوشم نمی آید .بالدار گفت: ممکن است کسی پیدا شود و ترا برساند ولی من صلاح نمی دانم و در کاری که عاقبتش خوب نیست کمک نمی کنم.
مورچه گفت: پس بیهوده خودت را خسته نکن. من امروز به هر قیمتی شده به کندو خواهم رفت.
مورچہء بالدار نے کہا: تو خود جانتا ہے، امّا آ اور مجھ سے سن اور اس ہوس سے دست برادار ہوجا(لفظی ترجمہ:ہاتھ اٹھا)۔میں بالدار ہوں، تجربہ رکھتا ہوں، چھتے میں جابا تمہارے لئے مشکل ہے اور ممکن ہے کہ خود کو دردِ سر میں ڈال دو۔ چیونٹی نے کہا: اگر ہوسکتا ہے تو تُو اپنا معاوضہ لو اور مجھے پہنچاؤ،اگر نہیں کرسکتا تو زیادہ میں مت آؤ (لفظی ترجمہ: زیادہ جوش مت مار)، میں اپنے سے بڑا کسی کو نہیں سمجھتا اور جو کوئی مجھے نصیحت کرتا ہے اچھا نہیں لگتا۔
بالدار نے کہا:ممکن ہے کوئی ظاہر ہو اور تجھے پہنچائے امّا (اس کام میں) میں مصلحت نہیں سمجھتا اور اس کام میں کہ جو آخرِکار صحیح نہ ہو مدد نہیں کرتا


مورچه گفت: پس بیهوده خودت را خسته نکن. من امروز به هر قیمتی شده به کندو خواهم رفت.
بالدار رفت و مورچه دوباره داد کشید: یک جوانمرد می خواهم که مرا به کندو برساند و یک جو پاداش بگیرد. مگسی سر رسید و گفت: بیچاره مورچه، عسل می خواهی و حق داری، من تو را به آرزویت می رسانم .
مورچه گفت: تو را می گویند، حیوان خیرخواه.
چیونٹی نے کہا: پس بےفائدہ خود کو تھکاؤ مت، میں امروز بہ ہر قیمت چھتہ پر جاؤں گا
بالدار چلا گیا اور چیونٹی نے دوبارہ صدا کی: ایک جواں مرد چاہتا ہوں جو مجھےت چھتے تک پہنچائے اور جو (بطورِ)انعام ایک جو لے۔ایک مکھی آئی اور اس نے کہا: بےچارہ چیونٹی، تو شہد چاہتا ہے اور حق رکھتا ہے، میں تجھے تیری آرزو تک پہنچاتا ہوں۔چیونٹی نے کہا:تجھے کہتے ہیں حیوانِ خیرخواہ۔

مگس مورچه را از زمین بلند کرد و او را دم کندو گذاشت و رفت. مورچه خیلی خوشحال شد و گفت: به به، چه سعادتی، چه کندویی، چه بویی، چه عسلی، چه مزه یی، خوشبختی از این بالاتر نمی شود، چقدر مورچه ها بدبختند که جو و گندم جمع می کنند و هیچ وقت به کندوی عسل نمی آیند. مورچه قدری از اینجا و آنجا عسل را چشید و هی پیش رفت تا رسید به میان حوضچه عسل، و یک وقت دید که دست و پایش به عسل چسبیده و دیگر نمی تواند از جایش حرکت کند
.
مکھی نے چیونٹی کو زمین سے بلند کیا اور اسے چھتے کے پاس چھوڑدیا اور گیا۔مورچہ بسیار خوش ہوا اور بولا: اچھا اچھا، کیا سعادت، کیا چھتہ، کیا بو، کیا شہد، کیا مزہ، خوش قسمتی اس سے بالا نہیں ہوسکتی ہے، کتنی چیونٹیاں بدقسمت ہیں کہ جو اور گندم جمع کرتی ہیں اور کسی وقت بھی شہد کے چھتے نہیں آتیں۔ چیونٹی نے کچھ ادھر سے اور کچھ اُدھر سے شہد کو چکھا اور آگے چلاگیا تاآنکہ وہ شہد کے حوضچہ کے درمیان پہنچا، اور ایک وقت دیکھا کہ اس کے دست و پا شہد میں چپکے اور اپنے جگہ سے دیگر حرکت نہیں کررہا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
من کوشش میکنم و پس ازین برادرم حسان خان را درخواست می کنم که اصلاح در ترجمه بکنند۔۔۔سطرِ سبز جمله ایست که ترجمه اش بر من واضح نیست
یک مورچه در پی جمع کردن دانه های جو از راهی می گذشت و نزدیک کندوی عسل رسید. از بوی عسل دهانش آب افتاد ولی کندو بر بالای سنگی قرار داشت و هر چه سعی کرد از دیواره سنگی بالا رود و به کندو برسد نشد. دست و پایش لیز می خورد و می افتاد.
(ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک راہ سے گزر رہا تھا اور ایک شہد کے چھتے کے نزدیک پہنچا۔شہد کی بُو سے اس کے منہ میں پانی آگیا (لفظی ترجمہ: شہد کی بو سے اس کے منہ نے پانی گرایا) لیکن چھتہ ایک پتھر کے اوپر نصب تھا اور جتنی بھی کوشش کی (کہ) دیوار سے پتھر اُٹھے اور چھتے تک پہنچے، نہیں ہوا۔اس کے دست و پا پھسل جاتے اور وہ گر جاتا۔)

هوس عسل او را به صدا درآورد و فریاد زد: ای مردم، من عسل می خواهم، اگر یک جوانمرد پیدا شود و مرا به کندوی عسل برساند یک «جو» به او پاداش می دهم. یک مورچه بالدار در هوا پرواز می کرد. صدای مورچه را شنید و به او گفت:«نبادا بروی... کندو خیلی خطر دارد!» مورچه گفت: بی خیالش باش، من می دانم که چه باید کرد.
شہد کی ہوس اسے صدا کرنے تک لے آئی اور اس نے فریاد کی: اے لوگو! میں شہد چاہتا ہوں، اگر ایک جواں مرد پیدا(پیدا کا ایک مطلب ظاہر ہونا بھی ہے) ہو اور مجھے شہد کے چھتے پہنچادے تو ایک جو اسے انعام میں دوں گا۔ ایک مورچہء بالدار ہوا میں اڑ رہا تھا، اس نے چیونٹی کی آواز سنی اور اسے کہا:تمہیں ادھر نہیں جانا چاہیے۔۔۔۔چھتہ بسیار خطرہ رکھتا ہے۔ چیونٹی نے کہا: اس سے بےفکر رہو، میں جانتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔

بالدار گفت: آنجا نیش زنبور است.
مورچه گفت: من از زنبور نمی ترسم، من عسل می خواهم.
بالدار گفت: عسل چسبناک است، دست و پایت گیر می کند.
مورچه گفت: اگر دست و پاگیر می کرد هیچ کس عسل نمی خورد.
مورچہء بالدار نے کہا: ادھر (شہد کی) مکھی کا ڈنگ ہے۔
چیونٹی نے کہا:میں زنبور سے نہیں ڈرتا، مجھے شہد چاہیے
مورچہء بالدار نے کہا: شہد چسپناک( چپکنے والا) ہے، تمہارے دست و پا پھنسا دیتے ہیں۔
چیونٹی نے کہا: اگر دست و پا پھنساتے تو کوئی بھی شہد نہیں کھاتا


بالدار گفت: خودت می دانی، ولی بیا و از من بشنو و از این هوس دست بردار، من بالدارم، تجربه دارم، به کندو رفتن برایت گران تمام می شود و ممکن است خودت را به دردسر بیندازی.
مورچه گفت: اگر می توانی مزدت را بگیر و مرا برسان، اگر هم نمی توانی جوش زیادی نزن. من بزرگتر لازم ندارم و از کسی که نصیحت می کند خوشم نمی آید .بالدار گفت: ممکن است کسی پیدا شود و ترا برساند ولی من صلاح نمی دانم و در کاری که عاقبتش خوب نیست کمک نمی کنم.
مورچه گفت: پس بیهوده خودت را خسته نکن. من امروز به هر قیمتی شده به کندو خواهم رفت.
مورچہء بالدار نے کہا: تو خود جانتا ہے، امّا آ اور مجھ سے سن اور اس ہوس سے دست برادار ہوجا(لفظی ترجمہ:ہاتھ اٹھا)۔میں بالدار ہوں، تجربہ رکھتا ہوں، چھتے میں جابا تمہارے لئے مشکل ہے اور ممکن ہے کہ خود کو دردِ سر میں ڈال دو۔ چیونٹی نے کہا: اگر ہوسکتا ہے تو تُو اپنا معاوضہ لو اور مجھے پہنچاؤ،اگر نہیں کرسکتا تو زیادہ میں مت آؤ (لفظی ترجمہ: زیادہ جوش مت مار)، میں اپنے سے بڑا کسی کو نہیں سمجھتا اور جو کوئی مجھے نصیحت کرتا ہے اچھا نہیں لگتا۔
بالدار نے کہا:ممکن ہے کوئی ظاہر ہو اور تجھے پہنچائے امّا (اس کام میں) میں مصلحت نہیں سمجھتا اور اس کام میں کہ جو آخرِکار صحیح نہ ہو مدد نہیں کرتا


مورچه گفت: پس بیهوده خودت را خسته نکن. من امروز به هر قیمتی شده به کندو خواهم رفت.
بالدار رفت و مورچه دوباره داد کشید: یک جوانمرد می خواهم که مرا به کندو برساند و یک جو پاداش بگیرد. مگسی سر رسید و گفت: بیچاره مورچه، عسل می خواهی و حق داری، من تو را به آرزویت می رسانم .
مورچه گفت: تو را می گویند، حیوان خیرخواه.
چیونٹی نے کہا: پس بےفائدہ خود کو تھکاؤ مت، میں امروز بہ ہر قیمت چھتہ پر جاؤں گا
بالدار چلا گیا اور چیونٹی نے دوبارہ صدا کی: ایک جواں مرد چاہتا ہوں جو مجھےت چھتے تک پہنچائے اور جو (بطورِ)انعام ایک جو لے۔ایک مکھی آئی اور اس نے کہا: بےچارہ چیونٹی، تو شہد چاہتا ہے اور حق رکھتا ہے، میں تجھے تیری آرزو تک پہنچاتا ہوں۔چیونٹی نے کہا:تجھے کہتے ہیں حیوانِ خیرخواہ۔

مگس مورچه را از زمین بلند کرد و او را دم کندو گذاشت و رفت. مورچه خیلی خوشحال شد و گفت: به به، چه سعادتی، چه کندویی، چه بویی، چه عسلی، چه مزه یی، خوشبختی از این بالاتر نمی شود، چقدر مورچه ها بدبختند که جو و گندم جمع می کنند و هیچ وقت به کندوی عسل نمی آیند. مورچه قدری از اینجا و آنجا عسل را چشید و هی پیش رفت تا رسید به میان حوضچه عسل، و یک وقت دید که دست و پایش به عسل چسبیده و دیگر نمی تواند از جایش حرکت کند
.
مکھی نے چیونٹی کو زمین سے بلند کیا اور اسے چھتے کے پاس چھوڑدیا اور گیا۔مورچہ بسیار خوش ہوا اور بولا: اچھا اچھا، کیا سعادت، کیا چھتہ، کیا بو، کیا شہد، کیا مزہ، خوش قسمتی اس سے بالا نہیں ہوسکتی ہے، کتنی چیونٹیاں بدقسمت ہیں کہ جو اور گندم جمع کرتی ہیں اور کسی وقت بھی شہد کے چھتے نہیں آتیں۔ چیونٹی نے کچھ ادھر سے اور کچھ اُدھر سے شہد کو چکھا اور آگے چلاگیا تاآنکہ وہ شہد کے حوضچہ کے درمیان پہنچا، اور ایک وقت دیکھا کہ اس کے دست و پا شہد میں چپکے اور اپنے جگہ سے دیگر حرکت نہیں کررہا۔
فارسی میں ایک تو تذکیر و تانیث اردو تک پہنچے پہنچتے ہوئے متاثر لگ رہی ہے:

ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک راہ سے گزر رہا تھا اور ایک شہد کے چھتے کے نزدیک پہنچا

دوسرا جو بات براہ راست کہی جا سکتی ہے، وہ بالواسطہ کہی جا رہی ہے۔ کیا یہ ایسا ہی ہے:

لفظی ترجمہ: شہد کی بو سے اس کے منہ نے پانی گرایا
 
فارسی میں ایک تو تذکیر و تانیث اردو تک پہنچے پہنچتے ہوئے متاثر لگ رہی ہے:

ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک راہ سے گزر رہا تھا اور ایک شہد کے چھتے کے نزدیک پہنچا

د

دراصل لکھتے وقت اس جانب دھیان نہیں گیا کیونکہ فارسی میں تذکیر و تانیث موجود نہیں لہٰذا ترجمہ کرتے وقت تذکیر ہی کا خیال غالب رہا۔اس پر معذرت خواہ ہوں۔

وسرا جو بات براہ راست کہی جا سکتی ہے، وہ بالواسطہ کہی جا رہی ہے۔ کیا یہ ایسا ہی ہے:

لفظی ترجمہ: شہد کی بو سے اس کے منہ نے پانی گرایا

اصل میں برادرم عارضی نے شروع میں درخواست کی تھی کہ جملہ رواں نہ ہو تاکہ جملے کی ساخت کو سمجھا جاسکے، لہٰذا جہاں فارسی کے ایسے جملوں کا ترجمہ کیا جدھر وہ محاورے اردو میں ہوبَہُو استعمال نہیں ہوتے، وہاں میں نے ان کا لفظی ترجمہ لکھ دیا تاکہ انہیں ان فارسی الفاظ کا اپنا معنی معلوم ہوسکے
 
مور را چون با عسل افتاد کار ------- دست و پایش در عسل شد استوار
چیونٹی کو جب شہد سے کام پڑا۔۔۔۔اس کے دست و پا شہد میں محکم ہوگئے
از تپیدن سست شد پیوند او ----------دست و پا زد، سخت تر شد بند او
تڑپنے سے اس کا پیوند سست ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ پاؤں مارے، اس کا بند سخت ہوگیا


هرچه برای نجات خود کوشش کرد نتیجه نداشت. آن وقت فریاد زد: عجب گیری افتادم، بدبختی از این بدتر نمی شود، ای مردم، مرا نجات بدهید. اگر یک جوانمرد پیدا شود و مرا از این کندو بیرون ببرد دو جو به او پاداش می دهم.
اپنی نجات کے لئے جتنی بھی کوشش کی، بے نتیجہ رہی(لفظی ترجمہ: نتیجہ نہیں رکھا)۔اس وقت فریاد کی:عجیب اسیری میں گرا ہوں، اس سے بدتر بدبختی نہیں ہوگی، اے لوگوں، مجھے بچاؤ(نجات دو)۔اگر ایک جوانمرد ظاہر ہو اور مجھے اس چھتے سے باہر نکالے، دو جو اسے انعام میں دوں گا

گر جوی دادم دو جو اکنون دهم -------- تا از این درماندگی بیرون جهم
اگر ایک جو میں نے دی تھی تو اب دو جو دوں گا۔۔۔۔۔۔تاکہ اس درماندگی سے بیرون نکلوں

مورچه بالدار از سفر برمی گشت، دلش به حال او سوخت و او را نجات داد و گفت: نمی خواهم تو را سرزنش کنم اما هوسهای زیادی مایه گرفتاری است این بار بختت بلند بود که من سر رسیدم ولی بعد از این مواظب باش پیش از گرفتاری نصیحت گوش کنی و از مگس کمک نگیری. مگس همدرد مورچه نیست و نمی تواند دوست خیرخواه او باشد.
مورچہء بالدار سفر سے واپس آرہا تھا۔اس کا دل اس کے حال پر جلا اور اسے نجات دی اور کہا: میں نہیں چاہتا تیری سرزنش کروں امّا زیادہ ہوس باعثِ گرفتاری ہے، اس بار تیرا بخت بلند تھا کہ میں پہنچا لیکن اس کے بعد ہشیار رہو گرفتاری سے پہلے نصیحت سن اور مکھی سے مدد مت لو۔مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں ہے اور اس کا دوست خیرخواہ نہیں بنا جاسکتا۔
 

عارضی کے

محفلین
بہت شکریہ۔ حسان خان کے تبصرے کا انتظار رہے گا۔آپ کی یہ محنت ان شاء اللہ تمام نوآموزوں کے لیے بے حد فائدہ مند رہے گی۔دستتون درد نکنہ!
ایک بات کہ اس جملے ”میں نہیں چاہتا تیری سرزنش کروں امّا زیادہ ہوس باعثِ گرفتاری ہے،“میں یہ ”امّا“ کا کیا مطلب؟
 

ربیع م

محفلین
آج سے چار سال پہلے فارسی میں کافی دلچسپی تھی اور قابل گزارہ مطالعہ بھی کر لیتا تھا لیکن آہستہ آہستہ دلچسپی کم ہوتی گئی!
 

عارضی کے

محفلین

یکی بود یکی نبود غیر از خدا هیچکس نبود .دو تا کبوتر همسایه بودند. یکی اسمش نامه بر و یکی اسمش هرزه بود. یک روز کبوتر هرزه گفت: من هم امروز همراه تو به سفر می آیم. نامه بر گفت: نه، من می خواهم راست دنبال کارم بروم ولی تو نمی توانی با من همراهی کنی. می ترسم اتفاق بدی بیفتند و بلایی بر سرت بیاید و من هم بدنام شوم. هرزه گفت: ولی اگر راستش را بخواهی من صدتا کبوتر جلد را هم به شاگردی قبول ندارم و چهل تا مثل تو را درس می دهم. من بیش از تو با مردم جورواجور زندگی کرده ام، من همه پشت بام ها، همه سوراخ سنبه ها، همه کبوتر خان ها، همه باغ ها و دشت ها را می شناسم و خیلی از تو زرنگترم. وقتی گفتم می خواهم به سفر بیایم یعنی که من از هیچ چیز نمی ترسم.

نامه بر گفت: همین نترسیدن خودش عیب است. البته ترس زیادی مایه ناکامی است ولی خیره سری هم خطر دارد. همه کسانی که گرفتار دردسر و بدبختی می شوند از خیره سری آنهاست که خیال می کنند زرنگتر از دیگرانند و آنقدر بل هوسی می کنند که بدبخت می شوند. هرزه گفت: نخیر، شما خیالتان راحت باشد. من حواسم جمع است، و همیشه می فهمم که چه باید کرد و چه نباید کرد. نامه بر گفت:بسیار خوب! پس آماده باش. باید آب و دانه ات را در خانه بخوری و حالا که همراه من هستی در میان راه با هیچ غریبه ای خوش و بش نکنی.
هرزه گفت: قبول دارم. همراه شدند و از پشت بام ها و کبوترخان ها گذشتند، از شهر گذشتند، از باغ گذشتند، از کشتزار گذشتند و به صحرا رسیدند و رفتند و رفتند و رفتند تا یک جایی که در میان زمین های پست و بلندی چند تا درخت خشک بود، هرزه گفت: خوب است چند دقیقه روی این درخت بنشینیم و خستگی در کنیم. نامه بر گفت: کارمان دیر می شود ولی اگر خیلی خسته شده ای مانعی ندارد. آنها نشستند روی درخت و به هر طرف نگاه می کردند. هرزه قدری دورتر را نشان داد و گفت:آنجا را می بینی؟ سبزه است و دانه ، بیا برویم بخوریم.
نامه بر گفت: می بینم، سبزه و دانه است ولی دام هم هست. هرزه گفت: تو خیلی ترسو هستی، یک چیزی شنیده ای که در میان سبزه دانه می پاشند و دام می گذارند ولی این دلیل نمی شود که همه جا دام باشد. نامه بر گفت: نه، من ترسو نیستم ولی عقل دارم و می فهمم که توی این بیابان کویر سوخته که همیشه باد گرم می آید سبزه نمی روید و دانه پیدا نمی شود. اینها را یک صیاد ریخته تا مرغ های بلهوس را به دام بیندازد. هرزه گفت: خوب، شاید خداوند قدرت نمایی کرده و در میان کویر سبزه درآورده باشد.
نامه بر گفت: تو که سبزه و دانه را می بینی درست نگاه کن، آن مرد را هم که با کلاه علفی در کنار تپه نشسته ببین. فکر نمی کنی که این ادم آنجا چکار دارد؟ هرزه گفت:خوب، شاید به سفر می رفته و مثل ما خسته شده و کمی نشسته تا خستگی درکند. نامه بر گفت: پس چرا گاهی کلاهش را با دست می گیرد واین طرف و آن طرف در سبزه و در بیابان نگاه می کند؟ هرزه گفت: خوب، شاید کلاهش را می گیرد که باد نبرد و در بیابان نگاه می کند تا بلکه کسی را پیدا کند و رفیق سفر داشته باشد.
نامه بر گفت: بر فرض که همه اینها آن طور باشد که تو می گویی ولی آن نخها را نمی بینی که بالای سبزه تکان می خورد؟ حتماً این نخ دام است. هرزه گفت: شاید باد این نخ ها را آورده و اینجا به سبزه ها گیر کرده. نامه بر گفت: بسیار خوب اگر همه اینها درست باشد فکر نمی کنی در این صحرای دور از آب و آبادانی آن یک مشت دانه از کجا آمده؟ هرزه گفت: ممکن است دانه های پارسالی همین سبزه ها باشد یا شترداری از اینجا گذشته باشد و از بارش ریخته باشد. اصلا تو وسواس داری و همه چیز را بد معنی می کنی. مرغ اگر اینقدر ترسو باشد که هیچ وقت دانه گیرش نمی آید.
نامه بر گفت: به نظرم شیطان دارد تو را وسوسه می کند که به هوای دانه خوردن بروی و به دام بیفتی. آخر عزیز من، جان من، کبوتر هوشیار باید خودش این اندازه بفهمد که همه این چیزها بیخودی در این بیابان با هم جمع نشده: آن آدم کلاه علفی، آن سبزه که ناگهان در میان صحرای خشک پیدا شده، آن نخ ها، آن یک مشت دانه که زیر آن ریخته. همه اینها نشان می دهد که دام گذاشته اند تا پرنده شکار کنند. تو چرا اینقدر خیره سری که می خواهی به هوای شکم چرانی خودت را گرفتار کنی.
هرزه قدری ترسید و با خود فکر کرد: بله، ممکن است که دامی هم در کار باشد ولی چه بسیارند مرغ هایی که می روند دانه ها را از زیر دام می خوردند و در می روند و به دام نمی افتند، چه بسیار است دام هایی که پوسیده است و مرغ آن را پاره می کند، چه بسیارند صیادهایی که وقتی به آنها التماس کنی دلشان بسوزد و آزادت کنند، و چه بسیار است اتفاق های ناگهانی که بلایی بر سر صیاد بیاورند. مثلا ممکن است صیاد ناگهان غش کند و بیفتد و من بتوانم فرار کنم.
هرزه این فکرها را کرد و گفت: می دانی چیست؟ من گرسنه ام و می خواهم بروم این دانه ها را بخورم، هیچ هم معلوم نیست که خطری داشته باشد. می روم ببینم اگر خطر داشت برمی گردم، تو همینجا صبر کن تا من بیایم. نامه بر گفت: من از طمع کاری تو می ترسم. تو آخر خودت را گرفتار می کنی. بیا و حرف مرا بشنو و از این آزمایش صرف نظر کن. هرزه گفت: تو چه کار داری، تو ضامن من نیستی، من هم وکیل و قیم لازم ندارم. می روم، اگر آمدم که با هم می رویم، اگر هم گیر افتادم تو برو دنبال کارت، من خودم بلدم چگونه خودم را نجات بدهم.
نامه بر گفت: خیلی متأسفم که نصیحت مرا نمی شنوی. هرزه گفت: بیخود متأسفی، نصیحت هم به خودت بکن که اینقدر دست و پا چلفتی و بی عرضه ای، می روی برای مردم نامه می بری و خودت از دانه ای که در صحرای خدا ریخته است استفاده نمی کنی. هرزه این را گفت و رفت به سراغ دانه ها. وقتی رسید دید، بله یک مشت نخ و میخ و سیخ و این چیزها هست و قدری سبزه و قدری دانه گندم.
هرزه از نخ پرسید: تو چی هستی؟ نخ گفت:من بنده ای از بندگان خدا هستم و از بس عبادت می کنم اینطور لاغر شده ام. هرزه پرسید: این میخ و سیخ چیست؟ نخ گفت: هیچی خودم را به آن بسته ام که باد مرا نبرد. هرزه پرسید: این سبزه ها از کجا آمده؟ نخ گفت: آنها را کاشته ام تا دانه بیاورد و مرغ ها بخورند و مرا دعا کنند. هرزه گفت:بسیار خوب، من هم ترا دعا می کنم. رفت جلو و شروع کرد به دانه خوردن. اما هنوز چند دانه از حلقش پایین نرفته بود که دام بهم پیچید و او را گرفتار کرد. صیاد هم پیش آمد که او را بگیرد.
هرزه گفت: ای صیاد. در حقیقت من نفهمیدم و نصیحت دوست خود را نشنیدم و به هوای دانه گرفتار شدم. حالا تو بیا و محض رضای خدا به من رحم کن و آزادم کن. صیاد گفت: این حرفها را همه می زنند. کدام مرغی است که فهمیده و دانه به دام بیفتد؟ من صیادم و کارم گرفتن مرغ، تو که می خواستی آزاد باشی، خوب بود از اول خودت به خودت رحم می کردی و وقتی سبزه و دانه را دیدی فکر عاقبتش را هم می کردی. آن رفیقت را ببین که بالای درخت نشسته ، او هم دانه ها را دیده بود ولی او مثل تو هرزه نبود ... نامه بر وقتی از برگشتن هرزه ناامید شد پر زد و رفت که نامه اش را برساند.

اریب آغا
حسان خان
 
Top