غم ترک وفا ہی غم کا پیمانہ نہیں ہوتا - سید محمد حنیف اخگر

کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)

غم ترک وفا ہی غم کا پیمانہ نہیں ہوتا
ہر آنسو دل کی بیتابی کا افسانہ نہیں ہوتا

کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مرتب اس طرح آئین میخانہ نہیں ہوتا

شناسا ہے دل اس کی ہر ادائے بے نیازی سے
وہ بیگانہ بھی ہوکر ہم سے بیگانہ نہیں ہوتا

نقاب رخ الٹ کر وہ سر محفل جو آجائے
تو پھر دیکھیں کہاں تک کوئی دیوانہ نہیں ہوتا

تری محفل میں ہوں اور پھر بھی دل میں خاک اڑتی ہے
سنا یہ تھا کہ آبادی میں ویرانہ نہیں ہوتا

ضروری ہے وفا میں شرط آداب محبت بھی
جسے جلنا نہیں آتا وہ پروانہ نہیں ہوتا

نگاہ ساقیء رنگیں سے پی لیتے ہیں اے اخگر
اگر حدنظر تک کوئی پیمانہ نہیں ہوتا
 
Top