غزل ۔ یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں۔ محمد یعقوب آسیؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں
کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں

یہ تنہائی ہے کیوں میرا مقدر
یہ تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں

سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی
میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں

تمہاری ذات سے نسبت جو ٹھہری
سو خود کو معتبر لگنے لگا ہوں

کھٹکتا ہوں انہیں، تو کیا عجب ہے
تمہارے ساتھ جو بیٹھا ہوا ہوں

گھرا ہوں جانے کب سے دوستوں میں
کسی دشمن کا رستہ دیکھتا ہوں

مروت کا نہ پوچھو یار، مجھ سے
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں

وہ مجھ جیسا مرا ہمزاد ہو گا
کہ میں کب کا یہاں سے جا چکا ہوں

مجھے کتنے ملے غم دوستوں سے
بتاؤ کوئی، میں بھولا ہوا ہوں

محمد یعقوب آسیؔ
(ٹیکسلا) پاکستان
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اچھا انتخاب احمد بھائی !

یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں
کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں

سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی
میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں

تمہاری ذات سے نسبت جو ٹھہری
سو خود کو معتبر لگنے لگا ہوں

کیا اچھے اشعار ہیں !! ہماری طرف سے آسی صاحب کو بہت بہت داد و تحسین پہنچے!
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں
کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں

سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی
میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں

گھرا ہوں جانے کب سے دوستوں میں
کسی دشمن کا رستہ دیکھتا ہوں

مروت کا نہ پوچھو یار، مجھ سے
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں

بہت خوب :)
عمدہ کلام!
 
Top