محمداحمد
لائبریرین
غزل
طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں
نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں
جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں
نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا ہی نہیں
لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں
وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں
سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں
اجمل سراج
طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں
نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں
جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں
نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا ہی نہیں
لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں
وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں
سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں
اجمل سراج