غزل ۔ طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں ۔ اجمل سراج

محمداحمد

لائبریرین
غزل

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا ہی نہیں

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

اجمل سراج
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ۔ کیا ہی بامعنی عنوان ہے
غزل ۔ طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں

غالباً یہ رات اپنی ظلمت کے باعث صبر آزما ہے جس کا اندازہ دوسرے مصرع سے ہوتا ہے۔ یعنی یہ رات تاریک تو ہے ہی لیکن طویل بھی ہے۔

یعنی مصیبت اور دیر تک نہ ٹلنے والی مصیبت۔

ویسے کبھی شاعرِ موصوف سے ملاقات ہوگی تو اور تفصیل پوچھ لیں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
غالباً یہ رات اپنی ظلمت کے باعث صبر آزما ہے جس کا اندازہ دوسرے مصرع سے ہوتا ہے۔ یعنی یہ رات تاریک تو ہے ہی لیکن طویل بھی ہے۔

یعنی مصیبت اور دیر تک نہ ٹلنے والی مصیبت۔

ویسے کبھی شاعرِ موصوف سے ملاقات ہوگی تو اور تفصیل پوچھ لیں گے۔
میں اتنی تفصیل میں نہیں گیا، کہ میرے لئے یہ جاننا کافی تھا کہ
غزل (جو کہ اکثر ہی) طویل بھی ہےفقط صبر آزما ہی نہیں
 
Top