غزل ۔ سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی ۔ نور بجنوری

محمداحمد

لائبریرین
غزل

سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی
ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی

اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر
وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی

شیشہ ٴ چشم پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس
قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی

عرصہ ٴ حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں
وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی

تم سلامت رہو ، یوسف کی ضرورت کیسی
اہلِ فن! آج بھی ہے رونقِ بازار وہی

میں بھی زندہ ہوں ، ترا حُسن بھی تابندہ ہے
چاند سے زخم وہی، پھول سی مہکار وہی

نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی

نور بجنوری
 

کاشفی

محفلین
نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی
واہ، بہت ہی عمدہ و لاجواب!
 
Top