غزل ۔ سارے وعدے ، وعید ہو گئے ہیں ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ۔
اس شعر کی کچھ وضاحت در کار ہے :
کل زمانے میں جو یزید ہوئے
آج وہ با یزید ہو گئے ہیں​

ویسے تو یہ شاعر کا کام نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلام کی تشریح کرتا پھرے۔ تاہم آپ نے استفسار کیا ہے تو عرض کرتا ہوں۔ :)

شعر کے دونوں مصرعوں میں دو شخصیات کا ذکر استعارتاً موجود ہے۔ جن میں سے آخر الذکر کے بارے میں لوگ اچھا گمان رکھتے ہیں اور اول الذکر کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے۔

ہم نے صرف یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ کل تک جو لوگ گردن گردن تک منفی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ آج وہ خود کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے اُن سے زیادہ 'ولی اللہ' کوئی نہیں ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ اس مفہوم کے ابلاغ میں میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں۔

ویسے مجھے اس بات کا خیال بھی آیا تھا کہ یہ شعر غزل سے نکال دوں لیکن تب تک میں غزل پوسٹ کر چکا تھا سو ایسے ہی رہنے دیا۔
 
ویسے تو یہ شاعر کا کام نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلام کی تشریح کرتا پھرے۔ تاہم آپ نے استفسار کیا ہے تو عرض کرتا ہوں۔ :)

شعر کے دونوں مصرعوں میں دو شخصیات کا ذکر استعارتاً موجود ہے۔ جن میں سے آخر الذکر کے بارے میں لوگ اچھا گمان رکھتے ہیں اور اول الذکر کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے۔

ہم نے صرف یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ کل تک جو لوگ گردن گردن تک منفی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ آج وہ خود کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے اُن سے زیادہ 'ولی اللہ' کوئی نہیں ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ اس مفہوم کے ابلاغ میں میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں۔

ویسے مجھے اس بات کا خیال بھی آیا تھا کہ یہ شعر غزل سے نکال دوں لیکن تب تک میں غزل پوسٹ کر چکا تھا سو ایسے ہی رہنے دیا۔


جواب عنایت کرنے کا شکریہ۔ یقیناً وضاحت آپ کی ذمہ داری نہیں لیکن حضرتِ بایزید بسطامی کا تعلق یزیدِ پلید سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان کے بارے میں تذکرۃ الاولیا میں پڑھا تو ان کے لیے دل میں بہت عقیدت کے جذبات موجود ہیں،اسی لیے پوچھ لیا۔دوسرا یہ کہ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آپ کی مراد یہاں حضرتِ بایزید بسطامی سے ہی تھی یا کسی اور بایزید سے یا پھر یہ کہ یہاں با یزید محض استعارہ ہے۔دوسری اہم بات یہ کہ گو شاعر کی اپنے کلام کی شرح بیان کرنا اس کی ذمے داری نہیں لیکن اگر وہ یہ کام کرے تو اس کے کلام کی شرح خود اس سے اچھی اور کوئی نہیں کر سکتا۔ آج غالب اور اقبال کے کلاموں کی شروح دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کسی نے انھیں مکمل سائنس دان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے مکمل ولی اللہ۔ ایسی ایسی شروح بھی گھڑ لی گئی ہیں جن کا نہ تو شاعر کے عہد سے، نہ اس کے حالاتِ زندگی و دیگر تحاریر سے اور نہ ہی تعلیم سے کوئی تعلق ملتا ہے۔ ایک صاحب کو اردو شعرا کے سائنسی شعور پر ایک بڑی ڈگری بھی عنایت کی گئی ہے۔اپنی کم علمی کے باعث آپ سے شعر میں جو مدد لی اس میں کچھ برا لگا ہو تو معذرت۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے تو یہ شاعر کا کام نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلام کی تشریح کرتا پھرے۔ تاہم آپ نے استفسار کیا ہے تو عرض کرتا ہوں۔ :)

شعر کے دونوں مصرعوں میں دو شخصیات کا ذکر استعارتاً موجود ہے۔ جن میں سے آخر الذکر کے بارے میں لوگ اچھا گمان رکھتے ہیں اور اول الذکر کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے۔

ہم نے صرف یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ کل تک جو لوگ گردن گردن تک منفی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ آج وہ خود کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے اُن سے زیادہ 'ولی اللہ' کوئی نہیں ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ اس مفہوم کے ابلاغ میں میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں۔

ویسے مجھے اس بات کا خیال بھی آیا تھا کہ یہ شعر غزل سے نکال دوں لیکن تب تک میں غزل پوسٹ کر چکا تھا سو ایسے ہی رہنے دیا۔
اس سے مجھے غالب کا ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ :)

"ایک روز مرزا سے ملنے ان کے کچھ دوست آئے ہوئے تھے کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔​

دستر خوان بچھا اور کھانا آ گیا، برتن تو بہت زیادہ تھے لیکن کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر اپنے دوستوں سے کہا۔۔۔​

اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دستر خوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔"​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووب!
اس قدر خوبصورت غزل ۔

بہت خوب!
سچ اور تلخیاں۔

واہ!

یہ تو طویل ترین داد لگ رہی ہے۔ :)

بہت شکریہ ! آپ کی حوصلہ افزائی ہمارے لئے مشعلِ راہ سے کم نہیں ہے۔ :)

خوش رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
۔دوسری اہم بات یہ کہ گو شاعر کی اپنے کلام کی شرح بیان کرنا اس کی ذمے داری نہیں لیکن اگر وہ یہ کام کرے تو اس کے کلام کی شرح خود اس سے اچھی اور کوئی نہیں کر سکتا۔

جی !

یہ بات بھی درست ہے۔

تاہم کچھ کلام ایسا ہوتا ہے کہ اُس کی تشریح کر دینے سے اُس کے معنی بہت محدود ہو کر رہ جاتے ہیں کہ شاعری کو ہر شخص اپنے طور پر سمجھتا ہے اور اپنے طور پر لطف اندوز ہوتا ہے۔

تاہم مذکورہ شعر اس قبیل کا بہرکیف نہیں تھا۔

اپنی کم علمی کے باعث آپ سے شعر میں جو مدد لی اس میں کچھ برا لگا ہو تو معذرت۔

جناب معذرت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ آپ جو دل میں آئے پوچھ لیا کیجے۔

خوش رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس سے مجھے غالب کا ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ :)

"ایک روز مرزا سے ملنے ان کے کچھ دوست آئے ہوئے تھے کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔​

دستر خوان بچھا اور کھانا آ گیا، برتن تو بہت زیادہ تھے لیکن کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر اپنے دوستوں سے کہا۔۔۔​

اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دستر خوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔"​

ہاہاہاہا۔۔۔۔! :)

یعنی شعراء کو یزید اور بایزید کا ایک وقت میں یاد آ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے بھی آپ کے مضامین غیب میں غالب کے اگلے محلے ہی سے آتے معلوم ہوتے ہیں. :)

ارے بھائی!

اگلے محلے کی جگہ اگلا شہر ہی رکھ دیتے۔ کہیں کوئی سمجھے کہ ہم غالب کا ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ہم پر ہی پل پڑے۔ :) آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ :) :) :)

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے تعارف میں خود کو اسکالر لکھ دیا۔ کچھ لوگ اُس معصوم بندے کے پیچھے ایسے لٹھ لے کر پڑے کہ بندے کو محفل سے بھگا کر ہی دم لیا۔ اب شاید خوش ہوں گے۔

نئے محفلین کو بھی لوگ تھوڑا سا موقع نہیں دیتے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے بھائی!

اگلے محلے کی جگہ اگلا شہر ہی رکھ دیتے۔ کہیں کوئی سمجھے کہ ہم غالب کا ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ہم پر ہی پل پڑے۔ :) آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ :) :) :)

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے تعارف میں خود کو اسکالر لکھ دیا۔ کچھ لوگ اُس معصوم بندے کے پیچھے ایسے لٹھ لے کر پڑے کہ بندے کو محفل سے بھگا کر ہی دم لیا۔ اب شاید خوش ہوں گے۔

نئے محفلین کو بھی لوگ تھوڑا سا موقع نہیں دیتے۔
یہ بات درست ہے لیکن ہماری رعب ڈالنے کی عادت بھی خوب ہے۔ مجھے یاد ہے اپنی تعلیم کا ایک واقعہ۔ فلپائن سے کچھ اساتذہ ہمیں پڑھانے آئے تھے، ان کی رخصتی کے دن لنچ پر آخری بات چیت دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ ایک استاد نے کمال شفقت سے مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور کہا کہ رابطے میں رہنا۔ میں وزیٹنگ کاڑد دیکھ کر حیران ہوا، صرف نام لکھا تھا اور ایڈریس وغیرہ۔ نہ ڈگریاں، نہ عہدہ۔ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے، فلپائن میں ایک ملٹی نیشنل فرٹیلائزر کمپنی کے جنرل مینیجر تھے، منیلا کی کئی ایک یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی تھے۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار آخر کر ہی دیا، مسکرا کر کہنے لگے، یہ تم لوگوں ہی میں میں نے دیکھا کہ اپنے کارڈوں پر رعب ڈالنے کے لیے چھ چھ ڈگریاں لکھ دیتے ہو ورنہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ بات درست ہے لیکن ہماری رعب ڈالنے کی عادت بھی خوب ہے۔ مجھے یاد ہے اپنی تعلیم کا ایک واقعہ۔ فلپائن سے کچھ اساتذہ ہمیں پڑھانے آئے تھے، ان کی رخصتی کے دن لنچ پر آخری بات چیت دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ ایک استاد نے کمال شفقت سے مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور کہا کہ رابطے میں رہنا۔ میں وزیٹنگ کاڑد دیکھ کر حیران ہوا، صرف نام لکھا تھا اور ایڈریس وغیرہ۔ نہ ڈگریاں، نہ عہدہ۔ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے، فلپائن میں ایک ملٹی نیشنل فرٹیلائزر کمپنی کے جنرل مینیجر تھے، منیلا کی کئی ایک یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی تھے۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار آخر کر ہی دیا، مسکرا کر کہنے لگے، یہ تم لوگوں ہی میں میں نے دیکھا کہ اپنے کارڈوں پر رعب ڈالنے کے لیے چھ چھ ڈگریاں لکھ دیتے ہو ورنہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں :)

یہ بھی ٹھیک ہے۔

اب چونکہ ہم لوگ علمیت کی قدر نہیں کرتے سو لوگوں کو اپنی ڈگریاں گنوانی پڑتی ہیں۔ :) :) :)
 
Top