عرفان صدیقی غزل ۔ زیرِ گرداب نہ بالائے مکاں بولتی ہے ۔ عرفان صدیقی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
زیرِ گرداب نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گذراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں، کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گرہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے
عرفان صدیقی
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ احمد۔ عرفان صدیقی کی ایک اور ای بک کا مواد ہو جائے گا کیا؟ محاورہء جاں دیکھ لیں۔
 

طارق شاہ

محفلین
ایک میں ہوں، کہ اِس آشوبِ نوا میں چُپ ہوں
ورنہ دنیا مِرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سُنتے تھے، کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
کیا کہنے صاحب!​
تشکّر یہاں پیش کرنے پر
بہت خوش رہیں​
 
Top