غزل ۔ خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے ۔ رساؔ چغتائی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے
زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے
یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے
زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے
قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے
لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے
دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
رسا چغتائی
 

نیلم

محفلین
خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
واہ بہت خُوب بھائی
 

محمداحمد

لائبریرین
Top