عرفان صدیقی غزل ۔ جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے ۔ عرفان صدیقی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پَر میرے
اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے
خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو
کہ اُس کے قد سے تو اونچے ہیں بام و در میرے
بہت ہے آئنے جن قیمتوں میں بک جائیں
یہ پتھروں کا زمانہ ہے، شیشہ گر میرے
حریفِ تیغ ستم گر تو کردیا ہے تجھے
اب اور مجھ سے تو کیا چاہتا ہے سر میرے
عرفان صدیقی
 
Top