نظر لکھنوی غزل: یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے٭ نظرؔ لکھنوی


یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے
پھنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے

بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے

گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے
اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے

ہوا خونِ تمنا اشک نکلے
کہاں کی بات ظاہر ہے کہاں سے

اُنھیں مائل کیا میں نے وفا پر
کہ تارے توڑ لایا آسماں سے

غموں کی چوٹ سے آنسو نہ نکلیں
وہ دل پتھر کا میں لاؤں کہاں سے

نظرؔ آتے ہیں وہ حیراں پشیماں
سنایا تھا ابھی کچھ داستاں سے



محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
سبحان اللہ !

خوبصورت کلام انتخاب کیا ہے بھائی آپ نے۔

جیتے رہیے۔ :)
شکریہ احمد بھائی
شکریہ یاز بھائی
واہ۔ عمدہ کلام ۔۔۔:)
شکریہ الشفا بھائی
لاجواب کلام وانتخاب ہے جناب
شکریہ ابنِ رضا بھائی
 
Top