غزل:پیار سارا دکھا نہیں دیں گے! (مہدی نقوی حجازؔ)

غزل (تازہ)

پیار سارا دکھا نہیں دیں گے
ہم تمہیں آسرا نہیں دیں گے

تم ہمیں پیارے ہو سو ہم تم کو
جینے کی بد دعا نہیں دیں گے

ہم سے جاں مانگی اس فرشتے نے
اور ہم نے کہا نہیں دیں گے

اس کو جاں دے کے اس سے دل چاہا
اور صنم نے کہا نہیں دیں گے!

آسمانی ہیں، ہم کو چھیڑو گے!؟
کیا زمیں کو ہلا نہیں دیں گے!

ہم سخی ہیں، رضائے رب مانگو
کیا سمجھتے ہو؟ کیا نہیں دیں گے؟

ہم پیمبر کی آل میں سے ہیں
کیسے بوئے خدا نہیں دیں گے؟

بندے تیرے ہیں اور تو یار اپنا
یار کو ہم دغا نہیں دیں گے

آسماں ٹوٹے میرے دشمن پر
ہم زمینی سزا نہیں دیں گے

ہم بھی حضرت حجازؔ ہیں، مالک!
جان ہم بے بہا نہیں دیں گے

مہدی نقوی حجازؔ
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
تم ہمیں پیارے ہو سو ہم تم کو
جینے کی بد دعا نہیں دیں گے

واہ۔۔۔ کیا خوبصورت غزل ہے۔۔ لاجواب حضور۔۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔۔۔

اس کو جاں دے کے اس سے دل چاہا
اور سنم نے کہا نہیں دیں گے!

یہ "سنم" کا کیا مطلب ہے۔۔ میں نے یہ لفظ پہلی بار پڑھا ہے۔
 
تم ہمیں پیارے ہو سو ہم تم کو
جینے کی بد دعا نہیں دیں گے

واہ۔۔۔ کیا خوبصورت غزل ہے۔۔ لاجواب حضور۔۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔۔۔

اس کو جاں دے کے اس سے دل چاہا
اور سنم نے کہا نہیں دیں گے!

یہ "سنم" کا کیا مطلب ہے۔۔ میں نے یہ لفظ پہلی بار پڑھا ہے۔
جناب بہت شکریہ۔ بہت محبت۔
یہ "سنم" در اصل ٹائپو زدہ "صنم" ہے۔ :) تدوین شدہ!
 

ابن رضا

لائبریرین
واہ واہ کیا بات ہے جناب بہت خوب۔شاد رہیں

اس شعر پہ ذرا نظر فرمالیں کہ میرا اور ہم کا امتزاج ہے یہاں

آسماں ٹوٹے میرے دشمن پر
ہم زمینی سزا نہیں دیں گے

اور اس شعر کی ذرا صراحت سے وضاحت فرما دیں

ہم سخی ہیں، رضائے رب مانگو (یہاں سخاوتِ ذاتی کی بات ہے بمعنی ہم اور مانگنےکے لیے رضائے رب کہا جا رہا ہے۔)
کیا سمجھتے ہو؟ کیا نہیں دیں گے؟ (لاجواب)

تمام ابیات میں آپ نے تم سے تکلم فرمایا ہے سوائے اس شعر کے

بندے تیرے ہیں اور تو یار اپنا
یار کو ہم دغا نہیں دیں گ
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب
بہت سی دعاؤں بھری داد ۔۔۔۔۔۔
یہ "دعوی دوستی " تو دل کے تار چھیڑ گیا ۔ محترم نقوی بھائی
بندے تیرے ہیں اور تو یار اپنا
یار کو ہم دغا نہیں دیں گے
 
واہ واہ کیا بات ہے جناب بہت خوب۔شاد رہیں

اس شعر پہ ذرا نظر فرمالیں کہ میرا اور ہم کا امتزاج ہے یہاں

آسماں ٹوٹے میرے دشمن پر
ہم زمینی سزا نہیں دیں گے

اور اس شعر کی ذرا صراحت سے وضاحت فرما دیں

ہم سخی ہیں، رضائے رب مانگو (یہاں سخاوتِ ذاتی کی بات ہے بمعنی ہم اور مانگنےکے لیے رضائے رب کہا جا رہا ہے۔)
کیا سمجھتے ہو؟ کیا نہیں دیں گے؟ (لاجواب)

تمام ابیات میں آپ نے تم سے تکلم فرمایا ہے سوائے اس شعر کے

بندے تیرے ہیں اور تو یار اپنا
یار کو ہم دغا نہیں دیں گ
محبت حضور! :)

شترگربہ متکلم میں لاگو نہیں ہوتا جناب، یعنی میں، ہم (میرے ہمارے) دونوں کا استعمال ایک ہی شعر میں جائز ہے۔
شعر کی وضاحت چاہی ہے تو عرض ہے کہ وہی:
بات بین السطور ہوتی ہے
شعر میں حاشیہ نہیں ہوتا
توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اشارہ یہ ہے کہ ہم رضائے الٰہی کے مالک ہیں۔ یعنی ہم جس سے خوش ہیں رب اس سے راضی۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل کہی ہے۔ لیکن حاصل غزل شعر میں حروف کا حذف ہونا اچھا نہیں لگ رہا۔ درست تو ہے۔۔ جینے اور پیارے کی ’ےُ کا اسقاط ناگوار ہوا مجھے تو۔
 
Top