ماہر القادری غزل: دیوانہ کہیں ایسی باتوں سے بہلتا ہے

دیوانہ کہیں ایسی باتوں سے بہلتا ہے
وہ سامنے ہوتے ہیں دل اور مچلتا ہے

پہلے دلِ شاعر میں چشمہ سا ابلتا ہے
پھر شعر کے سانچے میں طوفان یہ ڈھلتا ہے

اس بزم میں دیکھے تو کوئی مری حیرانی
کیا سوچ کے آیا تھا کیا منہ سے نکلتا ہے

رخسار کے شعلوں کو زلفوں کی نہیں پروا
بجلی کے شراروں سے بادل کہیں جلتا ہے

اس عالمِ مستی سے تھی تشنہ لبی اچھی
ہر گام پہ بادہ کش گرتا ہے سنبھلتا ہے

٭٭٭
مولانا ماہر القادریؒ
 

بافقیہ

محفلین
دیوانہ کہیں ایسی باتوں سے بہلتا ہے
وہ سامنے ہوتے ہیں دل اور مچلتا ہے

پہلے دلِ شاعر میں چشمہ سا ابلتا ہے
پھر شعر کے سانچے میں طوفان یہ ڈھلتا ہے

اس بزم میں دیکھے تو کوئی مری حیرانی
کیا سوچ کے آیا تھا کیا منہ سے نکلتا ہے

رخسار کے شعلوں کو زلفوں کی نہیں پروا
بجلی کے شراروں سے بادل کہیں جلتا ہے

اس عالمِ مستی سے تھی تشنہ لبی اچھی
ہر گام پہ بادہ کش گرتا ہے سنبھلتا ہے

٭٭٭
مولانا ماہر القادریؒ
واہ جناب ۔۔۔
 

بافقیہ

محفلین
ماہر القادری کی ایک اور خوبصورت غزل:۔

ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی

ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی

اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے
طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی

مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے
اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی

اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی
ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی

وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر
یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی

اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں
تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی

لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ
ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی

 
دیوانہ کہیں ایسی باتوں سے بہلتا ہے
وہ سامنے ہوتے ہیں دل اور مچلتا ہے

پہلے دلِ شاعر میں چشمہ سا ابلتا ہے
پھر شعر کے سانچے میں طوفان یہ ڈھلتا ہے

اس بزم میں دیکھے تو کوئی مری حیرانی
کیا سوچ کے آیا تھا کیا منہ سے نکلتا ہے

رخسار کے شعلوں کو زلفوں کی نہیں پروا
بجلی کے شراروں سے بادل کہیں جلتا ہے

اس عالمِ مستی سے تھی تشنہ لبی اچھی
ہر گام پہ بادہ کش گرتا ہے سنبھلتا ہے

٭٭٭
مولانا ماہر القادریؒ
بہت عمدہ شراکت ،
 
ماہر القادری کی ایک اور خوبصورت غزل:۔

ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی

ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی

اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے
طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی

مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے
اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی

اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی
ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی

وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر
یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی

اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں
تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی

لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ
ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی

کیا شاندار غزل شریک محفل کروائی ہے ،
ہر شعر دل پر اثر کرنے والا ہے ،
جزاک اللہ خیرا اجر کثیرا ۔
 
Top