نظر لکھنوی غزل: دنیائے دوں کی چاہ کئے جا رہا ہوں میں ٭ نظرؔ لکھنوی

دنیائے دوں کی چاہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کیے جا رہا ہوں میں

ہر لحظہ آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
ہر غم سے یوں نباہ کیے جا رہا ہوں میں

محرومِ ہر گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دل پر کڑی نگاہ کیے جا رہا ہوں میں

ہے جرمِ عاشقی کی سزا سوز و کرب و درد
اے دل تجھے گواہ کیے جا رہا ہوں میں

خوش آئے یا نہ آئے یہ دنیا یہ ہم نفس
کرنا ہے اور نباہ کیے جا رہا ہوں میں

تیرے ہی آستاں کے لیے وقف کر کے سر
تصدیقِ لا الٰہ کیے جا رہا ہوں میں

وہ جانِ انتظار کب آ جائے کیا خبر
آنکھوں کو فرشِ راہ کیے جا رہا ہوں میں

عذرِ گناہ اور بھی بد تر گناہ ہے
جس کو خدا گواہ، کیے جا رہا ہوں میں

حاصل ہو کیفِ اشکِ ندامت گہے نظرؔ
دانستہ کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
واہ! کیا ہی خوبصورت کلام ہے. لاجواب!
وہ جانِ انتظار کب آ جائے کیا خبر
آنکھوں کو فرشِ راہ کیے جا رہا ہوں میں
ہر لحظہ آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
ہر غم سے یوں نباہ کیے جا رہا ہوں میں
حاصل ہو کیفِ اشکِ ندامت گہے نظرؔ
دانستہ کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
 
Top