شکیب جلالی غزل - خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے - شکیب جلالی

خموشی بول اٹھے ھر نظر پیغام ھوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ھو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ھوجائے
میں وہ آدم گزیدہ ھوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ھو جائے
مثال ایسی ھےاس دورِ خرد کے ھوشمندوں کی
نہ ھو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ھو جائے
شکیب اپنے تعارف کیلیے یہ بات کافی ھے
ھم اس سے بچ کے چلتے ھیں جو رستہ عام ھو جائے
 

بنگش

محفلین
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائ کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جاے

بہت اچھا انتخاب ہے۔ حضرت آپ کوئ مختصر سا نک نیم ہی رکھ لیں ، اب ملاحظہ کیجیئے نا، کہ آپ کو اگر ''پیاسا صحرا بھائ''کہ کر پکارا جائے تو کتنا عجیب سا لگے گا
 

عین عین

لائبریرین
میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں‌رستہ بھولوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ میں رستہ بھول جائوں جنگلوں۔۔۔۔۔ شکیب صاحب نے ایسا ہی کہا ہو گا۔ غالبا یہ ٹائپنگ کی خطا ہے
 
میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں‌رستہ بھولوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ میں رستہ بھول جائوں جنگلوں۔۔۔۔۔ شکیب صاحب نے ایسا ہی کہا ہو گا۔ غالبا یہ ٹائپنگ کی خطا ہے

شکریہ محترم واقعی ٹائیپنگ کی غلطی سے ایسا ہو گیا تھا اب ٹھیک کر دیا ہے ۔ بہت بہت شکریہ محترم۔
 
Top