غزل: جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا ٭ تابش

جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا

شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا

میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا

اب تو ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا

جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا

وادیِ عشق کا رستہ بھی ہے منزل تابشؔ
میں نے دل کو ہے بہت بار یہی سمجھایا

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 
میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا
آہا!!! کیا کہنے ۔۔۔ بہت اچھا کہا ہے تابشؔ بھائی ۔۔۔ عمدہ غزل، حسبِ سابق
مطلعے میں کچھ تردد ہوا ۔۔۔ پھایا تو زخم پر لگایا جاتا ہے، پھر خود زخم کو پھایا کیسے کہہ سکتے ہیں؟
 
آہا!!! کیا کہنے ۔۔۔ بہت اچھا کہا ہے تابشؔ بھائی ۔۔۔ عمدہ غزل، حسبِ سابق
جزاک اللہ خیر راحل بھائی
مطلعے میں کچھ تردد ہوا ۔۔۔ پھایا تو زخم پر لگایا جاتا ہے، پھر خود زخم کو پھایا کیسے کہہ سکتے ہیں؟
جیسے درد خود دوا بن جاتا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی غزل ہے تابش بھائی!
شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے بہتر مجھ سے
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا
جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا

ان اشعار پر خصوصی داد! :in-love:
 
جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہے اب میرے بدن پر پھایا

شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا

میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا

اب تو ہر شخص نظر آتا ہے مجھ سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا

جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا

وادیِ عشق کا رستہ بھی ہے منزل تابشؔ
میں نے دل کو ہے بہت بار یہی سمجھایا

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
تابش صاحب، بہت اچھی غزل ہے ۔ داد قبول فرمائیے ۔
 

یاسر شاہ

محفلین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب!! اچھی غزل ہے تابش بھائی!
مطلع بہت اچھا کہا ہے! بس ایک ادنیٰ سی رائے یہ ہے کہ دوسرے مصرع میں "ہے اب" کی جگہ "ہوا" کرلیں تو پہلے مصرع سے زمانی مطابقت بھی ہوجائے گی اور مصرعے معنوی طور پر بھی مربوط ہوجائیں گے ۔
جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا

چوتھا شعر بھی بہت اچھا ہے! خوب کہا ہے ! ویسے پہلے مصرع میں مجھ کے بجائے "خود" کا محل ہے :
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے مجھ سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا
پہلے مصرع کے بارے میں ایک بے طلب رائے یہ ہے کہ:
مجھے ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا

اس بے طلب مشورے کے لئے پیشگی معذرت۔ اشعار اتنے اچھے ہیں کہ اس معمولی سی نوک پلک کی درستی کا مشورہ دیئے بغیر رہا نہیں گیا ۔:):):)
 
واہ واہ! بہت خوب!! اچھی غزل ہے تابش بھائی!
مطلع بہت اچھا کہا ہے! بس ایک ادنیٰ سی رائے یہ ہے کہ دوسرے مصرع میں "ہے اب" کی جگہ "ہوا" کرلیں تو پہلے مصرع سے زمانی مطابقت بھی ہوجائے گی اور مصرعے معنوی طور پر بھی مربوط ہوجائیں گے ۔
جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا

چوتھا شعر بھی بہت اچھا ہے! خوب کہا ہے ! ویسے پہلے مصرع میں مجھ کے بجائے "خود" کا محل ہے :
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے مجھ سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا
پہلے مصرع کے بارے میں ایک بے طلب رائے یہ ہے کہ:
مجھے ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا

اس بے طلب مشورے کے لئے پیشگی معذرت۔ اشعار اتنے اچھے ہیں کہ اس معمولی سی نوک پلک کی درستی کا مشورہ دیئے بغیر رہا نہیں گیا ۔:):):)
جزاک اللہ خیر ظہیر بھائی۔
پہلا مشورہ کلی طور پر اور دوسرا مشورہ جزوی طور پر قبول۔ :)
 
Top