محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی کی ایک غزل احبابِ محفل کی خدمت میں:
بہم جو دست و گریباں یہ بھائی بھائی ہے
کبھی تو غور کرے کس کی جگ ہنسائی ہے
فغاں ہے لب پہ مری آنکھ بھی بھر آئی ہے
غموں سے آہ کہ دل نے شکست کھائی ہے
مٹا ہی دے گا زمانہ تمہیں نہ گر جاگے
خبر یہ گردشِ لیل و نہار لائی ہے
ترے ہی دل میں حرارت نہیں رہی ورنہ
وہی ہے حسن وہی اس کی دلربائی ہے
مرا تو کام ہے پڑھنا میں لکھ نہیں سکتا
کہ میری لوحِ مقدر لکھی لکھائی ہے
تم اس کی خوبئ پنہاں پہ بھی نظرؔ ڈالو
یہ مانتا ہوں کہ انساں میں سو برائی ہے
کبھی تو غور کرے کس کی جگ ہنسائی ہے
فغاں ہے لب پہ مری آنکھ بھی بھر آئی ہے
غموں سے آہ کہ دل نے شکست کھائی ہے
مٹا ہی دے گا زمانہ تمہیں نہ گر جاگے
خبر یہ گردشِ لیل و نہار لائی ہے
ترے ہی دل میں حرارت نہیں رہی ورنہ
وہی ہے حسن وہی اس کی دلربائی ہے
مرا تو کام ہے پڑھنا میں لکھ نہیں سکتا
کہ میری لوحِ مقدر لکھی لکھائی ہے
تم اس کی خوبئ پنہاں پہ بھی نظرؔ ڈالو
یہ مانتا ہوں کہ انساں میں سو برائی ہے